جوڈیشل ایکٹو ازم کو سپورٹ کرنا چاہیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ایک قاری نے گزشتہ روز فیس بک پر ان باکس سوال بھیجا ، وہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب جس طرح جوڈیشل ایکٹوازم کر رہے ہیں، مختلف محکموں کے خلاف نوٹس جاری کر نے کے ساتھ مختلف ہسپتالوں کے دورے کرر ہے ہیں، اس بارے میں کیا رائے ہے؟ ایسا کرنا غلط ہے یا درست ؟ اس پر ایک ہلکا پھلکا سا کمنٹ فیس بک پر کر دیا تھا، مگر یہ سوال باقاعدہ جواب کا تقاضا کرتا ہے۔
سادہ سا ایک اصول ہے، اسے سمجھ لیا جائے تو کئی مسائل ، مغالطوں اوربحثوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ وہ ہے عام آدمی کی اہمیت ۔عام آدمی کے مسائل، اس کی پریشانیاں، تکلیفیں اہم ہیں، اصول ، ضابطے سب بعد کی باتیں ہیں۔ریاست اور ریاستی اداروں کی اصل ذمہ داری اپنے عوام کی فلاح وبہبود کا خیال رکھنا ہے ۔ عوام ہوں گے تو ریاست ہے، ورنہ ریاست صرف ایک اصطلاح ، لفظ بن کر رہ جائے گی۔اخبارنویسوں، تجزیہ کاروں، دانشوری کے زعم میں مبتلا لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی مخصوص سوچ، مزاج ، افتاد طبع اور پسند ناپسند کی عینک سے دنیا کو دیکھتے ہیں ۔ دنیا بعض اوقات ویسے ہوتی نہیں،جیسی ان کے عینک کے عدسوں سے دکھائی دیتی ہے۔ہم اپنے ذہن میں ایک خاص فریم ورک، ڈھانچہ بناتے ہیں اور پھر خواہش کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ، گروہ، تنظیمیں، ادارے اس کے مطابق فٹ ہوتے جائیں۔ ایسا مگر کہاں ہوتا ہے؟ ہسپتال کے دورے والا معاملہ لے لیں۔ صورتحال کو اس غریب مریض کی آنکھ سے دیکھا جائے، جس کے بیمار بچے کو چیف صاحب کے دورے سے فوری ریلیف مل گیا۔ دوائیاں نہیں مل رہی تھیں، میڈیکل سٹاف توجہ نہیں دے رہا تھا، اچانک ہی سب کچھ بدل گیا اور ڈاکٹر بچے کو دیکھنے پہنچ گیا، دوائیاں بھی ایشو ہوگئیں، صاف ستھرا بیڈ مل گیا اور اس کے بچے کی حالت بہتر ہوگئی۔اس غریب مریض اور اس جیسے سینکڑوں ،ہزاروں دکھی، پریشان لوگوںکو جو سکھ ملا، وہ ان کے نزدیک باریک قانونی موشگافیوں کی نسبت کہیں زیادہ اہم ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جس بنا پر دنیا بھر میں اعلیٰ عدالتیں جوڈیشل ایکٹوازم کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ عوام کی فلاح وبہبود کی خاطر یہ جج صاحبان آئین میں دئیے گئے عدالتی اختیارات استعمال کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایسا ہمیشہ انتظامی کمزوریوں کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ جب انتظامیہ پرفارم نہ کرے، نالائقی کی انتہائی حد کو چھو رہی ہو، تب ایسا خلا پیدا ہوتا ہے، جس میں کسی نہ کسی نے قدم رکھنا ہی ہے۔ بیورو کریسی کی غفلت، نالائقی اور ظلم ہر جگہ کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے۔مستعد اور بیدار مغز حکمران سرکاری ملازمین کو حد میں رکھتے ہیں ۔ اکثرممالک میں مختلف قسم کے ریگولیٹری محکمے یا احتساب کے ادارے بنائے جاتے ہیں۔ وہاں عام آدمی کو ریلیف مل جاتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے ایسا نہ ہوسکے تو ارکان پارلیمنٹ اس حوالے سے متحرک اور فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ عوام سے رابطہ میں رہتے اور ان کودرپیش شکایات کے ازالے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے جیسے ممالک بھی ہیں، جہاں بیوروکریسی ظالم، ریگولیٹری ادارے نااہل، ارکان پارلیمنٹ مفاد پرست، وزرا اور حکمران بے حس ہوجاتے ہیں۔ ایسے ممالک میں انتظامیہ کے مظالم کے خلاف اکثر عوامی احتجاجی مظاہرے دیکھنے کوملتے ہیں۔ لوگوں کا سڑکوں پر آجانا اس کی دلیل ہوتا ہے کہ انہیں کہیں سے ریلیف کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔جب اس مظاہرے کے بعد بھی مسئلہ حل نہ ہو، تب تشدد شامل ہوجاتا ہے۔ لوگ غضب کے مارے دفاتر ہی جلا دیتے ہیں۔ جب کہیں خدانخواستہ صورتحال مزید بگڑ جائے تب انارکی پیدا ہوجاتی ہے۔جب مجموعی طور پر سول حکومت فیل ہوجائے تب لوگ فوج کی طرف دیکھتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے خلاف انتخابات میں دھاندلی کرانے پر تحریک چلی۔ بھٹو صاحب فوری انتخابات کرا دیتے تو بچت ہوجاتی، انہوں نے ٹال مٹول سے کام لیا تو آگ مزید بھڑکتی گئی اور پھر فوج سے براہ راست اپیلیں شروع ہوگئیں۔ حتیٰ کہ فوج کو آنا ہی پڑا۔ یہ بالکل فضول اور غلط باتیں کہ اس رات پی این اے اور فوج میں معاہدہ ہوگیا تھا۔ اگر ہو گیا تھا تو پی این اے نے فوج کے آنے کا خیر مقدم کیو ں کیا؟اس کی کابینہ میں وزارتیں کیوں لیں؟
جوڈیشل ایکٹو ازم دراصل سول سسٹم کی ناکامی اور نااہلی کے بعد سے لے کر فوج کی آمد تک کے انتہائی اقدام کے درمیان کا ایک مرحلہ ہے۔جن ممالک میں سپریم کورٹ نے ایسا کیا، وہاں انہوں نے سول سیٹ اپ کی اصلاح اور ملکی نظام جاری رکھنے کے لئے مجبوراً یہ کام کیا۔بھارت کا جوڈیشل ایکٹو ازم بہت مشہور ہے اور دنیا بھر میں اس کے حوالے ملتے ہیں۔ انہوں نے تب ایسا کیا، جب سول انتظامیہ ، حکومت اور پارلیمنٹ سب خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے اور غریب دکھی عوام کی تکالیف بڑھ رہی تھیں۔ ہاورڈ لا ریویو جیسے اہم ترین قانونی جریدے نے اسے انقلاب بذریعہ عدلیہ کا نام دیا تھا۔ یاد رہے کہ اس کا مقصد حکومت ہٹانا نہیں، انہیں جھنجھوڑ کر ہوشیار کرنا ہے۔ اچھی، سمجھدار حکومتیں اس کے بعد
مستعدی سے کام کرتیں اور پھر عدالتوں کو ایسی تنبیہ دینے کا موقعہ نہیں دیتیں۔ یہ پاکستان جیسے ممالک میں ہوسکتا ہے کہ حکومت خود ناکام ہوجائے، انتظامیہ عوام کو ظلم کے پہاڑ تلے پیس کر رکھ دے، میڈیا ناپختگی کی وجہ سے ڈرامے بازیوں میں مصروف ہو، پارلیمنٹ نااہل لیڈروں کو بچانے کے لئے قانون سازی کرنے میں جت جائے تو ایسے میں اگر عدلیہ فعال کردا ر ادا کرے، سرکاری محکموں کو جھنجھوڑ کر انکے فرائض یاد دلائے تو اس پر خوش اور شکرگزار ہونے کے بجائے یار لوگ اسی عدلیہ پر طنز کریں کہ یہ عدالت میں بیٹھ کر فیصلے کیوں نہیں کرتے؟بھائی صاحب، فیصلے ہی تو ہو رہے ہیں، کیمیکل ملا دودھ، زہریلا پانی بیچنے والوں پر جرمانے، ان کے لائسنس منسوخ ہو رہے ہیں تو یہ عدالتی فیصلے ہی ہیں۔دو نمبر تعلیمی ادارے، جعلی دوائیاں بنانے والی فیکٹریوں کے خلاف عدالتی حکم سے کارروائی ہو تویہ فیصلہ ہی ہے۔ کیا فیصلے صرف وہی ہوتے ہیں، جن سے انتظامیہ پر حرف نہ آتا ہو، حکمران جماعت کی نالائقی چھپی رہے اور حکمرانوں کو شرمندہ نہ ہونا پڑے؟جوڈیشل ایکٹوازم ہمارے جیسے ممالک میں سول انتظامیہ کے لئے نعمت ہے ، زحمت نہیں۔ یہ فوج کی مداخلت کی نوبت نہیں آنے دیتا اور شاک ابزورر کا کام کرتا ہے۔ہمیں جوڈیشل ایکٹو ازم کو سپورٹ کرنا چاہیے بلکہ اسے زیادہ مفید اور موثر بنانا چاہیے۔ ایسا کچھ کیا جائے کہ جوڈیشری کو ایک بارمداخلت کرنا پڑے تو پھر وہاں نظام روانی سے چل پڑے۔
اب یہی ہسپتال کے دورے کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ کسی سرکاری ہسپتال کے معاملات درست رکھنے کی ذمہ داری اس کے ایم ایس کی ہے۔ جب وہ ناکام ہوجائے، کچھ نہ کرے تو اس کے اوپر موجود اتھارٹی کوایکشن لینا چاہیے۔ ڈائریکٹر ہیلتھ، سیکرٹری ہیلتھ، صوبائی وزیر صحت، یہ تین سٹیپ بنتے ہیں۔ جب یہ تینوں کچھ نہ کریں تو وزیراعلیٰ ہی نوٹس لے ، اسے شکایات تو پہنچ رہی ہوں۔ جب کہیں پر کچھ نہ کیا جائے ، تب اخباری اطلاعات یا عدالت میں آنے والی کسی درخواست کے نتیجے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کونوٹس لینا پڑے، وہاں جا کر حالات معلوم کرے تو اسے مثبت جذبے کے ساتھ لینا چاہیے۔سپریم کورٹ کا نوٹس لینا دراصل ایم ایس سے صوبائی وزیر تک تین چار مراحل پر مشتمل چین آف کمانڈ کو جھنجھوڑنے کے مترادف ہے۔ انہیں سنبھل کر پرفارم کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے یہ سپریم کورٹ کے ججوں کا کام نہیں کہ وہ روزانہ ہسپتالوں کا دورہ کریںاور معاملات ٹھیک کریں۔ ان کا برسوں میں ایک آدھ بار جانا ہی کافی ہوجانا چاہیے۔ ہمارے ہاں الٹا معاملہ ہے۔ اس پر طنز کیا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس صاحب کے جانے سے کیا ہوگیا؟ کل وہ گئے تھے، آج پھر پہلے کی طرح ہے؟ بھائی ایسا ہے تو ان سب کو چلو بھر پانی میں غوطہ لگا لینا چاہیے، جن کی بنیادی ذمہ داری اس ہسپتال کے معاملات دیکھنا ہے۔ جو شرمندگی اور شرمساری انہیں چیف جسٹس کی آمد سے اٹھانی پڑی، اس کے بعد تو کئی برسوں تک سب کچھ ٹھیک چلنا چاہیے تھا۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ پورا سسٹم گل سڑ چکا ہے۔ اس کی سرجری کی جائے نہ کہ اسے ٹھیک کرنے والے جج کو مطعون ٹھیرایا جائے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔