ہم نے ایک کیس کیا تھا سروس کیس تھا،،، وکیل صاحب نے فیس لیا اور ہائی کورٹ میں کیس داخل کرایا،،، 2 سال چلا ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ یہ غلط فورم ہےسروس کیس ہے تو اپ کو سروس ٹریبونل کے پی کے میں جانا تھا،،، پھر وکیل نے پیسے لئے اور سروس ٹریبونل میں کیس داحل کیا،، ایک سال چلا جج نے پھر کہا کہ یہ کیس غلط ہے پہلے اپ کو محکمانہ اپیل کرنا ہوگا، اپنے محکمے کو،، اور سروس ٹریبونل میں گروپ کیس ہوتا بھی نہیں ہے ہر بندہ ایگ الگ کیس کریگا،،، تو اب وکیل کہتا ہے کہ کیس پھر سے دوبارہ ہو گیا، اب دوبارہ فیس دینا ہوگا،،، تو سر جی اس میں عام بندوں کا کیا قصور ہے،،، یہ تو وکیل صاحب ہی جانتا ہے کہ کب کیا کرنا ہے،،، 3 سال بھی خراب ہوئے اور پیسے بھی لگ گئے اور اب پھر سے وہ سب کرینگے،،،،، تو یہ زیادتی نہیں ہے،،، وکیل کے خلاف کس کو شکایت کرے،،، کوئی فورم ہے؟؟؟"
ہمارے استاد اور سینیئر کہا کرتے تھے بیٹا مشورہ بھی ایک امانت ہے۔ آپ کے پاس کوئی کلائنٹ آتا ہے تو اسے ٹھیک گائیڈ کرو۔ آپ کو کسی معاملے کی سمجھ نہیں ہے تو سینیئرز سے رہنمائی لو۔ لیکن کلائنٹ کو غلط مشورہ نہ دو۔ بعض اوقات کیس ایسا ہوتا ہے جو ہونے والا نہیں ہوتا یا ابھی اسے انتظار میں رکھنا بہتر ہوتا ہے۔ ایک مخصوص وقت گزرنے کے بعد دائر کرنے میں زیادہ فائدہ اور زیادہ کامیابی کے امکانات ہوتے ہیں تو کلائنٹ کو اسی طرح گائیڈ کرو۔ ایسا مشورہ دینے سے ہو سکتا ہے کہ کلائنٹ آپ کے پاس سے چلا جائے اور کسی اور وکیل کی خدمات لے لے۔ کسی ایسے وکیل کی خدمات جو اس کلائنٹ کے آگے لمبی لمبی چھوڑے اور کہے کہ یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ کلائنٹ اسے وقت طور پر کیس دے بھی دے،لیکن جب اسے ناکامی ہو گی، کام نہیں ہو گا تو تب اسے آپ کی بتائی ہوئی باتیں اور مشورہ یاد آئے گا۔ یہ کلائنٹ وقتی طور پر تو آپ کے پاس سے چلا گیا لیکن آئندہ اگر اسے کسی بھی قسم کا عدالتی کام ہوا تو وہ آپ سے رابطہ ضرور کرے گا کہ یہ ایماندار اور پیشہ ورانہ اخلاقیات پر عمل کرنے والا بندہ ہے۔ میرے کیس میں اسے فیس مل بھی رہی تھی لیکن اس نے سچ اور حقیقت بتا کر مجھے ابھی کیس دائر نہ کرنے وغیرہ کا مشورہ دیا تھا۔ اپنے پیسے چھوڑ کر اس نے مجھے نقصان سے بچانا چاہا تھا۔ یہ شخص نہ صرف خود، بلکہ اپنے کسی جاننے والے کو بھی آپ کے پاس ریفر رکے گا۔ اور یقین مانیے ایسا میرے ساتھ کئی بار ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ یہیں سوشل میڈیا کے کئی دوست بھی مجھ سے رابطہ کرتے ہیں اور اپنے کیس ریفر کرتے ہیں۔ کام نہ ہونے والا ہو تو میں انہیں سیدھی بات بتا دیتا ہوں۔ اس سے آپ کا اعتماد اور نام خراب نہیں ہوتا۔
کلائنٹ جس کا کام نہ ہونے والا ہو یا جس کا کام ابھی نہ ہونے والا ہو اسے انکار کرنا میرے لئے فایدہ مند ہی رہا ہے۔ کہ میں اس طرح اپنا ایک اچھا تاثر برقرار رکھنے میں کامیاب رہتا ہوں۔ جب کہ دیہاڑی باز، صرف ایک دفعہ کیس تو لے لیں گے، لیکن وہ بندہ اب کبھی دوبارہ اس وکیل کے پاس نہیں آئے گا اور نہ ہی کسی اپنے کو اس کے پاس ریفر کرے گا۔
یہ میرا اپنا آزمودہ کلیہ ہے۔ جس نے مجھے آج تک بہت فائدہ دیا ہے۔
کچھ وکیل صاحبان ایسا بھی کرتے ہیں کہ غیر متعلقہ فورم پر الجھا کر کلائنٹ کا وقت اور پیسے بھی برباد کرتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں جج صاحب نے حکم دیا ہے کہ فلاں جگہ کیس دائر کرو، یہ متعلقہ فورم نہیں ہے۔ پھر اس فلاں جگہ پر کیس دائر کرنے کے الگ سے پیسے وغیرہ لیتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ یونہی چلتا ہے۔ اس سے شاید آپ وقتی طور پر اس بندے سے ایک بار پیسے تو بنا لیتے ہوں لیکن اپنے مستقبل کی وکالت اور اعتماد کو مجروح کر بیٹھتے ہیں۔ جو کہ سراسر نقصان اور گھاٹے کا سودا ہے۔
روزی روٹی ضرور کمائیں۔ یہ ہم سب کا حق ہے۔ لیکن دھوکا دہی اور بے ایمانی کر کے نہیں۔