ایک ماہ اور اس سے اوپر اٹھائیس دن کا عرصہ پلک جھپکنے میں گزر گیا!
سنہری نیند میں چاندی جیسا خواب! خواب میں آہستہ آہستہ کھُلتا خوبصورت دریچہ! مگر یہ کیا! آنکھ کھلی تو دریچہ نظر نہیں آرہا! سامنے دیوار ہے! سپاٹ سفید دیوار! جس کے پار آنکھیں کچھ نہیں دیکھ پا رہیں!
ایک مہینہ اور اس سے اوپر اٹھائیس دن! سائبیریا سے آئی ہوئی کونجیں جھیلوں پر اتری ہوئی تھیں! کنارے آباد تھے۔ پروں کو پھڑ پھڑاتی تھیں تو جیسے فرشتوں کے پر ساتھ پھڑ پھڑاتے تھے۔ حدِ نگاہ تک۔ افق سے افق تک۔ کسی نے سونے کا پانی چھڑک دیا تھا! شفق تھی مست کر دینے والے رنگوں کے ساتھ! دھنک آسمان کے ایک طرف نہیں، دو طرف تھی! رنگ ہی رنگ! پھوار! ہلکی پھوار! تازگی بھری رطوبت دل کے اندر تک پہنچاتی پھوار!
مگر کونجیں جھیلوں کے کناروں کو ویران کر کے اُڑ گئیں! کوہِ قاف سے آئے رنگین طلسمی پرندے اپنے پرستانوں کی طرف واپس چلے گئے۔ حمزہ اور زہرا میلبورن کو پرواز کر گئے!
رات پونے بارہ بجے ہوائی اڈے سے خالی ہاتھ پلٹے تو عجیب کیفیت تھی۔ ساڑھے پانچ سالہ حمزہ اور ساڑھے تین سالہ زہرا کے بغیر گھر سُونا تھا! کہاں چہل پہل، چیخ و پکار، چلتے بھاگتے کھلونوں کی آوازیں، ایک کے رونے تو دوسرے کے ہنسنے کی چہکار! صوفے پر کھڑا ہو کر چھلانگ لگاتا اور میری پشت پر سوار ہو جاتا۔ پھر اس کی دیکھا دیکھی زہرا بھی یہی کرنے کی کوشش کرتی۔ نہ کر سکتی تو رونا شروع کر دیتی! اب گھر پر ویرانی کا راج تھا ؎
افسانہ در افسانہ تھی مڑتی ہوئی سیڑھی
اشعار در اشعار تھا ہر دَر اِسی گھر میں
پڑھنے کی کوشش کی مگر جو کتاب کھولتا، کچھ نظر نہ آتا۔ ایک کونے میں ننھی منی پشاوری چپل نظر آئی۔ اسے اٹھایا، کپڑے سے چمکایا، پھر کافی دیر دیکھتا رہا۔ پھر الماری میں حفاظت سے رکھ دیا۔ کیسی حفاظت؟ جہاں پہلے پڑی تھی، وہاں کون سا خطرہ تھا؟ مگر نفسیاتی کیفیت عجیب ہوتی ہے۔
میلبورن میں جب حمزہ نے چلنا شروع کیا تو ہم وہیں تھے۔ سفر اس کی گھٹی میں پڑا تھا۔ ماں باپ، طبّی کانفرنسوں میں شرکت کرنے، لیکچر دینے، لیکچر سننے، آئے دن پا بہ رکاب ہوتے۔ یہ ٹرالی بیگوں کا عاشق نکلا۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے ایئرپورٹوں پر ٹرالی بیگ چلاتا پھرتا۔ بعض اوقات دوسرے مسافروں کے بھی! ایک دن ہم میاں بیوی نے سوچا کہ آخر چھوٹے سائزکے کھلونا نما ٹرالی بیگ بھی تو ہوتے ہوں گے۔کیوں نہ وہ لیا جائے! میلبورن کے بازاروں میں ہم ڈھونڈتے پھرے۔
Southern Cross
کے شاپنگ سنٹر میں ایک ملا مگر سرخ رنگ کا تھا۔ بچے اور بچی کے لیے رنگوں کی تخصیص اُس معاشرے میں کڑی ہے۔ پھر کہیں سے نیلا مل گیا۔ اُس وقت ڈیڑھ یا دو سال کا تھا۔ اپنا سارا کاٹھ کباڑ ٹرالی بیگ میں ڈالا اور ہر وقت ساتھ رکھنا شروع کر دیا۔ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جاتا تو ٹرالی بیگ کے پہیے لڑھکاتا ہوا۔ رات دیر تک ہمارے کمرے میں ہوتا۔ کہانی سنتا، پھر کہتا ممی کے پاس سونا ہے۔ ٹرالی بیگ چلاتا ہی ممّی اور ابّا کے کمرے میں جاتا!
سیر کے لیے ساتھ والے پارک میں لے جاتا۔ واپسی پر تھک جاتا تو کندھوں پر یوں بیٹھتا کہ میرے سر کو پکڑے رہتا۔ یاد آتا کہ گاؤں میں پوتے اور نواسے اسی طرح دادوں اور نانوں کے کندھوں پر بیٹھتے کوسوں کا سفر کرتے!
یکم اپریل کو پاکستان پہنچے تو حمزہ کو باپ نے فوراً سکول میں د اخل کرا دیا۔ ڈیڑھ ماہ کے لیے کہ اردو سیکھے! ماں کے ساتھ آسٹریلوی انگریزی بولتا ہے۔ نانا نانی کی چینی سمجھ ساری لیتا ہے مگر جواب انگریزی میں دیتا ہے۔ اور باپ دادا، دادای، چاچوں، پھپھیوں کے ساتھ فتح جنگ کی پنجابی روانی سے!! اِس روایت کو خاندان میں قائم ہوئے دوسری نسل ہے! حمزہ کے باپ نے جب بولنا شروع کیا تو اس کالم نگار نے بیگم سے کہا کہ بچے گھر میں وہی زبان بولیں گے جو بولی جاتی ہے یعنی فتح جنگ (گھیبی) کی ٹھیٹھ ہندکو نما پنجابی! نیک دل عفیفہ نے رضامندی دے دی! وہ اپنی لاہور کی پنجابی بولتی رہی۔ ددھیال والے اپنی! نتیجہ یہ نکلا کہ اب دونوں میں رواں ہیں! اطہر شاہ خان (جیدی) جب بھی ملتے تو حمزہ کی دادی کو ضرور کہتے کہ بھابھی! آپ کو کیا پڑی تھی کہ فتح جنگ کے اِس جنگلی سے شادی کرلی! مستنصرحسین تارڑ نے ہمیشہ تعریف کی کہ بچوں سے اپنی زبان میں بولتے ہو۔ تاسف کا اظہار کیا کہ انہوں نے بچوں سے پنجابی نہ بولی! بچے چھوٹے تھے جب پنجابی زبان کے نامور عالمی شہرت یافتہ نثر نگار اور شاعر جناب نجم حسین سید غریب خانے پر تشریف لائے۔ بچوں سے پنجابی بولتے سنا تو خوش ہوئے اور حوصلہ افزائی کی! عرض کیا کہ ہماری اٹک، میانوالی، چکوال کی پنجابی کو آپ لوگ پنجابی سمجھتے ہی کہاں ہیں؟ کہنے لگے، ایسی بات نہیں! اصل پنجابی یہی ہے! اس بات کی تصدیق برسوں بعد اُس وقت ہوتی محسوس ہوئی جب امرتا پریتم کا شعری مجموعہ ’’کاغذ تے کینوس‘‘ پڑھا۔ بے شمار ایسے الفاظ ملے جو وسطی پنجاب میں نہیں سنائی دیتے مگر مغربی اضلاع میں عام استعمال ہوتے ہیں!
حمزہ کی دادی کی طرح حمزہ کی ماں نے بھی ایثار کا مظاہرہ کیا۔ اس نے خوش دلی سے ددھیال کے ساتھ بچوں کا پنجابی بولنا قبول کیا۔ مگر اب ایک اور مسئلہ آن کھڑا ہوا۔ پاکستان میں گھرکے اندر بچوںکے ساتھ پنجابی یا سندھی یا پشتو بولی جائے تو باہر اُردو، خود بخود آ جاتی ہے۔ یوں دونوں کام ہو جاتے ہیں۔ دیارِ غیر میں ایسا ممکن نہیں! گھر میں پنجابی بولیں گے اور باہر انگریزی تو اُردو کا کیا بنے گا؟ اس کا حل اسرار نے یہ نکالا کہ کوشش کرتا ہے سال میں ایک بار اور کبھی دو بار ڈیڑھ دو ماہ کے لیے کنبے کو پاکستان لائے۔ خاندان کے دوسرے بچوں کے ساتھ اُردو سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ اب کے ڈیڑھ ماہ حمزہ سکول بھی جاتا رہا۔ سکول میں دوست بھی بنے۔ ابتدا میں اس نے ان کے ساتھ انگریزی بولی مگر وہ جلد ہی اسے اردو پر لے آئے۔ یوں اچھا خاصا روانی سے بولنے لگ گیا! اب انشاء اللہ پھر آئیں گے تو زہرا بھی سکول جانے کے قابل ہو چکی ہوگی!
بہن کو حمزہ کبھی کبھی
Copy Cat
کہتا ہے کیونکہ زہرا وہی کچھ کرتی ہے جو وہ کرتا ہے۔ وہ دادا پر سواری کرے گا تو وہ بھی کرے گی۔ گود میں بیٹھے گا تو دوڑ کر آئے گی ’’میں بھی بیٹھساں!‘‘ خاتون ہونے کے ناتے نرم دل ہے۔ بات مان لیتی ہے۔ اپنی شے بھائی کو دے دیتی ہے۔ وہ اپنے کھلونے جلد توڑتا ہے، پھر اس کے کھلونوں کی طرف آتا ہے۔ موڈ اچھا ہو تو بی بی شیئر کر لیتی ہے، ورنہ صاف کہہ دیتی ہے’’اے مینڈا وے!‘‘ اکثر و بیشتر آپس میں دونوں بہن بھائی انگریزی بولتے ہیں۔ امریکہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک بے شمار پاکستانی اور انڈین خاندانوں میں دیکھا کہ ماں باپ کے ساتھ اُردو یا کوئی بھی اپنی زبان بولنے والے بچے، بہن بھائیوں کے ساتھ انگریزی ہی میں گفتگو کرتے ہیں۔ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ ہر سال ایک ماہ، ڈیڑھ ماہ یا دو ماہ، وطن واپس آ کر رہنے ہی سے بچے اپنی زبان، اپنے کلچر اور اپنے ماحول کے عادی ہوںگے۔ پھریہ ان پر منحصر ہے کہ وہ خود اپنی اگلی نسل کے ساتھ اس اہتمام کا التزام کرتے ہیں یا نہیں! ڈھاکہ یونیورسٹی میں سنگاپور کا ایک طالب علم (شمس اس کا نام تھا) ہمارے ساتھ پڑھتا تھا۔ پیدائش سنگاپورکی تھی مگر پنجابی روانی سے بولتا تھا اس لیے کہ سو سال سے سنگاپور، گھر میں پنجابی بولی جا رہی تھی!
گھر میں سناٹا ہے! نقرئی قہقہے کہیں اور گونج رہے ہوںگے! ایئرپورٹ روانہ ہونے تک یہی رٹ لگائے رکھی کہ ابّو (دادا ابو) کے ساتھ رہنا ہے۔ مگر دادا ابّو کون سا اپنے دادا اور دادی کے ساتھ رہ پائے تھے! لوہے کا اڑن کھٹولا کتنا ظالم ہے۔ ہمارے پیاروںکو اپنی آغوش میں بھر کر ہزاروں کوس دور لے جا کر، دوسری سر زمینوں میں انڈیل دیتا ہے۔ فراق! فراق!! فراق سے بڑی سچائی دنیا میں کیا ہو گی! آنکھ سے بہتے خاموش آنسو اور دل سے اٹھتی بے آواز ہوک کچھ کام نہیں آتے! ؎
جدائی بُن کے بچھالی ہے فرش پر اظہاؔر
اسی پہ بیٹھ کے روتا اسی پہ سوتا ہوں
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“