جب آؤ گے نا کبھی تو ، میرے گاؤں کے سٹاپ سے دائیں جانب مڑ جانا ۔ نہر کے اس پار میرا گاؤں ہے ۔ گاؤں میں داخل ہو کر سو میٹر کے فاصلے پر ہائی سکول ہوگا وہاں سے پھر دائیں کو مڑ جانا ، تھوڑے فاصلے پر وہ مقام آئے گا ، جب ہم نہیں رہتے نا تب ہم وہیں رہتے ہیں ۔۔
وہاں گاڑی روک کر داخل ہوجانا ، بہت سکون ملے گا ۔
تمہاری سفر کی تھکان ختم ہو جائے گی ، سب بہت خاموشی سے تمہارا استقبال کریں گے ۔۔ وہاں میرے بہت سے اپنے ہوں گے ، انہیں میرا سلام کہنا ، پر میں تمہیں وہاں نہیں ملوں گا ۔۔
تمہیں واپس سٹاپ پر آکر دوسری جانب مڑنا ہوگا ۔
وہاں پر کسی سے پوچھ لینا میرا پتا مل جائے گا ۔۔
جب میرے گھر پہنچو گے تو میں ہمیشہ کی طرح تمہیں سامنے ملوں گا ۔ پر میں گیٹ نہیں کھولوں گا ۔
کیونکہ میں تو تھک ہار کے اپنے گھر کے آنگن میں لگے باغیچے میں عین کجھور کے پیڑ کے نیچے آرام کررہا ہوں گا ۔
تمہیں ماں ملے گی ، وہ میری آرام گاہ کے ساتھ لگے پودوں دیکھ بھال کررہی ہوگی ، وہ مجھ سے باتیں کررہی ہوگی ، تم دستک دینا وہ پہچان جائے گی ، وہ فوراً تمہارے لئے چائے بنائے گی پر اس بار چائے میں نہیں لاؤ گا ماں لائے گی ۔ وہ تمہیں اسی طرح پیار دے گی جیسے ہمیشہ دیتی ہے ۔ اس کے سامنے رونا مت کیونکہ تم روئے تو وہ روئے گی اور وہ روئی تو میں ڈر جاؤ گا ۔۔
تمہیں بتاؤ میں نے شہر خاموشاں پر اپنے گھر کے آنگن کا انتخاب کیوں کیا ہے کیونکہ میں بہت ڈرا ہوا ہوں ۔ انسانوں کے ہجوم سے، انکے رویوں سے میں اب مکمل آرام چاہتا ہوں میں ماں کی آغوش میں چھپ جانا چاہتا ہوں ۔ میں اسی لئے ایک بار پھر سے اس انسانوں کے جنگل میں نہیں گیا حالانکہ وہاں بھی بہت سکون تھا پر وہاں میری ماں روز آ نہیں سکتی تھی ۔ میں اکیلا پڑ جاتا ، میری ماں اکیلی ہوجاتی ۔
اور ہاں سنو مجھ سے اسی طرح ہر بات کرنا جیسے پہلے کرتے ہو ۔ اور جاتے جاتے ایک پھول لیتے جانا ۔ وہ ہی میری یاد ہوگی اور ماں سے ایک پینسل بھی لیتے جانا ، چند میرے بنائے ہوئے کاغذ کے پھول بھی میز پر رکھے ہوں گے ، وہ بھی لے جانا ، میری یاد دلاتے رہیں گے
“