فلم سازی اور فلم بینی کی تاریخ ایک صدی سے بھی زیادہ پرانی ہے، لیکن آج کل کی پاکستانی فلم انڈسٹری لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ شائقین کا دل جیتنے کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہے۔ پاکستانی فلمی صنعت گزشتہ چار دہائیوں سے زوال کا شکار ہے۔
قیام پاکستان کے بعد دوسرے شعبوں کی طرح فلم انڈسٹری کا آغاز بھی انتہائی نامساعد حالات میں ہوا تھا۔ اس بے سروسامانی کے باوجود چند باہمت اور فن سے محبت کرنے والوں نے ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے دن رات ایک کردیا۔ ویسے تو قیام پاکستان سے پہلے ہی لاہور میں فلم سازی ہو رہی تھی، اُس وقت پنچولی سٹوڈیو‘ پنجاب سٹوڈیو‘ سکرین اینڈ ساونڈ سٹوڈیو' سٹی سٹوڈیو میکلوڈ روڈ‘
آر ایل شوری کا سٹوڈیو(شاہ نور) تھے۔۔۔ جہاں پر فلمیں بن رہی تھیں۔ پھر ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ایسا وقت بھی آیا کہ "پاکستان فلم انڈسٹری" نے "بھارتی فلموں" کو بھی مات دی۔ آج بھی "بالی وڈ" میں ہماری اُس زمانے کی فلموں کے گانے اور کہانیاں کاپی ہورہی ہیں بلکہ اکیڈمیوں میں بھی یہ فلمیں باقاعدگی سے دکھائی جاتی ہیں۔
میری اس تحریر کے ساتھ اشتہار کی جو تصویر ہے یہ "روزنامہ جنگ" میں ستمبر 1966 میں شائع ہوا تھا۔ اُس وقت پاکستان فلم انڈسٹری بام عروج پر تھی اور پاکستان میں سنیما مشینری بھی مقامی طور پر تیار ہونے لگی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں کوئی بڑی فلم چلتی تو شہروں میں رونق ہو جاتی تھی۔ تانگوں پر لاؤڈ سپیکر نصب کر کے فلم کی بھرپور تشہیر کی جاتی، شہر بھر میں بڑے بڑے فلمی پوسٹر اور ہورڈنگز کی بھرمار ہوتی تھی۔۔۔ جبکہ سنیما گھروں کے باہر میلے کا سماں ہوتا، جہاں دیگر اشیا کے ساتھ ٹکٹ بلیک میں بکا کرتے تھے اور سنیما کے اندر کی تو دنیا ہی الگ ہوتی تھی!!
"