آئیے آج ایسے لفظوں کا مراقبہ کرتے ہیں جنہیں پڑھ کر، سُن کر، دیکھ کر، لکھ کر، بول کر، ہمارے ذہن میں پُھلجھڑیاں چُھوٹیں۔ ہمارے بدن کے اَینڈوکرائن (endocrine) غدود ایسے بائیوکیمیکلز، ہارمونز اور ریزش ریلیز کریں جن سے ہمیں لُطف آئے، مزا آئے، خوشی کا احساس ہو، ڈیپریشن، یاسیت دُور ہو۔ ہمارا مُوڈ خوشگوار ہو جائے۔ کھانا صحیح طرح ہضم ہو کر ہمارے پٹھوں کو طاقت بخشے۔ ہماری ہڈیاں مضبوط ہوں۔ ہمارا دِل صحت مندی سے دھڑکنے کی طرف مائل ہو۔ ہماری ذہنی صحت بحال ہو۔ ہمارا دفاعی نظام بہتر ہو جائے۔
انٹرنیٹ اور مختلف انگریزی اُردو لُغات کے مطابق انگریزی لفظ جوائے (Joy) کے مندرجہ ذیل مطالب ہو سکتے ہیں۔ اس مراقبے کے لئے ایک ایک لفظ علیحدہ علیحدہ پڑھئے۔ آنکھیں بند کر کے اسے محسوس کیجئے, اگلا لفظ پڑھنے سے قبل۔ اپنے ارد گرد ایک ایسی صورتِ حال اپنے تصور میں تخلیق کیجئے جس سے یہ احساس، یہ جذبہ پیدا ہو۔
خوشی؛مسرت؛شادمانی؛سرور؛انبساط؛باعثِ مسرت؛ مایۂ شادمانی؛ خرمی؛ تازگی؛ لطف ؛ حالت وجد؛ فرحت؛ عیش؛ خوشی کی چہل پہل؛ زندہ دلی؛ وارفتگی؛ سرمستی؛ دِل میں بلبلے اُٹھنا؛ آب وتاب؛ چمک دمک؛ اُجلا پن؛ درخشندگی؛ تابندگی؛ بغلیں بجانا؛ شادیانے بجانا؛ کامیابی؛ ہنسی؛ تبسم؛ راحت؛ بشاشت؛ شوق؛ نشاط؛ طرب؛ پھولے نہ سمانا؛
جوائے فُل (Joyful) کا مطلب ہے: خوش؛ مسرت بخش؛ پُرانبساط؛ پُر مسرت؛ کیف آور؛ پُر کیف؛ مگن؛ خرم؛ محظوظ؛ شاداں و فرحاں؛ باغ باغ؛ دِل شاد؛ ہنس مُکھ؛ خندہ رو؛ بشاش؛ خنداں؛ زندہ دِل؛ خوش مزاج؛ شگفتہ؛ خوش طبع؛ اجلا؛ چمکتا دمکتا؛ روشن؛ منور؛ تاباں؛چمکیلا؛ چمک دار؛ درخشاں؛ فروزاں؛ ضیا بار؛ شوخ رنگ؛ تابندہ؛ شفاف؛ مصفا؛ مطلا؛ سیم تن؛ تروتازہ؛ لہلہاتا؛ ہوا دار؛ رنگیلا؛ پُرجوش؛ مبارک؛ مسعود؛ راحت بخش؛ دلکش؛ خوش کُن؛ اطمینان پذیر، مسرت انگیز؛ مسرت بخش؛ غایت انبساط؛ زرق برق؛ چمکدار؛ مسرور
اُمید ہے احباب ان معانی سے اتفاق رکھتے ہونگے اور صرف ان کو پڑھ کر، زیرِ لب دُہرا کر ہی جوائے فُل یعنی باغ باغ ہو رہے ہو نگے۔ ان کے مثبت بائیوکیمیکلز رنگ رلیاں منا رہے ہوں گے۔ ان معانی کو ذہن میں رکھئے۔
فیس بُک پر ایک فورم ہے ’’ایک پاکستان موومنٹ‘‘ جس کے ممبران الحمداللہ چھتیس ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں۔ سب لوگ ماشااللہ اعلی تعلیم یافتہ لگتے ہیں کیونکہ اکثر پوسٹس اور کمنٹس انگریزی میں ہی ہوتی ہیں جو عالمی زبان ہے اور کسی بھی موومنٹ میں پہیوں کا کام دیتی ہے۔ ہونہار جناب معاذ اسلم اس فورم کے ایڈمن ہیں۔ انکا تعاون کرنے میں دوسرے نوجوان بھی پیش پیش ہیں۔ ان میں سے ایک ہونہار مریم عزیز رضوان ہیں۔ ایک پوسٹ میں اُنہوں نے ممبران سے پُوچھا کہ سوشل میڈیا کو بہتر استعمال کیسے کیا جائے کیوں کہ اچھی تعمیری مقصدیت آمیز پوسٹس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا جبکہ مرچ مصالحہ لگائی گئی چَٹ پَٹی فضولیاتی پوسٹس مقبولِ عام ہو جاتی ہیں۔ اس پوسٹ پر ایک کمنٹ میں میری تجویز مریم عزیز کو اچھی لگی تو اُنہوں نے علیحدہ سے پوسٹ بنا کر شئیر کی۔ میری تجویز انگریزی میں تھی۔ یہاں میَں اس کا اُردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جہاں جہاں جوائے کا لفظ ہے، اُردو میں مندرجہ بالا مطالب محسوس کرنے کی کوشش کیجئے۔ مَیں بھی مناسب لفظ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
مسئلہ دوبارہ لکھ دیتا ہوں۔ سوشل میڈیا کو بہتر استعمال کیسے کیا جائے کیوں کہ اچھی تعمیری مقصدیت آمیز پوسٹس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ابلاغِ کثیر (Mass communication) میں مسئلہ صرف سوشل میڈیا کا ہی نہیں، ہر اس پیغام کا ہے جو ہم چاہتے ہیں کہ دوسروں تک پہنچ جائے، اُنہیں سمجھ بھی آ جائے اور وہ اُس پر عمل درآمد کرنے کے لئے آمادہ بھی ہو جائیں۔ یہ مسئلہ واعظ کا بھی ہے اور مُبلغ، اُستاد، حاکم، سیاست دان، انتظامیہ، تعلیمی نظام، والدین، فلاسفر، آرٹسٹ، موسیقار، نوکری کی تلاش میں انٹرویو سے خوفزدہ بیروزگار، طالب علم، بزنس مین، صنعتکار اور سماج سدھار ادیب کا بھی۔
میری ناچیز رائے میں ’’جوائے‘‘ کا لفظ اس مسئلے کا حل ہے، سونے کی چابی ہے جادوئی تالے کی جو خزانے کے صندوق پر لگا ہوا ہے جس کے اندر کسی بھی قوم میں ذہنی انقلاب لانے میں درپیش مشکلات کا حل موجود ہے۔
آرام سے بیٹھ جائیے۔ یہ تجویز بار بار پڑھئیے اور دیانتداری سے سوچئے، اپنے دِل میں ’’جوائے‘‘ کے احساس کے ساتھ، یعنی جوائے فُل دِل و دماغ کے ساتھ۔
جو بھی پیغام ہم چاہتے ہیں کہ لوگ سُنیں، پڑھیں اور اُس پر عمل کریں، یاد رکھیں کہ اُن کی بنیادی انسانی ضرورت ہے ’’جوائے‘‘ محسوس کرنے کی جب وہ اسے سُنیں، پڑھیں، عمل کریں اور اس عمل کے نتائج کا مشاہدہ کریں۔ اسے سُنانے سُننے میں مزا آئے، پڑھنے پڑھانے میں مزا آئے، اس پر عمل کرنے کرانے میں مزا آئے اور چھوٹے چھوٹے ٹارگٹ کو پانے، چھوٹی سے چھوٹی کامیابی پر دِل باغ باغ ہو جائے۔
کسی دانشمند کا قول ہے کہ خوش قسمتی اس بندے کا تعاقب کرتی ہے جو تیار ہوتا ہے۔ جب تک تیاری کرنے میں خوشی محسوس نہیں ہو گی ہم تیار ہونے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ سبق کو دلچسپ اور مزیدار بنا دیں تو بچے شوق سے سیکھیں گے۔ امتحان کو مزیدار بنا دیں تو بچے شوق سے امتحان کا انتظار کریں گے۔ جنت کا نظارہ مزیدار نہ ہوتا تو کیا ہماری رال ٹپکتی؟ ادب میں بھی یہی حال ہے۔ مجا نئیں جندڑی وِچ تے فیر کی فائدہ؟ آپ استاد ہیں تو اپنے سبق کو مجے دار بنائیں۔ والدین ہیں تو تربیت کو مجے دار بنائیں۔ شاعر ہیں تو مزیدار شاعری کریں۔ اسرار جامعی بھی کہے ہے
دیکھئے آج اخبار چنا جور گرم
تیز الیکشن کا ہے بازار چنا جور گرم
آ گئے قوم کے غمخوار چنا جور گرم
لگ گیا وعدوں کا انبار چنا جور گرم
خوانچہ سَر پہ لئے چیخ رہا ہے ہر دِن
ہے مِرا سب سے مزیدار چنا جور گرم
نوٹ جو دے گا اُسی سمت یہ جھک جائے گا
اپنا ایماں ہے لچک دار چنا جور گرم
اپنا پیغام کامیابی سے پہنچانے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہے!
خوف دلانے سے بھی کام ہو جاتا ہے لیکن اس کی کارکردگی کا دورانیہ محدود ہوتا ہے، پائیدار، دیرپا نہیں ہوتا۔ نفسیاتی حقیقت ہے کہ مستقل طور پر خوفزدہ قوم تعمیری، مثبت، تخلیقی، اخترائی، ایجادی اور رجائیت پسند (optimistic) سوچ سے محروم ہو کر مایوسی کی شکار ہو جاتی ہے۔ تاریخی حقیقت ہے کہ ایک ہزار سال سے ہم خوفزدگی اور سڑیل پن کا شکار ہیں۔ ہماری صحت خراب نہیں ہو گی تو اور کیا ہو گا!
ہمارا پیغام معاشرے کی بہتری کے لئے لکھا گیا ایک مضمون ہو سکتا ہے۔امتحان میں سوالات کا پرچہ۔ کلاس میں سبق۔ محفل میں افسانہ، ناول، ڈرامہ، کہانی، داستان۔ کالج اور یونیورسٹی میں مقالہ۔ عِشق میں مراسلہ۔ بزنس میں اشتہار۔ سیاست میں تقریر اور مِنبر پر وعظ ہو سکتا ہے۔ میٹھا چٹ پٹا مزیدار ہو گا تو چلے گا۔ یہاں تک کہ رُلانے والی تقریر بھی مصالحے دار ہو تو چلتی ہے۔ لفظوں کے تصور سے سامعین کی آنکھوں میں دُھویں اور آئینوں کے جادو سے کیا کیا شعبدے نہیں دکھائے جا سکتے۔
آئیے اس مراقبے میں بیٹھتے ہیں۔ کیا ہم کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں؟ اپنے پیغام کا دوبارہ جائزہ لیتے ہیں اور سوال پُوچھتے ہیں کہ کیا یہی پیغام مختلف الفاظ میں دیا جا سکتا ہے تاکہ اسے سُن کر پڑھ کر لوگ ’’جوائے‘‘ محسوس کریں۔ باغ باغ ہوں۔ محظوظ ہوں۔
۔ کیا پیغام کی ترسیل کے ہمارے موجودہ طریقے سامعین، قارئین اور تماش بینوں میں انبساط، مسرت و فرحت کا احساس پیدا کرتے ہیں؟
۔ کیا ہمارے اخبارات کے اقتباسات؛ ٹیلی وژن کے اینکر حضرات کی حرکات و سکنات اور ہماری شئیر کردہ پوسٹس جوائے پیدا کرتے ہیں؟
۔ کیا ہمارے سیاستدان خوش نظر آتے ہیں اور خوشی پھیلاتے ہیں؟ کیا ضروری ہے کہ ہم ان کی سڑیل حرکتوں سے خود بھی سڑیل ہو جائیں۔
۔ کیا ہماری تعلیم مسرت بخش ہے؟ کیا ہمارا سبق یا لیکچر طالب علموں کو جوائے فُل کرتا ہے؟
۔ کیا ہماری سوچ کیف آور ہے؟
۔ کیا ہماری مذہبی عادتاً مشق، پَیروی اور تربیت پُرانبساط ہے؟ کیا واقعی ہمارا مذہب ہمیں خوف دلا کر بُرے کاموں سے روکتا ہے اور لالچ دے کر اچھے کاموں پر آمادہ کرتا ہے یا ہماری سمجھ میں کچھ غلطی لگی ہے؟ کیا روایتی قصے دُہرانے کی بجائے جدید نفسیاتی علم و عقل و فہم سے وہی سبق خوشی سے سکھائے اور سیکھے جا سکتے ہیں؟
۔ کیا ہر حالت میں بار بار شُکر گُزاری کی عادت ڈالنے سے ہمارے اندر خوشی کا احساس برقرار رہتا ہے؟
۔ کیا بحیثیت والدین ہمارے بچوں کو پالنا پوسنا ہمیں خرم رکھتا ہے؟
کیا ہماری دوستی جوائے فُل ہے؟
۔ کیا ہماری والدین، استادوں اور قانون کی اطاعت مسرت بخش ہے؟
۔ کیا بہن بھائیوں، پارٹنر اور سُسرال سے ہمارا تعلق پُرانبساط ہے؟
۔ کیا مختلف مسالک کے پیروکار وں کو مل کر، سلام کر کے ہمیں خوشی ملتی ہے اور کیا ہم اپنی خوشی ان کو بانٹتے ہیں؟
۔ کیا مطالعہ کرنا، پڑھائی کرنا، تحقیق کرنا، تجربہ کرنا، محسوس کرنا، عبادت کرنا، ورزش کرنا، بحث کرنا، اور بات چیت کرنا ہمارے لئے مسرت بخش ہے؟
۔ کیا ہمارا پیشہ، ہماری نوکری، مزدوری، کاروبار، گھر بار کے کام ، ہمارے مشغلے ہمارے لئے پُر مسرت ہیں؟
۔ کیا بحیثیت عورت گھر سے باہر نکل کر اکیلے سفر کرنا، نوکری کرنا، شاپنگ کرنا ہمارے لئے باعثِ مسرت ہے؟
۔ کیا فیس بُک پر پوسٹ یا افسانہ لکھنا ہمارے لئے باعثِ مسرت ہے؟ کیا افسانہ پڑھ کر ہمارے اندر شفتگی، تازگی، خوشی کا احساس پیدا ہوتا ہے؟ ادیبوں کے لئے لمحۂ فکریہ ہے کہ جب معاشرے میں شیطانیت کا دور دورہ ہو، اس شیطانیت پر فکشن لکھا جائے تو اس کہانی میں کیسے شگفتگی پیدا کی جائے۔ جب ادیب خود مایوسی کا شکار ہو، کوئی راہ سُجھائی نہ دے تو کیا لکھا جائے اور کیسے؟
۔کیا ہم کوئی بھی کام اتنی لگن سے کر سکتے ہیں کہ خوشی اور اطمینان کا احساس اُس کام کا سائیڈ ایفیکٹ (side effect) ہو؟ یعنی خوشی حاصل کرنا ہمارا براہ راست اصل مقصد، ہدف ،مطمحِ نظر نہ ہو۔ خوشی خود سے ہی ہو جائے۔
مراقبہ ختم۔ آنکھیں کھولئے۔ آئیے اکٹھے کوشش کرتے ہیں، ان سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں، کہ کیسے ہم ان سب کاموں اور امور میں خوشی، سرور اور شادمانی کا احساس حاصل کر سکتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...