جوتوں اور تھپڑوں کی سیاست: محنت کشوں کو موقف کیا ہونا چاہئے؟
نواز شریف پر جوتا پھینکنے کے بعد اب عمران خان کو فیصل آباد میں تھپڑ مارنے کا واقعہ سامنے آیا ہے۔ ایک طرف سرمایہ دار سیاست دان اور ان کا نمائندہ میڈیا عموما اسکی منافقانہ مذمت کر رہا ہے تو دوسری طرف کاروباری میڈیا میں کچھ لوگوں کی جانب سے اس واقعہ کو 'انقلابی' عوامی رد عمل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
کیا اس طرح کے 'عوامی' رد عمل کی حمایت کی جا سکتی ہے؟ سوشلسٹ اور ترقی پسند نقطہ نظر سے تو ہرگز بھی نہیں۔
کیوں؟ کیونکہ جوتا مارنے، گالی دینے یا تھپڑ مارنے کا مقصد ہوتا ہے مخالف کی ہتک کرنا۔ نہ صرف ہتک جاگیردارانہ کلچر میں روزمرہ کا ہتھیار ہے بلکہ ہم نے دیکھا کہ پاکستانی فوج نے اسے استعمال کیا ۔ اسکی ایک شکل تھی کہ جن لوگوں کو فوج نے غیر قانونی طور پر اٹھایا، انکو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ خوف کے ساتھ ساتھ ہتک کو طالبان نے بطور ہتھیار استعمال کیا۔ سوات میں چاند بی بی کو کوڑے مارنا اسکی بد ترین شکل تھی۔ اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک عرصے سے یہ کرتی آ رہی ہے۔ہتک کے اس ہنر کو مولوی خادم رضوی نے ایک نئی جہت دیدی ہے۔ اگر محنت کش طبقے کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو گی تو عوامی ردعمل ہتک کو بطور ہتھیار استعمال کرے گا۔ بطور سوشلسٹ اور ترقی پسند ہم ہر عمل کی محض اس وجہ سے حمایت نہیں کر سکتے کہ اسے محنت کش طبقے کی اکثریت میں قبول عام حاصل ہے۔ ہم یہ سمجھنے کی کوششی کر سکتے ہیں، کرتے ہیں اور کرنی چاہئے کہ کوئی سوچ محنت کشوں میں کیوں مقبول ہے مگر ہم ہر مقبول عام سوچ کی حمایت نہیں کر سکتے۔
ہتک ہمارے طبقاتی مخالفوں کا ہتھیار ہے۔ ہم طبقاتی لڑائی انکی اخلاقیات کے مطابق نہیں لڑ سکتے۔ ہم معاشرے کو مہذب بنانا چاہتے ہیں۔ تہذیب کا تقاضا ہے کہ سیاسی، نظریاتی اور طبقاتی اختلاف کے باوجود مخالف کے انسانی حقوق اور عزت نفس کا اتنا ہی خیال رکھا جائے اور اسکے تحفظ کا اتنا ہی مطالبہ کیا جائے جتنا ہم محنت کشوں کے لئے کرتے ہیں۔ جوتوں اور تھپڑوں کی سیاست عوامی اور انقلابی نہیں ، رجعتی سیاست اور سوچ کا اظہار ہے۔ ایسے سیاسی ہتھکنڈے سیاست کو محنت کشوں، عورتوں اور پسے ہوئے طبقات کے لئے اور بھی مشکل بناتے ہیں۔ ہمارا نعرہ ہے: گالی نہیں دلیل۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔