جوش، فیض ، ندیم ، حفیظ ، انشا ، دامن، صوفی تبسم کی فلمی شاعری
نذیر ناجی اور حسن نثار نے بھی فلمی گانے لکھے
ڈ م ڈ ما ڈ م باجا ہو ، چوری چوری اکھیوں
بہت سوں کو یقین ہی نہیں آئے گا کہ یہ جناب احمد ندیم قاسمی کا لکھا ہوا فلمی گیت ہے۔
ندیم صاحب نے 1970 میں فلم ’’درندہ‘‘ کیلئے تین گیت لکھے۔ باقی گیتوں کے مکھڑے یہ تھے
دکھیا گھٹائوجائو پیا کو جاکے بتائو ترے بن
اے آسمانوں کے مکیں فریاد ہے فریاد ہے
ہمارے بڑے شاعروں میں سے قتیل شفائی، احمد راہی ، ظہیر کاشمیری، حبیب جالب ، منیر نیازی ،ساغر صدیقی، طفیل ہوشیار پوری، سیف الدین سیف ، یزدانی جالندھری ، بہزاد لکھنوی ، ظہور نظر وغیرہ توایک طرح سے فلمی صنعت سے وابستہ رہے کہ کئی فلموں کے گیت لکھے لیکن ایسے شاعروں اور دوسری شخصیات کی بھی بڑی تعداد ہے جن کا تعلق تو کسی اور شعبے سے تھا لیکن انہوں نے فلم کیلئے گیت لکھنے کا تجربہ بھی کیا۔
جوش ملیح آبادی نے1966 میں ’’آگ کا دریا‘‘ کیلئے آٹھہ شاندار گیت لکھے
’’ ہوا سے موتی برس رہے ہیں فضا ترانے سنا رہی ہے ‘‘ ، اور’’ اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں ‘‘ کون بھولا ہوگا۔ جوش صاحب نے 1969 میں ’’ قسم اس وقت کی‘‘ کا ٹائٹل سانگ ’’ قسم اس وقت کی جب زندگی کروٹ بدلتی ہے ‘‘ بھی لکھا۔
قیوم نظر نے 1950 میں ’’بیلی‘‘ کیلئے گیت ’’پگ پگ میں نے نین بچھائے کوئی نہ آیا‘‘ لکھا۔ اسی فلم میں امرتا پریتم کی مشہور نظم ’’ اج آکھاں وارث شاہ نوں ‘‘ بھی شامل کی گئی۔ امرتا کی یہ نظم ’’ کرتار سنگھہ‘‘ میں بھی استعمال کی گئی۔
حفیظ جالندھری نے 1956 میں ’’ شکار‘‘ کیلئے گیت’’ آئی جوانی ہو آئی آج ہم چلے ‘‘ اور ‘‘ ہم لے چلے ہیں دل شکار کرکے ‘‘ لکھے۔1969 میں انہوں نے احمد بشیر کی فلم ’’ نیلا پربت‘‘ کیلئےگیت ’’او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا‘‘ لکھا۔
نیلا پربت کیلئے ابنِ انشا نے بھی گیت لکھا ۔۔۔’’ ہم سے بات کرو سانوریا ہم سے پیار کرو‘‘
فیض احمد فیض نے 1959 میں مشہور فلم ’’ جاگو ہوا سویرا‘‘ کے تمام گیت لکھے ۔۔۔
جاگو ہوا سویرا جاگو ہوا سویرا
بھور بھئی گھر آجائومانجھی بھور ہوئی گھر آئو
ڈوب گیا دن شام ڈھلی ڈوب گیا دن سو گئی ندیا
موتی ہوکہ شیشہ جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
اب کیا دیکھیں راہ تمہاری بیت چلی ہے رات
1959 میں استاد دامن نےفلم ’’جائیداد‘‘ کیلئے ’’ ہائے میں دل لاکے پچھتائی‘‘ لکھا ۔
1972 میں ’’غیرت دا نشان‘‘ کیئے استاد دامن کا لکھا ہوا گانا ’’ نہ میں چاندی جہی نہ سونے جہی، میں پتل بھری پرات۔۔ مینوں دھرتی قلعی کرادے نچاں گی ساری رات‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اسی سال استاد نے’’غیرت تے قانون‘‘ کیلئے ’’ توڑ کے دل نوں ٹر چلیا ایں جویں گھگھو گھوڑے‘‘ بھی لکھا
صوفی تبسم نے 1960 میں ’’شام ڈھلے‘‘ کیلئے چار نغمات لکھے
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
محبت ایک دولت تھی لٹادی رائیگاں میں نے
میری مست جوانی لہرائی احسان ہے مجھہ پہ ساقی کا
پربت پہ جب شام ڈھل جائےگی
صوفی صاحب نے پھر 1966 میں ’’ انسان‘‘ کیلئےچار گیت لکھے
اے خدا بے سہاروں کے خدا
ملی ہے نظر سے نظر
پیار کا کوئی سہارا نہ رہا غم کے سوا
اب نہ آنا میری گلیوں میں دغا باز کبھی
1966 کی فلم ’’پروہنا‘‘ میں صوفی تبسم کے جنگ ستمبر کے دوران لکھے گئے دو ترانے’’ میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں‘‘ اور ’’ میرا ماہی چھیل چھبیلا،ہائے نی کرنیل نی، جرنیل نی‘‘ بھی شامل کئے گئے۔1969 میں صوفی تبسم نےفلم ’’ پتھر تے لیک‘‘ کیلئے ’’ کسے نال نہ اکھیاں ملا وے‘‘ لکھا۔
1973 میں بننے والی فلم ’’ ایک تھی لڑکی‘‘ میں صوفی صاحب کا کیا ہوا غالب کی غزل کا پنجابی ترجمہ ’’ میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں‘‘ بھی شامل کیا گیا۔
احسان دانش نے1969 میں ’’ تمہی ہو محبوب میرے‘‘ کیلئے لکھا
بیتے ہوئے کچھہ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے‘‘
بھارت سے تعلق رکھنے والے شاعروں نے بھی پاکستانی فلموں کیلئے گیت لکھے۔
1958 میں بننے والی ’’ نیا زمانہ‘‘ میں مجروح سلطان پوری کے پانچ گیت شامل تھے
دھیرے سے آکے نندیا سپنوں کے پھول چُننا رے
جھومے جھومے دیکھو دیکھو یہ نظارے تم جو چلی ہو
دھڑکنے لگا دل نظر جھک گئی
اٹکن چٹکن چٹکائے رے
تن تنا تا نہ مکئی کا دانہ، چور بنا مُنا لک چھپ جانا
1964 میں بننے والی فلم ’’فرنگی‘‘ میں ساحر لدھیانوی کا نغمہ ’’ اے وطن اے وطن مرنے والوں کی دم توڑتی۔۔۔‘‘ شامل تھا۔ فیض کا ’’ گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے‘‘ بھی اسی فلم میں تھا۔
1966 میں فلم ’’ لا ڈ و‘‘ میں موہن سنگھہ کا گیت ’’ اک بوٹا امبی دا ساڈے ویہڑے اُگا نی‘‘ شامل کیا گیا۔
شاعر مسعود منور نے1973 میں فلم ’’ شرابی‘‘ کیلئے گانا ’’ ریجھاں دی تصویر دے ٹکڑے ہنجواں نال جڑدے نیں‘‘ لکھا
بعض معروف صحافیوں نے بھی فلموں میں طبع آزمائی کی۔ سب سے پہلے 1959 میں طفیل احمد جمالی نے ’’راز‘‘ کے دوگیت لکھے:
مان مان زمانہ ہے جوان او سن سن جوانی ہے حسن
چھلک رہی ہیں مستیاں نشے میں جھوم اٹھا جہاں
1968 میں نذیر ناجی نے ’’پیار دا ویری‘‘ کیلئے یہ دو گیت لکھے:
گھنڈ کھل گیا شرماں والا
تقدیر دا پھیرا اے، لوکاں دی رات چاننی، ساڈا دن وی انہیرا اے
حسن نثار نے 1975 میں فلم ’’سلطانا ڈاکو‘‘ کیلئے گیت لکھا :
’’میرا پیار، میرا پیار، میرا پیار آگیا‘‘
شفیع عقیل نے 1976 میں فلم ’’ٹرک ڈریور‘‘ کیلئے دو گیت لکھے :
جھک نہ توں، پھڑ میری بانہہ
میں لبھہ لیا دل دا چور وے
چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ نےمرزا جٹ ، باغی شیر، حق مہر، گواہ تے بد معاش سمیت کئی فلموں کے گانے لکھے۔ نمونۂ کلام ۔۔۔
مینوں چھڈ گیوں ادھہ وچکار وے (مرزا جٹ: 1982)
ہتھہ مینوں لاویں نہ وے منڈیا کرنٹ پؤگا (حق مہر:1985)
اظہر جاوید نے بھی چند اردو اور پنجابی فلموں کیلئے گیت لکھے۔ فلم ’’ پیار نہ منے ہار‘‘ کیلئے 1971 میں انہوں نے گیت لکھا:
توں ملیں دل دھڑکے میرانبضاں رُک رُک جاندیاں نیں
اداکاروں نعیم ہاشمی، علائو الدین ، آصف جاہ اور سلمیٰ ممتاز کے نام بھی فلموں کے کریڈ ٹس اور گرامو فون ریکارڈز پر نغمہ نگار کے طور پر آئے۔ نعیم ہاشمی تو خیر ہر فن مولا تھے،علائوالدین کے نام سے فلم ’’ جماں جنج نال‘‘ میں شامل گانے ’’ گھنڈ مکھڑے توں لاہ او یار‘‘ کے بارے میں خیال ہے کہ یہ استاد دامن نے انہیں عطا کیا تھا،جنہوں نے انہیں بیٹا بنایا ہوا تھا ۔
بھائی اخلاق عاطف بتاتے ہیں کہ 2003 میں پاکستن ٹیلی ویژن نے اپنے سلسلے ’’ خراجِ تحسین‘‘ میں استاد دامن پر جو پروگرام کیا تھا، اس میں یہ گانا استاد دامن کے اہم نغمے کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ سلمیٰ ممتاز کا گیت ’’آئی دکھیاری تیرے دربار خالی نئیں جانا ، نہ ہووے انکار‘‘ 1975 کی فلم ’’ بے اولاد‘‘ میں تھا۔ ،
آصف جاہ نے دو تین فلموں کیلئے گیت لکھے۔۔1968کا ’’فلم ڈیرہ سجناں دا‘ کیلئے’’ تیرے خاب تے خیال ، رہندے میرے نال نال‘‘ بہت مقبول ہوا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔