جوزف ملر: ردتشّکیل کی ازسر نوقرات کا ادبی نظریہ دان " :::
جوزف ہلس ملر جونیر(Joseph Hillis Miller, Jr) ۔ امریکی ادبی نقاد، ادبی نظریہ دان، ماہر تعلیم، 5، مئی 1928 میں نیوپورٹ نیوز ، ورجینیا میں پیدا ھوئے. ان کے والدجے ہلس ملر، سینئر، ایک بیبٹسٹ کلیسا میں مبلّغ تھے اور فلوریڈا یونیورسٹی کے صدر اور یونیورسٹی کے پروفیسر اور ایڈمنسٹریٹر بھی رھے .جوزف ہلس ملر ، جونیر نے اوبراین کالج سے 1948 میں بی۔اے کی سند لی۔ 1949 میں ہارورڈ یونیورسٹی سےایم اے اور 1952 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ . ملر کے تین بچے ہیں ن۔ جدید ادبی نظریات کی تفھیم و تشریح میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ ان کی تنقیدی ہنر مندی اور فطانت سے جدید ادبی افق پر ادبی نظرئیے اور انتقادات کی مباحث نے نئی کروٹیں لین ۔ ان کے خیال میں "ردتشکیل" کے تحت متن کے موضوع پر تفصیل سے بحث کی جاتی ہے۔
بقول ان کے ۔۔۔۔۔۔۔
On the one hand, the "obvious and univocal reading" always contains the "deconstructive reading" as a parasite encrypted within itself as part of itself. ON the other hand, the "deconstructive" reading can by no means free itself from the metaphysical reading it means to contest
متن کے موضوع میں سطحی اور گہری کثیر الجحت معنویت پوشیدہ ھوتی ہے اور کئی ذیلی ساختوں میں منقسم ھوتی ہے اور معنویت کو سلجھایا جاتا ہے۔ ملر نے " بدیعیاتی اصولوں" پر اپنا اچھوتا نظریہ پیش کیا ہے۔ ان کی تحریرون میں نئی لفظیات اور غیر مانوس اصطلاحات کی بھر مار ھوتی ہے۔ جس کے سبب قاری الجھنوں کا شکار ھوجاتا ہے اور وہ اسے سمجھ نہیں پاتے۔ ان کے تنقیدی ادبی نظریات درسی یا نصابی نوعیت کے زیادہ لگتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے نقاد ایک مہمان دار ہوتا ہے۔
جوزف ملر کا خیال ہے کہ یہ ایک عام نقطہ نظر یہ یا نقطہ نظر ہے کہ ایک نظم ک قاری اصل میں آفاقی نوعیت کا پڑھنے والا ہوتا ہے اوجو ر ثانوی یا بیکار طریقوں سے قرات کیا جاتا ہے ہمیشہ پہلے سے ہی قبولیت حاصل کئے ہوئے ہوتا ہے۔ لیکن جوزف ملریہ دعوی کرتے ہیں کہ ان قاریوں یا دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے. ان کے تصور میں نظم اور اس کو مختلف انداز سے قرات کرنے کی روایت موجود ہے۔ جن میں سے ہر ایک کے مساوی یا درست نہیں ہوتا انھوں نے اس کو مشہباتی طور ایک مثال کے طور پر رکھا ہے۔ کی ان کا رشتہ کھانے کھلانے والے میزبان اور مہمان کا رشتہ ہے۔ جو ایک دوسرے سے غیر متفق بھی ہوتے ہیں۔ اس طرح نظم دوقاریوں کے درمیان ایک تکون/ مثلث کے فکری اہرام کو تشکیل دیتے ہیں۔ اس عمل میں آغاز اور اختتام کا ایک نہ ختم کونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جو معتبر اور غیر متعبر بھی ہوتی ہے۔
جوزف ملر کا یہ موقف ہے کہ روایتی معنوں میں قرات کا ایک واضح اور غیر فعال افسانہ ہے اور صرف ردتشکّل کا قاری اس میں نئی معنویت پیدا کرتا ہے۔ . ایک نظم تبصروں کا لامتنائی سلسلے کو ترتیب اور مباحث کی دعوت بھی دیتا ہے جو کبھی بھی حتمی، درست اور قاری کے سامنے کسی معنویت کو سامنے نہیں لاتا ۔ شاید اسی سبب ہارولڈ بلوم نے نسل پیدا کرنے والی نسلوں پر اثر ورسوخ کا ایک تصور قائم کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا یہ تصور قرات اجتماعی اور معروضی فکری ڈھانچے کوترتیب دیا۔ کیونکہ ان کے خیال میں کوئی نظم خود اپنے پاوں کھڑی نہیں ہوسکتی ۔اس کو قاری اور نقد نگاروں کی ضروت پڑتی ہے۔ شاید یہ فکری آفاق کی من و تو کی دنیا ہے۔
اس موضوع پر راقم الحرف نے اپنی کتاب۔۔" ساختیات، تاریخ، نظریہ اور تنقید"، 1999 میں صراحت سے لکھا گیا ہے۔ جوزف ہلس ملر نے 29 کتابیں لکھی ہیں :-
***تصانیف ***
(1958) Charles Dickens: The World of His Novels
(1963) The Disappearance of God: Five Nineteenth-Century Writers
(1965) Poets of Reality: Six Twentieth-Century Writers
(1968) The Form of Victorian Fiction: Thackeray, Dickens, Trollope, George Eliot, Meredith, and Hardy
(1970) Thomas Hardy, Distance and Desire
(1971) Charles Dickens and George Cruikshank
(1982) Fiction and Repetition: Seven English Novels
(1985) The Linguistic Moment: from Wordsworth to Stevens
(1985) The Lesson of Paul de Man
(1987) The Ethics of Reading: Kant, de Man, Eliot, Trollope, James, and Benjamin
(1990) Versions of Pygmalion
(1990) Victorian Subjects
(1990) Tropes, Parables, Performatives: Essays on Twentieth Century Literature
(1991) Theory Now and Then
(1991) Hawthorne & History: Defacing It
(1992) Ariadne's Thread: Story Lines
(1992) Illustration
(1995) Topographies
(1998) Reading Narrative
(1999) Black Holes
(2001) Others
(2001) Speech Acts in Literature
(2002) On Literature
(2005) The J. Hillis Miller Reader
(2005) Literature as Conduct: Speech Acts in Henry James
(2009) The Medium is the Maker: Browning, Freud, Derrida, and the New Telepathic Ecotechnologies
(2009) For Derrida
(2011) The Conflagration of Community: Fiction Before and After Auschwitz
(2012) Reading for Our Time: Adam Bede and Middlemarch Revisited
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔