::: "جوزف کانراڈ(Joseph Conrad): مہم جو، نیستی اور سامراج شکن ناول نگار :::
=======================================
میرا جوزف کانراڈ سے تعلق اور تعارف عجیب انداز سے ھوا۔، وہ اس طرح کہ غالبا 1965 میں کراچی کی بیمینو سینما میں ہدایت کار رچرڈ برک کی فلم " لارڈ جم" دیکھی اور والد صاحب نے بتایا کہ یہ فلم ایک انگریزی ناول پر مبنی ھے۔ اس زمانے میں کراچی میں اس فلم میں طوفان میں گھرے ھوئے بحری جہاز کے عرشے پر با جماعت نماز کا منظر بہت مشہور ھوا تھا۔جس میں پیٹر وٹول نے معرکے کی اداکاری کی تھی۔کچھ دنوں بعد ھم اس فلم کو بھول گئے۔ ستر (70) کی دھائی میں جب ھماری دلچسپیاں ادبی نظریات کے مطالعوں میں بڑھیں تو ایک دن پڑھتے پڑھتے یہ معلوم ھوا کی مشہور فلسطینی نژاد امریکی دانشور، ادیب اور نقار ایڈورڈ سعید نے ڈاکٹریٹ کا مقالہ، "جوزف کانراڈ اور فکشن کے سوانح عمری" پر لکھا ھے۔ بس پھر کیا تھا۔ دڑھڑا دھڑ جوزف کانراڈ کے جتیی بھی ناول میسئر آئی پڑھ ڈالی۔ ایڈورڈ سعید کو کانراڈ کا سامراج شکن نظریہ پسند تھا۔
جوزف کانراڈ پولستانی نژاد انگلستانی ناول نگار اور کہانی کار ہیں۔ ان کو انیسویں صدی اور بیسویں صدی کا اھم فکشن نگار تسیلم کیا جاتا ھے۔ وہ 3 دسمبر 1857 میں پیدا ھوئے اور ان کا انتقال 3، اگست 1924 کو ھوا۔ ان کا نام رومانیت پسند پولش ناول نگار ہنرک سینکوچ، لیو ٹالسٹائی اور دوستفسکی کے بعد لیا جاتا ھے۔ ان کی تحریروں میں بیسویں صدی کی فنکارانہ حسیت اور جمالیات تو ھے جو حقیقیت پسند " جدیدیت" سے قریب ھے۔
جوزف کانراڈ برڈیچیو کے قصبے "کریں"میں پیدا ھوئے۔ نجیب الطرفیں زمیندار کنبے سے تعلق تھا۔ ان کے والد محب وطن شاعر تھے۔ انھوں نے 1861 میں روسی حکومت کے خلاف پولینڈ کی بغاوت میں عملی طور پر حصہ لیا۔ جب وہ چار سال کے تھے تو ان کی والدہ تپ دق کے میں مبتلا ھوکر دینا سے رخصت ھوئی۔ اور کچھ ھی دن بعد ان کا انتقال ھوگیا۔ کانراڈ نے آٹھ (8) برس کی عمر میں انگریزی پڑھنا شروع کی اور کچھ ھی دنوں بعد والٹر اسکاٹ، ڈکنس اور تھیکرےکے ناولز انگریزی اور ان کے پولش تراجم کے ساتھ پڑھیں۔ اسکول سے فارغ ھونے کے بعد انھون نے ایک فرانسیسی جہاز ران کمپنی میں ملازمت کرلی۔ اسی دوران انھوں نے غرب الہند، انگلستان، اسڑیلیا، سنگاپور، فلسطین، افریقہ، جوا اور سماٹرا کا بھی سفر کیا۔ کانراڈ نے مارچ 1978 میں بیس (20) سال کی عمر میں ایک ریوالور کی مدر سے اپنے آپ کو گولی مار کر خودکشی کی بھی کوشش کی تھی۔ 9، اگست 1886 میں کانراڈ نے برطانوی شہریت اختیار کی۔ 38 سال کی عمر میں۔۔" جنیی جارج" سے رشتہ ازدواج مین منسلک ھوئے۔ ان سے ان کے دو (2) بچے پیدا ھوئے۔ 1919 میں وہ کینٹری بری کے قریب " اوسالڈز"، بشپ بورن میں رہائش پزیر ھوئے۔ 1924 میں ایک امریکی ناشر کی دعوت پر نیویارک گئے۔ ۔ مارچ 1924 میں کانراڈ گھٹیا کے مرض کا شکار ھوئے اور تیزی سے ان کی صحت تیزی سے گرنے لگی۔ انگلستان کی وزیر اعظم نے ان کو "سر" کے خطاب سے نوازنا چاھا جسے انھوں نے ٹھکرادیا۔ مشہور فلسفی اور ماہر ریاضیات براندڈرسل ان کی تحریروں سے بہت متاثر تھے اور رسل نے اپنے ایک صاحبزادےکا نام ‘ کانراڈ رکھنے کے لیے کانراڈ سے اجازت چاھی تھی۔
3، اگست 19244 کو کانراڈ کا حرکت قلب بند بونے کے سبب انتقال ھوا۔ وہ سینٹ تھامس رومن کیتھولک چرچ کنٹری کے قبرستان مین رزق خاک ھوئے۔
کانراڈ مغربی سامراج سے اپنی ناگواری کا اظہار کیا ھے۔ اور انھوں نے مغربی ممالک سے باہر سامراجی عزام کا داخلی نوعیت کا نفسیاتی تجزیہ کیا ھے جو ان کی ‘ مہم جوئی اور سیاحی" تحریروں میں نمایاں ھے۔ انھیں انگریزی نثر کے بیانیہ کو استعمال کرتے ھوئے اخلاقی شعور سے پردہ اٹھایا اور کرداروں کے ڈرامائی اظہاریت کو نیا رنگ دیا۔ ان کے انتہا پسندانہ اور خطرناک قسم کے کرداروں کو مشہور نقاد ایف آر لویس نے بھی سراہا ھے اور اسے عظیم روایت کا حصہ قرار دیتے ھوئے جیں آسٹن، جارج ایلیٹ اور ہنری جیمس کا تسلسل قرار دیا۔ کانراڈ کا فکش اعصابی تناؤ، خود کلامیہ قنوطیت کے خمیر سے گوندھا ھوا ھے۔ جس میں رومانویت اور اخلاقی فیصلے پوشیدہ ہیں۔ لہذا ان کے رویوں میں اظہاریت کے مصوری اور بعض دفعہ نثری نظمون کا شائبہ ھوتا ھے جس کی مثال ان کی ناول " لارڈ جم" میں۔ "پٹنہ"۔۔ "کمرہ عدالت"۔۔ میں اداسی اور یاسیت کی منظر کشی کی گئی ھے ۔ یہی ان کا "تصور دینا" ھے۔ 1975 مین ایک نائجیریں نقاد "چینوا اچپ پی" نے کانراڈ کو " نسل پرست" ادیب کہا ھے۔ منور آکاش کانراڈ ادب کی شرط کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’ عاجزانہ خواہش یہ ہے کہ آرٹ کی شرط ہے کہ وہ ہونے والے کام کی ہر سطر میں اپنا جواز پیش کرے اور فن کی تعریف ایسے کی جا سکتی ہے جو ایک واحد ذہن کی نظر آنے والی کائنات میں اعلیٰ سطح کے جواز پیش کرنے کی کوشش کرے ، سچ کی روشنی کو برو ئے کار لاتے ہوئے گوناگوں اور ہر بنیادی سطح کو مد نظر رکھتے ہیں ۔ یہ ایک کاوش ہے اس کی ہیئتوں، اس کے رنگوں ، اس کی روشنی ، اس کے سایوں کو تلاش کرنے کی ، زندگی کے حقائق اور معاملات کے پہلوئوں میں جس میں سے ہر عنصر بنیادی ہے ، پائیدار ہے اور ضروری ہے یہ ایک روشن اور متاثر کن خصوصیت ہے سچ اور اس کے وجود کی فنکار مفکر اور سائنسدان کی طرح سچائی کی تلاش کرتا ہے اور اسے اپنے لئے پرکشش بناتا ہے دنیا کے مفکروں نے جو اپنے نظریات کے غوطے لگائے اور سائنسدانوں نے جو حقائق دریافت کئے ۔ایک فنکار ان کے پہلوئوں سے متاثر ہوتا ہے ۔ کہیں موجود اور اجاگر ہونے والی ہمارے ہونے کی یہ خصوصیات پر کشش انداز میں جینے کے خطرات اور ہمت پربہترین انداز میں فٹ ہوتی ہیں وہ حاکمانہ انداز میں ہماری عمومی حس ، ہماری ذہانت ، ہماری امن کی خواہش اور ہماری بد امنی کی خواہش پر بات کرتے ہیں ، ہمارے تعصبات پر کبھی نہیں ، کبھی کھبی ہمارے خوف پر اور کبھی کبھار ہماری انا پر ، لیکن ہمیشہ ہماری خوش فہمی پر۔ ان کے الفاظ تعظیم سے سنے جاتے ہیں ان کا نقطہ نظر بھاری معمولات ہیں جیسے ہمارے زہن کی نشونما ، ہمارے جسموں کی مکمل دیکھ بھال ، ہمارے اداروں کا اخلاق ، ہمارے عظیم اور قیمتی احداف کی تکمیل ، دوسری صورت میں یہ فنکار کے ساتھ ہے ۔ ایسی ہی چیستانی صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے فنکار اپنے اندر اتر جاتا ہے اور اس تنہائی ، دبائو اور تنائو کی کیفیت میں وہ حقدار ہوتا ہے یا خوش قسمت ، وہ اپنے پر کشش ضوابط کو تلاش کرتا ہے ۔ اس کی یہ تلاش ہماری کم گنجائش سے بنتی ہے ۔ ہماری فطرت کا یہ حصہ ، جو بقاء کی جنگ جیسی حالت کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ لازمی طور پر یہ مزاحمتی اور مشکل خصوصیات آنکھ سے اوجھل رکھی جاتی ہیں ۔ جیسے خطرے سے دو چار جسم زرہ بکترر کھتا ہے یہ تلاش سست رو ہے ، زیادہ گہری ، کم منفرد ، زیادہ فعال اور جلد فراموش کر دی جانے والی۔ مگر اس کے اثرات ہمیشہ رہیں گے ۔ کامیاب نسلوں کی تبدیل ہوتی ہوئی ذہانت ، برطرف خیالات، سوالیہ حقائق ، ختم ہوتے نظریات ، مگر فنکار کی ہمارے ہونے کی یہ تلاش ذہانت پر منحصر نہیں ہے یہ جو ہمارے اندر فطری صلاحیت ہے نہ کہ جو ہم نے حاصل کی ہے ، جو زیادہ پائدار ہے اور مستقل ۔ وہ ہماری خوشی اور حیرانی کی صلاحیت پر بات کرتا ہے اس اساطیری حس پر جس سے ہماری زندگی گھری ہے ہماری رحم دلی ، دکھ اور خوبصورتی کی جس سے ہمارے ساتھیوں کے اندرونی احساسات سے تمام مخلوق کے ساتھ ، ٹھیک ٹھیک لیکن نظر نہ آنے والا سالمیت کا احساسِ جرم جو بے شمار تنہا دلوں کو ایک ساتھ جوڑ کے رکھتا ہے ۔ اس سالمیت سے جو خوابوں میں ہے ، خوشی ، غم میں ، تنہا ، دھوکے میں ، امید میں ، خوف میں ، جو انسانوں کو آپس میں جوڑتی ہے ، جو تمام انسانیت کو جوڑتی ہے ، مرے ہوئوں کو زندوں سے اور زندوں کو پیدا ہونے والوں سے۔ “ کانراڈ کی ناولز میں کئی جدید ادبی اور تنقیدی نظریات چھپے ہیں۔ ان کی مختصر کہانیاں بھی طویل ھوتی ہیں۔ انھوں نے اپنے کتاب ۔۔" اے پرسنل ریکارڈ" میں لکھا ھے۔ ۔۔۔"وہ جو لوگ میری تخلیقات کو پڑھتے ہیں، دنیا کے متعلق میرے عقائد کو جانتے ہیں۔، یہ مادی دینا تھوڑے سے سیدھے سادے تصوارات پر قائم ھے، یہ خیالات اتنے سادہ ہیں۔ کی پہاڑوں کی طرح قدیم معلوم ھوتے ہیں ان میں ایک تصور وفاداری کا ھے۔" ۔۔۔ جدید فکشن نگاروں ایندی مارلو، ولیم فاکنر اور گراھم گرین پر جوزف کانراد پر خاصا اثر ھے ان کا خیال ھے کہ فرد کا برائیاں آہستہ آہستہ اندر سے کھائے جارھی ھے۔ ان کی ناولز یہ ہیں :-
1895 Almayer's Folly
1896 An Outcast of the Islands
1897 The Nigger of the 'Narcissus'
1899 Heart of Darkness
1900 Lord Jim
1901 The Inheritors (with Ford Madox Ford)
1902 Typhoon (begun 1899)
1903 Romance (with Ford Madox Ford)
1904 Nostromo
1907 The Secret Agent
1911 Under Western Eyes
1913 Chance
1915 Victory
1917 The Shadow Line
1919 The Arrow of Gold
1920 The Rescue
1923 The Nature of a Crime (with Ford Madox Ford)
The Rover
1925 Suspense (unfinished, published posthumouslyy)
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔