ہسپانوی ادب
یہ 1980 ء کے گردا گرد کا زمانہ ہے ۔ میں اس وقت پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے پبلک ایڈ منسٹریشن ( MPA ) کا طالب علم تھا ۔ اس کے ایک سمیسٹر میں ’ لائبریری سائنس‘ پر بھی ایک کورس بڑھا ؛ کتابیں کیسے انڈیکس کی جاتی ہیں ، کلاسیفیکیشن ، اس کی سکیمیں ؛ ڈیوی ( Melvil Dewey ) اورچارلس ایمی کٹر ( Charles Ammie Cutter) ، کیٹالوگنگ وغیرہ وغیرہ ۔
انہیں دنوں کی بات ہے یا شاید کچھ عرصہ بعد کی ، مجھے دسمبر 1970 ء کے انتخابات کے حوالے سے کچھ اخباری تراشوں اور بدیسی رسالوں میں چھپی رپورٹوں کی تلاش تھی ؛ کھوج یہ لگانی تھی کہ بھٹو نے " اِدھر ہم اُدھر تم " والی بات اپنی تقریر میں کہی تھی یا نہیں اور یہ کہ یہ شہ سرخی عباس اطہر ( مرحوم ) کی ذہنی اختراح تھی یا بھٹو کی تقریر میں ایسا مواد ( substance ) واقعی تھا ۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ اس سلسلے میں ’ پاکستان ٹائمز ‘ کا ریفرنس سیکشن سب سے زیادہ موزوں جگہ تھی ۔ ’ پاکستان ٹائمز‘ اس وقت رتن چند روڈ ( موجودہ ہسپتال روڈ ) پر پی پی ایل (Progressive Papers Limited ) کی عمارت ( سابقہ رتن چند مینشن ) میں ہوتا تھا ۔ میں وہاں گیا ۔ یہ عمارت میرے لیے اجنبی نہیں تھی میں وہاں اپنے مضامین چھپوانے کے لیے سکول کے زمانے سے ہی جاتا رہا تھا ؛ امروز کے بچوں کے صفحے کے ایڈیٹر ' عزیز اثری ' کہاں بیٹھے تھے اور پھر بعد میں ، میں نے یہ بھی جانا تھا کہ صفدر میر کس کمرے میں ہوتے تھے ، مصور ' محمود بٹ ' کا کمرہ کہاں تھا اور یہ کہ ریفرنس سیکشن کہاں تھا ۔ میں نے ریفرنس سیکشن میں بیٹھے ’ میاں نظام الدین ‘ جنہیں سب چاچا نظام دین کہہ کر بلاتے تھے ، کو سلام کیا ۔ وہ اخباروں کے تراشے کاٹنے میں مصروف تھےاور انہیں خاکی لفافوں میں رکھ رہے تھے، انہوں نے سر اٹھایا اور انہیں شاید میرا چہرہ شناسا لگا ہو گا اس لیے بس سر ہلا کر ہی جواب دیا اور پھر اپنے کام میں لگ گئے ۔ میں کمرے میں لگی الماریوں میں وہ کچھ تلاش کرنے لگا جو مجھے درکار تھا ۔ مجھے اپنی اس جانکاری پر ناز تھا جو میں نے ’ لائبریری سائنس ‘ پر کورس میں بڑھا تھا لیکن لگ بھگ گھنٹہ بھر الماریوں کو پھرولنے کے باوجود جب مجھے اپنی مطلوبہ معلومات کا کوئی سرا ہاتھ نہ آیا تو میں یہ سمجھ گیا کہ اس ریفرنس سیکشن پر اس کتابی علم کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا جو ’ لائبریری سائنس ‘ پر کورس میں شامل تھا ، وہاں رکھی کتابوں کے پشتوں پر بھی ویسا کچھ نہیں لکھا تھا جیسا لائبریریوں میں ان پر لکھا ہوتا ہے اور نہ ہی وہاں کوئی کیٹالاگ یا انڈیکس باکس تھا ۔ اب میرے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا کہ میں چاچا نظام دین سے رجوع کروں ۔ میں جب ان کی طرف مڑاتو وہ پہلے ہی مجھے گھور رہے تھے جیسے حیران ہوں کہ میں وہاں گھنٹہ بھر سے کیا کر رہا تھا ؛
” او مُنڈیا کیہ لبھ رہیا ایں ! “
انہوں نے کہا اور جب میں نے ان سے اپنا مدعا بیان کیا تو وہ مسکراتے ہوئے اٹھے اور بولے ؛
" اے لائبریری نئیں جِتھے ڈیوی شیوی نئیں ورتیا جاوے ایہہ پی پی ایل دا ریفرنس سیکشن اے جنہوں نواز نے بنایا سی اتے میں سانبھیا ہویا اے ۔ ایتھے جو کجھ وی اے اوس دی کنجی ایتھے وے ۔" ، انہوں نے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا اور سیدھے دور کونے میں رکھی ایک الماری کی طرف گئے اور اس کے ایک خانے میں رکھے خاکی کاغذ کے لفافوں کے ایک ڈھیر کی طرف اشارہ کیا ۔
” ایہہ ویکھ لے ، تیرے کم دا سارا مال اینہاں وچ ای اے ۔ “
میں نے لفافوں پر سے گرد جھاڑی اور پھر مجھے وہ سب کچھ انہی لفافوں میں سے مل گیا جو مجھے چاہیے تھا ۔
اس وقت مجھے چاچا نظام دین کی یاد اس لیے آئی کہ میں ’ برٹ برائٹن ‘ (Burt Britton ) نامی ایک امریکی بندے کے بارے میں پڑھ رہا تھا جو نیویارک کے علاقے ’ مین ہٹن ‘ میں براڈوے پر واقع ’سٹرینڈ بُک سٹور‘ (Strand Book Store) میں ملازم رہا تھا اور گزشتہ برس 21 جولائی کو 84 سال کی عمر میں فوت ہوا تھا ۔ یہ کتابوں کے اس سٹور پر نوکری کرنے سے پہلے ٹیکسی چلاتا تھا ، شراب خانوں میں بیرہ گیری کرتا تھا وہ ویسا ہی تھا جیسے ہماراچاچا نظام دین جسے میں نے ہمیشہ دیسی لباس میں ہی دیکھا تھا لیکن برائٹن میں کچھ ایسا ضرور تھا کہ وہ بااثر لوگوں پر اپنا اثر رکھتا تھا ، ویسے ہی جیسے ہم سب چاچا نظام دین کی مدد کے بغیر پاکستان ٹائمز کے ریفرنس سیکشن سے کچھ بھی تلاش نہیں کر سکتے تھے ۔ ’ سٹرینڈ بُک سٹور‘ میں کام کرنے کے بعد ’ برٹ برائٹن‘ نے شراکت داری میں کتابوں کی اپنی دکان کھول لی تھی ۔ اسے ایسا ہی سمجھ لیں جیسے چاچا نظام دین نے پاکستان ٹائمز بند ہونے پر ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کی نوکری کر لی تھی اور وہاں بھی ریفرنس سیکشن ہی مرتے دم تک سنبھالا تھا ۔
آیئے اب میں آپ کو 1970 کی دہائی کے سالوں میں نیویارک لے چلتا ہوں: یہ مینہٹن میں 828 ۔ براڈ وے ہے ؛ آپ کے سامنے سٹرینڈ بُک سٹور موجود ہے ۔ آپ اس میں داخل ہوتے ہیں تو سامنے عین وسط میں ایک ایزل پڑا ہے جس پر ایک بورڈ ٹِکا ہے اور اس بورڈ پر ایک ’ سکالر‘* شیٹ لگی ہوئی ہے ۔ یہ وہاں یوں ایستادہ ہے جیسے اس بک سٹور کے تہہ خانے سے اوپر کی جانب ابھرا ہو ؛ جیسے لائم سٹون کے پہاڑوں میں واقع غاروں میں کیلشیم کاربونیٹ کے ستون زمین سے پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اس کے چاروں طرف رسی تنی ہوئی ہے ۔ رسی کے ارد گرد سامنے کا کچھ حصہ چھوڑ کر کتابوں کے انبار لگے ہوئے ہیں ۔ ایزل کے پاس سٹول پر ایک بندہ بیٹھا ہے ۔ وہ شکل و صورت سے ' ہِپی ' یا شاید ' پاپارازی ' لگ رہا ہے گو اس کے پاس کیمرہ نہیں ہے ؛ اس کے بال لمبے اور بے ترتیب ہیں ، داڑھی مونچھیں بھی الجھی ہوئی اور ناتراشیدہ ہیں ، منہ میں سلگتے سگار کا ٹکڑا ہے ، آنکھوں پر رے بین کی عینک ہے ۔ یہ بندہ چونکہ سی آئی اے والوں میں سے نہیں اس لیے اس کی عینک کے شیشے کالے نہیں ہیں ۔ اس نے نیلی جین کی پتلون اور جیکٹ پہن رکھی ہے ۔ اس کے ہاتھ میں ایک کھلی کتاب ہے اور وہ اسے پڑھ رہا ہے ۔ یہ ’ برٹ برائٹن ‘ ہے اور شائد نیویارکیوں میں اپنی نوعیت کا ایک ہی بندہ ہے ۔ اس کی تین خصوصیات ہیں :
اول ، سٹرینڈ بُک سٹور میں آنے والی ہر نئی کتاب ، خصوصاً فکشن کا پہلا قاری وہ خود ہے ۔
دوم چاچا نظام دین کی طرح اسے بھی یہ اچھی طرح سے پتہ ہے کہ کونسی کتاب کس الماری یا کس ڈھیر میں کہاں پڑی ہے ۔
سوم ، اسے جنون کی حد تک شوق ہے کہ وہ فنون لطیفہ اور ادب سے وابستہ لوگوں کو گھیرے اور انہیں قائل کرے کہ وہ ایزل پر لگی ’ سکالر‘ شیٹ پر اپنا ’ سیلف ۔ پورٹریٹ ‘ بنائیں یا ' سٹوڈیو ۔ 54 ' ** میں اس کے ساتھ بیٹھ کر مارگریٹ (Margaret Trudeau) *** کی پرفارمینس دیکھے اور شراب پئیے جس کے دوران وہ مناسب موقع دیکھ کر سکالر شیٹ اور قلم ان کے سامنے رکھ دیتا تھا اور وہ اپنا خاکہ بنا ڈالتے تھے ۔
میں نے اوپر لکھا ہے کہ وہ بااثر لوگوں پر اپنا اثر رکھتا تھا ؛ اس کی وضاحت یہ ہے کہ وہ اپنی پہلی خصوصیت کی بِنا پر دکان میں آنے والے بندوں کو اس بات پر قائل کر لیتا تھا کہ وہ اپنی مطلوبہ کتاب کے علاوہ اسی موضوع پر ایک اور یا اس سے بھی زیادہ کتابیں خریدیں ؛ یوں وہ سٹرینڈ بُک سٹور والوں کے لیے ایک عمدہ سیلز مین تھا ۔ دوسری خصوصیت بھی اسے ایک عمدہ سیلزمین ہونے کے حوالے سے ممتاز کرتی تھی ۔
رہا سوال تیسری خصوصیت کا ، توبرائٹن نے ستر کی دہائی کے اختتام تک اس سٹور پر آنے والی فنون لطیفہ جڑی اور ادبی شخصیات میں سے 500 سے زائد سے ’ سیلف پورٹریٹ ‘ بنوا لیے تھے ۔ ان ادبی شخصیات میں کرٹ وونیگٹ ، جان شیور ، نارمن میلر، للین ہیلمین، نوبل انعام یافتہ سال بیلو اور دیگر کئی معروف ادیبوں کے علاوہ خورخے لوئیس بورخیس بھی تھا ۔
خورخے لوئیس بورخیس 1955 ء میں ارجنٹینا کی نیشنل لائبریری کا ڈائریکٹر لگایا گیا تھا ، اسی برس وہ بینائی سے ایسے محروم ہوا تھا کہ وہ پڑھ نہیں سکتا تھا اس کے بیس سال بعد جب وہ نیویارک گیا تو وہ سٹرینڈ بُک سٹور میں بھی گیا ؛ وہ اپنے مترجم کے ہمراہ تھا ۔ بورخیس کو دیکھ کر برٹ برائٹن کی آنکھوں میں چمک آئی ۔ وہ بورخیس کی طرف لپکا اور بورخیس کے اس ہاتھ پر اپنا ہاتھ جمایا جس میں اس نے چھڑی تھام رکھی تھی ، اور اس سے باتیں شروع کر دیں ۔ برائٹن نے جلد ہی مترجم کے ذریعے بورخیس کو ’ سیلف ۔ پورٹریٹ ‘ بنانے پر راضی کر لیا ۔ بورخیس کے راضی ہوتے ہی برائٹن نے ایزل اٹھایا اور بورخیس کو ساتھ لیے تہہ خانے کی سیڑھیاں اتر گیا ۔
برائٹن کے مطابق ، بورخیس نے اپنا پورٹریٹ ایسے بنایا تھا کہ اس کا ایک ہاتھ قلم کو چلا رہا تھا ، قلم جو کہ اس کے دوسرے ہاتھ میں تھا ۔
برائٹن نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ بھی بتایا تھا ؛
” اس کا بنایا سیلف ۔ پورٹریٹ زبردست ہے ، لیکن مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب میں اس کے ہمراہ تہہ خانے سے اوپرمرکزی ہال میں آیا تو مجھ پر یہ بات کھلی کہ وہ اپنے کانوں سے بینائی کا کام بھی لے رہا تھا ؛ اس نے مجھے کہا تھا ، ’ تمہارے پاس تو اتنی زیادہ کتابیں ہیں جتنی کہ ہماری نیشنل لائبریری میں موجود ہیں ۔ ' ، مجھے لگا کہ وہ اورآوازوں کے علاوہ اس ہال ، وہاں پڑے کتابوں کے ڈھیروں اور الماریوں میں موجود کتابوں کو بھی سن رہا تھا ۔ ''
برائٹن پہلے تو اس بات پر مُصر رہا کہ یہ ’ سیلف پورٹریٹ ‘ اس نے اپنے شوق ( hobby ) کی تکمیل کے لیے نجی ذخیرے کے لیے اکٹھے کیے تھے لیکن بعد میں اس نے اپنے اس ذخیرے پر مبنی ایک کتاب چھاپ دی ؛ ” سیلف پورٹریٹ کتاب: لوگ خود کو کیسے مصور کرتے ہیں ( Self-Portrait: Book People Picture Themselves) ۔
عام طور پر بورخیس کا جو سیلف ۔ پورٹریٹ دیکھنے کو ملتا ہے وہ اس مضمون کے بینر میں وہ ہے ، جس پر میں نے نمبر 1 لکھا ہوا ہے لیکن برائٹن کی کتاب میں جو پورٹریٹ شامل ہے اور جسے ’ دی پیرس ریویو‘ نے 1976ء میں کتاب کے اقتباسات کے ہمراہ چھاپا وہ ذرا فرق ہے اور یہ بینر میں وہ ہے جسے میں نے 2 نمبرٹیگ کیا ہے ۔
میں دوسرے والے کو زیادہ معتبر گردانتا ہوں گا کیونکہ اس کا سورس (source ) زیادہ معتبر ہے ۔ ویسے دونوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے بورخیس نے ڈرائنگ کرتے وقت دو’ سکالر‘ شیٹیں برتیں ہو گیں اور اپنے دو خاکے بنائیں ہوں گے جبکہ برائٹن نے کتاب میں ایک منتخب کرکے لگایا ہو گا ، اس لیے شاید دونوں ہی اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہوں ۔
لیکن ذرا غور کریں خاکہ نمبر 2 کے نیچے کیا لکھا ہے؟ لگتا ہے کہ یہ ’ ٹینگل ووڈ ‘ (TANGLE WOOD) لکھا ہوا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ بورخیس نے شاید یہ نہیں لکھا ہوا ۔ آپ میں سے کوئی یہ قیاس آرائی کرے گا کہ بورخیس نے ان ٹیڑھے میڑے حروف کے ذریعے کیا لکھنا چاہا تھا ؟
میں نے جب بورخیس کے یہ ' سیلف ۔ پورٹریٹ ' خاکے دیکھے اور ان کا موازنہ دیگر ' بینا ' ادباء کے بنائے اپنے خاکوں سے کیا تو مجھے ایک اچھوتا خیال آیا کہ ' برٹ برائٹن ' کو چاہیے تھا کہ وہ بینا ادباء کی آنکھوں پر بھی پٹی بندھوا کر پورٹریٹ بنواتا کیونکہ بورخیس کا اپنا بنایا خاکہ اس کتاب کا واحد خاکہ ہے جو نہ صرف منفرد ، اچھوتا بلکہ پیچیدہ بھی ہے اور اسے شاید تجریدی آرٹ کا ایک شاہکار بھی کہا جا سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب نہ پاکستان ٹائمز رہا ہے اور نہ وہ عمارت جس میں یہ روزنامہ امروز ، ہفتہ وار سپورٹ میگزین اور لیل و نہار کے ہمراہ نکلتا تھا ۔ رتن چند روڈ البتہ ابھی موجود ہے جو عرف عام میں ہسپتال روڈ کہلاتی ہے ۔ چاچا نظام دین بھی سالوں پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گیا تھا ۔ اور تو اور اس کا سنبھالا اور بنایا ریفرنس سیکشن بھی تباہ ہو گیا ، کیوں ؟ یہ ایک الگ داستان ہے ۔
* سکالر شیٹ (20x 30) ستر کی دہائی میں خاکہ کشی کے لیے برتا جانے والا کاغذ ۔
** ستر کی دہائی کا براڈ وے پر موجود ایک نائٹ کلب جو اب براڈ وے تھیئٹر کہلاتا ہے ۔
*** کینیڈا کے 15 ویں وزیر اعظم ' Pierre ' کی سابقہ بیوی جو اپنے آپ میں ادیبہ ، اداکارہ اور فوٹوگرافر ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...