سیّد برادران نے پوری سلطنت کو مٹھی میں لے رکھا تھا!
آغاز ان کے اثر و رسوخ کا اورنگزیب کے زمانے ہی میں ہو چکا تھا۔ بڑا بھائی سید حسن علی خان شہنشاہ کی آخری مہمات میں اس کے ساتھ تھا۔ پھر اس کے جنازے میں شریک ہوا۔ چھوٹا بھائی سید حسین علی خان ذہانت میں تیز تر تھا۔ پہلے اجمیر پھر آگرے کا حاکم رہا۔
1707
ء میں اورنگزیب نے دنیا سے کوچ کیا۔ اس کے بعد بارہ سال میں سات مغل شہزادے یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوئے۔ میوزک چیئر کے اس کھیل میں سارا کنٹرول سید برادران کے ہاتھ میں رہا! اورنگزیب کا بیٹا معظم، بہادر شاہ اوّل کے لقب سے تخت پر بیٹھا تو سید برادران اس کی پشت پر تھے۔ پانچ سال بعد وہ مرا تو اس کے جانشین جہانداد شاہ کو سید برادران نے قتل کرا دیا۔ پھر فرخ سیر نے سلطنت سنبھالی تو اصل بادشاہت سید برادران کے ہاتھ میں رہی۔ فرخ سیر اُن کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ناچتا تھا۔ 1791ء میں ان دونوں بھائیوں نے بادشاہ کو قید کر لیا۔ پہلے اُسے بھوکا رکھا گیا۔ پھر سوئیوں سے آنکھیں نکال کر اندھا کیا گیا۔ پھر گلا گھونٹ کر مار دیا گیا۔ پھر اس طاقتور جوڑے نے رفیع الدرجات کو تاج پہنایا۔ پھر رفیع الدولہ کو اور پھر محمد شاہ کو!
محمد شاہ نے ایک سبق سیکھا کہ حکومت کرنی ہے تو ان بھائیوں سے جان چھڑائو۔ اس نے نظام الملک آصف جاہ کو ساتھ ملایا اور ان کا خاتمہ کیا۔ چھوٹے کو فتح پور سیکری میں قتل کر دیا گیا، بڑے کو زہر دیا گیا!
لیکن یہ واحد جوڑا نہ تھا جو برصغیر میں مشہور ہوا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تھیلے سے بھی ایک جوڑا نکلا جو برصغیر پر چھا گیا۔ یہ مٹکاف برادران تھے۔ بڑے کا نام چارلس مٹکاف تھا۔ پیدائش کلکتہ کی تھی اسی لیے کہ باپ بنگال آرمی میں میجر کے عہدے پر فائز تھا!
چارلس مٹکاف 19 برس کی عمر میں اُس انگریز جرنیل کا پولیٹیکل اسسٹنٹ لگ گیا جو مرہٹوں کے ساتھ لڑ رہا تھا۔ پھر اسے رنجیت سنگھ کے دربار میں سفیر بنا کر بھیجا گیا۔ پھر دہلی میں ریزیڈنٹ مقرر ہوا۔ یاد رہے کہ دہلی کا اصل اقتدار مغل بادشاہ کے ہاتھ میں نہیں‘ انگریز ریزیڈنٹ کے ہاتھ میں تھا۔
کچھ عرصہ کے لیے چارلس مٹکاف کو نظام کے دربار میں تعینات کیا گیا مگر دہلی میں پھر ضرورت آن پڑی! ایک وقت ایسا بھی آیا کہ چارلس بنگال کا قائم مقام گورنر جنرل بنا جو اُس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی میں بلند ترین منصب تھا۔ پھر لندن کی حکومت نے اُسے جمیکا کا والی بنا کر بھیجا۔ آخری اہم تعیناتی کینیڈا میں رہی جہاں وہ گورنر جنرل بنا کر بھیجا گیا۔ چھوٹا بھائی تھامس مٹکاف بڑے بھائی سے بھی زیادہ مشہور ہوا۔ وہ اٹھارہ برس کی عمر میں دہلی وارد ہوا اور چالیس سال یہاں رہا۔ دہلی کے نواح میں اس نے اپنا محل ’’مٹکاف ہائوس‘‘ کے نام سے بنایا۔ مقامی ملازمین اسے ’’مٹکا کوٹھی‘‘ کہتے تھے۔ دہلی تعیناتی کے دوران اس نے مشہور ہندوستانی مصور مظہر علی خان سے دہلی کے تاریخی مقامات کی تصویریں بنوائیں۔ ان میں محلات‘ خانقاہیں‘ مزار اور دیگر یادگار عمارتیں شامل تھیں۔ آج ہم مظہر علی خان کا نام بھی نہیں جانتے۔ ان تصاویر کو کتابی شکل میں ڈھالا گیا، اسے دہلی بُک یا دہلی البم بھی کہا جاتا ہے۔ اصل میں تھامس نے اسے اپنی بیٹیوں کے لیے ترتیب دیا تھا۔ کئی عمارتیں جو 1857ء میں منہدم ہو گئیں اس البم کے اوراق میں اپنی اصل حالت میں محفوظ ہیں! 1853ء میں تھامس کو معدے کا مرض لاحق ہوا جو کنٹرول نہ کیا جا سکا۔ ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ اُس کی اپنی رائے بھی یہ تھی کہ اسے بہادر شاہ ظفر کی ملکہ زینت محل نے زہر دیا تھا!
یوں تو امریکہ میں بھی جوڑے مشہور ہوئے (مثلاً بونی اور کلائیڈ! بونی عورت تھی اور کلائیڈ مرد! 1930ء کے عشرے میں انہوں نے خوب دہشت پھیلائی۔ لوٹ مار کے درمیان کئی پولیس افسروں کو قتل کیا) مگر ہم نہیں چاہتے کہ مشہور جوڑوں کا ذکر کرتے ہوئے ہم برصغیر سے باہر جا نکلیں!
اس وقت پیش منظر پر جو جوڑا چھایا ہوا ہے وہ میاں محمد نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن کا ہے۔ گزشتہ ہفتے مولانا کی دعوت پر وزیر اعظم بنوں تشریف لے گئے۔ وہاں بڑے بڑے بینروں پر دونوں رہنمائوں کی تصاویر آویزاں تھیں جن کے نیچے لکھا تھا ’’جوڑی سلامت رہے!‘‘ پھر جلسے کے اختتام پر جب مولانا اور وزیر اعظم نے باہم پیوست ہاتھ فضا میں بلند کیے تو اکرم درانی صاحب نے برجستہ کہا ’’جوڑی سلامت رہے‘‘! چوہدری شجاعت حسین بے پناہ ذہانت کے مالک ہیں۔ انہوں نے لقمہ دیا ہے کہ مولانا کو آگے سے یہ کہنا چاہیے تھا کہ ’’جوڑیاں سلامت‘ بھاگ لگے رہن! میاں صاحب دے ناں دی ویل!‘‘ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ شرارتی چوہدری صاحب نے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا!
مگر اس جوڑے کو مذاق میں نہیں ٹال دینا چاہیے! اس وقت میاں نواز شریف کا دل اور مولانا کا ذہن اکٹھے ہو گئے ہیں! ایک کے سینے میں دل ہے اور دوسرے کے سر میں دماغ! اسے انگریزی میں
Lethal Combination
کہتے ہیں! اس میں کیا شک ہے کہ مولانا کو جو ذہانت اور فطانت قدرت نے ودیعت کی ہے‘ اس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملے گی! یہ ملت اسلامیہ کی بدقسمتی ہے کہ مولانا تاریخ کے اہم چوراہوں پر موجود نہ تھے۔ آپ کا کیا خیال ہے اگر جلال الدین خوارزم شاہ کے دربار میں مولانا ہوتے تو تاریخ مختلف نہ ہوتی؟ چنگیز خان کے ساتھ مذاکرات کے لیے انہیں بھیجا جاتا تو چنگیز خان چُپ کر کے منگولیا واپس چلا جاتا‘ یہ اور بات کہ مولانا کو اپنا مشیر مقرر کر کے ساتھ ہی لے جاتا! ابراہیم لودھی کی دسترس میں مولانا ہوتے تو بابر کا توپ خانہ بے کار جاتا اور آج تاریخ مختلف ہوتی! نادر شاہ درانی دہلی پر حملہ آور ہوا اور محمد شاہ رنگیلا سے تخت طائوس چھین کر ایران لے گیا۔ مولانا اُس وقت ہوتے تو تخت طائوس آج تک ڈی آئی خان میں ہوتا! مولانا ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس ہوتے تو برصغیر پر قبضہ کرنے کے لیے کمپنی کو جنگیں نہ لڑنا پڑتیں۔ اورنگزیب کے جانشین مولانا کی صبحت سے فیض یاب ہوتے تو مغل سلطنت آج بھی قائم و دائم ہوتی، یہ اور بات کہ دارالسلطنت دریائے سندھ کے کنارے ہوتا!
ایئر مارشل اصغر خان کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں جوڑا بنانے کی دعوت دی تھی کہ بیس سال مل کر حکومت کریں گے! یہ جوڑا نہ بن سکا۔ اصغر خان نہ مانے! اب جو جوڑا بنا ہے میاں صاحب اور مولانا صاحب کا، تو بیس برس اس جوڑے کی صلاحیتوں کے لیے ایک لمحے سے بھی کم ہے! وزیر اعظم خوش بخت ہیں کہ اس مشکل وقت میں جب پیپلز پارٹی نے بھی آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں، انہیں مولانا صاحب کا ساتھ میسر ہے! عمران خان اور اعتزاز احسن برسوں بھی جدوجہد کرتے رہیں تو سراب کے سوا کچھ نہ پائیں گے! یہ طفلان مکتب کیا جانیں کہ زنبیل میں کیا کچھ ہے! غلام اسحاق خان نے مشہور شعر پڑھا تھا جو اس کے بعد اور مشہور ہو گیا تھا ؎
گمان مبر کہ بہ پایان رسید کار مغاں
ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است
اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ شراب خانے کا کام ٹھپ ہو گیا ہے‘ ابھی تو انگور کی بیل میں بہت شراب موجود ہے! آج جناب وزیر اعظم اور مولانا کا جوڑا یہی شعر متحدہ اپوزیشن کو سُنا سکتا ہے اور للکار کر سنا سکتا ہے!
مولانا کا نام نامی تو تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہے ہی! جناب وزیر اعظم کے لیے بھی یہ کیا کم اعزاز ہے کہ تاریخ میں ان کا نام مولانا کے ساتھ جوڑے کی صورت میں زندہ رہے گا۔ جہاں سید برادران‘ مٹکاف برادران اور علی برادران کا نام زندہ ہے‘ وہاں میم برادران (میاں اور مولانا) کا نام بھی درخشندہ و تابندہ رہے گا! دونوں ایک دوسرے کے لیے ماشاء اللہ عزت افزائی کا سبب بنیں گے۔ قائد اعظم اوّل کے ساتھ لیاقت علی خان کا نام آئے گا۔ قائد اعظمؒ ثانی کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کا نام آئے گا! ستر سال بعد تاریخ نے کروٹ لی ہے! قوم کا مقدر بدلا ہے۔ اکرم درانی کے منہ میں گھی شکر جس نے ’’جوڑی سلامت رہے‘‘ کہہ کر قوم کو روشنی کی نئی کرن دکھائی ہے! کردار کی جو مضبوطی لیاقت علی خان میں تھی‘ حقیقت یہ ہے کہ مولانا میں اس سے بھی زیادہ پائی جاتی ہے! یہ جو مشرف عہد کی زمینوں کی بات کی جاتی ہے یا یہ جو سوشل میڈیا میں آئے دن اس قسم کی فضولیات سامنے آتی رہتی ہیں کہ ’’رقم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ یہ سب دروغ گوئی ہے اور حسد اور بغض کی علامات! کہ کُند ذہن لوگ ایک روشن دماغ کی صلاحیتوں سے خائف ہیں!
خدا اس جوڑے کو سلامت رکھے! نظر بد سے بچائے‘ پوری قوم سے درخواست ہے کہ چاروں قُل شریف پڑھ کر اس جوڑے کی تصویر پر پھونکیں!
غالب کی ایک فارسی غزل یاد آ رہی ہے۔ اس میں شاعر محبوب کو دعوت دیتا ہے کہ
نہیم شرم بہ یکسو و باہم آویزیم
بہ شوخیٔ کہ رُخِ اختران بگردانیم
آئو‘ شرم کو ایک طرف رکھ دیں اور ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ جائیں۔ ایسی شوخی کے ساتھ کہ ستارے منہ دوسری طرف کر لیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“