جدید میڈیسن سے کمپیوٹر امیجنگ، مالیکیولر سطح پر جا کر بنائی گئی ادویات، کی ہول سرجری یا روبوٹس کا جادو آتا ہے لیکن میڈیسن کا فیلڈ اس سے زیادہ دلچسپ ہے۔ تین جبڑوں اور ایک سو دانتوں والی جونکیں یا قدیم چینی ٹوٹکے بھی جدید میڈیکل سائنس کے اسلحے کا حصہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جونک اپنے دانت اپنے میزبان کے جسم میں گاڑ دیتی ہے۔ اس کو سُن کرنے کا ٹیکہ لگاتی ہے تا کہ وہ ڈسٹرب نہ ہو۔ کیمیکل شریانوں میں داخل کرتی ہے تا کہ شریانیں کھل جائیں اور خون بہنے میں آسانی رہے۔ خون جمنے سے روکنے کیلئے اینٹی کوگلنٹ داخل کرتی ہے تا کہ خون نہ رکے اور اس کی ضیافت جاری رہے۔ اور پھر پارٹی شروع۔ یہ خون پینا شروع کر دیتی ہے۔ اپنے جسم کے وزن سے دس گنا تک خون چوس سکتی ہے۔ خوفناک؟
جونک لگا کر علاج کرنے کی تاریخ کم از کم اڑھائی ہزار سال پرانی ہے۔ انڈیا میں قدیم آئیورویدک ٹیکسٹ میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ قدیم یونان میں بقراط کی اڑھائی ہزار سال پرانی کتاب میں ملتا ہے۔ یورپ میں طبِ یونان سے آنے والا جسم میں چار ہیومر (رطوبتوں) کے توازن کے غلط خیال نے اسے مقبول بنا دیا۔ بخار کی وجہ سے رنگت سرخ ہو رہی ہے؟ خون زیادہ لگ رہا ہے۔ جونک لگا دو۔ جسم میں بے چینی محسوس ہو رہی ہے؟ خون زیادہ لگ رہا ہے۔ جونک لگا دو۔
پرانی انگریزی میں ڈاکٹر کے لئے لیچ یعنی جونک کا لفظ استعمال ہوتا تھا اور ڈاکٹری کو لیچ کرافٹ کہا جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ جالینوس کی چار ہیومر والی اناٹومی غلط ثابت ہو چکی تھی لیکن یورپ میں علاج کا یہ طریقہ جاری اور مقبول رہا۔ یورپ کے دنیا میں غلبے کی وجہ سے یہ باقی دنیا میں پہنچا۔ انیسویں صدی اس طریقہ علاج کا عروج تھا۔ یورپ میں جونکیں لگوانے کا جنون تھا۔ کہا یہ جاتا تھا کہ جونک لگانے سے گندا خون اور زہریلے مادے نکل جاتے ہیں۔ ذیابیطس سے لے کر ہیضے اور موسمی بخار تک کے مریضوں کا خون چوس کر ان کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ امریکہ نے کئی ملین جونکیں جرمنی سے درآمد کیں کہ امریکی جونکیں خون اچھی طرح سے نہیں چوستیں۔ ہسپتالوں میں ان کو ذخیرہ کرنے کی الگ جگہیں ہوتیں۔ ان کی بڑے پیمانے پر فارمنگ کی جاتی تھی۔ بہت سے لوگوں کی موت اس طرح علاج کی وجہ سے ہوئی۔ انیسویں صدی میں لندن میں پھیلنے والی ہیضے کی وبا میں جونکیں لگوانے کے اس جنون نے بڑی تعداد میں مریضوں کی زندگیاں نگل لیں۔ اس کا شکار ہونے والوں میں امریکی صدر جارج واشنگٹن بھی تھے جن کی گلے کی انفیکشن کا علاج اس طرح سے کیا گیا تھا۔ یہ ان کی موت کا سبب بنا۔
کیمسٹری اور بائیولوجی جیت گئیں۔ بیسویں صدی کے آغاز تک جونکوں سے علاج تاریخ کے کچرادان کی زینت بن چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوسٹن میں 1985 میں ایک پانچ سالہ بچے کا کان ایک کتے نے کاٹ دیا تھا۔ اس کے سرجن جوزف اپٹن نے کان واپس جوڑ دیا تھا لیکن وہ سیاہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اس میں خون کا بہاوٗ ٹھیک نہیں ہو رہا تھا۔ خون واپس نہیں جا رہا تھا۔ خون پتلا کرنے کی دوا کام نہیں کر رہی تھی۔ اپٹن نے جونکوں کے بارے میں آرٹیکل پڑھا تھا۔ انہوں نے ایک کمپنی بائیوفارم سے جونکیں منگوائیں۔ دو جونکیں بچے کے کان پر لگائیں۔ جونک، شریان کھولتی ہے اور خون کو پتلا کرتی ہے۔ یہی اس بچے کو ضرورت تھی۔ چند منٹ میں کان بہتر ہو گیا اور دو روز میں ٹھیک ہو گیا۔
اس طرح کی مائیکروسرجری کے بعد خون جمنے سے روکنے کے لئے فرانس اور یوگوسلاویہ میں بھی کام ہو چکا تھا اور اپٹن نے اس کام کا پڑھا تھا۔ اس پر ہیڈلائنز بنیں اور پراسس سے گزر کر 2004 میں جونک کو باقاعدہ میڈیکل ڈیوائس کے طور پر منظوری مل گئی۔ جونک کے منہ میں ایکٹو جزو ایک پروٹین ہے جس کا نام ہیروڈین ہے۔ اس سے فلیپ سرجری میں مدد کے علاوہ تکلیف کم کرنے، رگوں کے باہر نکلنے اور گھٹنے پر سوجن ٹھیک کرنے کے لئے کامیابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک چینی فارماکولوجسٹ ٹو یویو نے 1969 میں اینٹی ملیریا دوا بنانے کے پراجیکٹ پر کام شروع کیا۔ اس کے لئے ارٹمیسیا آنوا نامی پودے سے حاصل کردہ مواد سے امید تھی لیکن نتائج حوصلہ افزا نہیں آ رہے تھے۔ ٹو نے قدیم چینی لٹریچر کا سہارا لیا۔ چوتھی صدی قبلِ مسیح کی کتاب میں ارٹمیسیا کی بنیاد پر ایک دوا تیار کرنے کا طریقہ ملا۔ اس میں لکھا تھا کہ اس پودے کو اس میں بھگونا ہے جبکہ ٹو اس جزو کو نکالنے کے لئے اسے پانی میں ابال رہی تھیں۔ ٹو نے اندازہ لگایا کہ شاید گرم کرنے سے اس کا ایکٹو جزو ناکارہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے ابلتے پانی کے بجائے ایتھر کا محلول استعمال کیا۔ اس سے نکالے جانے والے جزو کو چوہوں پر اور پھر خود پر ٹیسٹ کیا اور پھر کلینیکل ٹرائل شروع ہوئے۔ انہوں نے ایک طاقتور دوا تیار کر لی تھی۔ یہ دوا ارٹمسنین ہے، جو ڈرگ کے خلاف مدافعت رکھنے والے ملیریا کا علاج کر سکتی تھی اور اب ملیریا کے خلاف استعمال ہونے والی سب سے عام دوائی ہے۔ بہت لوگوں کی جان بچا چکی ہے۔ ٹو کو اس پر 2015 میں نوبل انعام دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈیکل سائنس میں غرض صرف اس سے ہے کہ کس طریقے سے کس عارضے کا علاج ہو سکتا ہے۔ طریقہ جہاں سے بھی آ جائے، جیسا بھی ہو۔ خواہ ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ کام کیسے کرتا ہے، صرف موثر ہونا شرط ہے۔ کن حالات میں کس طریقے سے کونسے مرض میں کیا طریقہ کارگر ہے؟ اگر دکھایا جا سکتا ہے تو پوری دنیا اس طریقے سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ علاج کی تلاش میں سرگرداں انسانیت کو اگر ایسا ایوڈنس کے ساتھ کوئی علاج پیش کر سکتے ہیں، تو مشہور ہو سکتے ہیں، مقبول ہو سکتے ہیں، امیر بن سکتے ہیں، نوبل انعام بھی جیت سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہاں، جونک کو میڈیکل ڈیوائس کا درجہ ملنے کا یہ مطلب نہیں کہ حجامہ کرنے والے کلینک کارآمد ہیں۔ میڈیکل سائنس سے ناواقف فاسد خون یا زہریلے مادے نکال کر (نہیں، ایسے کوئی شے نہیں ہوتی) صحتیاب کرنے کا دعویٰ کرنے والے صدیوں پرانی یورپی سائنس کے دور میں ہیں۔
جونک کا استعمال کس صورت میں کس کو اور کس طریقے سے فائدہ دے سکتا ہے؟ اگر اس کے لئے نیچے دیا گیا آرٹیکل پڑھ لیں تو آپ اس کے اکثر “ماہرین” سے کہیں زیادہ خود ہی جان جائیں گے۔
ساتھ لگی تصویر ٹو یویو کی ہے، جنہوں نے اپنا نوبل انعام ملیریا کی دوا کی دریافت پر جیتا۔