بات صرف ایک بھیگے ہوئے تولیے کی تھی۔
غالباً یہ سنگا پور ایئر لائن تھی جس نے سب سے پہلے پانی میں بھیگا ہوا (wet) تولیہ مسافروں کو دینا شروع کیا تا کہ وہ ہاتھ پونچھ سکیں اور چہرے پر مل کر تھکاوٹ کا احساس کم کر سکیں۔ ایک ایئر ہوسٹس نے یہ بھیگا تولیہ پرس میں رکھ لیا۔ ’’چوری‘‘ برآمد ہوئی اور اسے نکال دیا گیا!
اس کے مقابلے میں پی آئی اے کی گزشتہ تیس چالیس برس کی تاریخ کھنگال کر دیکھ لیجیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پی آئی اے کے ملازمین کے گھر، پی آئی اے کی مصنوعات سے چلتے رہے تو اُس خدا کی قسم! جس نے انسان کو لوہے کے یہ پرندے، جنہیں ہوائی جہاز کہا جاتا ہے، بنانا سکھائے، اس میں کچھ مبالغہ نہ ہو گا۔ تولیہ؟ تولیہ کیا چیز ہے؟ پی آئی اے کے کمبل، پی آئی اے کی گدیاں، پی آئی اے کے کھانوں کے ڈبوں کے ڈبے، پی آئی اے کا ٹائلٹ کا سامان، پی آئی اے کے اخبارات اور رسالے، پی آئی اے کے مشروبات، ڈیوٹی فری اشیاء، پائلٹ سے لے کر ایئرہوسٹس تک۔ انجینئر سے لے کر نچلے درجے کے ٹیکنیشن تک، ہر شخص نے، ہر مرد اور ہر عورت نے پی آئی اے کو لوٹا۔ یقینا کچھ دیانت دار مرد اور عورتیں ہوں گی مگر آٹے میں نمک کے برابر، بلکہ اس سے بھی کم!
پی آئی اے کیا تھا؟ سمگلنگ کا ایک بڑا نیٹ ورک تھا۔ اسلام آباد لاہور، کراچی، پشاور، ملتان کوئٹہ میں مخصوص دکانیں تھیں جہاں امپورٹڈ مال ‘کپڑے، کوٹ، خوشبوئیں، جورابیں، نکٹائیاں، ٹریک سوٹ، میک اپ کا سامان، عورتوں کے پرس وغیرہ وغیرہ وغیرہ ملتا تھا اور یہ مال پی آئی اے کے ملازمین ان دکانوں پر آ کے بیچتے تھے۔ لبرٹی لاہور میں ان دکانوں کا سب کو پتہ تھا۔ جناح سپرمارکیٹ اسلام آباد، جو اب کھوکھوں کی وجہ سے راجہ بازار بن چکی ہے، ماضی قریب تک پی آئی اے کے ملازمین کا ’’پسندیدہ‘‘ کاروباری مرکز رہا ہے! یہاں کرسٹل ون اور کرسٹل ٹو کے نام سے شاندار دکانیں تھیں، پوری لائن میں دکاندار پی آئی اے کے کارندوں کے منتظر رہتے تھے۔
خدا کا خوف کریں وہ سیاست دان ‘جو آج پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت سیاسی بنیادوں پر کر رہے ہیں۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ مگر ایک مقام قبر بھی ہے جہاں جانا ہے۔ ایک میدان حشر بھی ہے جہاں جمع ہونا ہے۔ اس کالم نگار نے مسلم لیگ نون کی حکومتی پالیسیوں کے خلاف بہت لکھا ہے۔ پنجاب گورنمنٹ سے اتنا اختلاف کیا ہے کہ سزا گائوں کے معصوم بے سہارا لوگ بھگت رہے ہیں جہاں ضلعی حکومت کی منظوری کے باوجود ڈسپنسری نہیں بنائی جا رہی۔ یہ سب اپنی جگہ، مگر پی آئی اے کی نجکاری کے معاملے پر موجودہ حکومت ایک سو دس فی صد حق و انصاف پر ہے۔ چلیے، یہ افواہ بھی سچ مان لی جائے کہ یہ کسی ’’اپنی‘‘ پارٹی کو بیچ رہے ہیں تو وہ ’’اپنی‘‘ پارٹی بھی پی آئی اے کی خود غرض یونین بلکہ یونینوں سے لاکھ درجے بہتر چلائے گی!
عشروں پر عشرے گزرتے چلے گئے پی آئی اے میں بھرتیاں بیک ڈور سے ہوتی رہیں۔ خالص سیاسی بنیادوں پر۔ مدتوں پر مدتیں گزریں، اشتہار بھرتی کے کبھی نہ دیکھے گئے۔ ایک بار صرف دو لیڈی ڈاکٹر ملازم رکھی گئیں دونوں ایک سیاسی جماعت کے ’’رہنمائوں‘‘ کی صاحبزادیاں تھیں۔ ان میں سے ایک رہنما اس دنیا میں موجود نہیں۔ ایئرلائن کبھی جیالوں کے لیے دارالامان بنا رہا، کبھی متوالوں کے لیے اور کبھی صالحین کے لیے‘ کارکردگی بدترین رہی۔ لوگ ہمیشہ تمنائی رہے، مسافر ہمیشہ نالاں رہے۔ تارکینِ وطن کے جذبۂ حب الوطنی کا پی آئی اے کے خود غرض ملازمین نے خوب خوب استحصال کیا۔ وطن سے محبت کی وجہ سے تارکین وطن کی اکثریت اپنی ایئرلائن کو ترجیح دیتی رہی یہاں تک کہ پی آئی اے کی غیر ملکی پروازیں بند ہوتی گئیں۔ صرف ایک مثال‘ صرف ایک مثال دیکھ لیجیے: اِس کالم نگار پر کیا بیتتی رہی۔ واشنگٹن جانا تھا۔ پی آئی اے کے جہاز نے اسلام آباد سے لندن اس قدر تاخیر سے پہنچایا کہ واشنگٹن والا جہاز جا چکا تھا۔ اب رات گزارنے کے لیے پی آئی اے کوئی بندوبست کرنے سے
انکاری تھی۔ پاکستان فون کر کے دبائو ڈالا گیا تب ایک یتیم سے ہوٹل میں ہمارے گروپ کو ٹھہرایا گیا۔ میکسیکو جانا تھا۔ پی آئی اے کے جہاز نے لاہور سے نیویارک اس قدر تاخیر سے پہنچایا کہ میکسیکو والا جہازجا چکا تھا۔ آدھی رات اِدھر اور آدھی اُدھر تھی۔ نیویارک ایئرپورٹ پر پی آئی اے کی نمائندہ عورت تھی تو پاکستانی نژاد مگر پاکستان دیکھا ہی نہیں تھا۔ بات تک کرنے کی روادار نہ تھی۔ آخرکار نیویارک کے منیجر سے بات کی اور شب بسری کا انتظام ہوا۔ بنکاک پی آئی اے کی پروازیں ہمیشہ، پچانوے فیصد، ہوشرباتاخیر سے پہنچتیں، ہانگ کانگ، سڈنی، میلبورن، کوریا اور انڈونیشیا جانے والے جہاز جا چکے ہوتے۔ پھر ایک دن بنکاک سے پی آئی اے کا خاتمہ ہی ہو گیا۔ وہ پرواز نہیں بھولتی جو اسلام آباد سے بنکاک جارہی تھی۔ بزنس کلاس ان ’’مسافروں‘‘ سے بھری تھی جو پی آئی اے کے ملازم تھے۔ سب مفت خورے! جشن کا سماں تھا۔ آوازیں یوں آ رہی تھیں جیسے پکنک منائی جا رہی ہو! یہ کوئی پندرہ سال پہلے کی بات ہو گی۔ ایک عزیز کی رحلت ہو گئی۔ بھکر جانا لازمی ہو گیا۔ قریب ترین ہوائی اڈہ ڈی آئی خان تھا۔ پتہ چلا جہاز میں جگہ نہیں ہے۔ صرف محکمہ دفاع کی ایک دو مخصوص نشستیں موجود ہیں جن کے لیے کوشش کرنے کا مشورہ دیا گیا؛ چنانچہ کوشش کی گئی اور محکمہ دفاع کے حوالے سے ایک نشست مل گئی۔ جہاز چلا تو اِس کالم نگار کو اپنے بچوں کی قسم! آدھے سے زیادہ خالی تھا۔ یہ تجربے صرف ایک شخص کے ہیں۔ اگر کوئی ایک سو مسافروں کے تجربے اکٹھے کریں تو یہ کتاب دنیا کی حیران کن کتابوں میں پہلی پوزیشن حاصل کرے گی۔
فی جہاز ملازمین کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ دوسری ایئرلائنوں کے ملازمین سنتے ہیں تو دنگ رہ جاتے ہیں۔ کسی کو نکال نہیں سکتے۔ یونین جنگل کی بادشاہ ہے‘ انتظامیہ اُس کے خونخوار پنجوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ ہزاروں ملازمین تنخواہیں لے رہے ہیں‘ کام کوئی نہیں کر رہا۔ ملک کے خزانے کو پی آئی اے جونک کی طرح چوس رہی ہے‘ خاندان کے خاندان پل رہے ہیں۔ مشٹنڈے سینے تان کر چل رہے ہیں‘غنڈہ گردی کا راج ہے۔ کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ بین الاقوامی قانون کی رُو سے ہر تین مسافروں کے استعمال کے بعد لیٹرین صاف کرنا ہوتی ہے۔ پی آئی اے میں ایسا ہونے کا تصور ہی نہیں۔ وقت کی پابندی حرام ہے۔ جو ظلم شمالی علاقہ جات کے عوام کے ساتھ ہوتا رہا اور ہو رہا ہے‘ ایک الگ داستان ہے۔
سب سے زیادہ حیرت حضرت سراج الحق پر ہوتی ہے جو شدومد سے نجکاری کی مخالفت فرما رہے ہیں۔ سوشلزم سے جماعت اسلامی کا اور ابوالاعلیٰ مودودی کا کیا جھگڑا تھا؟ یہی کہ پبلک سیکٹر(حکومتی شعبے) میں انصاف نہیں ہو سکتا۔ مولانا مودودی نے سینکڑوں مقامات پر لکھا کہ نجی شعبے میں منافع کی ترغیب، کاروبار کو جِلا بخشتی ہے۔ جبکہ پبلک سیکٹر میں سرکاری ملازم کو منافع سے کوئی غرض نہیں! سینکڑوں صفحات پر مشتمل ’’چراغِ راہ‘‘ کا سوشلزم نمبر، جماعت نے شائع کیا۔ پروفیسر خورشید احمد اس کے مدیر تھے۔ گزشتہ صدی میں اقتصادیات پر حکومتی کنٹرول کے خلاف جتنا مولانا مودودی نے لکھا، شاید ہی کسی نے لکھا ہو۔ ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ نعیم صدیقی نے اس موضوع پر بے تحاشا لکھا۔ اقتصادی شعبے پر حکومتی کنٹرول کے جتنے نقصانات کی ان حضرات نے نشاندہی کی وہ پی آئی اے، سٹیل مل، ریلوے، محکمہ ڈاک، واپڈا، سوئی گیس، سب میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ لیکن اب یہی حضرات سٹیٹ کنٹرول یعنی اقتصادیات پر حکومتی کنٹرول کی حمایت میں آگے آگے ہیں۔ شاید وجہ یہ ہے کہ اب ؎
ایک ہنگامے پر موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی
اب تک اس ملک میں جتنی ترقی ہوئی ہے نجی شعبے کی مرہون منت ہے۔ ڈاک رسانی میں پرائیویٹ کوریئر کمپنیاں آئیں تو عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ لاہور اسلام آباد رُوٹ پر غیر ملکی پرائیویٹ بسیں چلنا شروع ہوئیں تو پہلی بار اس ملک میں وقت کی پابندی کا تصور وجود میں آیا۔ موبائل فون کی ہما ہمی ساری نجی شعبے سے ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انقلاب غیر سرکاری چینل لے کر آئے۔ اس کے مقابلے میں سٹیل مل، ریلوے، پی آئی اے، اذیت رسانی کے سوا کچھ نہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے شدید محنت کے بعد ریلوے کے منہ سے آکسیجن کی نلکی نکالی تو ہے مگر اصل مسئلہ حکومتی شعبے میں بدعنوانی اور اقربا پروری ہے۔ اسد عمر ٹیلی ویژن پر حکومتی کنٹرول کے حوالے سے سنگاپور کے لی اور ملائشیا کے مہاتیر کی مثالیں دے رہے تھے ؎
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لا جواب کی
مخالفت برائے مخالفت کرنی ہو تو پڑھا لکھا انسان بھی آنکھوں پر خوشی سے پٹی باندھتا ہے۔ لی اور مہاتیر کی مثال دیتے ہیں تو پھر یہ بھی تو دیکھیے کہ لی اور مہاتیر کی بغل میں بھائی تھا نہ کوئی بھتیجا، بہن تھی نہ صاحبزادہ۔ وہاں ایان علی تھی نہ ڈاکٹر عاصم، نہ گلوبٹ نہ لوہے، دودھ اور پولٹری کے کاروبار پر مضبوط خاندانی گرفت۔ کیا لی اور مہاتیر اپنے اپنے ایف بی آر سے ایک ایک دن کے لیے قانون بدلواتے تھے؟
قومی خزانے میں ایک دھیلا جمع نہ کرانے والی پی آئی اے اور ہر سال قومی خزانے سے اربوں روپے چوسنے والی پی آئی اے کو باقی رکھنا ہے تو ضرور رکھیے۔ مگر صرف ملازمین کی پرورش کے لیے اور صرف اس لیے کہ یونین کی دھونس اور دھاندلی سلامت رہے۔ ہاں مسافروں کے لیے کچھ اور بندوبست کرنا ہو گا۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔