جوناتھن سوئفٹ ،گولیور اور بنروں کا ملک
جوناتھن کے شہرہ آفاق ناول گولیور س ٹریول کا کردار چھوٹے قد کے بونوں اور گھوڑوں کے دیس سے واپس آ کر بندروں کے دیس کب گیا ، یہ بتانا آسان ہے .مگر بندروں کے دیس کی مجبوری ہے کہ آپ جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہیں ،کویی سزا نہیں ..آپ بندروں کی فطرت اور عادت کے مطابق تشدد پر آمادہ ہو کر باغات ،کھیت ،فصلیں روند ڈالیں ،کویی مضایقہ نہیں .آپ ملک کا تمام سرمایہ ،اناج ،دھن ، سب کچھ ڈکار لیں یا کھا جاہیں تب بھی بندروں کی ٹولی اس چھوٹی سی بات کو بندروں کی قدیم وراثت ہی ٹھہراےگی کیونکہ بندروں کا شغل ہی یہی ہے ..
گولیور ان دنوں بندروں کے دیش میں ہے ..وہ سفر نامہ کا دوسرا حصّہ قلم بند نہیں کر سکتا .اب سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے .بندروں کی ٹولی کو میڈیا کہا جاتا ہے .جرائم پسند بندروں کی حکومت ہے .ایک حکومت کی عدلیہ کسی مجرم کو سزا سناتی ہے تو دوسری حکومت آتے ہی عدلیہ کا فیصلہ بدل جاتا ہے …تمام بڑے بڑے جرائم پیشہ بندر آزاد ہو جاتے ہیں .لاٹھی ٹیکتے ،کمزور بیمار ،غریب ،مفلس ،کسان ،مزدور ،مرنے کے لئے قطار میں کھڑے کیے جاتے ہیں اور ان کے پیسے ،انکی زندگی بھر کا سرمایا لوٹ کر بڑے بندروں کے درمیان تقسیم کر دیا جاتا ہے ..اس دیش کا ہر گنہگار سڑکوں پر آزاد گھوم رہا ہے اور معصوم پر زنداں کی دیواریں تنگ کی جا رہی ہیں …نوٹ بندی کا فرمان جاری ہوتا ہے اور وہی لوگ منی لانڈرنگ کے ذمے دار ثابت ہوتے ہیں .
گولیور کی طرح میں بھی سوچتا ہوں کہ اچانک اس ملک کو کس کی نظر لگ گی .گاندھی کی آنکھوں پر لگی عینک بے دردی سے چھین لی گیی اور صفایی ابھیان کے اشتہار میں اچھال دی گی ..بغیر عینک والے گاندھی اب یہ طرفہ تماشا بھلا کیسے دیکھ سکیںگے ؟ مجھے امریکی صدر ٹرمپ پر ترس آتا ہے کہ منتخب ہونے کے باوجود نہ اسکی گرفت وہاں کی عدلیہ پر ہے نہ میڈیا پر … یہاں سچ بولنے والوں پر نکیل کسی جا رہی ہے .ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے .بیچارہ ا ن ڈی ٹی وئ بھی گہری نیند میں چلا گیا .میڈیا کی بندر ٹولی سچ کو جھوٹ ،نا جایز کو جایز ٹھہرانے کے لئے ایک شاخ سے دوسری شاخ تک اچھل کود مچا کر عالمی میڈیا کے سامنے ان تین برسوں میں اپنے جسم کے تمام لباس اتار چکی ہے .
تاریخ کے صفحات پر کی چہرے چمکتے ہیں اور اوجھل ہو جاتے ہیں ..ہٹلر ،چنگیز ،ہلاکو ، نیپولین ، مسولینی …مسولینی کہتا تھا کہ میں تاریخ کے صفحات پر اپنے خونی نشانات چھوڑجاؤں گا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ میرے نشان شیرکے پنجوں کے نشانات سے مشابہ ہونگے .یہ اس شخص کا اعتراف ہے جس نے پانچ لاکھ انسانوں کو اپنی خوشی کے لئے موت کے گھاٹ اتار دیا .کیا یہ کہانی ان تا نا شاہوں تک آ کر ختم ہو جاتی ہے ؟ کیا یہ کسی ملک کے عوام کے لئے ڈوب مرنے کی بات نہیں ، کہ اس ملک کے حکمران کا نام سوشل ویب سائٹ پر انہی ظالموں کی صف میں لیا جاتا ہو ؟
ان تین چار برسوں میں گاندھی کی عینک ہی نہیں گم ہوئی بلکہ گاندھی کے فلسفۂ عدم تشدد کو پاؤں کے نیچے روندا گیا اور فرقہ پرستوں کو تشدد کا کھلونا تھما دیا گیا .غریب ننگے ہوتے چلے گئے .کاروبار ٹھپ پڑ گیا .بیروزگاری بڑہ گیی لیکن آپ سوال داغتے ہیں تو بندر ٹولی کی نظروں میں مجرم کھلاتے ہیں .یہ کھیل جاری تھا کہ اچانک ایک حادثہ ہوا .جملہ بازی کے لئے مشہور امیت شاہ کے بیٹے کے کاروبار کو لے کر دی وائر نے ایک رپورٹ شایع کی اور رپورٹ پرہنگامہ مچنے پر ، ویب سائٹ پر سو کروڑ کا ہرجانہ ٹھوک دیا گیا ..کیوں صاحب ؟ ساری دنیا کا منہ تو بند ہے ہی ..کچھ لوگوں کو تو بولنے کی آزادی دیں ..؟ آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ حکومت میں آنے سے قبل آپ کیا کیا نہیں بولا کرتے تھے .نہ سیاہ دھن واپس آیا نہ عوام کے اکاونٹ میں پندرہ لاکھ اے ..آزادی چھینی گیی .میڈیا خریدا گیا .اپازیشن کو ڈرا ڈرا کر اپاہج بنا دیا گیا .،
اس موقع پر دی وائر کی رپورٹر روھنی کی تعریف کرنی ہوگی جو ابھی بھی امیت شاہ پر لگاہے گئے الزام پر نہ صرف قایم ہے بلکہ اس قدم کو بہادری نہیں صحافت کہتی ہے ..بندروں کی ٹولی کو روہنی سے سبق لینے کی ضرورت ہے ..لیکن شاید اب اس کی ضرورت نہیں پڑے گی .کیونکہ چار برسوں میں اس میڈیا ٹولی نے اپنے ضمیر کو اس گہرا ی میں دفن کیا ہے کہ اسکے باہر آنے کی کویی امید نہیں بچی ہے .
ایک بیکار سا سوال ہے ..کیا آپ اخبار پڑھتے ہیں ؟ کیوں پڑھتے ہیں ؟ کیا آپ نیوز چینل دیکھتے ہیں ؟ کیوں دیکھتے ہیں ؟ اندھے بہرے میڈیا سے کویی امید رکھتے ہیں تو یہ آپ کی خوش فہمی ہے .کیوں کہ انسانی تاریخ کے اب تک کے باب میں آپکو ایک ایسی مثال نظر نہیں ایگی جہاں ملک کا میڈیا سرکاری ملایی کھانے میں ایسا مصروف ہو کہ اسے نہ پرواہ مرتے ہوئے عوام کی ہو ، نہ ملک کی …ایک نیی بے غیرت تہذیب کے گواہ ہیں ہم لوگ .جو کچھ ہو رہا ہے ،وہ اس سے قبل اس ملک میں کبھی نہیں ہوا ..
مشہور صحافی اوم تھانوی نے لکھا – اخباروں کا حال دیکھئے: چھوٹے شاہ 100 کروڑ کا مقدمہ دائر کر دیں گے – یہ سرخیآج تمام اخباروں نے لگایی ہے .. بدعنوانی کا سنگین الزام واپس ہو گیا- ذرا تصورکیجئے یہی الزام کیجریوال، چدمبرم، ویر بھدر سنگھ یا کسی دیگر دشمن پارٹی کے صاحبزادے پر لگا ہوتاتو کیا ہوتا
اس کے بعد چینل پر کویی دوسری خبر ہوتی ہی نہیں .. ٹی وی چینل صرف ایک سال میں 16000 کروڑ اضافے کو چیخ چیخ کر دہراتے -دن بھر رپورٹر ملزم کا پیچھا کرتے، گھر دفتر پر او بی وین تعینات رہتیں، شام کو حکومت، یونین، وی ایچ پی کے وغیرہ کے ساتھ بیٹھ کر حکومت حامی صحافی یا دانشور اخلاقی زوال کی دھججيا اڑا رہے ہوتے.–
بھارت چوہان نے لکھا – نئے دور کی تاریخ کے سیاہ صفحات میں لکھا جاےگا کہ مودی کے راج میں چوتھا کالم گلے میں سیاہ پٹا پہنے ہوئے آر ایس ایس ہیڈکوارٹر پر زنجیروں میں بندھا ہوا تھا اور بھرے دربار میں اپوزیشن شخنڈی بن کر خاموشی سے ہندوستان کا تماشا دیکھ رہا تھا–
بونوں اور گھوڑوں کے دیس کے سفر کے بعد گولیور بندروں کے دیس تو آ گیا .لیکن ایک خبر یہ بھی ہے کہ گولیور غایب ہے ..اسے انیمل فارم پر دیکھا گیا .مگر اب وہ وہاں بھی نہیں ہے ..خبر ہے کہ وہ بگ برادر کی نظروں میں آ گیا ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔