اردو فکشن کی عظیم شخصیت معروف ومنفرد افسانہ نگار،
ناولٹ و ناول نگار،افسانچہ نگار ، جوگندر پال وفات پا گئے
اردو کے علمی و ادبی حلقوں میں یہ خبر نہایت رنج و غم کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ اردو ادب کی ممتاز شخصیت اور اردوفکشن میں بالکل منفرد نوعیت کے افسانہ نگار، ناولٹ نگار اورناول نگار جوگندر پال آج ۲۳اپریل ۲۰۱۶ء کو انڈیا کے وقت ساڑھے گیارہ بجے وفات پا گئے ہیں۔خدا ان کی روح کو سکون عطا فرمائے ۔بھابی کرشناپال،ان کے دونوں صاحبزادوں سدھیر اور سنیت اورصاحبزادی سکریتااور دیگر پسماندگان کو صبر عطا فرمائے۔آمین
جوگندرپال ۵ ستمبر ۱۹۲۵ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔قیام پاکستان کے بعد انہیں ہندوستان جانا پڑا۔ وہاں سے انہیں نیروبی جانا پڑا اور پھروہ ہجرتوں کے دکھ سہتے چلے گئے۔انہوں نے اپنی زندگی کی ساری ہجرتوں کو نئے جنم کی صورت میں بیان کیا تھا۔اس سلسلہ میں ان کی ایک شاہکار تحریر’’خود وفاتیہ‘‘کا ایک اقتباس یہاں درج کر دیتا ہوں۔
’’یقین کیجئے کہ مجھے اپنے پچھلے چاروں جنم ہو بہو یاد ہیں۔ پہلے میں سیا لکوٹ میں پیدا ہوا اور بائیس برس تک جیا۔ پھرانبالہ میں میری پیدائش ہوئی اور ابھی میں کوئی ڈیڑھ برس کا ہی تھا کہ میرا انتقال ہو گیا اور میں نے نیروبی میں آنکھ کھولی۔ اورنگ آباد میں میرے چوتھے جنم کے دوران میرے ایک دوست صفی الدین صدیقی نے مجھے بتایا کہ تمھارے پُرکھے ضرور کبھی نہ کبھی یہیں آبسے ہوں گے اور یہیں ڈھیر ہوئے ہو ں گے ورنہ تم سمندر پار سے ایک یہیں کیوں آتے؟۔۔۔۔۔۔ اجنتا ایلورا کی بعض تصویروں
میں ڈھیروں عام لوگوں کے اجتماع بھی شامل ہیں۔ میں ان لوگوں میں سے ہراک کے چہرے پر نظریں گاڑ کر سوچتا یہی میرا پہلاپُرکھ تو نہیں جو قدروں سے قطع نظر صرف پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے بڑی معصومیت سے کرشن یا کنس کے ساتھیوں میں شامل ہو گیاتھا اور اب اپنے اس پانچویں جنم میں دلی آ پیدا ہوا-"
جوگندرپال کا تخلیقی کام اتنا زیادہ،اہم اور قابلِ قدر ہے کہ اس کی قدروقیمت کا اندازہ لگانے کے لیے نئے سرے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔جدید فکشن میں سب سے اہم اور بڑے فکشن رائٹر کا فیصلہ کرنے کے لیے سابقہ فیصلوں پر ایماندارانہ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔۔۔مجھے امید ہے کہ جوگندر پال کی وفات کے بعد ہمارے علمی و ادبی حلقوں میں اس کام کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے محنت اور دیانت کے ساتھ ایسا کرنے کی کاوش کی جائے گی۔سرِ دست یہاں جوگندر پال جی کو یاد کرتے ہوئے
ان کے آخری ناول ’’پار پرے‘‘پر اپنا مختصر سا مضمون اور ان کے ساتھ لی گئی اپنی چند یادگار تصویریں احباب کے ساتھ شئیر کررہا ہوں۔
حیدر قریشی(جرمنی سے)
“