پرسوں پاکستان میں دو اہم واقعات رونما ہوئے، ایک شمال میں اور ایک جنوب میں…. تاہم اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان دو واقعات کا آپس میں کوئی تعلق ہے۔ شمال میں یہ ہوا کہ کتوں کی لڑائی کے مقابلے ہوئے، جن پر مبینہ طور پر ایک کروڑ روپے ے زائد کا جوا کھیلا گیا، جیتنے والے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتے رہے، اس موقع پر تیسری صنف کے نمائندے بھی وافر مقدار میں موجود تھے جو ٹھمکے لگاتے رہے اور پیسے اکٹھے کرتے کرہے۔ سیالکوٹ میں ہونے والے ان زبردست مقابلوں میں مقامی کتوں کے علاوہ گجرات، جہلم، منڈی بہاﺅالدین، نارووال، شیخوپورہ یہاں تک کہ راولپنڈی تک سے کتوں کو لایا گیا۔ 22 کتوں کے گیارہ مقابلے ہوئے اور ہر مقابلے پر قمار بازی ہوئی۔
دوسرا اہم واقعہ ملک کے جنوبی حصے میں پیش آیا، یہاں ہم ایک بار پھر متنبہ بھی کرتے ہیں اور وضاحت بھی کہ شمال اور جنوب میں پیش آنے والے ان دو واقعات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، کراچی میں زور و شور سے جلسہ ہوا جس میں ہمارے ہیرو پرویز مشرف نے دھواں دھار تقریر کی، یہ تقریر ٹیلی فون پر ہوئی، ٹیلی فون پر تقریروں کا سلسلہ لندن سے شروع ہوا تھا۔ یہ تقریریں سیاسی تھیں، پھر وہ وقت آیا کہ ٹیلی فون کے ذریعے مذہبی تقریریں بھی ہونے لگیں، ایک معروف عالم دین ملک چھوڑ کر کینیڈا جا بسے، پچھلے دنوں انہوں نے راولپنڈی کے ایک جلسہ میں کینیڈا سے ٹیلی فون پر خطاب کیا اور مغرب کے خلاف اعلان جنگ پر زور دیا یعنی وطن اور اہل وطن کو اس مشکل گھڑی میں چھوڑ کر جس مغرب کی گود میں جا بیٹھے ہیں، اسی مغرب کے خلاف اعلان جنگ ہے! میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب۔ لگتا ہے کہ ٹیلی فون یا ویڈیو کے ذریعے جو تقریر بھی ہو گی، بس اسی طرح کی ہو گی!
خیر، پرویز مشرف صاحب نے ٹیلی فون کے ذریعے دھواں دھار تقریر کی، لیکن اس تقریر سے پہلے ان کی اس گفتگو کا ذکر ضروری ہے جو گزشتہ ہفتے انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں کی۔ اس میں انہوں نے تین اہم نکات بیان کیے، اوّل یہ کہ پاکستان کے مسائل ”میں ہی حل کر سکتا ہوں، مجھ سے زیادہ کوالیفائیڈ کوئی نہیں“۔ دوم ”میرے آنے سے اگر فوج پر دباﺅ آتا ہے تو آنے دیں، میں آرمی چیف رہا ہوں“ اور سوم ”میں چھوٹا آدمی نہیں ہوں“۔
یعنی پرویز مشرف صاحب جو کچھ بطور صدر کرتے رہے، اس کی ذمہ داری بھی فوج پر ڈال رہے ہیں، شاید وہ یہ چاہتے ہیں کہ فوج ان کے اور قانون کے درمیان خم ٹھونک کر کھڑی ہو جائے اور اگر قانون پرویز مشرف صاحب سے پوچھے کہ دبئی، لندن اور امریکہ کے بنکوں میں آپ کے درجنوں اکاﺅنٹس میں کروڑوں اربوں درہم، ڈالر اور پاﺅنڈ کہاں ے آ گئے تو فوج انہیں اس جواب طلبی سے بچا لے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی مقدس فوج…. جس کے افسر اور جوان ملک کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں۔ پرویز مشرف جیسے انتہائی مشکوک افراد کا دفاع کرے گی؟ پاکستان کی فوج سے محبت کرنے والے پاکستانی عوام اپنی فوج سے اس کی توقع بالکل نہیں رکھتے۔
رہا پرویز مشرف صاحب کا یہ دعویٰ کہ ”میں چھوٹا آدمی نہیں ہوں“ تو دنیا میں آج تک کسی بڑے آدمی نے یہ نہیں کہا کہ میں چھوٹا آدمی نہیں ہوں۔ عمر فاروق اعظمؓ اپنے آپ کو مخاطب کرکے فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے باپ کے اونٹ چرایا کرتے تھے (مفہوم یہی ہے)۔ یوں بھی گیڈر کی موت آتی ہے تو شہر کا رُخ کرتا ہے۔ جب بھی کسی متکبر شخص نے بڑائی کا یا اپنی طاقت کے دوام کا زعم کیا، اسے زوال ہی آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسمبلی میں کہا تھا کہ یہ کرسی بہت مضبوط ہے، اسے کرسی سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس ملک کے اداروں کو مکمل تباہی سے دو چار کرنے والے آمر جنرل ضیاءالحق نے وزارت خزانہ اسلام آباد میں ایک اجلاس کے دوران دعویٰ کیا کہ میرا جانے کا کوئی ارادہ نہیں، اس کے کچھ عرصہ بعد اسے جانا پڑ گیا۔ اب پرویز مشرف نے دعویٰ کیا ہے کہ میں چھوٹا آدمی نہیں ہوں۔ دیکھیے، کیا ہوتا ہے، عقل مندوں نے تو کہا تھا کہ…. ع
نہد شاخِ پُر میوہ سر بر زمین
جتنا کسی ٹہنی پر پھل ہو گا اتنا ہی وہ جھکے گی، جو جتنا بڑا ہوتا ہے، جس کا خاندانی پس منظر جتنا نجیب اور شریف ہوتا ہے، اتنا ہی وہ عجز و انکسار کا مالک ہوتا ہے۔
رہی پرویز مشرف صاحب کی کراچی کی ویڈیو تقریر تو اس میں انہوں نے ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ ”اللہ نے مجھے عزت دی ہے، چھ مرتبہ خانہ کعبہ کے دروازے میرے لیے کھولے گئے“۔ دونوں ہاتھوں میں دو کتے پکڑنے والے، اور سرکاری اجلاسوں میں سارا دن جمائیاں لینے والے پرویز مشرف صاحب کو کاش ڈاکٹر شیر افگن صاحب ہی بتا دیتے کہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول کیلئے ہے۔ کعبہ کے دروازے اگر کھولے گئے تو پاکستان کے صدر کیلئے کھولے گئے، پرویز مشرف کیلئے نہیں کھولے گئے اور یہ بھی کہیں نہیں لکھا ہوا کہ کعبہ کا دروازہ کھلنا، کسی کی بڑائی، نیکی یا عزت کی گارنٹی ہے۔ کیا مشرکین مکہ خانہ کعبہ کا احترام نہیں کرتے تھے؟ اور کیا وہ کعبہ کے اندر اور اس کی چھت پر نہیں جاتے تھے؟ لگتا ہے کہ پرویز مشرف صاحب کا تصور اسلام بس یہیں تک محدود ہے۔ اگر باعزت ہونے کا تصور سرکاری خرچ پر پانچ پانچ لاکھ روپے کے سوٹ پہننے پر مبنی ہے تو ان کا فہم اسلام کا تصور بھی اسی سے ملتا جلتا ہو گا!
اس میں شک بھی کیا ہے کہ پاکستان کے مسائل حل کرنے کیلئے صرف وہی کوالیفائیڈ ہیں۔ اپنے دور اقتدار میں انہوں نے ایسے ہی ”کوالیفائیڈ“ حضرات کا ایک گروہ بنایا تھا جو شام کے شغل کے دوران اس بدقسمت ملک کے اہم امور کے فیصلے کرتا تھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس گروہ کے معزز ارکان کے نام سامنے آئیں۔ دس سال تک سیاہ و سفید کا مالک رہ کر آخر مسائل کیوں نہیں حل کیے؟ بیسیوں دفعہ کالا باغ ڈیم بنانے کا دعویٰ کیا، کیوں نہیں بنایا؟ وزیر اعظم بنایا تو ایسے شخص کو جس کا پاکستان سے تعلق ہی کوئی نہیں تھا۔ امداد آکاش نے یہ خوبصورت شعر شاید شوکت عزیز ہی کیلئے کہا تھا:
مجھ میں مقیم شخص مسافر تھا دائمی
سامان ایک روز اٹھایا نکل گیا
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے مسائل کا ادراک پرویز مشرف صاحب کو ہے نہ تھا، ان کی سوچ عامیانہ اور مسائل کا فہم نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں ملکیت زمین کا ڈھانچہ کیا ہے؟ سرداری نظام کیسے ختم ہو سکتا ہےءنظام تعلیم میں کیا خرابیاں ہیں؟ ہمارے پنجاب سے رقبے میں کہیں کم بھارتی پنجاب کئی گنا زیادہ غلہ کیوں پیدا کر رہا ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟ہمارے صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کیوں عنقا ہے؟ یہ اور اس قبیل کے کئی دوسرے مسائل پرویز مشرف جیسے گملوں میں لگے ہوئے جعلی درختوں کی سمجھ سے بالا تر ہیں۔ گملے میں اس لیے کہ دھرتی سے اور دھرتی کی جڑوں سے ان کا آخر تعلق ہی کیا ہے؟ جب تک صدر رہے، سرکاری پروٹوکول، سرکاری اخراجات، ناقابل عبور حصار کے اندر۔ بدبختی کی انتہا یہ کہ جب بھی کراچی جاتے، ٹریفک بارہ بارہ گھنٹوں کیلئے جام ہوتی اور ہر دفعہ کئی اموات واقع ہو جاتیں۔ صدارت سے اترے تو لندن، امریکہ اور دبئی، وہاں بھی حفاظتی حصار۔ ڈالر اور پاﺅنڈ پانی کی طرح بہائے جا رہے ہیں۔ اب واپسی کی خبر ہے تو وہ بھی اس شرط پر کہ امریکہ بھی حفاظت کا ذمہ لے، سعودی عرب بھی گارنٹی دے اور فوج بھی تحفظ کرے۔سبحان اللہ! کیا عوامی لیڈر ہے اور کیا مسائل کا ادراک ہے! لیکن اس عجیب و غریب ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کل وردی میں دس بار منتخب کروانے والے موجود تھے۔ کیا عجب آج وردی بغیر منتخب کروانے والے میسر آ جائیں۔ اس لیے کہ:
یہاں تاج اسکے سر پر ہو گا جو تڑکے شہر میں داخل ہو
یہاں سایہ ہما کا نہیں پڑتا یہاں کوہِ قاف نہیں ہوتا
http://columns.izharulhaq.net/2012_01_01_archive.html
“