قندھار کے نواح میں ڈھلتی عمر کے ساتھ چمٹتا میوہ فروش‘ غزنی کے مین بازار میں خریداروں کے انتظار میں اونگھتا کبابچی اور بامیان کی نامہربان چراگاہوں میں عناصر کی سختیاں سہتا گڈریا… تیس سال یورپ اور امریکہ کی عشرت گاہوں میں گزارنے والے حکمران کو کیا علم کہ یہ لوگ زندگی کس طرح بسر کر رہے ہیں۔ بسر کر بھی رہے ہیں یا نہیں! یا زندگی انہیں گزار رہی ہے۔ فراز صاحب یاد آ گئے ؎
سلوٹیں ہیں مرے چہرے پہ تو حیرت کیسی
زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا
جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا بخت عجیب ہے۔ اول تو ستارہ بن کر چمکتا ہی نہیں‘ دمکنا نصیب بھی ہو تو پیشانی تنگ ملتی ہے۔ جمہوریت آتی ہے تو ایسے حکمران گلے پڑتے ہیں جو ملک میں صرف راج کرنے آتے ہیں۔ زندگی کے زیادہ شب و روز انہوں نے باہر گزارے ہوتے ہیں۔ کچھ تو معین قریشی اور شوکت عزیز کی طرح بازار میں صرف خریداری کرنے آتے ہیں۔ معین قریشی کے مقابلے میں شوکت عزیز کا مذاق‘ زیادہ سنگدلی سے کھیلا گیا۔ موصوف فتح جنگ سے عوامی نمائندے ’’منتخب‘‘ ہوئے۔ اپنے حلقے کا‘ یعنی فتح جنگ کا نام سنتے ہی چہرہ سپاٹ ہو جاتا تھا۔ کسی بھی قسم کے تاثر سے عاری! انگریزوں نے کمال کا لفظ تراشا ہے‘ Wooden face۔ چوبی چہرہ۔ اصلاً یہ محاورہ پرتگالی زبان کا ہے۔ لکڑی سے تراشا گیا چہرہ کیا ہنسے گا اور کیا مسکرائے گا! وزارتِ عظمیٰ گئی تو بریف کیس اٹھایا‘ سرکاری عہدے کی وجہ سے جو قیمتی تحائف ملے تھے اور جو توشہ خانے کا مال تھے‘ سمیٹے اور یوں گئے‘ جیسے اس ملک سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکار مال سمیٹ کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہوتے تھے۔ سسر ایس ایس اقبال حسین سول سروس سے تھے۔ وفاقی سیکرٹری رہے پھر انڈونیشیا میں سفیر‘ کیا نفیس انسان تھے۔ گزرے وقتوں کی شرافت اور وضعداری کا پیکر۔ انتقال کیا تو داماد‘ جو ساری دنیا میں پاکستان کے نام پر کانفرنسیں اٹنڈ کرتے پھر رہے تھے‘ جنازے پر تو کیا آتے‘ قبر پر بھی نہ آئے۔
کرائے پر لیے ہوئے ان دو حکمرانوں کو تو چھوڑ دیجیے۔ باقی پر نظر دوڑایئے۔ پارٹی کی خاتون سربراہ کے سالہا سال ملک سے باہر گزر گئے۔ دبئی کے عالی شان قصر میں زندگی گزاری۔ نیویارک میں کیسا گراں بہا اپارٹمنٹ خریدا۔ انجم نیاز نے بدشگونی کے حوالے سے ساری تفصیل لکھ ڈالی۔ پھر ایک صاحب صدر بنے۔ یوں لگتا تھا بیرون ملک اکتا جاتے تو تبدیلیٔ آب و ہوا کی غرض سے واپس آتے۔ دوسرے حکمرانوں کو دیکھ لیجیے‘ پارٹی کو بے یارومددگار چھوڑ کر محلات میں جا بسے۔ کبھی جدہ کبھی لندن۔ واپسی اس وقت ہوئی جب اقتدار کی گارنٹی ملی۔ وفاق میں نہ سہی‘ سب سے بڑا صوبہ ہی سہی!
المیہ یہ ہے کہ ان مسافرو ںاور مہاجروں کے مقابلے میں عسکری آمر اسی ملک میں رہے۔ چھوٹی ملازمتوں سے گزرے۔ کپتان‘ میجر اور کرنل کی کیا تنخواہ ہوتی ہے! بریگیڈیئر کس طرح گزارا کرتا ہے! آٹے دال کا بھائو انہیں معلوم تھا۔ اقتدار اعلیٰ پر پہنچنے کے بعد جو کچھ کرتے رہے‘ وہ الگ قصہ ہے! لیکن عام آدمی کی زندگی اور زندگی کی سختیوں سے بخوبی واقف تھے۔ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر کوئی بھی نہ پیدا ہوا تھا۔
اس امرِ محال کا‘ اس Paradox کا سبب کیا ہے؟ غور کیا جائے تو گرہ کھلتی ہے۔ جمہوریت گراس روٹ سطح پر مستحکم نہ ہو سکی۔ سیاسی کیریئر اوپر سے شروع ہوتا ہے۔ نیچے سے شروع کرنے والے نیچے ہی رہتے ہیں۔ صدر زرداری سے لے کر شہبازشریف تک‘ بے نظیر بھٹو سے لے کر نوازشریف تک۔ کتنی یونین کونسلوں کے یہ حضرات ممبر یا صدر رہے؟ کتنی ضلع کونسلوں میں کام کیا؟ کتنی مقامی حکومتوں کے بجٹ بنائے؟ کچھ نے تو صوبائی اسمبلیوں تک کے منہ نہ دیکھے۔
اس کے مقابلے میں ان حکمرانوں کے سیاسی کیریئر دیکھیے جن کے ملکوں میں جمہوریت گلی کوچے سے شروع ہوتی ہے‘ قریوں بستیوں اور قصبوں سے ہوتی ہوئی شہروں کے محلوں سے گزرتی مقامی حکومتوں میں وقت گزارتی‘ صوبائی اداروں کو مستحکم کرتی‘ بلند ترین سطح پر پہنچتی ہے۔ اس سفر میں عشرے گزر جاتے ہیں‘ کبھی دو‘ کبھی تین! جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کا سیاسی سفر اڑھائی عشروں پر محیط ہے اور زیریں ترین سطح سے شروع ہوا۔ مشرقی جرمنی میں سیاست کرنا آسان نہ تھا۔ دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد مرکل نے نئی سیاسی پارٹی میں عام ورکر کی حیثیت سے کام کیا۔ عبوری حکومت میں ترجمان رہیں۔ مشرقی اور مغربی جرمنی کے اَدغام کے بعد حلقے کی سیاست کی اور اپنے حلقے سے چھ بار انتخابات جیتے۔ نوجوانوں کے امور کی وزارت میں کام کیا۔ پھر ماحولیات اور ایٹمی حفاظت کا قلم دان سپرد ہوا۔ پارٹی اقتدار سے باہر ہوئی تو وہ اس کی سیکرٹری جنرل مقرر ہوئیں۔ جمہوریت کا حسن دیکھیے کہ پارٹی میں مالیاتی سکینڈل سامنے آیا تو مرکل نے پارٹی کے صدر کی کھل کر مخالفت کی اور یہ نظریہ پیش کیا کہ پارٹی کو اُس کے بغیر چلا کر دکھایا جائے۔ پھر کئی سال حزبِ اختلاف کی قائد رہیں۔
فرانس کے موجودہ صدر آلندے کا سیاسی کیریئر چھتیس سالوں پر محیط ہے۔ اگر ان کی سرگرمیاں بطور طالب علم شمار کی جائیں تو چار عشرے ہوتے ہیں۔ گیارہ سال تو صرف پارٹی کے سیکرٹری کے طور پر کام کیا۔ سات سال اپنے شہر کے میئر رہے! اندازہ لگایئے جو شخص سات سال شہر کا میئر رہے اور پھر ملک کا صدر بنے‘ وہ گلی کوچوں میں رہنے والے عام لوگوں کے مسائل سے کس طرح ناواقف اور کس طرح بے نیاز رہ سکتا ہے!
برطانیہ کے موجودہ وزیراعظم تعلیم سے فارغ ہوتے ہی ایک سیاسی پارٹی کے شعبۂ تحقیق سے وابستہ ہو گئے۔ پانچ سال جم کر کام کیا۔ پھر وزیراعظم کے سٹاف میں رہے۔ پھر پارٹی کے سیاسی ونگ کے سربراہ بنائے گئے۔ 1992ء کے انتخابات میں ڈیوڈ کیمرون نے بیس بیس گھنٹے روزانہ کام کیا۔ جہاں کام کرتے وہیں سو جاتے۔ پھر اقتصادی ونگ کے انچارج بنے۔ ہر روز صبح ساڑھے چار بجے بیدار ہونے سے اتنا دبائو پڑا کہ سیاست چھوڑ کر صحافت اپنانے کا فیصلہ کیا۔ مگر انتخابات میں فتح ہوئی تو پارٹی کے بڑوں نے واپس طلب کیا اور وزیر خزانہ کا خصوصی ایڈوائزر مقرر کیا۔ پھر وزارتِ داخلہ میں مشیر رہے۔ پارلیمنٹ کا ممبر منتخب ہونے کے بعد بھی سفر جاری رہا۔ ہوم افیئرز کمیٹی کے رکن رہے۔ شیڈو منسٹر رہے۔ شیڈو لیڈر آف ہائوس رہے۔ پارٹی کے وائس چیئرمین کے طور پر کام کیا۔ پھر شیڈو وزیر تعلیم رہے۔ ان دالانوں اور طویل غلام گردشوں سے گزرنے کے بعد پارٹی کی سربراہی اور وزارت عظمیٰ ملی۔ وہ جو فارسی کے شاعر نے کہا تھا‘ برسوں کی اس سیاسی تربیت پر صادق آتا ہے۔ مٹھی بھر اُون کسی درویش کا خرقہ یوں ہی نہیں بن جاتی۔ اسے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ کپاس کا گالا مٹی سے نکلتے ہی کسی معشوق کا ملبوس یا کسی شہید کا کفن نہیں بن جاتا۔ کاتا جاتا ہے۔ دھاگہ بنتا ہے۔ پھر کھڈی پر چڑھتا ہے۔ پھر رنگ کی بھٹی سے گزرتا ہے ؎
سالہا باید کہ تا یک سنگ اصلی زافتاب
لعل گردد دربدخشان یا عقیق اندر یمن
پتھر کو ایک عرصہ درکار ہے کہ سورج کی روشنی میں پڑا رہے۔ تب جا کر بدخشاں کے لعل یا یمن کے عقیق کی صورت اختیار کرے گا!
لیکن یہ سب کچھ جنوبی ایشیا میں نہیں ہوتا۔ یہاں تو فضا میں ایک غالیچہ اڑتا ہوا آتا ہے۔ عوام کے سروں پر آ کر رکتا ہے۔ اس سے ایک بنا بنایا بڑا آدمی اترتا ہے اور مسند سنبھال لیتا ہے۔ افغانستان کے موجودہ صدر 1973ء میں ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ 1977ء میں واپس آئے لیکن اسی سال سکالر شپ مل گیا اور اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلے گئے۔ ڈاکٹریٹ کیا۔ پروفیسر بنے۔ بڑے آدمی ہو گئے۔ ورلڈ بینک میں کام کیا۔ چار عشروں کے بعد واپس آئے اور براہ راست صدر کے مشیر بن گئے۔ صاحبزادی نیویارک میں قیام پذیر ہیں۔ فلم ڈائریکٹر ہیں۔ بیگم کا تعلق لبنان سے ہے۔
کیا صدارت سے الگ ہو کر صدر اپنے ملک میں قیام کریں گے یا اپنے بچوں کے پاس واپس چلے جائیں گے؟ ؎
سفر ہے شرط! مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
پہلے تو صرف داستانوں میں ہوتا تھا کہ صبح سویرے شہر کے دروازے سے جو شخص سب سے پہلے اندر قدم رکھتا تھا‘ بادشاہ بنا دیا جاتا تھا۔ اب حقیقت میں ایسا ہوتا ہے ؎
یہاں تاج اُس کے سر پر ہوگا جو تڑکے شہر میں داخل ہو
یہاں سایہ ہما کا نہیں پڑتا‘ یہاں کوہِ قاف نہیں ہوتا
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔