فرشتے گڑ گڑا رہے تھے لیکن قدرت نہیں مان رہی تھی …. قدرت کا فیصلہ تھا کہ یہ امتحان ہے، اگر یہ لوگ اس امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ بچ جائےگی اور اگر یہ لوگ اس امتحان میں ناکام ہوتے ہیں تو پھر یہ اس قا بل نہیں کہ ارفع کریم جیسی نابغہ انکے درمیان رہے۔
قدرت نے ہمارا امتحان لیا اور افسوس! ہمیں اس میں عبرت ناک ناکامی ہوئی۔
دس سال کی عمر میں اسے بل گیٹس نے امریکہ بلایا اور وہ بل گیٹس جس کے ایک ایک سیکنڈ کی قیمت ہزار ہا ڈالر میں ہوتی ہے۔ اس بل گیٹس نےاس دس سالہ پاکستانی بچی سے تفصیلی ملاقات کی۔ وہ دنیا کی سب سے کم عمر مائکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل
(MCP)
تھی۔ اس نے اس کمسنی میں دبئی اور ہسپانیہ میں منعقدہ بین الاقوامی کمپیوٹر کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور اپنی قابلیت اور ذہانت سے مندوبین کو انگشت بدنداں کر دیا۔ جہاز اڑانے کا خیال آیا تو دس سال کی عمر میں دبئی میں جہاز اڑایا اور ”پہلی کامیاب فلائٹ“ کا سرٹیفکیٹ لیا!
کیا کیا ارادے تھے اسکے! وہ ، وہ کچھ کرنا چاہتی تھی جو پاکستان کے حکمرانوں کے ذہن میں آ ہی نہیں سکتا! وہ بھارت کی سلی کان ویلی کی طرز پر پاکستان میں ڈیجیٹل ویلی بنانے کا خواب دیکھ رہی تھی۔ اس ویلی میں وہ ایک ایسا ادارہ بنانا چاہتی تھی جہاں مستحق اور لائق طلبہ کمپیوٹر اور سائنس کی تعلیم مفت حاصل کریں اور ذہین لوگوں کیلئے وسائل مہیا ہوں۔ یہ سارے خواب خواب ہی رہے، دسمبر کے تیسرے ہفتے میں اس پر دل کی بیماری کا حملہ ہوا اور پھر پیچیدگی بڑھتی گئی، وہ بے ہوش ہو گئی ۔
دنیا کی سب سے کم عمر کمپیوٹر کی نابغہ…. نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام کا قیمتی اثاثہ …. ارفع…. چھبیس دن موت و حیات کی کشمکش میں پڑی رہی۔ چھبیس دنوں میں اگر چار دن اور جمع کیے جائیں تو پورا ایک مہینہ بن جاتا ہے۔ اس سارے عرصہ میں حکومت پاکستان کا کوئی نمائندہ ،کوئی وزیر اعظم، کوئی صدر، سائنس ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کا کوئی وزیر اس کے پاس نہ آیا۔ چھپن مسلمان ملکوں میں سے کسی ملک کی حکومت کو خیال نہ آیا کہ ایک مسلمان لڑکی کے، جس نے بھارت اور آئی ٹی میں ترقی یافتہ کئی ملکوں کو ششدر کر دیا ہے، علاج کیلئے سارے امکانات بروئے کار لائے جائیں۔
ہاں! فکر تھی تو اس ”کافر“ بل گیٹس کوتھی جس نے اس کے ماں باپ سے مسلسل رابطہ رکھا اور امریکہ میں مکمل علاج کی پیشکش کی۔ لیکن ارفع تو مشینوں نلکیوں ٹیوبوں اور آلات میں جکڑی ہوئی تھی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اس حالت میں وہ کسی دوسرے ملک میں آخر کس طرح منتقل ہو سکتی ہے! اس کا ایک ہی حل تھا، ایئر ایمبولینس! یعنی ایسا ہوائی جہاز جس میں علاج کی سہولتیں موجود ہوتی ہیں، اس میں مریض کو مشینوں ٹیوبوں نلکیوں اور آلات سمیت لٹایا جاتا ہے۔ پیر پگاڑا کو حال ہی میں ایئر ایمبولینس ہی کے ذریعے برطانیہ منتقل کیا گیا تھا۔
لیکن ارفع کریم کو ایئر ایمبو لینس کہاں سے ملتی؟ ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کی بیٹی۔ اور ایئر ایمبولینس! یہ کس طرح ممکن تھا! وہ سیاست دان تھی نہ جاگیردار، گدی نشین تھی نہ جرنیل۔ اور لڑکا بھی نہیں تھا۔ وہ تو لڑکی تھی، جس ملک میں لڑکیوں کے سکول جلا دیئے جاتے ہوں اور جلانے والوں کو ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہو، جس معاشرے میں لڑکیوں کو زندہ، صحرا میں گاڑ دیا جائے اور ایسا کرنے والے وزارتوں پر براجمان کیے جائیں، جس سوسائٹی میں قاتل کی جان بچانے کیلئے اس کی کم سن بہن یا بیٹی مقتول خاندان کے کسی بڈھے کی ”بیوی“ بنا دی جائے اور جس عالم اسلام کے معتبر ترین ملک میں خواتین کو گاڑی چلانے کے ”جرم“ میں گرفتار کر لیا جائے، وہاں ایک لڑکی کیلئے ایئر ایمبولینس! آخر یہ کس طرح ممکن ہے!
چھبیس دن ارفع کریم موت و حیات کی کشمکش میں رہی، عالم اسلام کی کسی حکومت نے بشمول حکومت پاکستان اس کو دبئی یا امریکہ منتقل کرنے کے انتظامات نہ کیے، انتظامات تو دور کی بات ہے، کسی صدر، کسی وزیر اعظم، کسی بادشاہ، کسی وزیر اعلیٰ کو اتنی توفیق بھی نہ ہوئی کہ وہ آ کر اس نابغہ کو، اس جینیئس کو، اس ہیرے کو، اس موتی کو، اس زندہ معجزے کو…. دیکھ ہی لیتا، بیمار پرسی ہی کر لیتا!
جہاں بات بات پر مذہب کے نام لیوا دھرنے دیتے ہیں اور عوام کی روزمرہ زندگی کو آئے دن غارت کرتے ہیں، جہاں مقدس لوگ جلوس نکالنے کیلئے لاکھوں ڈالر کے معاوضے لیتے ہیں، جہاں چھینک، کھانسی اور زکام کیلئے صوبوں کے حکمرانوں اور پارٹیوں کے سربراہ لندن جاتے ہیں، جہاں ملک کا صدر پورے ملک کے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کو حقارت سے مسترد کرتے ہوئے علاج کے لیے دوسرے ملک میں جاتا ہو، وہاں ارفع کریم کو ایئر ایمبولینس کون مہیا کرتا؟ اسے ہسپتال کون دیکھنے آتا؟ اسکے علاج کی کون فکر کرتا؟ یہ تو ترجیحات کا معاملہ ہے!
ارفع کریم! تم چلی گئیں، اس لیے کہ تمہیں معلوم تھا ہم لوگ تمہارے قابل نہیں! ہمارے پاس تمہارے لیے وقت ہی کہاں تھا! ہم ابھی زمینیں خرید رہے ہیں، ہم اپنے نجی ہوائی جہاز اڑا رہے ہیں، ہم ایئرکنڈیشنڈ پولٹری فارموں کی بڑی بڑی سلطنتیں بنا رہے ہیں۔ ہم رباط سے لیکر کراچی تک اور دبئی سے لیکر جدہ تک محلات اور بُرج اور مینار بنا رہے ہیں۔ ہم جزیرے خرید رہے ہیں۔ ہماری ایک ایک یاچ(کشتی جس میں محل ہوتا ہے) کروڑوں اربوں ڈالروں کی ہے، لندن کا قیمتی سٹور ہمارے لیے اتوار کو نہ کھلے تو ہم پورا سٹور خرید لیتے ہیں۔ ہمیں ہوٹل کا کمرہ نہ ملے تو ہم پورا ہوٹل خرید لیتے ہیں۔ ہمارے باتھ روموں کے واش بیسن، ہمارے کمروں کے کنڈے اور تالے خالص سونے کے ہیں، ہمارے محلات اور فیکٹریاں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہم تو اس قدر مصروف ہیں! ہمارے پاس اتنا وقت ہی کہاں تھا کہ ہم ارفع کریم کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے بیرون ملک کے کسی ہسپتال میں منتقل کر دیتے!
پانچ سو سال سے مسلمانوں کے دامن میں کوئی قابل ذکر ایجاد نہیں، ہم نے کوئی نیوٹن، کوئی ایڈیسن، کوئی گراہم بیل، کوئی آئن سٹائن نہیں پیدا کیا۔ پولیو اور ہیپاٹائٹس بی کے ویکسین سے لیکر پینسلین، موتیے کے آپریشن اور ڈیالیسیس کی مشین تک اور مصنوعی گھٹنوں سے لیکر دل کے بائی پاس اور جگر کے ٹرانس پلانٹ تک سب کچھ دوسروں نے کیا ہے۔ ہر دس لاکھ مسلمانوں میں سے صرف دو سو تیس سائنسدان ہیں جب کہ ہر دس لاکھ امریکیوں میں سے چار ہزار اور ہر دس لاکھ جاپانیوں میں سے پانچ ہزار سائنس دان ہیں۔ شنگھائی کی غیر جانبدار جیاﺅ تانگ یونیورسٹی نے دنیا کی بہترین پانچ سو یونیورسٹیوں کی فہرست تیار کی ہے۔ اس میں مسلمان اکثریت والے کسی ایک مسلمان ملک کی یونیورسٹی بھی جگہ نہیں پا سکی۔
اس لیے کہ ہماری ترجیحات مختلف ہیں، ہماری ترجیحات میں محلات، بینک بیلنس، ذاتی جہاز، یا چیں، چینی کے کارخانے، ، زیورات، جاگیریں، اور قیمتی کاریں شامل ہیں۔ ہم سیاست یا گدی نشینی کے ذریعے ان پڑھ عوام پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں سائنسدانوں کی ضرورت ہے نہ یونیورسٹیوں کی، انجینئروں کی نہ ٹیکنالوجی کی۔ ارفع کریم اگر ایکٹریس ہوتی یا کھلاڑی یا کسی مقتدر خاندان کی چشم و چراغ ہوتی تو عیادت کرنےوالوں میں مشرق وسطیٰ کے شیوخ بھی شامل ہوتے اور ہمارے اپنے حکمران بھی۔ اور ایئر ایمبولینسوں کی قطار لگ جاتی۔ ضمیر جعفری کا یہ شعر مزاحیہ نہیں بلکہ ماتمی ہے:
بڑی مدت سے کوئی دیدہ ور پیدا نہیں ہوتا
جو ہوتا ہے مسلمانوں کے گھر پیدا نہیں ہوتا