کلاڑک صاحب اپنے زمانے کے بہت مالدار آدمی تھے۔ انہوں نے تجارت میں بہت دولت کمائی تھی۔ وہ انگلینڈکے رہنے والے تھے۔ جب انہوں نے سنا کہ عالیشان جہاز ٹائیٹانک اپنے پہلے سفر کے لئے روانہ ہونے والا تھا تو ان کی بڑ ی خواہش تھی کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ اس سفر میں شامل ہوں۔کلاڑک صاحب نے اس جہازکی بڑی تعریف سنی تھی۔ ٹائیٹانک جہاز نہ صرف بہت بڑا تھا بلکہ نہایت عالیشان بھی تھا۔ اس کو بنانے میں بہت محنت لگی۔ ہر جگہ اس جہاز کا چرچا تھا۔ اس میں بہت سی سہولتیں تھیں۔ یہ جہاز پانی پر چلتا ہوا ایک ہوٹل کی طرح بنایا گیا ہے۔ جہاز اندر سے بالکل ایک محل کی طرح تھا۔ کلاڑک صاحب کے رئیس احباب اس جہاز پر سفر کرنے والے تھے۔ اس جہاز میں شامل ہوکر کلاڑک صاحب بڑے بڑے لوگوں سے ملتے ۔ اس طرح یہ سفر ان کی تجارت کے لئے بھی فائدہ مند رہتا۔ وہ جہاز انگلینڈ سے امریکہ کے لئے اپنا پہلا سفرطے کرنے والا تھا۔ کلاڑک صاحب اپنی بیگم اور پانچ بچوں کے ساتھ اس جہاز میں جانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے سارے پیسے اس جہاز کی مہنگی ٹکٹ خریدنے میں لگادی۔ کسی وجہ سے سفر پر نہ جانے سے ان ٹکٹوں کے پیسے واپس نہیں ہونے والے تھے۔
امریکہ کے لئے جانے سے ایک ہفتے پہلے کلاڑک صاحب کا سب سے چھوٹا لڑکا ، ٹھامس ،اپنے گھر کے باہرراستے پر کھیل رہا تھا۔ اچانک ایک جنگلی کتّا اس کے سامنے آیا۔ کتّے کو دیکھ کر لڑکا ڈر گیا۔ وہ چلاتے ہوئے بھاگنے لگا۔ کتّا اس کے پیچھے اور تیزی سے بھاگا۔ آخر میں کتّے نے ٹھامس کا دایاں پائوں اپنے جبڑے میں لے لیا۔ کتّے نے ٹھامس کو زور سے کاٹا۔ ٹھامس درد سے کراہنے لگا۔ وہ زمین پر گر گیا۔ اس نے چند کنکریاں اٹھائیں اور کتّے کی طرف پھینکیں۔ تب کتّا بھاگ گیا۔ بیٹے کو بہت چوٹ لگی۔ اس کے پائوں سے خون نکلنے لگا۔ کلاڑک صاحب کو اس حادثے کا بہت صدمہ ہوا۔ وہ اپنے بیٹے کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر بیٹے کا علاج کرنے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر نے یہ صلاح بھی دی کہ ٹھامس کو قرنطینیہ میں رکھا جائے۔ٹھامس کی حفاظت اور اس کے آس پاس کے لوگوںکی حفاظت کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ کچھ ہفتوں کے لئے دوسروں سے دور رہے۔ کلاڑک صاحب کی بیگم نے ان سے کہا :’’ آپ باقی چار بچوں کے ساتھ سفر پرچلے جائیں۔ میں یہاں ٹھامس کا خیال رکھ لوں گی۔‘‘ لیکن کلاڑک صاحب کے ضمیر نے انہیں اجازت نہیں دی کہ وہ اپنے بیمار بیٹے اور بیوی کو چھوڑ کر دور دراز کے سفر پر نکل جائیں۔ بدھ بارہ اپریل 1912جب ٹائیٹانک کا جہازانگلینڈ سے روانہ ہوا، توکلاڑک صاحب بھیڑ میں کھڑے آنسو بہا رہے تھے۔ وہ بہت مایوس اور بے بس تھے۔ ان کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔ انہوں نے اتنی محنت سے جو پیسے جمع کئے تھے وہ سب پانی میں مل گئے۔ انہیں اس بات کا شدید افسوس تھا کہ ٹکٹ خریدنے کے باوجود ان کے گھر کا کوئی بھی فرد اس جہاز پر سفرنہیں کرپایا۔
پانچ دن بعد پندرہ اپریل کو جب کلاڑک صاحب تک یہ خبر پہنچی کہ ٹائیٹانک کا جہازایک برفانی تودے سے ٹکڑا کر ڈوب گیا تو کلاڑک صاحب ایک طرف تو اداس تھے کہ جہاز کے اتنے سارے مسافر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دوسری طرف وہ نہایت خوش بھی تھے کہ وہ اور ان کا خاندان اس سفر پر نہیں گئے۔ آج شاید وہ زندہ نہیں رہتے۔ کلاڑک اس کتّے کی تلاش کرنے لگے۔ وہ کتے کے نہایت احسانمند تھے۔ اگر ان کے بیٹے کو کتّا نہیں کاٹتا تو ان کا پورا خاندان ختم ہوجاتا۔
آدمی منصوبہ بناتا رہتا ہے ۔ پھر بھی زندگی میںسب کچھ آدمی کے منصوبہ کے تحت نہیں ہوتا۔ جب آپ کوئی کھیل کھیلتے ہیں تو آپ پوری تیاری کر تے ہیںتاکہ آپ کھیل جیت جائیں۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ سب کچھ آپ کے ارادے کے مطابق ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک بار آپ نے اپنی چال چل دی آپ کا مخالف جوچال چلے گا اس پر آپ کاکوئی اختیار نہیں۔آپ کے مخالف نے بھی اپنا منصوبہ بنایا ہوگا۔زندگی کے کھیل میں سب کچھ آپ کے منصوبے کے تحت نہیں چلتا۔اس لئے وقت کے ساتھ چلنا بہتر ہے۔آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر سختی اختیار کرنا بے سود ہے۔ زندگی قدم قدم پر مشکلوں سے آپ پر وار کرتی ہے۔ آپ ان مشکلوں کو ایک چیلنج کی طرح لیں۔ پریشانیوں کا سامنا کرتے ہوئے آپ اپنے ارادے کو ان کے مطابق ڈھالنا سیکھ لیں۔وقت کے ساتھ آنے والی پریشانی کو اپنے نئے منصوبے کے ساتھ اپنائیں۔ایک ہی بات پر قائم رہنانادانی ہے۔ آبشار کا پانی بھی جب پہاڑ سے اترتا ہے اور وہ اپنی منزل کی طرف جاتاہے تو وہ اپنے سفر کے مطابق اپنے ارادے بدلتا ہے۔جب راستے میں پتھر آتا ہے تو پانی نہیں رکتا۔ پانی پتھر کے اوپر یا اس کے نیچے سے نکل جاتا ہے۔ وہ منزل کے آنے تک چلتا رہتا ہے۔اسی طرح آپ کے راستے میں جو بھی پریشانی آئے آپ اس کے مطابق اپنے منصوبے میں تبدیلی لاتے ہوئے چلتے جائیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...