زندگی کا سفر تمام ترعین توقعات کے نصاب پرپورا اترے۔۔،ایسا کویؑ خواب پرست بھی نہیں سوچتا۔۔ فیس بک پرخوبیؑ اتفاقات کے ساتھ خرابیؑ حادثات نہ ہو۔۔ یہ بھی ممکن نہیں۔۔کچھ سن رکھا تھا کہ یہ بھی وہی دنیا ہے جہاں ؎ ایک چہرے پر کٰؑ چہرے سجا لیتے ہیں لوگ۔۔ اور جنس بدل جانے کی خبریں تو صداقت پرمبنی ہوتی ہیں لیکن یہاں ؎ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔۔ پارسایؑ کے دعوے دھرے رہ جاییں گے اور کسی داڑھی مونچھوں والی حسینہ کی جلوہ نمایؑ نے عقل و خرد کو زیر دام کر لیا توسمجھو ؎ اس عاشقی میں عزت سادات بھی گیؑ۔۔ بالون کی سفیدی کے ساتھ منہ کالا ہوا تو نصف صدی ساتھ چلنے پر مجبور زندگی کی گاڑی کا دوسرا پہیہ جام نہ ہو جاۓ ۔یہ بھی جان لو
۔ ہم ڈرے سہمے اپنی بزرگی کی ڈھال کے پیچھے چلتے رہے ۔حادثات پھر بھی ہوۓ۔اچانک دیوار پر ایسی ہوش ربا تصاویر نمودار ہونے لگیں کہ نظر بچا کے اور چھپ چھپاکے دیکھی جاییں تو بے اختیار دل سے آہ اور زبان سے واہ نکلے لیکن شرمندہ کرنے کی کوشش ناکام کرنے والے لواحقین کے توجہ دلانے پر لاحول ولا قوۃ کہنا لازمی ہوگیا ،اپنے فرشتہ سیرت اورمعصوم ہونے کا سرکاری بیان جاری کرنا بھی ضروری تھا ماہرین نے خوش خبری دی کہ ؎ ۔ اپ کی ایؑ ڈی ہیک ہوگیؑ ہے ۔۔ہم نے شرم سے زمین میں گڑ جانے کے بعد پوچھا کہ ؎ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ھے کہ نہیں۔۔۔ تو بولے کہ ہاں جیسے زکام کا علاج ہے۔۔دوا کرو توسات دن میں شفا ۔۔ نہ کرو تو ایک ہفتے میں ٹھیک۔۔پاس ورڈ بدل دو۔۔کچھ عرصہ خیریت رہی پھر اچانک ایسی تصاویر کی یلغار ہوییؑ کہ جی چاہا جرم توہین رسالت میں خود کو فی الفورمرحوم ملعون کے منصب پر فایز کرلیں ورنہ بعد از خرابیؑ بسیار ہونا تو یہی ہے۔۔ ؎ ؎ہم تو سمجھے تھے کہ غالب کے اڑیں گے پرزے۔۔دیکھنے ہم بھی گۓ تھے پہ تماشا نہ ہوا
اس باربھی با عزت گلو خلاصی ھونے پراحساس ہوافیس بک کی دنیا میں سب کے ساتھ سب کچھ ہوتا ہے۔۔۔ اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔ اب عادی ہوگۓ تو اطمیناں ہے۔ جیسے داییں گھتںے کی ھڈی 80 سال مسلسل استعمال سے گھس گیی تو ہم پنکچر ہو جانے والی کار کی طرح چلنے لگے۔ درد کے ساتھ ہاۓ تو خود بخود ہر قدم پر خارج ہوتی تھی۔ہر قسم کے جسمانی روحانی مستند اور غیر ضروری معالج کی کوشش کے با وجود ؎ درد منت کش دوا نہ ہوا ۔۔ فایدہ یہ ھوا کہ ہم درد کے عادی ہوگۓ ایک دانش ور نے فرمایا کہ علاج سے صرف معالج کو فایدہ ہوتا ہے ۔اب مجھے دیکھو چھینکوں کا اسان علاج خود کرلیا۔۔پوچھا وہ کیا تو بولے۔۔ جب چھیمک آتی ہے چھینک لیتا ہوں۔۔۔ ڈیڑھ ٹانگ والےایک فلسفی کا قول پڑھا کہ زندگی "لنگڑی پالے" کا کھیل ہے۔۔اس کے بعد علاج چھوڑ دیا۔اب فیس بک پربھی ؎ گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا۔۔والی صورت حال ہے۔۔آسان زبان میں کیا جاۓ گا ہم ڈھیٹ ہو گۓ ہیں
ابھی گزشتہ ہفتے دیکھا کہ اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی۔۔ ہم نے بھی آگے ارادی۔ ایک خود ساختہ بریکنگ نیوز والے یعن خبر کی ٹانگ جتوڑنے والے صحافی جو برضاےؑ الہیٰ کسی مدرسہ کے مہتمم بھی تھے نہ جانے کیون ہمارے خلاف ایک قوالی شروع کردی اور ان کی تال سے تال ملانے والی پارٹی نے کورس شروع کردیا کہ ہم نے یہ خبر چرا کے ان سے اس سال ملنے والا صحافت کا سب سے بڑا عالمی ایوارڈ (غالبا") پللٹزر پرایز چھین لیا ہے؎۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جاۓ اے خدا۔۔ ان کو تو یہ بھی خبر نہیں کہ پاکستان میں خبرنہیں ہوتی۔۔ قبر ہوتی ہے جس میں حقایق دفن کردۓ جاتے ہیں اور واقعات کے بعد قیاس آراییوں۔ افواہون سیاسی اور سرکاری بیانوں کمیشنوں کی تحقیقاتی رپورٹوں سے اڑنے والی ہر قسم کے جھوٹ کی گرد ہوتی ہے جس میں سب کو خبر ںظر آتی ہے مگر خبر ؎ ہر چند کہیں کہ ہے۔۔نہیں ھے۔۔ پس جو چیز ہوتی ہی نہیں وہ چوری کیسے ہوسکتی ہے؟ ہم بھی قوالی سنتے رہے اور مسکراتے رہے حالانکہ ؎ بہ ایں عقل و دانش ببا ید گریست
دو دن ہوۓ ایک انتہایؑ نیک سیرت اعلیٰ تعلیم یافتہو محترم خاتون کی فریاد نظر سے گزری کہ فیس بک پر پچاس پچاس نقلی شناخت اور فرضی نام سے دانشوری کی دکان سجانے والون نے ان کی زندگی کیسے اجیرن کی۔ان سے ہم دردی محض اشک شویؑ تھی۔اصل زندگی میں کردار کی بدصورتی جنس کی بے راہ روی کا وہ سیل بے عناں ہے جس کے آگے اخلاقیات کا بند باندھنا ؎ خیال است و محال است و جنوں۔۔ اس حیوانیت کے مظاہرے پر فیس بک سے پہلے والے کسی دور میں بھی قد غن نہ تھی چنانچہ غالب نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کر لیا تھا کہ ؎آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔ اب یہ فیس بک ؎ جنگل ہے کہ بستی ہے۔ گلشن ہے کہ صحرا ہے۔۔ کیسا نظر اتا ہے اے چشم تماشایؑ؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...