’’جو چیز کام کی نہیں اُسے ختم ہو جانا چاہیے‘‘
ہمیں کتب کی ضرورت نہیں رہی۔ جو کتب تھیں وہ پی ڈی ایف کی صورت میں جذبۂ دیی یا علم کی ’’خدمت‘‘ کے چکر میں انٹرنیٹ پر فراہم کی جا چکی ہیں۔ الیکٹرانک صورت میں کتب کی (کسی قانونی ضابطے کے بغیر) تقسیم پاکستان میں کتاب چھپنے کے لیے قاتلانہ وار ثابت ہو گا۔
کمپیوٹر کی ترویج کے بعد جیسے ہم نے عید کارڈز، پوسٹرز اور حتیٰ کہ مہندی کے ڈیزائن، گھریلو ٹوٹکے، کوکنگ بکس اور عملیات اسمائے کے علاوہ منتخب شعری مجموعوں حسنی جیسی کتب سے نجات حاصل کر لی ہے، اب دینی اور تاریخی کتب (جیسے تاریخ طبری، تاریخ ابن خلدون، صحیح بخاری، صحیح مسلم) نیز لغات سے بھی نجات پانے کا عمل جاری ہے۔ اس میں دیر لگنے کی وجہ یہ ہے کہ اس شعبے کی کتب کافی زیادہ ہیں۔ لیکن علم کی ’’خدمت‘‘ کا جذبہ فارغ نہیں بیٹھا۔
مذکورہ بالا کتب (عملیات، مہندی کے ڈیزائن، مرغیوں کی بیماریاں) کی اشاعت کی وجہ سے ہی فلسفہ، سائنس اور سنجیدہ ادب کی کتب کی اشاعت کو سہارا ملتا تھا۔
اکیسویں صدی کے پانچویں چھٹے سال کے بعد سنجیدہ کتب کی اشاعت میں تیزی سے کمی مشاہدہ کی گئی ہے۔ اپنی جیب سے کتب شائع کروانے والے شاعر و ادیب، نیز شوقیہ مفت تراجم و ایڈیٹنگ کرنے والے حضرات کی ’’خدمات‘‘ بھی اسی سمت میں ایک مؤثر قدم ہیں (البتہ ان کی اپنے سرمائے سے چھپوائی ہوئی کتب کئی پبلشرز کی آمدنی کا فی الحال باعزت ذریعہ ہیں)۔ لاہور میں مال روڈ پر فیروز سنز، ماورا، وین گارڈ چند دیگر اہم و تاریخی کتب مراکز بند ہو چکے ہیں یا بند ہونے کو ہیں۔ ریگل چوک میں کلاسیک نے چند سال قبل اپنا نام بروقت بدل کار’’کلاسیک بکس اینڈ بیکرز‘‘ رکھ لیا تھا۔
جس طرح نظریہ پاکستان ٹرسٹ جیسا مہیب ادارہ موجود ہے مگر بے دلیل نظریہ پاکستان دو سطروں کا بھی نہیں، اور جس طرح دیو قامت ادارے اکادمی ادبیات کا کام صرف ادیبوں شاعروں کی وفات پر چیئرمین کو سرکاری خرچ پر کبھی کراچی اور کبھی کوئٹہ وغیرہ بھیجنا ہے نہ کہ ادب کو فروغ دینے کے سلسلے میں کوئی وقیع کام کرنا، اسی طرح اب آپ کے کمپیوٹر اور فون تو سینکڑوں پی ڈی ایف کتابوں سے بھرے ہوں گے، مگر کتاب کی کارآمد حیثیت ہی ختم ہو چکی ہو گی۔ ان شا اللہ۔ ہم محض اندھی آنکھوں میں سرمہ سجا کر پھریں گے۔ نہ بصیرت ہو گی نہ بصارت۔
مملکت خدا داد پاکستان ہر لحاظ سے عمران خان اور محکمہ زراعت کی امیدوں کے مطابق بنتا جا رہا ہے۔
یہ تصویر راولپنڈی کے اولین کتب خانوں میں سے ایک کی مِسماری کا منظر پیش کرتی ہے۔ نہ جسم رہے گا نہ خارش ہو گی۔ خس کم جہاں پاک
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔