ہماری اسٹیبلش منٹ کے ریاستی بیانئے کی یہ سطر اتنی بار روزانہ کی بنیاد پر دہرائی جاتی ہے۔ کہ یہ وہ ماتمی سطرہے جسے ہر پاکستانی کو رٹا دیا جاتا ہے۔ انڈیا دشمنی کی ساری روح اسی ایک فقرے میں بند ہے۔ آیئے اس کا کچھ تجزیہ کرنے کی کوشش کریں۔
1۔ کیا اس میں کوئی شک والی بات ہے کہ ہندوستان ہندووں، بدھ مت، جین مت یعنی غیرمسلم انسانوں کا ملک تھا۔۔ مسلمان ہندوستان پرحملہ آور ہوئے۔ قبضہ کیا، سلطان اور بادشاہ بن گے۔۔ کچھ حکمران مسلمانوں کی وہ نسلیں تھی، جو حملہ آور تھے، اور کافی سارے مسلمان ہندووں سے مذہب بدل کر مسلمان ہوگے۔ جیسے کہ ہمیشہ ہوتا ہے جبر یا فوائد کے لالچ میں مذہب تبدیل کئے جاتے تھے۔ مسلمانوں نے بہت چھوٹی اقلیت میں رہ کر۔۔۔ اسی ہندوستان پر 800 سال حکومت کی۔ ہندو شاہی دربار میں بادشاہ کے حضور سجدے تک کرتے ہے، ان کی فوجوں کے کمانڈرز بنے۔۔ بغاوتیں، لڑائیاں، جنگیں، قبضے پرانے زمانے کا عام چلن تھا۔ پوری ہندوستانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔۔ کہ مسلمان بادشاہوں نے خالص مسلم فوج کے ساتھ حکمرانی یا قبضہ گیری کی ہو۔۔ ان میں ہندو اعلی عہدوں سے لے کرنیچے درجے تک موجود ہوتے تھے۔ مسلمان حکمران آپس میں کبھی اس طرح نہیں لڑے۔۔ کہ مسلمانوں اورمقامی ہندووں کی لڑائی میں آمنے سامنے ہوں۔۔ ایک مسلمان حاکم دوسرے مسلمان حاکموں سے جنگیں اور قتل و غارت کرتا رہا۔۔ اور ہندو کسی بھی طرف یا دونوں طرف ہوتے رہے۔۔ 1857 اور 1947 تک ہندوستان میں مسلمان تقریبا ایک چوتھائی رہے۔ یعنی ہندوستانی مقامی اوریجنل ہندوستان کے مالک ۔۔۔ مسلمانوں کے 800 سال تقریبا غلامی کی زندگی گزارتے رہے۔۔ مسلمان حکمرانوں نے دل کیا، اچھا سلوک کرلیا، دل کیا، بدترین سلوک کرلیا (اورنگ زیب کا زمانہ)۔
مسلمان اپنی انا کو خوش کرنے کے لئے ہندووں کو اسی لئے ‘بزدل بنئے ‘ کہتے ہیں۔۔ پاکستان میں یہ اصطلاح ریاستی اور سرکاری لغت کی حثیت رکھتی ہے۔ کہ ہندو اکثریت، مقامی نسلی ہونے کے باوجود ۔۔ مسلمانون کے زیرحکمران رہے۔۔۔ ہم مسلمان غیرمسلموں کی اچھائی اور احسان کو بھی طعنہ بنا لیتے ہیں۔ حالانکہ قوموں کا اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے۔۔۔ جیسے مختلف افراد کا مختلف مزاج ہوتا ہے۔ کچھ گرم مزاج ہوتے، کچھ ٹھنڈے، کچھ تیز طرار، کچھ سیدھے سادے، کچھ جھگڑالو ہوتے ہیں، کچھ درگزر کرنے والے۔۔۔۔۔ ہم مسلمانوں میں پہلے نمبر والی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔۔ ہم جس کا کھاتے ہیں۔۔ اسی کو نوچتے ہیں۔۔۔ ہندو تاریخی طور پر اپنی بنیاد سے قدرے امن پسند اور روادار لوگ ہیں۔ اسی لئے ہندوستان کے ہندو حکمرانوں نے کبھی کسی ملک اور قوم پر جارحیت کرکے قبضہ نہیں کیا۔۔ ان کی پوری تاریخ گواہ ہے۔ مسلمانوں کا آغاز حملوں، قبضوں اور مال غنیمت کے حصول کے لئے تھا۔۔ جس میں لڑکیاں اور خواتین کو اٹھانا بھی شامل تھا۔ اور ان کے خرید و فروخت، کھلا سیکس عین شرعی تھا۔ لیکن ہم مسلمانون کا خاصہ ہے۔ ہم جو بھی تاریخ میں کرتے ہیں۔۔ ‘ نیکی ‘ اور ‘ اعلی سلوک’ کے لئے کرتے رہے ہیں۔ ہندوستان پر قبضہ اور بار بار حملے بھی ہم نے ‘ بت شکنی ‘ کے لئے کیے تھے۔۔ ہمیں اپنی مکارانہ تعبیر کو داد دینی چاہئے۔۔ ۔!! ہندوستان کے جو Native باسی تھے، وہ انسان تو تھے ہی نہیں۔۔ ان کو اپنی سرزمین پراپنے وطن میں اپنی مرضی سے رہنے کا کوئی حق نہ تھا۔۔ ان پر ‘ نیک قبضہ’ کرکے ہم نے ان کو ‘ ٹھیک ‘ کرنا تھا۔۔ یہ سادگی ہے یا مکاری ہے، یہ کوئی نیکی تھی، یا انتہائی ظالمانہ جارحیت تھی۔۔؟
ہندووں کی رواداری دیکھیں، 1857 کی بغاوت میں ایک موئے مارے مسلمان بادشاہ جس کی قبر میں ٹانگیں تھی، (اگرچہ اس وقت بھی وہ قلعہ کے اندرشادیاں رچا رہا تھا، مسلمانوں کا کریکڑ نوٹ کریں) ہندوستان تو کجا ، قلعہ کے اندر بھی حکمرانی نہیں رہ گئی تھی۔۔۔ انگریزوں کا وظیفہ خور اور ان کی نگرانی میں رہنے والا۔۔ انگریز واضح کرچکے تھے۔۔ کہ مغل بادشاہت اس کے بعد ختم۔۔ باغی ہندووں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت میں پھر ۔۔ اسی لولے لنگڑے نام نہاد مسلمان بادشاہ کی قیادت قبول کرلی۔۔۔ کہ مغل بادشاہت ہندوستان کی علامت ہے۔
یہ تھی۔۔۔ ہندوستان کے ہندووں کی رواداری۔۔۔ ایک لاغربادشاہ ۔۔ اسی مسلمان بادشاہ کو ہندوستانی قوم پرستی کی علامت بنا کرانگریزوں سے جنگ پر آمادہ ہوگے۔۔۔۔!! اگر ہندو متعصب ہوتے۔۔ انگریزوں کے ساتھ مل کراس مسلمان بادشاہ کو دریائے جمنا میں پھینکوا دیتے۔۔ میں نے بطور مسلمان گھرانے اور اسلامی ملک میں پیدا ہونے کے۔۔ کبھی نہیں پڑھا۔۔ کسی مسلمان نے کبھی کسی غیرمسلم کے احسانات کو سراہا ہو۔۔۔ ہمارے خمیر میں ہی نہیں ہے۔۔ اسی لئے مسلمان پوری دنیا میں۔۔۔ کسی کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے۔۔ اگر جونہی ان کی زرا بھی عددی قوت ہوجائے۔۔۔ یہ قبضے اور احسان کشی کا عمل شروع کردیتے ہیں۔۔
اب ہم انیسویں صدی میں چلتے ہیں۔۔ یہاں سے ہندو مسلم تقسیم کیسے ہونا شروع ہوتی ہے۔۔ کوئی بھی معاشرہ ہو، خاص طور پر اگر وہ تہذیبی اور معاشی لحاط سے پس ماندہ بھی ہے۔۔ وہاں ہر طرح کے تعصبات موجود ہوتے ہیں۔ اور ہر طرح کی انتہا پسندی یا شدت پسندی کے حامل گروپ بھی موجود ہوتے ہیں۔۔ پاکستانی اسلامی ریاست ہے، اور اسلامی معاشرے میں مسلمانوں کے انتہا پسندی، جہادی، سر تن سے جدا، فرقہ وارانہ، کفر کے فتووں کے ساتھ بے شمار گروپس ہیں۔ جو ہروقت اپنے مخالف کے خلاف زہرافشانی کرتے رہتے ہیں۔۔ تو ہم ہندوستان کو اس نظر سے کیوں نہیں دیکھ پاتے؟ وہاں ہندو انتہا پسند کیوں نہیں ہوسکتے؟ ایک ہندووتوا کیون نہیں؟ ان کی انتہا پسندی ایک لحاظ سے جائز بھی قرار دی جا سکتی ہے۔ کہ ان کے مذہبی انتہا پسندی میں قوم پرستی کا عنصر شامل ہے جو ان کی اپنی ہزاروں سال کی دھرتی سے جڑا ہوا ہے۔۔۔ وہ ہندوستان کو اپنے ہندو مت مذہب کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ جیسے آپ مسلمان قومیت کی بنیاد کو فخریہ اور غرور کے ساتھ مذہب اسلام سے جوڑتے ہیں۔۔ ہم مسلمان ہر وہ حرکت جو خود پر حلال سمجھتے ہیں۔۔ وہ دوسروں پر حرام قرار دے دیتے ہیں۔۔۔ یہ کہنا ہم پاکستان اس لئے ہیں، کہ ہم مسلمان ہیں۔۔ تو ہندوووں کو یہی بات کہ ہندوستانی اس لئے ہیں کہ ہم ہندو ہیں ، کہنے کی اجازت کیوں نہیں؟ ہم مکاریوں سے نکل کر معروضی تجزیہ کیوں نہیں کرتے۔۔ ہم اتنے خود غرض اور نرگسیت کا شکار کیوں ہیں؟ سات ارب کی انسانی آبادی میں مسلمانوں کو کسی طرح بھی خدائی ، نسلی امتیازی مقام حاصل نہیں ہیں۔۔ آپ سپر ہیومین، سپر امہ نہیں ہیں۔۔ سچ تو یہ ہے آپ کچھ بھی نہیں ہیں۔۔ انسانیت کا بے کار حصہ ہیں۔۔کئی سو سال سے آپ کی انسانی تعیمر وترقی میں کوئی کنڑیبیوشن ہی نہیں۔۔
ہم بات یہ کررہے تھے کہ 19ویں صدی میں مسلمان اور ہندووں میں سیاسی تفریق اور تقسیم کیسے شروع ہوئی۔۔ جب انگریزوں کا ہندوستان پرقبضہ ہوچکا۔۔ اور مسلمانوں سے حکومت چھن گئی۔۔ تو مسلمانوں کے دو تین ردعمل ہوئے۔۔ ایک احساس محرومی کا شکار۔۔ کہ تخت و تاج چھن گیا۔۔ صدیوں کی حکمرانی گئی۔۔۔ دوسرے ہندووں کی عددی اکثریت کا خدشہ۔۔۔ اب ہونا یہ چاہئے تھا۔۔ کہ لیول پلینگ کھیل چلتا۔۔۔ نہ ہندو حکمران ہیں نہ مسلمان۔۔ ایک تیسری باہر کی طاقت قابض ہوگئی ہے۔۔ مسلمانوں کی اپنے اقتدار کی آخری خواہش 1857 میں بڑی بری طریقےسے اپنی موت آپ مرگئی۔۔
اس کے بعد مسلمانوں نے اپنی سیاسی پناہ انگریزوں کی چمچہ گیری میں کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔
پچھلے 800 سوسالہ اقتدار سے مسلمان پھر بھی ہندوستان میں گھل مل گے تھے، اس لئے بھی کہ بہرحال ان کا تعلق ‘ مشرق/ایشیا ‘ سے تھا۔ گورا تو بالکل ایک اجنبی حکمران تھا۔۔ جو انگلستان سے حکمرانی کررہا تھا۔ ادھر تاریخی لحاط سے دنیا کی صورت حال بھی بدل رہی تھی۔ صنعتی انقلاب برپا ہوچکا ہے، جدید تعلیم کی فاونڈیشن بن چکی ہے۔ سائنسی ایجادات ہورہی ہیں۔۔ عالمی سیاسی تناظر بدل رہا ہے۔۔ خاص طور پر ہندووں میں ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی امنگ زور پکڑتی جاتی ہے۔ انگریز برصغیر میں جدید تعلیم متعارف کرا رہا ہے۔ بنگال میں جدید کالج اور یونیورسٹیاں تعمیر ہورہی ہیں۔ نیا عدالتی اور قانونی نظام آ رہا ہے۔۔ یہ وہ چیزیں تھی۔ جو ہندوستان کے تصوروں میں بھی نہ تھی۔۔ اب nation state کا سیاسی تصور بھی انگریزی تعلیم ہی دے رہی تھی۔۔ دنیا بھر میں سامراجی کالونیل ازم۔۔۔ شکستہ ہورہا ہے۔۔ ہندووں نے جلد ہی انگریزی تعلیم کو حاصل کرنا شروع کردیا۔۔ تاکہ وہ مقتدرہ اور اسٹیبلش منٹ میں اپنا حصہ لے سکیں۔ مسلمان صدیوں سے ہڈ حرام۔۔ جاہل۔۔ عیاش۔۔ ان کی اشرافیہ عظمت رفتہ کے اپنی یادوں کے گیت گاتے رہے۔ اپنی جاگیردارانہ ریاستوں کی نوابی کرتے رہے۔۔ بیٹرے ، مرغے لڑانا، شاعری کرنا۔۔ طوائفوں کے کوٹھے سجانا۔۔۔ غزل گوئی کرنا۔۔ مسلمان اشرافیہ کا لائف سٹائل تھا۔۔ باقی نیچے کے مسلمان ہمیشہ کی طرح نہائت بد حال زندگی گزار رہے تھے۔۔ مسلمانوں نے جدید انگریزی تعلیم سے استفادہ کرنے میں ہندووں کے مقابلے میں 80 سال ضائع کردیئے۔۔۔ جاہلانہ انا کے مارے۔۔ ‘انگریزی کیوں پڑھیں’۔۔ مقدس عربی فارسی، درس نظامی میں ہی رہیں گے’ 1857 کے بعد جب انگریز نے پورے ہندوستان اور پنجاب پر بھی قبضہ کرلیا۔۔ تو پھر سرسید جیسے مسلمان اشرافیہ کے نمائندے کو کچھ ہوش آیا۔۔ کہ ہم نے 100 سوسال جہالت میں کیوں گزار دیئے ہیں۔۔ ہندو اشرافیہ جدید تعلیم پا کر زہنی لحاط سے خود کو پختہ اور مہذب بنا چکی تھی۔۔ اور سیاسی لحاط سے بالغ ہورہی تھی۔۔ ہندوستانی قومیت کی بنا کر انگریزوں سے وطن کی آزادی کے جذباتی شدید تر ہونے لگے۔۔۔
اب مسلمان تعلیم سے بھی پیچھے ہیں۔ ہنرکبھی مسلمانوں نے سیکھا نہ تھا۔۔ کہ ‘ کام کرنا توہین ہے’ شرم آتی ہے۔۔ کاووبار میں بھی پیچھے۔۔ اپنی ہومین ڈویلپ منٹ تو کبھی کی نہیں۔۔ مسلمان تو بس یہ چاہتے ہیں ان کو کوئی آ کرتخت پربٹھا دے۔۔ ہندووں کی ایک تعلیم یافتہ، معاشی لحاط سے خوشحال۔۔ مڈل کلاس بنتی چلی گئی۔۔ مسلمان یا تو چند باقی راجے/نواب تھے چند۔۔ باقی عام مسلمان اللہ کے سہارے ہی رہ رہا تھا۔۔ یعنی جاہل۔۔مذہبی، معاشی بدحالی کے ساتھ۔۔ ہندوستانی مسلمان اشرافیہ (جاگیردار/نواب/مڈل کلاس) نے سیاسی لحاظ سے اپنے تحفظ کے لئے انگریز کی پتلون مضبوطی سے پکڑ لی۔۔۔۔ ان کے سیاسی شعور نے یہ راہ پکڑی۔۔۔۔ کہ اللہ کرے ہندوستان میں زیادہ سے زیادہ دیر تک انگریز حکمران رہیں۔۔۔ انہوں نے انگریزوں کو ایک تھرڈ فورس کے طور پرلیا۔۔ اگر انگریز چلا جاتا ہے، ہندوستان کو آزادی مل جاتی ہے۔۔ تو سامنے ہندووں کی اکثریت کا دیو۔۔۔ہوگا۔۔۔ اور یہ ایک اقلیت۔۔ ہمیشہ کے لئے۔۔۔ اب دنیا میں طرز حکمرانی بھی بدل رہا تھا۔ ایک نیشن سٹیٹ۔۔ جمہوری، آئینی ریاست۔۔۔ جہاں سیاسی پارٹیاں ہونگی۔۔ عوام ووٹ سے اپنے حکمران چنیں گے۔ اسمبلیاں ہونگی۔۔ مسلمان مڈل اور جاگیر دار کلاس۔۔ کو یہ خوف اور عدم تحفظ۔۔۔۔ اوردماغ کے تہہ خانے میں عظمت رفتہ۔۔ 800 سالہ اقلیت میں ہوکرحکمرانی کا خمار۔۔۔ اب جب ایک شہری ایک ووٹ ہوگا۔۔۔ ہم تو ہمیشہ کے لئے ‘ اقلیت ‘ ہوجائیں گےآزاد ہندوستان میں۔۔۔۔ (مسلمانوں کی یہ سوچ بھی غلط تھی۔ میں اس کا بھی بعد میں تجزیہ پیش کروں گا)۔
اب ہندوستان کی سیاسی فضا میں ہندوتوکلیئر تھے، کہ ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانا ہے۔ دوسری طرف پہلی اور دوسری جنگ عظیم، سائنس اور ٹیکنالوجی، عالمی تجارتی رشتے سب مل کر نوآبادیاتی نظام کو کمزور کرکے اس کے خاتمہ کی طرف دھکیل رہے تھے۔ اورانگریز کو پتا تھا کہ اب یہان سے جانا ہی جانا ہے۔ البتہ مسلمان کنفیوزڈ اور تقسیم شدہ تھے۔۔ مسلمانوں کا ایک حصہ ہندوستانی قوم پرستی کواپنایا ہوا تھا۔ جس کی نمائندگی مولانا ابولاکلام آزاد کررہے تھے۔۔ کہ ہم مسلمان تو ہیں۔ لیکن بھارت ہمارا دیس/وطن ہے۔ یہی ہماری شناخت ہے۔ جس طبقے اور اشرافیہ نے پاکستان بنوایا۔۔ وہ پہلے کنفیوزڈ رہا۔۔۔ ہندوستان کو اپنا وطن بھی سمجھتا تھا۔۔ لیکن مسلمانوں کے مفادات کے بارے اقلیتی اورپس ماندہ ہونے کے ناطے اس کے مستقبل پرمتفکر بھی تھا۔ کہ مسلمان اشرافیہ کا آئیندہ کیا بنے گا۔۔۔ انگریز آہستہ آہستہ جمہوری ادارے بھی متعارف کراتا جا رہا ہے۔۔ اور ہندوستانیوں کو صوبائی سطح پر حکومتیں اور وزارتیں بھی دے رہا تھا۔ اس سے بھی مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان مفادات کی کشمکش بڑھ رہی تھی۔۔
ہم دیکھتے ہیں، سرسید بھی پہلے پرو انڈین تھا۔ ہندومسلم اتحاد کا داعی، محمد علی جناح اور اقبال کے بارے بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔۔ کہ وہ ابتدا میں ہندومسلم اتحاد کے حامی اور خود کو ‘ ہندوستانی ‘ سمجھتے تھے۔۔۔ لیکن رفتہ رفتہ مسلم نیشنل ازم کی فکر بھی ابھرنی شروع ہوگی۔۔۔ پھر ایسے بھی ہوا۔۔۔ کہ آزادی کے بعد ہندوستان کی کنفیڈریشن بنا لی جائے۔۔ اقبال کی تجویز اور 1940 کی قرارداد۔۔۔ ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے۔۔ مختلف مسلم ریاستوں (صوبوں) کی تھی۔۔ ہم پاکستانی معروضی تجزیہ کرنے کی بجائے۔۔۔ ہر بات کو خود تعریفی اور خود تحسینی کی طرف لے جاتے ہیں۔۔ جب یہ کہا ہے، کہ سرسید/اقبال/ جناح۔۔۔ ہندومسلم اتحاد کے داعی تھے۔۔۔ تو ہم اس کو مینی پولیٹ کرکے یہ ‘ ثابت ‘ کرنا چاہتے ہیں۔ کہ ہماری نیت ٹھیک تھی۔۔ یہ خبیث ہندو ہی متعصب تھے۔۔جنہوں نے ہمیں علحیدہ پاکستان کی طرف دھکیلا تھا۔۔۔ جب کہ بات ایسی نہیں ہے۔۔۔ اصل چیز ہے کہ چیزیں ہوں، حالات ہون، افکار ہوں۔۔ تحریکیں ہوں۔۔ وہ ارتقائی مراحل سے گزر کر کسی حتمی شکل کو پہنچتی ہیں۔۔ سرسید/اقبال/جناح کا خود کو ایک وقت میں ہندوستانی سمجھنا بالکل فطری بات تھی۔۔ظاہرہے کہ وہ پیدائشی ہندوستانی تھے۔۔ اوربطور مسلم کمیونٹی صدیوں سے تھے۔۔ علحیدگی کے تصورنے ارتقائی مرحلوں سے گزر کر ہی پختہ ہونا تھا۔۔ یعنی پہلے متحدہ ہندوستان کی بات ہوتی ہے، پھر صوبائی خود مختار ریاستوں کی۔۔ انڈین یونین کے ماتحت ہی۔۔۔ اور پھر بالکل الگ ہوجانے کی۔۔۔
پاکستان بنانے میں دو فیکڑز اہم ہوئے۔۔۔ انگریز 1857 کے بعد مسلمانوں کے سخت خلاف ہوئے۔۔۔ان کی بغاوت کی وجہ سے۔۔ لیکن رفتہ رفتہ۔۔۔ جب ان کی نظریں دور رس کام کرنے لگی۔۔ اور آئیندہ کے دنیا کا نقشہ ابھرنے لگا۔۔ تو انگریزوں کو سمجھ آئی۔۔ کہ ہندوستان میں ہندو مسلم تقسیم اور بالآخر ایک الگ مسلمان ریاست ان کے مفاد میں رہے گی۔۔۔ مسلمان انگریزی فوج میں جوق در جوق داخل ہونے لگے۔۔ اورانگریزوں نے وہ مسلم علاقے بھی دریافت کرلئے۔۔ جہاں مسلم لشکری پیشے کے کارآمد تھے۔۔۔ یہی پنجاب کا جو معروف عسکری ریجن ہے۔ اور قبائلی پختون۔۔ اور جب تک ہندوستان پرقبضہ ہے۔۔ ہندو مسلم تناو ان کے مفاد میں ہے۔ ادھر مسلمانوں کا توہی عدم تحفظ ۔۔ کہ مستقبل میں ہمارا کیا بنے گا۔۔ خوفناک ابدی اقلیت کا۔۔ جو علمی اور عملی لحاط سے بھی ہندووں سے بہت کم ترہے۔ چنانچہ مسلم قومیت کی بنا پرہندوستان کی تقسیم کا خیال زیادہ سے زیادہ پختہ اور غالب ہوتا چلا گیا۔۔۔ اگرچہ اخری دم تک ہمیں نظر آتا ہے کہ قائد اعظم پاکستان بن پاتا ہے یا نہیں۔۔ انگریز ایسا ہونے دیتا ہے یا نہیں۔۔ گومگو میں رہے۔۔ انہیں آخری دم تک اس کا یقین اوراعتماد نہ تھا۔۔ اسی لئے ظاہری طور پر وہ مسلم قومیت کی بنا پرسخت انٹی ہندو موقف اپناتے رہے۔۔ لیکن اندر کھاتے۔۔۔ لچک بھی رکھتے رہے۔۔ جب وہ متحدہ ہندوستان میں رہنے کے لئے15 سال کے لئے 1946 میں مان گے۔۔
اب ہم اپنی بحث کے اہم موڑ پرپہنچ رہے ہیں۔ یہ چند نکات یاد رکھیں۔۔
1۔ انگریز مستقبل میں روسی کمیونزم کو روکنے کی پلاننگ میں مجوزہ پاکستان اور اس کی بھاری آرمی پراںحصار کرنے کا سوچ رہا ہے۔ انگریز اپنے اس ‘ اثاثے’ کوکھونا نہیں چاہتا۔۔۔ اس ‘فریضے’ کی ادائگی کے لئے مسلم لیگی قیادت (جناح/لیاقت) انگریزوں کو یقینی دہانی بھی کرا رہے ہیں۔۔ وہ انہیں باور کرا رہےہیں۔ یہ ہندو۔۔۔ہندوستان۔۔ آپ کا وفادار نہیں ہوگا۔۔۔
2۔ مسلم لیگ اور اس کی قیادت کو انگریزوں کے ہندوستان پر قابض رہنے پرکوئی اعتراض نہ تھا۔۔۔ یہ ‘آزاد ہندوستان’ سے انگریزوں کے زیر سایہ رہنے کو عافیت سمجھتے تھے۔۔ اس قدر ہندو اکثریت کا خوف یا احساس کمتری تھا۔۔ چنانچہ مسلم لیگ بشمول قیادت۔۔۔ نے ‘ہندوستان کی آزادی’ یا وطن کی آزادی کی کبھی بات نہیں کی۔۔ نہ جدوجہد۔۔۔۔ وطن کی استعمار، سامراج،نوآباد کاروں سے آزادی حاصل کرنا۔۔ ایک سخت جنگ ہوتی ہے، جس میں ہمیشہ بڑی قربانیاں دی جاتی ہیں۔۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوا۔۔ کسی کو آسانی سے کبھی قابض قوموں نے آزاد نہیں کیا۔۔۔ ہم دیکھتے ہیں آزادی کی یہ ساری قیمت۔۔ ہندووں یا کانگریس نے ادا کی۔۔ مسلم لیگی مسلمانوں نے نہیں۔۔ جب یہ کہا جاتا ہے۔۔ کہ آزادی کے لئے مسلم لیگ بمعہ قیادت نے ایک گھنٹہ بھی تھانے نہیں گزارا۔۔ کبھی مسلم لیگی قائد جیل یاترا پر نہیں گیا۔۔ تو اس کا مطلب کیا نکلتا ہے؟ کہ مسلم لیگ انگریزوں کے ساتھ ایک پیج پرتھی۔۔ ‘آپ رہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔۔ اور اگر جاتے ہیں۔ تو ہمیں الگ ملک دیں جائیں۔۔”
3۔ اس کے برعکس کانگریس کا موقف تھا۔ ظاہر ہے کانگریس ہندوستانی سیاسی پارٹی تھی۔۔ کانگریس کے مقاصد۔۔ ہندوستان کو آزادی کرانا۔۔۔ مذہبی تفریق سے ماورا۔۔۔ ہندوستانی عوام کی پارٹی۔۔ خواہ مذہب کوئی بھی ہو۔۔۔ اس کے لئے انہوں نے سیکولرازم کو اپنا ماٹو قرار دیا۔۔۔ وطن کی آزادی کے لئے جتنی بھی جنگ کے لئے قربانیاں دی۔ وہ صرف کانگریس نے دی۔۔ نہرو 6 – 7 سال جیل میں رہا۔۔ گاندھی اور دیگر قیادت ۔۔ بار بار جیلوں میں جاتی رہی۔۔ مظاہرے کرتی رہی۔ مرن بھرت رکھتی رہی۔۔ ماریں کھائی۔۔۔ اس کے برعکس حرام ہے مسلم لیگی کسی لیڈر کے لباس میں کوئی داغ بھی اس جدوجہد میں لگا ہو۔۔ قائد اعظم کو یہ تکلیف رہتی تھی۔۔ کہ کانگریس انڈین مسلمانوں کی قیادت کا بھی کیوں دعوی کرتی ہے۔۔ وہ کہتے تھے، کہ وہ پورے ہندوستان کے سب مسلمانوں کے قائد ہیں۔۔!! ایک بار کسی کمیٹی میں کانگریس نے ایک مسلمان نمائندہ نامزد کردیا۔۔ قائد اعطم نے اس کا سخت برا منایا۔۔اور بائیکاٹ کیا۔۔کہ کانگریس کسی مسلمان کو اپنا ممبر نامزد نہیں کرسکتی۔۔ کتنا عجیب ضدی دعوی تھا ہمارے قائد کا۔۔ حیرانی ہوتی ہے۔۔۔ مسلمان صرف مسلم لیگ ہی نامزد کرسکتی ہے۔۔ اتنا غیرجمہوری ، غیراخلاقی، غیرقانونی رویہ۔۔۔ کسی بھی سیاسی پارٹی میں مختلف مذاہب کے لوگ ہوسکتے ہیں۔۔اور اس پارٹی کی مرضی کسی کو بھی نامزد کرے۔ کانگریس کے ساتھ تو لاکھوں مسلمان رہے ہیں بمعہ مولانا آزاد جیسے جید قائد۔ جنہیں ہمارے قائد کانگریس کا ‘ شو مین’ کہتے تھے۔۔ لیکن منڈل کی شکل میں قائد اعظم نے بھی ایک ہندو ‘ شو مین’ رکھا ہوا تھا۔۔ کرسچن اوراحمدی رکھے ہوئے تھے۔
یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان (ہمارے وطن) کو مسلم لیگ/قائد اعطم نے ‘ آزاد نہیں کرایا تھا۔۔ یہ لفظ ہم غلط بولتے ہیں۔۔ اور بولتے چلے جا رہے ہیں۔ صرف اپنے بانی قائدین کو گلوری فائی کرنے کے لئے۔۔۔ 14 اگست 1947 سے پہلے جب پاکستان نام کی کوئی ریاست/ملک تھا ہی نہیں۔۔ تو آزاد کس کو کرانا تھا۔۔۔ مسلم لیگ کا ہندوستان کو آزاد کرانے میں کوئی کردار ہے نہ پاکستان کو ‘ آزاد ‘ کرانے میں۔۔۔ مسلم لیگ نے ہندوسستان کو تقسیم کرایا تھا۔۔۔ اور پاکستان بنوایا تھا۔۔۔ مسلم لیگ اور جناح کی ساری جدوجہد ہندوستان کو تقسیم کرانے کی تھی۔۔ اور اس کے نتیجے مین پاکستان وجود میں آیا۔
اب ہم بنیادی سوال “کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، اسے دیکھو” کے قریب آگے ہیں۔۔ آیئے ان باتوں پر غورکرنے کی کوشش کریں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی عددی قوت کو تباہ کس نے کیا؟ کانگریس نے یا آر ایس ایس نے؟ جناب ہم نے پاکستانیوں نے اور ہمارے بانیوں نے۔۔۔ ہم نے بھارت کے مسلمانوں سے غداری کی ہی ہوئی ہے۔۔ ہندوستان کے اندر جو مسلمانوں کے لئے الگ ملک پاکستان بنانے کی تحریک تھی۔۔ کیا اس میں یہ واضح تھا۔۔ کہ بالآخر کونسے (موجودہ) علاقے میں پاکستان بننا ہے۔۔ اس کا مطلب ہے، کہ ہندوستان میں جہاں کہیں مسلمان تھا۔۔ تو زہنی طور پر آپ کے یعنی مسلم لیگ اور قائد اعظم کے نعروں سے متاثر تھا۔۔ آپ انہیں ایک الگ مسلمان ریاست کا خواب اور امید دے رہے تھے۔۔ جہاں ‘مدینے کی ریاسست’ ہوگی۔۔ فلاں ڈھمکان ہوگا۔۔ ‘مسلمان ہندو کے ساتھ رہ ہی نہیں سکتا۔۔ ہم تو بالکل الگ تھلگ رسم و رواج، عقائد، تہذیب کے لوگ ہیں۔۔ مسلمان ہے ہی الگ قوم۔۔۔ اور جب یہ پٹی ہمارے قائد اعظم صاحب ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے رکھ رہے تھے۔۔ تقریریں کررہے تھے۔۔ تو ان کے سامنے موجودہ پاکستان کے علاقے کے صرف مسلمان مخاطب نہ تھے۔۔ وہ تو سارے ہندوستان میں پھیلے مسلمان تھے۔۔۔ آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک زہریلہ نظریہ دیا۔۔ علحیدگی پسندی کا۔۔ تقسیم کا، تفریق کا۔۔ زبردست قسم کی نفرت پیدا کی ہندو مسلمان کے درمیان۔۔۔۔
اور پھر۔۔۔۔ ہوتا کیا ہے۔۔۔ پاکستان ایک خاص علاقے میں الگ مسلم ریاست کے بن جاتا ہے۔۔۔ اور پاکستانی آبادی کے مساوی ۔۔۔ اتنی ہی تعداد میں مسلمانوں کو بے یارو مدد گار قائد اعظم اور لیاقت علی چھوڑ کرپاکستان چلے آتے ہیں۔۔ ممبی ائرپورٹ میں جب قائد اعظم اپنے نئے نویلے پاکستان کی طرف روانہ ہونے لگے۔ تو پیچھے رہ جانے والے ہندوستانی مسلمانوں کا ایک وفد ان کو ملا۔۔۔ کہ حضرت ہم کو کہاں چھوڑے جا رہے ہو۔۔ تو پتا ہے قائد اعطم نے ان مسلمانوں کو کیا کہا؟ ” تم ہندوستان کے وفادار شہری بن کررہو۔۔” کیا یہ کروڑوں ہندوستانی (بھارتی مسلمانوں) کے ساتھ غداری نہیں تھی؟ مسلمان الگ قوم ہیں کا دو گھڑی میں ڈرامہ ختم خود ہی کردیا۔۔۔ اب وہی قائد اعظم کروڑوں مسلمانوں کو کہہ رہا ہے۔۔ کہ ہندووں کے ساتھ مل کررہو۔۔ اور ‘ ہندو ریاست ‘ کے وفادار شہری بھی۔۔۔!!
دراصل جب ہم بھارتی مسلمانوں کی حالت زار کا ماتم کرتے ہیں۔ تو اپنے جرم کو چھپا رہے ہوتے ہیں۔ اگر جناح اپنی اس تھیوری کے پکے ہوتے۔۔ (کہ مسلمان ہندووں کے ساتھ نہیں رہ سکتے) تو اس وقت پاکستان ایک نہیں دو تین پاکستان بنواتے۔۔۔ ہندوستان کے سب مسلمانوں کو آزاد کراتے۔۔۔ وہ ہندووں سے جدا قومیت والی ڈیفینیشن صرف ان مسلمانوں پر لاگو ہوتی تھی۔۔ جو پاکستان میں آگے یا انہی علاقوں میں رہتے تھے۔۔باقی ہندوستان میں رہ جاتے والے مسلمانوں پر لاگو نہیں ہوتا تھا؟
اس کا مطلب ہے کہ مسلمان ہندووں سے الگ قوم ہیں۔۔ ایک جھوٹ اور فراڈ تھیوری تھی۔۔۔ جس کو قائد اعظم نے خود ہی تیاگ دیا۔۔بلکہ اس کا مذاق اڑا لیا۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...