احمر روز اپنے ہم جماعتوں کی نئی نئی مہنگی چیزیں دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتا اور گھر آ کر اماں پر بلا وجہ چیختا چلاتا۔
“اماں! کبھی تو ٹفن میں کچھ اچھا رکھ دیا کرو!”
“میرے سارے ہم جماعت اتنے خوبصورت ٹفن لاتے ہیں۔ اس میں کبھی پیزا، کبھی برگر، کبھی سینڈوچ ۔۔۔۔”
“اور میں۔۔۔۔۔!”
اس نے غصے سے بستہ دور پھینکا۔
“روز آلو والا پراٹھا، اچار پراٹھا ہنہ ”
اس نے نخوت سے اپنا مذاق اڑاتے ہوئے جوتے اتار کر پھینکے۔
“یہ پھٹے ہوئے دس جگہ سلے جوتے!”
“یہ۔۔یہ۔۔ پرانا سو جگہ پیوند لگا بیگ!”
“یہ پرانا یونیفارم!”
اس نے غصے سے ایک ایک چیز ماں کے سامنے لہرائی۔
اماں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
اندر کمرے میں بیٹھے ابا میں باہر نکلنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ وہ بھی انتہائی پریشان ہو گئے تھے۔ اور اس وقت کو کوس رہے تھے، جب پہلی بار احمر کو چار سال کی عمر میں اپنے ساتھ سکول لے گئے تھے۔ اور اتنے بڑے سکول کے پرنسپل اخیار صاحب اپنے سکول کے چوکیدار کے بیٹے کی معصومیت بھری باتوں سے اتنا متاثر ہوئے کہ اس کو سکول میں مفت داخل کروا دیا۔ جب تک پرنسپل صاحب زندہ تھے احمر کی کاپیاں کتابیں یونیفارم بیگ سب وہ ہی فراہم کرتے۔ اب احمر آٹھویں جماعت کا ایک نہایت قابل طالب علم تھا۔ پرنسپل صاحب کو فوت ہوئے دوسرا سال تھا۔ اور ان دو سالوں میں چوکیدار اشرف بابا نے جس مشکل سے احمر کی تعلیم جاری رکھی تھی۔ یہ صرف وہ جانتے تھے یا اللہ۔ فیس تو اب بھی معاف تھی مگر اتنے بڑے سکول کے سو نہیں ہزار اخراجات تھے۔
بہرحال اگلے دن چھٹی کے بعد اشرف عرف شرفو بابا نئے پرنسپل صفوان صاحب جو پرانے پرنسپل اخیار صاحب کے بیٹے تھے اور بیرون ملک سے پڑھ کر آئے تھے، اپنے باپ کی طرح نہایت نرم دل تھے۔
شرفو بابا اجازت لے کر پرنسپل صاحب کے دفتر میں داخل ہوئے۔ اور سر جھکا کر خاموش کھڑے ہو گئے۔
پرنسپل صاحب نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا اور انہیں بیٹھنے کو کہا۔
“نہیں! سر میں یہیں ٹھیک ہوں۔”
“بیٹھ جائیں شرفو بابا آپ ہمارے بچپن سے اس سکول میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔”
“بیٹھئیے !”
“فرمائیں!”
شرفو بابا کے بیٹھتے ہی صفوان صاحب نے کہا۔
“وہ جی میں اپنے بیٹے کو سکول سے نکال کر کسی سرکاری سکول میں داخل کرنا چاہتا ہوں!”
شرفو بابا بمشکل بولے۔
“کیوں؟”
“کیا آپ کا بیٹا، کیا نام ہے؟ ہاں احمر! یہاں خوش نہیں؟”
“وہ تو بہت قابل ہے میں نے سنا ہے ہمیشہ اول پوزیشن حاصل کرتا ہے!”
صفوان صاحب بہت حیرت سے بولے۔
“نہیں یہ بات نہیں، وہ تو خوش ہے، مگر میں اس کے اخراجات پورے نہیں کر سکتا۔ میری اس سے بڑی تین بیٹیاں بھی ہیں جنہوں نے سرکاری سکول سے پڑھا۔ اب ان کی شادیاں سر پر ہیں۔ ”
“ایک منٹ!”
صفوان صاحب نے شرفو بابا کی بات کاٹی۔
“جہاں تک میرے علم میں ہے۔ احمر سے کسی قسم کی کوئی فیس نہیں لی جاتی، ہے ناں!”
انہوں نے تائید چاہی۔
“جی بالکل فیس تو کوئی نہیں لی جاتی مگر ، اللہ بخشے آپ کے والد صاحب جب تک حیات تھے، یونیفارم، بیگ، کتابیں، کاپیاں اور نجانے کیا کیا وہ احمر کو دیتے، اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، میں یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے اس کی عادات بگاڑ دیں، مگر وہ احمر کو بازار لے جاتے اور اس کی پسند کی خریداری کراتے۔ اب دو سال سے میں اپنی استطاعت کے مطابق جو لیتا ہوں وہ بھی اسے برا لگتا ہے اور جو وہ پہلے شوق سے کھاتا پیتا تھا، وہ بھی اب اسے کمتر لگنے لگا ہے۔”
“مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ میں اسے اب کیسے راستے پر لاؤں؟”
شرفو بابا نے باقاعدہ رونا شروع کر دیا تھا۔
صفوان صاحب پریشان ہو کر اپنی کرسی سے اٹھ کر شرفو بابا کی ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھے۔ انہیں پانی پلایا اور تفصیل پوچھی۔
“شرفو بابا نے روز کی طرح کل ہونے والا واقعہ تفصیل سے سنایا۔
“آپ فکر نہ کریں، احمر کو سکول سے نکالنا اس مسئلے کا حل نہیں۔ کیونکہ وہ اب ایسی نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اسے سرکاری سکول میں داخل کرانے کا مطلب اسے مزید خراب کرنا ہے۔”
“آپ بے فکر ہو جائیں!”
“مجھے ایک موقع دیں، مجھے یقین ہے کہ نہ صرف احمر بلکہ اس جیسی سوچ رکھنے والے دوسرے بچے بھی راہ راست پر آ جائیں گے۔”
شرفو بابا مطمئن ہو کر گھر چلے گئے۔
اگلے دن موسم بہت اچھا تھا۔ آدھی چھٹی سے کچھ دیر پہلے جماعت ہشتم تا دہم تک کے تمام بچوں اور اساتذہ کے لئے پرنسپل صاحب کے دفتر سے حکم جاری ہوا کہ اپنی اپنی پانی کی بوتلیں اور کھانے کے ٹفن لے کر ہال میں جمع ہو جائیں، پرنسپل صاحب سب کے ساتھ مل کر کھانا کھائیں گے۔
سکول کے ہال میں سب بچے اور اساتذہ جمع ہو چکے تھے۔ سب بہت خوش ہو رہے تھے کہ اساتذہ اور پرنسپل ان کے ساتھ اکٹھے کھانا کھائیں گے۔ احمر بار بار اپنے ٹفن میں موجود اچار پراٹھے اور پیپسی کی خالی بوتل میں پانی کو دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر رشیدہ ماسی کے بیٹے داور پر پڑی وہ بھی بہت پریشان تھا۔ داور جماعت دہم کا طالب علم تھا۔ احمر آہستہ سے داور کے قریب چلا گیا۔ سلام کر کے اس سے پوچھا کہ اس کے ٹفن میں کیا ہے۔
“یار میرے پاس تو ٹفن بھی نہیں اماں نے رات کی روٹی پر آلو کا سالن ڈال کر اخبار میں لپیٹ دیا تھا۔ اور یہ پانی کی بوتل !”
اس نے تھیلے سے اخبار میں لپٹی روٹی اور چھوٹی سی پیپسی کی چھوٹی سی بوتل میں پانی نکال کر اسے دکھایا۔
“آج تو پکی بے عزتی ہے!”
داور بولا
“یار میں تو کل سے سکول نہیں آ رہا!”
احمر نے پریشانی سے جواب دیا۔
پرنسپل صاحب آ چکے تھے۔
تمام اساتذہ اور طلباء اپنا اپنا کھانا میز پر لگا رہے تھی۔ کسی کے ٹفن میں برگر کسی کے پیزا تھا کوئی سینڈوچ لایا تھا کوئی شاورما تو کوئی بریانی۔۔۔۔۔
خوبصورت اور مہنگے پانی کے تھرماس اور بوتلیں۔۔۔۔۔۔
اساتذہ کے ٹفن بھی مختلف انواع کے فاسٹ فوڈز سے بھرے تھے۔ پرنسپل صاحب کا گھریلو ملازم ٹفن لایا اور کھولا تو اس میں جوار کی روٹی اور ساگ تھا۔ پیپسی کی بڑی بوتل میں ٹھنڈا پانی جو شاید ابھی ابھی سکول کے الیکٹرک کولر سے بھرا گیا تھا۔ سب نے حیرت سے پرنسپل صاحب کو دیکھا۔ پرنسپل صاحب مسکرا مسکرا کر سب کو دیکھ رہے تھے۔ پھر بولے۔۔۔
” چلیں بسم اللہ کریں!”
احمر اور داور کی جان میں جان آئی اور انہوں نے بھی اپنا اپنا کھانا نکالا۔
“ارے واہ اچار!”
بھئی احمر اگر تمہیں برا نہ لگے تو تھوڑا سا اچار مجھے بھی دے دو۔”
پرنسپل صاحب کی آواز نے سب کو چونکا دیا۔
“سر آپ یہ ٹرائی کریں!”
“سر یہ کھا کر دیکھیں یہ برینڈ چکن کیا خوب فرائی کرتا ہے!”
“یہ بھی لیں سر! ”
سب بچے پرنسپل صاحب کو اپنا اپنا کھانا پیش کرنے لگے۔
“ارے نہیں بچوں! تم لوگ کھاؤ اپنا لنچ انجوائے کرو۔ مجھے تو بس یہ اچار اور داور کو اگر برا نہ لگے تو تھوڑی تھی آلو کی بھجیا چاہیئے۔ دراصل یہ مجھے پسند بہت ہے پھر ماؤں کے ہاتھ میں جو ذائقہ ہوتا ہے وہ ان برانڈڈ کھانوں میں کہاں۔ قیمتی کھانے تو یہ ہیں اس روٹی اور پراٹھےمیں پیار گوندھا گیا ہے۔ اس آلو کی بھجیا کو محبت کا تڑکہ لگا ہے۔ اس اچار میں سبزیوں کے ساتھ خلوص، چاہت، توجہ اور مہربانی بھی شامل ہوتی ہے۔”
“دراصل جو بے مول ہے وہی تو انمول ہے۔”
“کیا مطلب سر؟ کچھ سمجھ نہیں آیا!”
اسلامیات کے استاد بحر کرم صاحب نے حیرت سے پوچھا۔
“پہلے کھانا کھا لیں پھر میں سمجھاتا ہوں!”
صفوان صاحب نے کہا۔
کھانے کے بعد صفوان صاحب نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے سلسلہ کلام وہیں سے جوڑا۔
“ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جو بے مول ہے وہی تو انمول ہے، جیسے اگر کوئی آپ سے کہے کہ میں آپ کو ایک کروڑ روپے دوں گا اس شرط پر کہ آپ اگلی سانس نہیں لیں گے۔ تو کیا آپ رقم لینے پر راضی ہو جاؤ گے؟”
انہوں نے سب کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا۔
“کبھی نہیں!”
بحر کرم صاحب بولے۔
“اگر اسی شرط پر پچاس کروڑ دے؟”
صفوان صاحب نے پھر سوال کیا۔
“پچاس ارب بھی دے تو کبھی نہیں!”
بحر کرم صاحب نہایت جوش سے بولے۔
“پس ثابت ہوا کہ آپ کی ایک ایک سانس جو آپ کو بے مول یعنی بغیر کوئی قیمت ادا کئے ملتی ہے۔ پچاس ارب سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔”
سب انتہائی متاثر نظر آ رہے تھے۔ یعنی بات سب کی سمجھ میں آ رہی تھی۔ پس صفوان صاحب نے لوہا گرم دیکھتے ہوئے ایک اور چوٹ لگائی۔
“یہاں انوع اقسام کے تھرماس اور بوتلیں نظر آ رہی ہیں۔ کیا اتنی مہنگی بوتلوں کو آپ پانی پیتے ہوئے کھاتے ہیں؟”
ایک اور سوال۔۔۔
سب خاموش رہے۔ لاجواب۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“نہیں ناں! صرف پانی پیتے ہیں، جو آپ کو بغیر کوئی قیمت ادا کئے ملتا ہے۔ اب اگر آپ کو پینے کے لئے دنیا میں پانی نہ ملے اور قیمتی بوتلیں اور تھرماس آپ کو دیئے جائیں کہ اس سے پیاس بجھائیں تو کیا چلے گا؟”
“پانی کے بغیر تو ہم مر جائیں گے۔”
احمر ترنت بولا
“بالکل! تو ثابت ہوا کہ پانی بوتل سے زیادہ قیمتی ہے جو ہمیں بے مول مل رہا ہے۔”
“اچھا اب بتاؤ کہ آپکے یہ برانڈڈ کھانے کس چیز سے بنے ہیں؟ مطلب، سونا، چاندی، ہیرے، یا گندم؟”
“گندم سے کیونکہ برگر کا بن سینڈوچ کا ٹوسٹ پیزا اور شاورما کی روٹی سب گندم سے بنتی ہے۔”
جماعت دہم کے کاشان نے فورا جواب دیا۔
“شاباش! گندم، جوار یعنی اناج ، ہم سب برانڈ کا ٹیگ نہیں کھاتے اناج کھاتے ہیں جو ہماری زندگی کے لئے ضروری ہے۔ اب اناج کو کوئی بھی شکل دے دو بہر حال انسانی بقاء کے لئے اناج ضروری ہےبرتن یا برانڈ نہیں! کیوں؟”
سب نے مسکرا کر سر ہلایا۔
“اب بتاؤ سونے کے نیند ضروری ہے یا قیمتی بستر؟”
“نیند!”
سب یک آواز بولے۔
“چلنے پھرنے کے لئے صحت مند پاؤں ضروری ہیں یا نئے اور قیمتی جوتے؟”
“پاؤں!”
سب پھر بولے۔ اب احمد کا سر شرمندگی سے جھک گیا تھا۔ اسے رہ رہ کر ماں سے بدتمیزی اور اللہ کی ناشکری یاد آ رہی تھی۔
“ہمارا جسم ہمارے قیمتی لباس سے زیادہ ضروری ہے۔ ہماری ذہانت اور قابلیت ہماری نئی کاپیوں کتابوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ اور یہ سب ہمیں مفت مل رہا ہے۔”
احمر نے اب باقاعدہ رونا شروع کر دیا تھا۔
سب پریشانی سے اسے دیکھنے لگے۔ ہر ایک کے ذہن میں سوال تھے۔
پرنسپل صاحب نے احمر کو اپنے پاس بلایا اسے گلے لگایا اور بولے۔
“بس ہمیشہ یاد رکھو ہماری زندگی میں ان مادی اشیاء کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیئے ہمارے لئے ہمیشہ رشتے مقدم ہونے چاہئیے۔ جو انمول ہیں اور ہمیں مفت میں ملے ہیں۔”
“ہمیں ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئیے کیونکہ جن چیزوں کی ہماری زندگی میں واقعی ضرورت ہے وہ سب ہمیں اللہ مفت میں دیتا ہے۔”
اسی لئے کہتے ہیں ‘جو بے مول ہے وہی تو انمول ہے۔'”
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...