جو بغیر اجازت آتے ہیں ان کا سب کو پتہ ہے۔
"نواز شریف، مریم نواز اور رانا ثنا کی جانب سے اس ایسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنایا گیا ہے جو کسی کام کو کرنے کے لئے کسی قاعدے قانون کی محتاج نہیں۔
جو وہ چاھتے تھے کر لیتے تھے۔ مخالفین کو اٹھانا، دھمکانا، خفیہ نمبروں سے فون کرنا اور اٹھانے والوں کو اس قدر ھراساں کرنا کہ وہ ان کا نام لیتے بھی کانپ جائیں ایک روٹین میٹر تھا۔ وہ تو مسنگ پرسنز کو ھمیشہ کے لئے بھی مسنگ کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔
مگر اب ایک میان میں دو تلواریں زیادہ دیر تک نہ رہ سکیں گی۔ کسی ایک کو اپنا راستہ بدلنا پڑے گا۔
اس ضمنی انتخاب نے کارپٹ تلے تمام گند کو باھر لا پھینکا ہے۔ جو کچھ چھپ چھپا کر کیا جاتا تھا اب عوام کے سامنے ننگا ہو کر سامنے آگیا ہے۔
یہ اب ایک بلکل نئی صورتحال ہے۔ جس "سازش" کا مسلم لیگی حکومت بار بار زکر تو کرتی تھی مگر کھل کر بات نہیں کرتی تھی۔ وہ اب کھل کر سامنے آگئی ہے۔
مسلم لیگی حکومت کو اب فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کیا وہ حکومت میں رھنا چاھتے ہیں یا نہیں، اگر رھنا چاھتے ہیں تو بات کھل کر کرنی پڑے گی۔ ورنہ بات اپنا وزن کھو دے گی اور "خفیہ ریاست" جلد مکمل حاوی ہو جائے گی۔"
آٹھارہ ستمبر کو ضمنی انتخاب کے فوری بعد لکھے گئے میرے تجزیۓ کا ایک اقتباس
کل دو اکتوبر کو جو رینجرز نے وزیر داخلہ کو کمرہ عدالت میں داخل ہونے سے روکا وہ اسی کشمکش کا ایک نیا باب ہے جس کا میں نے اوپر زکر کیا ہے۔
احسن اقبال پوچھتے رھے کہ کس کی اجازت سے رینجرز یہاں پر تعینات کی گئی ؟ جواب سب کو معلوم تھا انہیں بھی، مگر کھل کر ابھی بھی بات نہیں کی جاتی۔
کل رینجرز کی عدالت کے باھر لگانے کا حکم انہوں نے جاری کیا، جو کسی کی اجازت کے محتاج نہیں۔ وہ فوجی آمریت کا کھلا دور ہو یا سویلین حکومتوں کا ڈرتا مرتا دور، انہیں کسی کام کے لئے اپنے ادارے کے افسران کے علاوہ کسی کی اجازت درکار نہیں ہوتی۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نو محرم کو اوکاڑہ کے مزارعین کی مکئی کی فصل کو اجاڑا، کیا یہ کس کو حق ہے کہ کھڑی فصل کو اپنی گاڑیاں لا کر تباہ برباد کر دے، صرف انہیں ڈرانے دھمکانے کے لئے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سندھ میں نیشلسٹ اور دیگر سیاسی قوتوں کو غائب کرنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ آپ کسی کو اٹھاتے ہیں تو کسی عدالت میں پیش کرو، اس کا جرم اگر ہے تو پولیس رپورٹ لکھواؤ، مقدمہ چلاؤ، سزا دلواؤ، مگر ان کو غائب کرنا اس کے خاندان کو سب سے بڑی سزا دینے کے مترادف ہے۔
جو واپس آتے ہیں وہ ان کا نام لینے سے ایسے گبھراتے ہیں کہ سب سے پہلے ملک چھوڑنے کی جستجو کرتے ہیں یا لبوں پر ایسے تالے کہ کھلنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ سندھی ادیب واحد بلوچ سمیت ایسی درجنوں مثالیں ہیں کہ اٹھائے گئے۔ پھر کسی مقدمہ کے بغیر ھفتوں غائب، اچانک نمودار ہوۓ اور بجا طور پر مجال ان کا نام لیں جو انہیں لے گئے تھے۔ کیونکہ نام لینے سے اب دوبارہ ان کے زندہ رھنے کا بھی سنجیدہ سوال پیدا ہو جاتا ہے۔
بلوچستان میں تو اٹھائے گئے واپس ہی نہیں آتے۔ یا تو ان کا اکثر اوقات پتہ ہی نہیں چلتا یا پھر ان کی لاشیں کسی جگہ سے برآمد ہوتی ہیں۔
مسلم لیگ ن قیادت جب بھی اقتدار میں آتی ہے انہی کو خوش کرنے کی کوششیں کرتی ہے۔ 1990 کی دھائی میں "گھوسٹ سکولوں" اور واپڈا میں "صفائی" کیے لئے ان کو لے آئی۔
اسی دھائی کے دوران نج کاری میں ان کو خصوصی رعائیتیں دی گئیں اور کئی سرکاری ادارے اونے پونے کچھ ان کو "فروخت" کر دئیے گئے اور کچھ اپنے خاص پیاروں کو جن میں میاں منشاء بھی شامل ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو سویلین دور میں بسا اوقات کسی قانون دائرے کو نہیں مانتے اور فوجی دور میں یہ اپنے قانون قائدے بنا لیتے ہیں جن کو عدالتیں عام طور پر قانونی درجہ دینے میں کسی شرم کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔
اب کی بار تو پارلیمنٹ نے فوجی عدالتیں ہی قائم کر دیں اوکاڑہ کے مزارعین کے خلاف وہ جوجھوٹےمقدمات قائم کئے گئے کہ انصاف شرماتا ہی رہ گیا اور مسلم لیگ ن خاموش تماشائی رھی۔ مگر یہ وقت اب لعن طعن کا نہیں یہ تو سب کو معلوم ہے۔
آج ایک بلکل نئی صورتحال کا سامنا ہے۔ اب کشمکش کچھ کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ پہلے تو ان کی جانب اشارے بھی نہیں ھوتے تھے۔ اب تو ہر سطح پر بات ہو رھی ہے، بات کم از کم پوچھنےتک آگئی ہے۔ بقول عاصمہ جہانگیر بات اب pappies سے puppets تک آگئی ہے۔
جنرل ضیاء نے کہا تھا "جب چاھوں گا یہ دم ہلاتے آجائیں گے اور بے شمار دم ھلاتے اور بعض دم ھلانے کے بغیر بھی ان کے ساتھ آ گئے تھے۔
احسن اقبال کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ کون ہیں۔ انہیں نے یہ سوال اسی طرز کا پوچھا جیسے میاں نواز شریف نے،
"مجھے کیوں نکالا"۔
اھم بات ہے کہ احسن اقبال نے سوالات اٹھا دئیے، عوام میں بحث کا سلسلہ چلا۔ بغیر مرضی کے انے والوں سے کم از کم پوچھا گیا کہ کیوں اور کیسے آئے ہو۔ پہلے تو یہ جرات بھی کوئی نہ کرتا تھا۔
پوچھے بغیر آنے والوں کے سیاسی محافظ بھی نظر آگئے۔ عمران خان نے کہا کیا ہوا اگر یہ آگئے۔ یہ اپنے ہی تو ہیں۔
پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر تو ایسے اینکرز ایک طویل تعداد ہے جو کل وزیر داخلہ کو ہی قصور وار ٹھراتے رھے کہ وہ کیوں وھاں پر آئے۔
سوال تو یہ ہی ہے کہ سویلین دور میں ایک ادارہ حکومت کے قانون دائرے میں کیوں نہیں چلتا۔ کیا وہ آئین سے بالا تر ہے؟ پریکٹس میں تو اس نے کئی دفعہ ثابت کیا یہ آئین کو چند صفحوں کا ایک ٹکڑا سمجھتے ہیں جسے ردی کی ٹوکری میں پھینکناچاھئیے۔
مگر ہر ایسے آمرانہ دور میں ایسے لوگ تھے جو اس کو چیلنج کرتے رھے۔ ائین کے بول بالا کے لئے آواز بلند کرتے رھے، کوڑے کھاتے رھے، جیلوں کی لمبی صعوبتیں جھیلتے رھے، پھانسی چڑھتے رھے، جلا وطن ہوتے رھے مگر فوجی آمریت کے خلاف آواز بلند کرتے رھے۔
آج تو وہ آواز بلند کر رھے ہیں جو کبھی ان کے ساتھ تھے، خاموشی سے یا کھل کر ان کا ساتھ دیتے تھے۔ مگر اج مسلم لیگ نواز کے ماضی کو دھرانے تحریک انصاف سامنے آگئی ہے۔ کل اگر مسلم لیگ ن آمریت کا ساتھ دینے کی مجرم تھی تو آج تحریک انصاف ایسی آمریت کو لانے کا راستہ صاف کر رھی ہے۔ اور ان کے ہر غیر قانونی کام کو سیاسی تحفظ فراھم کرنے کا جرم کر رھی ہے۔
جدلیاتی طور پر تاریخ ایک نئی طرز پر اور نئے پیمانے پر اپنے اپ کو دھراتی نظر آتی ہے۔ جو کبھی پیپلز پارٹی کرتی تھی آج اس کو مسلم لیگ ن کرنے کی کوئی شکل بنا رھی ہے۔
مگر یہ ایک عارضی دور ہے۔ یا تو مسلم لیگ ن چوھدری نثار بنے گی یا پھر کچھ کرنے کی جستجو میں ادارے کو کنٹرول کرنے کی بات، یہ بھی ممکن ہے یہ ادارہ مسلم لیگ ن کو وہ کردار ادا کرنے پر مجبور کرے جو اسی کی دھائی میں کرتے رھے۔
کچھ ہو گا، ایسے نہیں رھے گا کہ ایک ریاست میں دو ریاستیں۔ ایک یا دوسراحاوی ہو گا۔
ن لیگ کی لعن طعن کی بجائے اسکی جانب سے جمھوری شناخت مظبوط کرنے کی کوششوں کو اکیلا نہ چھوڑا جائے۔ اس کی محنت کش مخالف نیو لبرل ایجنڈا کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے اسکی جانب سے ایک منہ زور ادارے کو کنٹرول کرنے، اسے سویلین ماتحتی میں لانے، اس کی جانب سے بغیر اجازت کام کرنے کے اقدامات کو سوالیہ نشان بنانے کی کوششوں کو آگے بڑھایا جائے۔
جس قسم کی بھی جمھوریت ہے ایسی ہی موجودہ سرمایہ درانہ دور میں ھو گی چاھے اسے کوئی بھی چلا لے،
اس سرمایہ داری نظام کو ختم کرنے کی جدوجہد کا ایک اھم فریضہ فوجی آمریت یا سویلین معاملات میں فوجی مداخلت کی مخالفت کرنا ہے۔ اس جمھوریت پر ہزار سوال ہیں اور کئی ھزار کمزوریوں کی نشان دھی کر سکتے ہیں۔ اس جمھوریت کو اگر کوئی انقلابی قوت محنت کش انقلاب کے راستے کو صاف کرنے کے ختم کر رھی ہو تو ہم اس کا ھراول دستہ ہوں گے،
لیکن اگر اس کمزور اور بچی کچھی جمھوریت کو ایک فوجی آمریت لانے اور اس کا راستہ صاف کرنے کے لئے نشانہ بنایا جائے گا تو ہم اس کی کھل کر مخالفت کریں گے۔
آج رائیٹ ونگ بمقابلہ انتہا پسند رائیٹ ونگ سے ہے۔ ایک رد انقلابی دور ہے۔ اس دور کے تقاضے ایک انقلانی دور کی نسبت بلکل مختلف ہیں۔ آج اپنی قوتوں کو متحد کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ 2012 میں عوامی ورکرز پارٹی کی تشکیل میں تین لیفٹ ونگ پارٹیوں کو ضم کر کے پراسس کا آغاز کیا گیا تھا۔
آج تمام ترقی پسند قوتوں کے ایک نئے اتحاد کی ضرورت ہے۔ جو جمھوری سوال کے ساتھ ساتھ مذھبی جنونیت کے ابھرتے پھیلتے چیلنج کا بھی سامنا کرنے کی تیاری کرے۔ ہم ایسا کچھ کرنے کو آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“