آہ! 10 اگست 1985ء آج کا دن کس قدر وحشت ناک، المناک اور ہولناک ہے۔ یہ ایک طوفان کی طرح آیا اور اپنے ساتھ نہ جانے کیا کچھ بہا کر لے گیا۔ اسکا تعین تو آنے والا وقت ہی کرے گا مگر میں تہی دامن ہو گیا۔
جب سے ہاجرہ کیلئے ارباز خان کا رشتہ آیا تھا ہمارا گھر گویا طوفانوں کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ اس رشتے میں نہ تو ہاجرہ کو دلچسپی تھی نہ اس کی ماں کو ۔ساری دلچسپی صرف مجھے تھی یا پھر میرے اُن چند فصلی بٹیروں کو جن کے رشتوں سے ایک ایک کر کے انکار ہو چکا تھا اور وہ محض بغض معاویہ کے تحت میرا ساتھ دینے اور پیٹھ ٹھونکنے کیلئے ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم کی شاندار مثال بنے میرے آ گے پیچھے منڈلا رہے تھے۔ اس رشتے بلکہ ہاجرہ کیلئے آنے والے کسی بھی رشتے کے متعلق ہاجرہ کی ماں کی پالیسی بالکل واضح اور دوٹوک تھی۔
’’ہاجرہ خاندان کی پہلی لڑکی ہے جو یونیورسٹی کی سطح تک پہنچی ہے اسکی شادی میں اسی جیسے پڑھے لکھے اور قابل شخص سے کروں گی کسی بگڑے تگڑے جاگیردار، ملک یا سردار سے نہیں۔‘‘
یہ بات درست تھی کہ ہاجرہ پورے خاندان میں پہلی لڑکی تھی جو پرائمری سے لے کر میٹرک تک مسلسل پوزیشن ہولڈر رہی تھی اور لگاتارا سکالر شپ حاصل کر رہی تھی۔ اس کی ماں نے اسکو بچپن سے ننھیال اور دودھیال دونوں سے دور رکھا تھا۔ ہاجرہ کی دنیا بس اس کی کتابیں تھیں یا اسکی درس گاہ۔ ملک ارباز خان بے شک میٹرک تھا مگر اپنے باپ کی وسیع و عریض جائیداد کا اکلوتا وارث تھا۔ اسکے والد کو کچھ برس قبل جائیداد کے تنازع پر اسکے دوجوان بیٹوں سمیت کسی نے قتل کروا دیا تھا۔ ملک ارباز ہمارا گھر داماد بننے کیلئے تیار تھا۔ ہمیں اور کیا چاہیے تھا تعلیم کو کسی نے چاٹنا تھوڑی ہے۔ ہاجرہ ساری عمر عیش کرتی مگر اس کی ماں اسکی کھوپڑی میں میری کوئی بات کہاں سماتی ہے۔ اس کے نزدیک یہی اس رشتے کی سب سے بڑی خامی ہے کہ ملک ارباز اپنے باپ کی جاگیر کا تن تنہا وارث ہے اور کل کو اگر اُسے بھی کسی نے بھون دیا تو۔۔۔۔۔؟ ہاجرہ کا تو کوئی بھائی بھی نہیں پھر ہاجرہ کا کیا بنے گا؟
آج مجھے اپنی حماقت کا شدت سے احساس ہو رہا تھا ہاجرہ کی تعلیم میں دلچسپی اور ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے میں کبھی اس کی تعلیم میں رکاوٹ نہ بنا تھا مگر آج اسکی یہی تعلیم اسکے اور میرے رشتے میں اور اس کے اور اسکے مستقبل کے درمیان آکھڑی ہوئی تھی۔ ہاجرہ نے گو کہ واضح طور پر اس رشتے سے انکار نہیں کیا تھا مگر اس نے اس میں کوئی دلچسپی یا سرگرمی بھی ظاہر نہ کی تھی۔ وہ ہر شے کو اپنی ماں کی عینک لگا کر دیکھنے کی عادی تھی بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دونوں کے چشمے کا نمبر ایک ہی تھا اور میرے نزدیک یہ چشمہ بیکار ہو چکا تھا۔ وہ بہت کم گو، معصوم اور بے ضرر تھی مگر کبھی کبھی مجھے اسکی خاموشی اور معصومیت کے پیچھے، دور بہت دور کوئی نا معلوم بغاوت سر اٹھاتی محسوس ہوتی تھی۔ تڑپتی اور کروٹیں لیتی محسوس ہوتی تھی میں اس بغاوت کو سامنے آنے سے پہلے کچل ڈالنا چاہتا تھا مگر کیسے؟ آخر کار میں نے ایک ایک کر کے اس سے اسکے کانوں کی بالیاں، کلائی پر بندھی رسٹ واچ اور بنک میں جمع (سکالرشپ) کے چند ہزار روپے اس کے دستخط کروا کر نکلوالی۔
آج یعنی 10 اگست 1985ء میں نے اسے اور اسکی ماں کو گھر بدر کر دیا۔ خس کم جہاں پاک۔ مجھے نا اہل اور نافرمان اولاد کو مفت کی روٹیاں کھلا کر کیا ملنا تھا۔ اس سے تو بہتر تھا کہ میں ایک وفادار کتا پال لیتا کم از کم نمک حلال تو کرتا۔ میرا خیال تھا کہ ہاجرہ روئے گی گڑگڑائے گی، میرے پاؤں پڑے گی، کچھ تو کرے گی۔۔۔۔ مگر اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ اسکے چہرے پر زردیاں کھنڈ گئی تھی۔ چہرہ جو کھلا ہوا گلاب تھا لٹھے کی طرح سفید پڑ گیا تھا مگر اس نے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔ اسکا چہرہ اور اسکا وجود بذات خود ایک بہت بڑی صدائے احتجاج تھا اس نے جھک کر بریف کیس اٹھایا ایک گہری اور فائنل نظر مجھ پر ڈالی اور ماں کا ہاتھ پکڑ کر دہلیز پار کر گئی۔
اج دی رات میں کلا واں کئی نئی میرے کول
اج دی رات اوسو نڑیاں رہا نیڑے ہو کے بول
آج ہاجرہ اور اس کی ماں کو گئے مہینہ ہو گیا ہے میرا ایک کنال پر بنا گھر جس کی ایک ایک اینٹ ایک ایک دیوار ایک ایک فرش پر ہاجرہ کی ماں کے پر مشقت ہاتھوں کی Stamp لگی ہے یہ گھر اور اس کے درودیوار چند دنوں میں یوں مرجھا گئے ہیں ویران اور سنسان ہو گئے ہیں جیسے یہاں کے مکینوں کو گئے صدیاں بیت گئی ہوں۔ درودیوار مجھے دیکھتے ہی دہائیاں دیتے محسوس ہوتے ہیں سارا گھر گر یہ و زاری میں ڈوبا ہوا ہے نامعلوم ہاجرہ اور اس کی ماں اپنا سارا وقت کیسے گزارتے تھے میرا تو گھر میں گھسنا محال ہو گیا ہے خاموشی اور سناٹا مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ میں نے ہاجرہ اور اپنی بیوی سرور سلطان کو ہر جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ محلہ، رشتہ دار، عزیز احباب، شہر کا کونہ کونہ چھان مارا مگر کوئی سراغ نہیں ملا نہ جانے انہیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3 مارچ 1986ء میں نے اپنی تنہائی، ویرانی اور خاموشی سے تنگ آ کر ثریا بیگم سے دوسری شادی کر لی ہے۔ وہ جہیز میں اور تو کچھ نہیں لائی سوائے اپنی کسی گزشتہ عقد میں سے ایک نو عمر بیٹی اور ایک بوڑھی والدہ ساتھ لے آئی ہے خیر مجھے کیا۔۔۔۔ مجھے تو اپنے ارد گرد پھیلی خاموشی اور روح کو چیر دینے والے سائے سے نجات چاہیے۔ بھلے ثریا بیگم اپنا پورا کنبہ اٹھا لائے۔۔۔۔۔ میرے پاس کس چیزکی کمی ہے؟ غالب نے کہا تھا
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔ نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
اور ان ماں بیٹیوں کی تو گویا لاٹری نکل آئی ہے۔ کہاں تو وہ ایک چھوٹے سے گاؤں کے چھوٹے سے مٹی گارے سے لپے گھر میں پڑی رہتی تھیں اور کہاں یہ تحصیل کے اندر بنی 60 کی دہائی کی پرشکوہ حویلی اور بھرا گھر۔ نہ ساس کی جھنجھٹ نہ نند کا غوغا۔ دونوں ماں بیٹی سٹور میں گھسی کبھی پیٹیاں پھرولتی ہیں کبھی بکسے۔ سرور سلطان نے ہاجرہ کا سارا جہیز اپنے ہاتھوں سے تیار کیا تھا۔ پیٹیاں رنگ برنگے گدوں، بستروں، غالیچوں، دیگچوں اور دیگر سامان سے اٹی پڑی ہیں بکسوں میں ہاجرہ کی نانی کے دیئے گئے جہیز کے گل بدن، چکن، زردوزی اور نہ جانے کون کونسی نادر و بے مثال کپڑے پڑے ہیں جو سرور جہاں ہاجرہ کیلئے جمع کرتی رہتی تھی۔ یہ گھر نہیں عجائب خانہ ہے جو سرور جہاں کے سلیقے، امور خانہ داری میں مہارت اور سلائی کڑھائی اور کتربیویت میں اسکی لگن اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ثریا بیگم نے بکسوں میں سے کئی ان سلے کپڑے نکال کر اپنے ناپ کے مطابق سلنے کیلئے دے دیئے ہیں۔ وہ روز بنی سنوری، نک مہک سے درست میرا استقبال کرتی ہے اور میری توجہ حاصل کرنے کیلئے بھرپور کوشش کرتی ہے مگر نہ جانے کہاں سے ہاجرہ ملک اور اس کی ماں سرور سلطان میرے سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔ اترتے ہوئے چہرے شکوہ کناں آنکھیں اور ایک دم میرا دل ہر چیز سے اچاٹ ہو جاتا ہے ایک دم اچاٹ۔
گلی گلی میری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل
مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دور نکل
شاعری کے انتخاب سے یہ مت سمجھیں کہ میں کوئی بہت پڑھا لکھا عالم فاضل شخص ہوں قطعاً نہیں پڑھائی شڑھائی سے ہم جاگیرداروں کا اتنا ہی واسطہ ہے جتنا ایک گدہے کا گلابوں سے یا ایک شیر کا مکھن اور سرسوں کے ساگ کے ساتھ۔ یہ جو کبھی کبھار میں شاعری کا تڑکا لگا دیتا ہوں یہ تو ہاجرہ کی عطا ہے۔ ہمارے گھر کا بڑا ہال کمرہ اور اس کی مرکزی دیوار کے بیچوں بیچ لگا قد آدم آئینہ۔ اصل میں ایک بہت بڑی الماری ہے جو ہاجرہ کے پسندیدہ میگزین، ڈائجسٹ، اخبارات اور دیگر کتب سے اٹی پڑی ہے۔ ہاجرہ کو بچپن سے لکھنے کا شوق تھا میں جب کبھی کسی بڑے شہر کی طرف روانہ ہوتا تو کبھی کبھار اس سے پوچھ لیتا کہ اس کیلئے کیا لاؤں؟
وہ ہمیشہ کسی کتاب، کسی میگزین کی فرمائش کرتی۔ ایک دفعہ جب میں بلوچستان (کولہو) روانہ ہو رہا تھا تو اس نے مجھ سے پوچھا
’’خان جی! کولہو میں کیا کیا ہوتا ہے؟‘‘ میں اس وقت قطعاً پھول گیا کہ میں آٹھ، نو برس کی معصوم بچی سے مخاطب ہوں جس نے گھر کی چار دیواری کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ تڑخ کر بولا! ’’روڑے اور پتھر‘‘
اس نے ایک دم اپنا گول مٹول منہ اٹھا کر بڑی بڑی آنکھیں کھول کر مجھے چونک کر دیکھا اور پھر بغیر کچھ کہے باہر نکل گئی۔
10 اگست 1990ء آہ! آج ہاجرہ اور اس کی ماں کو اس گھر سے گئے پورے پانچ برس بیت گئے لگتا ہے گویا پانچ صدیاں بیت گئی ہوں۔ ان پانچ برسوں میں میرے بالوں میں کچھ اور سفیدی در آئی ہے۔ کندھے خمیدہ ہونے لگے ہیں۔ کچھ دیر چلنے سے سانس پھولنے لگتا ہے میں جو مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا اور نک مُک سے درست خوب بنا سنورا رہنے کا عادی تھا اب تو محض شیو بنائے بھی ہفتوں گزر جاتے ہیں۔ البتہ ثریا بیگم خوب مزے میں ہے۔ اچھا کھاتی ہے اچھا پہنتی ہے میرے سارے رشتہ داروں بلکہ ہاجرہ کے رشتے داروں میں بھی خوب آنا جانا ہے۔ میری زرعی اراضی آہستہ آہستہ بکنا شروع ہو گئی ہے۔ ثریا بیگم کا خیال ہے کہ چونکہ ہم دونوں کے ہاں اولاد نہیں ہو سکی اس لیے وارثوں کیلئے کچھ چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ ہم زندگی آرام اور سکون سے گزاریں۔ شاید وہ ٹھیک ہی کہتی ہے ہم نے کس کیلئے چھوڑنا ہے۔ ہاجرہ اور اس کی ماں کا تو کچھ پتہ نہیں۔ پھر میں کس کیلئے چھوڑوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
10 اگست 1995ء آہ! ہاجرہ اور اس کی ماں کو بچھڑے دس برس بیت گئے۔ ان دس برسوں میں کیا کچھ بدل گیا ۔میرا طمطراق میری انا، میری اکڑ فوں، میرا ٹہکا ۔۔۔۔۔ ثریا بیگم نے سب برابر کر دیا۔ اب تو مجھے کئی کئی روز تک نہانے یا کپڑے بدلنے کا ہوش بھی نہیں رہتا۔ وہ لوگ جو مجھے سردار صاحب کہے بغیر مخاطب نہیں کرتے تھے بابا جی کہنے لگے ہیں۔ میری پندرہ سو کنال کی زرعی اراضی اونے پونے بک گئی۔ کچھ ثریا بیگم کے نام ہو گئی۔ اب رہنے کیلئے یہ ایک حویلی بچی ہے یہ بھی میری نہیں۔ ہاجرہ کی ماں کی ہے ورنہ کب کی بک چکی ہوتی۔ مجھے آج کی ڈاک سے ایک چٹھی موصول ہو گئی ہے۔ اوپر راولپنڈی کی کسی یونیورسٹی کا پتہ لکھا ہے میری تو نظر کمزور ہو چکی ہے چشمہ لگا کر بھی پڑھنا محال ہے محلے میں قاضی عبدالرب کے بیٹے سے پڑھوائی۔ بتا رہا تھا کہ متعلقہ یونیورسٹی میں کوئی تعزیتی ریفرنس ہے جس میں مجھے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ہے۔ میں نے قاضی سہیل سے بار بار کہا کہ اچھی طرح دیکھو یہ چٹھی میرے ہی نام کی ہے یا غلطی سے آگئی ہے؟ پر وہ بولا کہ چاچا جی! آپ کے ہی نام پر لکھی گئی ہے اوپر مکمل اتا پتا بھی آپ ہی کے گھر کا ہے۔ چلو خیر! چلا جاؤں گا میرا دل گوائی دیتا ہے کہ یہ چٹھی مجھے ضرور ہاجرہ تک پہنچائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اس وقت شہر کی سب سے خوبصورت اور جدید یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں بیٹھا ہوں۔ آڈیٹوریم ہال مہمانوں اور شرکاء سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ وسیع و عریض سٹیج پر تین عدد کرسیاں رکھی گئی ہیں پہلی کرسی پر یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر چیمہ تشریف فرما ہیں۔ درمیان والی نشست پر مجھے اپنی بیوی سرور سلطان بیٹھی نظر آ رہی ہے جبکہ تیسری نشست پر ہاجرہ ملک کی پرانی کلاس فیلو اور یونیورسٹی کی کولیگ مسز افشاں احمد تشریف فرما ہیں۔
وہ آج کی اس تقریب کی میزبان ہیں اور سٹیج سیکرٹری بھی۔
سٹیج کی مرکزی دیور پر ہاجرہ ملک کی ہنستی مسکراتی قد آدم تصویر لگائی گئی ہے جبکہ آڈیٹوریم کی دیگر دیواروں پر بھی اس کی متعدد چھوٹی، بڑی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں کہیں مہمان خصوصی اُسے کوئی شیلڈ پیش کر رہے ہیں تو کہیں وہ اپنے طالب علموں کے جلو میں کوئی ٹرافی اٹھائے مسکرا رہی ہے۔ اُسکا اعتماد، اسکی مسکراہٹ، اسکی متانت نظر کو خیرہ کر دینے والی ہے۔ تلاوت قرآن مجید کے بعد تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ سٹیج سیکرٹری مسز افشاں احمد نے مائیک پر آکر ہاجرہ کو بھرپور اور پرتپاک خراجِ تحسین پیش کیا وہ گزشتہ 12 برس سے اس یونیورسٹی سے بطور استاد وابستہ تھی۔ دس برس قبل ایک نئے ڈیپارٹمنٹ اردو ادب کا قیام اسی کی کاوشوں سے عمل پذیر ہوا اور اگلی ایک دہائی تک وہ مسلسل اپنے شعبے کی ترویح و فروغ کیلئے مسلسل سرگرم عمل رہی۔ اسی دوران مسلسل کام اور آرام نہ کرنے کے باعث اسکو ہائی بلڈ پریشر کا پرابلم شروع ہوا۔ مگر بقول اسکے وائس چانسلر کے اس کے سر پر کام کرنے اور اپنے سیٹ ٹارگٹ Achieve کرنے کی ایسی دھن سوار رہتی تھی کہ وہ اپنی ذات کو برائے نام وقت دے پاتی تھی۔ نتیجتاً اس کا بلڈ پریشر کئی دفعہ شوٹ کر جاتا مگر اس دوران نہ کبھی اس نے چھٹی لی اور نہ ہی کوئی بریک۔ یہاں تک کہ پچھلے ہفتے کسی پراجیکٹ پر کام کرتے ہوئے اس کو اچانک برین ہیمبرج ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا۔
مختلف شرکاء اور مہمانان گرامی باری باری سٹیج پر آکر ہاجرہ کی ذات، اسکی کاوشوں اور اس کے Achievements کو سراہ رہے تھے۔ ڈاکٹر چیمہ نے یونیورسٹی آڈیٹوریم ہاجرہ ملک کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ہاجرہ کو کی گئی سرکاری رہائش گاہ تاحیات اس کی والدہ سرور سلطان کو دینے کا اعلان بھی کیا۔ میں یعنی ملک سرفراز خان آف سلطان پور اس وقت اس وسیع و عریض آڈیٹوریم میں اپنی اس بیٹی کے کارنامے ان لوگوں کی زبانی سن رہا تھا جن سے اسکا نہ کوئی علاقائی رشتہ تھا نہ خاندانی اور نہ ہی خونی۔ مگر یہ سب اسے کس قدر سمجھتے تھے کتنا جانتے تھے اور کتنا own کرتے تھے یہ تو انکی دلسوز تصاویر اور اشکبار آنکھوں سے واضح تھا۔
میرے ارد گرد جیسے سب کچھ لرزہ براندام تھا ہر شے جیسے زلزلے کی زد میں تھی وسیع و عریض آڈیٹوریم کی ایک ایک دیوار سے ہاجرہ گویا لپک لپک کر مجھے پکار رہی تھی۔
’’خان جی! آپ نے تو مجھے جیتے جی مار دیا تھا نہ۔ آپ نے باپ ہو کر بھی میرے سر سے سائباں چھین لیا۔ مجھ سے میرے خواب چھین لیے۔ مجھ سے میرا پندار چھین لیا۔ مگر خان جی! آج دیکھا آپ نے وقت نے مجھے سب کچھ لوٹا دیا۔
میرے خواب، میرا پندار، میرا سائباں، آپ نے سنا یہ سب لوگ میرے بارے میں کیا کہہ رہے تھے۔‘‘
’’خان جی! دیکھیں میں مر کر بھی جیت گئی، میں مر کر بھی امر ہو گئی۔‘‘
اور مجھے یوں لگا جیسے ہاجرہ کی آواز اور اس کی صدائیں پورے آڈیٹوریم کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی۔ میرا سر چکرانے لگا اور میں بڑی مشکلوں سے خود کو سنبھالتا آڈیٹوریم کے مین گیٹ سے باہر نکل آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1742008196065880/