پاکستان کے جن سیاست دانوں، بیورو کریٹس اور فوجی جنرلز نے اپنی خود نوشت سوانح عمریاں لکھی ہے انھوں نے اپنی ان میں خود ستائی، اپنی اور اپنے اپنے خاندان کی دیانت و صداقت کی قصیدہ گوئی،ہر موقع او ر ہر مرحلے پر اصول پسندی اور میرٹ کی پاسداری کے دعاوی کئے ہیں۔ اپنی سیاست، سرکاری سروس اور فوجی کئیرئیر کے دوران کئے گئے ہر غلط سلط اقدام کا جواز تراشا ہے، کامیابی کا کریڈٹ خود اور ناکامی کا الزام دوسروں کے سر تھوپنے کے لئے استعمال کرنے میں بھی کوئی حتی الامکان کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ ان آپ بیتیوں میں شاذ ہی کوئی ایسی ہو جس میں لکھاری نے اپنے عہد کی معروضی سیاسی و سماجی صورت حال میں اپنے کردار کو بحیثیت سیاست دان، بیورکریٹ اور فوجی جنرل متعین کیا ہو۔ مبالغہ آرائی اور موضوعیت سے لبریز یہ آپ بیتیاں پاکستان کی سیاسی تاریخ کی درست تفہیم میں مدد دینے کی بجائے فکری خلفشار اور کنفیوژن میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ تجمل حسین کی آپ بیتی ’جو بچے ہیں سنگ۔۔۔‘ پاکستان میں لکھی گئی آپ بیتیوں کی اسی روایت کی امین ہے بجز اس فرق کہ انھوں نے اپنی آپ بیتی میں نہ صرف اپنا بلکہ اپنے بڑے بھائی معروف بیورو کریٹ الطاف گوہر پر لگائے گئے الزامات کی تردید اور جنرل ایوب خان سے ان کے قریبی ذاتی تعلق کا بھی دفاع کیا ہے۔
تجمل حسین گجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا راجہ فتح حسین شہر کے بہت بڑے وکیل تھے جن کی فیس’سکوں کی بھری بوریوں میں آتی تھی کیونکہ ابھی تک کرنسی نوٹ معرض وجود میں نہیں آئے تھے‘(تجمل حسین نہ جانے کس دور کی بات کررہے ہیں کیونکہ ہندوستان میں انیسویں صدی کے اوائل میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے کرنسی نوٹ متعارف کرادیئے تھے)۔ان کے والد پولیس افسر تھے لیکن 1923 میں ایک سیاسی تحریک کو کچلنے کے لئے انگریز سرکار نے گجرانوالہ میں مارشل لا لگایا (گجرانوالہ میں مارشل لا 1923 میں نہیں بلکہ 18 اپریل1919 کو جلیانوالہ باغ میں ہونے والے قتل عام کے نتیجے میں عوام کے احتجاج اور مزاحمت کو دبانے کے لئے لگایا گیا تھا) تو شہر میں پکڑ دھکڑ اور ماردھاڑ شروع ہوگئی اور بطور پولیس افسرامن و امان قائم رکھنا ان کے والد کی ذمہ داری تھی جس کو انھوں نے ادا کرنے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ اپنی وردی اور اپنی بیوی (والدہ تجمل حسین)کے تمام ریشمی کپڑے نذر آتش کردیئے اور اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔
تجمل حسین اور ان کے بڑے بھائی الطاف گوہر نے میٹرک تک تعلیم گجرانوالہ کے خالصہ ہائی سکول میں حاصل کی کیونکہ’شہر کا سب سے اچھا اور واحد کالج خالصہ ہائی سکول اور کالج تھا‘۔ شہر میں مذہبی تناو موجود ہونے کے باوجود ہندو اور مسلمان بچوں کے مابین دوستیاں تھیں میٹرک کے بعد دونوں بھائیوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا جہاں سے الطاف گوہر نے ایم اے انگلش کیا اور تجمل حسین نے گریجوایشن کرنے کے بعد یونیورسٹی لا کالج میں داخلہ لے لیا کیونکہ ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ اپنے داد کے پیشے کو اپنائیں۔
گورنمنٹ کالج میں انھوں کھیلوں کے ساتھ ادبی مجالس میں شریک ہونا شروع کیا اور وہ تقریری مقابلوں میں بھی اول انعام حاصل کرتے رہے اور ا س دوران ان کی جن ادبی شخصیات سے دوستیاں قائم ہوئی تھیں وہ ساری زندگی چلتی رہیں۔ لا کالج میں تعلیم کے دوران انھوں نے ہم عصر سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی اور مسلم لیگ کی سیاست کے قریب ہوگئے۔ قیام پاکستان سے پہلے 1946 میں منعقد ہونے والے انتخابات میں انھوں نے دیگر طالب علم ساتھیوں کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کے امیدواروں کے حق میں مہم چلائی تھی۔ تجمل حسین کا تحریک قیام پاکستان اور مسلمانوں کی شناخت بارے نکتہ نظر وہی ہے جو ہماری مطالعہ پاکستان کی درسی کتب میں پایا جاتا ہے۔
پنجاب کی تقسیم میں لارڈ ریڈ کلف کی مبینہ بے ایمانی کا حوالہ اب روایت بن چکا ہے۔ تجمل حسین نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا ہے۔ لکھتے ہیں کہ پنجاب کی تقسیم کے لیے ایک باونڈری کمیشن تشکیل دیا گیا اور انگلستان سے ایک ریڈ کلف نامی نامعلوم وکیل کو اس کا صدر بنایا گیا جس کی نامزدگی کی سازش کا راز اب مختلف تحقیقی کتب میں افشا ہوچکا ہے۔ اس کمیشن میں کانگریس کے دو اور مسلم لیگ کے دوارکان جسٹس منیر اور جسٹس دین محمد مقرر ہوئے۔ قائد اعظم نے (اس کمیشن کے روبرو پیش ہونے کا) فرض سر ظفراللہ کو سونپا جو اس وقت اپنے علم اور ایمانداری کی وجہ سے مسلمانوں میں بڑی شہرت کے مالک تھے اور پاکستان کی تحریک میں بھی انھوں نے گراں قدر حصہ لیا تھا۔ ریڈکلف تجمل حسین کے نزدیک متعصب اور مسلمانوں کے خلاف تھا۔ جب دہلی جاکر قائد اعظم کو ریڈ کلف کے جانبدارانہ رویے بابت بتایا گیا تو انھوں نے کہا کہ ریڈ کلف لنکنز ان کا بیرسٹر ہے وہ تو غلط کام کرہی نہیں سکتا۔(صفحہ 59)۔
تقسیم کے جلو میں ہونے والے والے فرقہ ورانہ فسادات بارے تجمل حسین کہتے ہیں کہ ہمارے (مسلمانوں) پاس سوائے غصے اور نفرت کے اور کچھ بھی نہیں تھا اور جن کے پاس تھا وہ بھی پاگل ہوگئے تھے اور راہ جاتے ہندووں اور سکھوں کو مارنا شروع کردیا۔فاقہ کش مسلمانوں نے ہندو سکھ علاقوں میں عمارتوں کو آگ لگانا شروع کردی اور اپنے ذہن و دماغ میں یہ بھی نہ سمجھا کہ جن عمارتوں کو آگ لگارہے ہیں وہ تو اب پاکستان میں ہیں (صفحہ 61-62)
قانون کاامتحان پاس کرکے وکالت بھی شروع کردی لیکن بوجوہ والد صاحب نے مقابلے کا امتحان دینے کا حکم دے دیا اورتجمل حسین اس امتحان کی تیاری کی غرض سے کراچی چلے گئے جہاں ان کے بڑے بھائی الطاف گوہر سٹیٹ بنک آف پاکستان کے سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ اپنے قیام کراچی کے دوران انھوں نے حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد رکھی او ر ان کی کوششوں کی بدولت اس کے ہفتہ وار اجلاس وائی۔ایم۔سی۔اے کے ایک کمرے میں منعقدہونا شروع ہوگئے۔
حلقہ ارباب ذوق کے سالانہ جلسے کی صدارت کے لئے گورنر سٹیٹ بنک زاہد حسین کو مدعو کیا اور مہمان خصوصی کے طورپر مولوی عبدالحق کو بھی مدعو کیا گیا۔ قیام پاکستان کے فوری بعد ہماری اردو بولنے اشرافیہ کا انداز فکر کیا تھا اس کا اندازہ زاہد حسین کی تقریر سے ہوتا ہے انھوں نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم سب کو پاکستان کو اسلامی رنگ میں رنگنے کے لئے مدرسوں ہی سے عربی زبان پڑھناشروع کرنا چاہیے۔ مولوی عبدالحق جو مہمان خصوصی تھے زاہد حسین کے اس مشورے پر چپکے نہ رہ سکے اور انھوں نے عربی کے خلاف اور اردو کے حق میں اپنا بیان جاری کردیا جس پر زاہد حسین بہت جزبز ہوئے اور اجلاس سے واپسی پر تجمل حسین کو کہنے لگے کہ’یہ میرا دوست عبدالحق پرانا گھامڑ ہے۔جو چاہے بک دیتا ہے۔حالت اس کی یہ ہے کہ میں اس کی شادی پر دہلی سے حیدرآباد دکن گیا تھااور پھر شادی کے پنڈال سے بمعہ سہرہ ایسا بھاگا کہ ہم سب دیکھتے رہ گئے(‘صفحہ 70)
مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد تجمل حسین کو ملٹری اکاونٹس میں ملازمت فراہم مل گئی۔ کہتے ہیں لاہور میں ملازمت کے دوران عطا ء اللہ کلیم جو میرے افسر اعلی تھے اور جنھیں شعر کہنے کا گمان بھی تھا نے میرے ادبی رابطوں کو دیکھتے ہوئے ایک مشاعرہ منعقد کرانے کی تجویز دی۔وہ مشاعرہ لاہور چھاونی میں کیا گیا۔ صدارت کے لئے جنرل آفیسر کمانڈنگ کو تیار کیا گیا۔صدارت کے لئے فوجی ہر کام کے تیار ہوجاتے ہیں۔پہلے ہی شاعر نے جب اپنا کلام سنایا تو حاضرین نے مکر ر مکرر کی آوازیں بلند کیں۔مشاعرہ کی صدارت کرنے والے جنرل نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔میں نے عرض کی کہ وہ دوبارہ سنانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔غصے میں کہنے لگے انھیں کہیں کہ غور سے کیوں نہیں سنتے۔(صفحہ(73
راولپنڈی میں بطور ڈپٹی اکاونٹینٹ جنرل ملٹری اکاوئنٹس تعیناتی کے دوران فوجی جنرلز کے قریب ہوئے۔ لکھتے ہیں کہ میں ریڈیو پاکستان کے ادبی ماحول میں اور حلقہ ارباب ذوق میں جی بھر کی ادبی بحثیں اور پنڈی کلب میں دلچسپ شامیں گذاررہا تھا۔کلب میں ایک گروہ بڑا دلچسپ تھا جس کے ارکان جنرل یحیی خان، چیف آف جنرل سٹاف جنرل عبدالحمید اور جنرل الطاف قادر اور ان میں بھی شامل ہوگیا۔یہ گروپ رات گئے تک دنیا بھر کی سیاست،ملک کی اندورونی ریشہ دوانیوں، ان کے علاج کے لئے طرح طرح کے خیالات اور منصوبے بنتا تھا۔ یہ محفل باقاعدگی سے سجتی اور میرے اندازے کے مطابق جنرل یحیی خان کی گفتگو کافی سمجھداری کی ہوتی تھی‘(صفحہ96)۔تجمل حسین جنرل یحیی خان کی ذہانت، قابلیت،مہمان نوازی اور ایمانداری کے بھی بڑے معترف ہیں۔ لیکن ساتھ یہ بھی لکھتے ہیں کہ میرے گھر جنرل یحیی خان اور بھٹو نے پاکستان سے واپس جانے والے امریکی سفیر سے ملاقات کی تھی اور وہ آج تک نہیں سمجھ سکے کہ یہ کیا سازش تھی جووہ (بھٹو) اور یحیی ایک ساتھ کررہے تھے جس میں تبدیل ہونے والے امریکی سفیر کی شمولیت ضروری تھی۔
1965 کی جنگ کے حوالے سے عمومی ریاستی بیانیہ یہ ہے کہ پاکستان اس جنگ کا فاتح تھا لیکن تجمل حسین کی کہانی اس سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جنگ کا معاملہ جب سکیورٹی کونسل میں پہنچا تو بھٹو نے جو وہاں بطور وزیر خارجہ پاکستان کی نمائندگی کررہے تھے،صدر جنرل ایوب خان کو پیغام بھیجا کہ وہ مزید دو دن تک جنگ جاری رکھیں تو ہمیں یہاں (سکیورٹی کونسل) میں کامیابی ہوگی۔ صدر جنرل ایوب خان نے تینوں افواج کے سربراہوں کو طلب کیا اور تین دن تک جنگ جاری رکھنے کا کہا۔اُن تینوں بیک آواز یہ کہا کہ ہم جنگ تین منٹ اور نہیں جاری رکھ سکتے چونکہ ہمار اسارا جنگی سازو سامان ختم ہوچکا ہے اور پھر وہی ہوا(یہ بات مجھے بھٹو نے بتائی تھی جس کی تصدیق بھائی گوہر نے بھی کی تھی(صفحہ 146)۔
تجمل حسین بھٹو کے ذاتی دوست ہونے کے مدعی ہیں اور ساتھ ہی ان کے مخالف بھی لیکن مخالفت کا ذمہ دار وہ بھٹو کو ٹھہراتے ہیں۔ انھوں نے اپنی خود نوشت کا پورا بات بھٹوکی نجی اورسیاسی زندگی کی باتیں کے عنوان سے لکھا ہے۔وہ تاشقند ڈیکلریشن کی مخالفت کو بھٹو کی بدنیتی قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس ڈیکلریشن میں ایسا کچھ نہیں تھا جس کی بنا پر اس کی مخالفت کی جاتی۔ ان کے مطابق ڈیکلریشن کی تیاری کے دوران ایک ڈرامائی واقعہ ہوا کہ بھٹو نے دوایک ڈرافٹ دیکھنے کے بعدخود نیا ڈرافٹ بنانا شروع کیا اور بنا کر سیکرٹری خارجہ عزیز احمد کو دیکھنے کے لئے دے دیا۔ اس وقت یہ دونوں اور بھائی گوہر(الطاف) ہی اس ڈرامے کا حصہ تھے۔عزیزاحمد نے اُسے مچوڑ کر زمین پر دے مارا اور کہا کہ اس پر دستخط کرنے کے بعد ہمیں قوم پاکستان میں داخل نہیں ہونے نہیں دے گی۔ڈیکلریشن جس پر دستخط ہوئے وہ بھٹو کی بجائے عزیزاحمد کا تیار کردہ تھااور اُن کے تیار کردہ ڈیکلریشن سے بہت بہتر تھا۔ بھٹو نے یہ تاثر دیا کہ یہ سب کچھ ان کی مرضی کے خلاف ہوا ہے اور اس موقع پر لی گئی تصویر کی بنیاد پر بھٹو نے اپنی نئی سیاست کی بنیاد رکھی تھی۔
تجمل حسین اس کی تردید کرتے ہیں کہ عوامی لیگ کے چھ نکات الطاف گوہر نے لکھے تھے۔ وہ اسے بے ہودہ الزام قراردیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے واجدشمس الحسن نے اپنے اخبار میں بھی یہ الزام شایع کیا تھاجس پر الطاف گوہر نے ان کے خلا ف ہتک عزت کا دعوی سندھ ہائی کورٹ میں دائرکردیا جہاں یہ دعوی چلا اور ہائی کورٹ نے ایڈیٹر اخبار کو تحریری معافی مانگنے اور گوہر کو پچیس ہزار روپے بطور اخراجات مقدمہ اداکرنے کا فیصلہ دیا تھا۔واجدشمس الحسن نے معافی تو شایع کردی تھی لیکن پچیس ہزار کی معافی دلوانے کے لئے میرے پاس آگئے تھے۔
کتاب ایک بڑا حصہ روزنامہ نوائے وقت کے ایڈیٹر مجید نظامی کے الطاف گوہر پر بطور سیکرٹری اطلاعات پر لگائے الزامات اور گوہر کی طرف سے ان کے جوابات اور وضاحتوں پر مشتمل ہے٭٭
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...