رہائش کیلئے مناسب ترین شہروں میں تیسرے نمبر پر آنیوالے شہر میلبورن میں اور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک خوبصورت مشابہت پائی جاتی ہے‘ اسلام آباد کے شمال میں مارگلہ پہاڑیوں کا دلفریب سلسلہ ہے‘ ان پہاڑیوں پر جنگلات ہیں‘ دامنِ کوہ سے ہوتی ہوئی ایک سڑک بلندی تک گئی ہے‘ جہاں ایک یا دو ریستوران ہیں‘ دامنِ کوہ کے نیچے چڑیا گھر ہے‘ پہلے تو تعطیل کے دن پاکستانی صرف دامنِ کوہ تک جاتے تھے لیکن جب سے تنورِ شکم بھرنے کا سامان چوٹی پر ہوا ہے‘ ’’سیاحوں‘‘ کے قافلے چوٹی تک جاتے ہیں۔ جب یہ ریستوران نہیں تھے‘ غیرملکی تب بھی ان پہاڑوں پر جاتے تھے‘ مرد بھی اور عورتیں بھی‘ مہم جوئی بھی کرتے تھے‘ وزرش بھی اور تفریح بھی‘ دامنِ کوہ اور پہاڑ کی چوٹی کے ایک طرف پرانا گائوں سیدپور ہے۔
آسٹریلیا کے دوسرے بڑے شہر میلبورن کے مشرق میں بھی اسی طرح کا پہاڑی سلسلہ ہے‘ جو جنگلات سے اٹا ہوا ہے‘ اس سلسلے کو ’’ڈینڈی نانگ‘‘ کہا جاتا ہے‘ دامنِ کوہ کی طرح یہاں بھی اونچائی پر کھڑے ہو کر سیاح شہر کا نظارہ کرتے ہیں۔ سیدپور کی طرح یہاں بھی پہاڑوں کے دامن میں ایک گائوں ہے جس کا نام ’’سسا فراز‘‘ ہے لیکن میلبورن اور اسلام آباد کے درمیان خوبصورت مشابہت یہاں آکر ختم ہو جاتی ہے۔
ڈینڈی نانگ کے دلکش پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع بہترین سیکٹروں پر آسٹریلیا کی مسلح افواج نے قبضہ نہیں کیا‘ کیونکہ ان کا یہاں جی ایچ کیو بنانے کا کوئی پروگرام نہیں‘ میلبورن کے کاروباری اژدہوں کو ڈینڈی نانگ کے پہاڑی سلسلے میں نقب لگانے یعنی سرنگ بنانے کے وقتاً فوقتاً دورے نہیں پڑتے‘ یہاں کوئی کامران لاشاری یا سی ڈی اے نہیں جو اس پارک کا ایک قیمتی حصہ امریکی فاسٹ فوڈ کو کوڑیوں کے بھائو عنایت کردے اور عدالتِ عظمٰی کے حکم کے باوجود اس مجرمانہ غلطی کی تلافی نہ کرے۔ یہاں صرف ایک سڑک نہیں‘ جو دامن کوہ سے پیرسوہاوہ تک ہے‘ یہاں شاہراہوں کا جال بچھا ہے‘ یہاں کے ترقیاتی ادارے میں شاہراہیں تعمیر کرنے کے محکمے کو ’’سنہری‘‘ محکمہ (روڈ‘ از گولڈ) نہیں کہا جاتا‘ سڑکوں پر سفید نشانات لگے ہوئے ہیں‘ یہ آنے کا راستہ ہے‘ یہ جانے کا راستہ ہے‘ اس نشان کے اندر اندر گاڑی پارک کرنی ہے‘ اس نشان کے اوپر چل کر سڑک پارک کرنی ہے‘ چار پانچ گھنٹے کی سیر و تفریح کے دوران ٹریفک پولیس کا کوئی آدمی نظر نہیں آیا لیکن کسی ایک گاڑی نے بھی سڑکوں پر لگے ہوئے نشانات کی بال برابر خلاف ورزی نہیں کی۔ کسی جگہ کاغذ کا کوئی پرزا‘ سگریٹ کا کوئی ٹکڑا‘ کوئی تنکا‘کوئی شاپنگ بیگ‘ جوس کا کوئی خالی ڈبہ نہیں نظر آیا۔ ہر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر واش روم بنے ہوئے ہیں‘ کوئی شخص سڑک کے کنارے کھڑا ہو کر حاجاتِ ضرریہ کے بقایاجات سے نمٹتا نہیں دکھائی دیتا‘ اس کالم نگار نے بہت لوگوں سے پوچھا کہ کیا کوئی معروف سیاست دان کسی بیورو کریٹ کی بیگم کے ساتھ یہاں کے پہاڑی سلسلے پر پکڑا گیا تھا یا نہیں؟ لیکن کسی نے کچھ نہیں بتایا۔ یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیاست دانوں کی ذاتی زندگی بھی محدب عدسے سے دیکھی جاتی ہے اور انکم ٹیکس کی چوری‘ سرمائے کا باہر بھیجنا‘ بیرون ملک جائیدادوں کی خرید و فروخت‘ شادی شدہ ہو کر ادھر ادھر منہ مارنا کچھ بھی معاف نہیں کیا جاتا۔
پچھلے پچاس سال کے دوران اسلام آباد کے چڑیا گھر سے لے کر پہاڑی سلسلے کی چوٹی تک صرف دو ریستوران وجود میں آئے ہیں‘ ان ریستوران کے مالکان چائے یا کھانے کا جو بھائو لگائیں‘ سیاح کچھ بھی نہیں کر سکتے‘ اس لئےکہ ریستوران کھولنے کیلئے ترقیاتی ادارے کے درجنوں اہلکاروں اور افسروں کو راضی کرنا پڑتا ہے اور راضی کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ یہ طریقہ بہت کم بزنس مین برداشت کر سکتے ہیں۔ بھارت کے بارے میں غالباً مولانا امین احسن اصلاحی نے لکھا تھا کہ یہاں سانپ سے لے کر ہاتھی تک سینکڑوں دیوتا ہیں‘ ہمارے ترقیاتی اداروں میں نائب قاصد سے لے کر سربراہ تک سینکڑوں سانپ اور ہزاروں ہاتھی ہیں‘ سانپ دودھ مانگتے ہیں اور ہاتھی سونڈھیں لہراتے‘ مستی میں ڈوبے‘ دندناتے پھرتے ہیں‘
میلبورن کی ان سیرگاہوں میں ریستورانوں‘ چائے خانوں‘ کافی گھروں اور تحائف بیچنے والی دکانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ دلچسپ چائے خانے کا نام مس مارپل ہے۔ مس مارپل مشہور برطانوی ناول نگار اگاتھا کرسٹی کے ناولوں کا ایک خیالی کردار ہے‘ اگاتھا کرسٹی نے جرم و سزا اور جاسوسی کے موضوع پر ایک سو کے لگ ناول لکھے جو لاکھوں کی تعداد میں بکے۔ ان میں سے بارہ ناول ایسے ہیں جن میں سراغ رسانی کا کام مس مارپل نے کیا۔ وہ ایک چھوٹے سے گائوں میں رہتی تھی اور باغوں اور کھیتوں میں اپنا معمول کا کام کرتی رہتی تھیں لیکن ہر آنے جانیوالے پر نظر رکھتی تھی اور گتھیاں سلجھاتی تھی۔ برطانیہ سے آنیوالی ایک کاروباری خاتون نے اس مس مارپل کے نام پر چائے خانہ کھولا جس میں چائے اور آئس کریم مہیا کی جاتی ہے لیکن اسکی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ میز محفوظ کرانے کے بعد گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ چائے خانے کے اندر دیواروں پر چاروں طرف سینکڑوں چینکیں پڑی ہیں‘ ہر زمانے کی اور ہر ساخت کی یہ چائے دانیاں صرف سجاوٹ کیلئے رکھی گئی ہیں۔
اس سارے علاقے کیلئے مقامی حکومت نے کچھ قوانین وضع کئے ہیں‘ مثلاً سیرگاہوں کی حدود کے اندر کتے بلی یا کسی بھی پالتو جانور کا داخلہ منع ہے‘ کوئی شخص اسلحہ کے ساتھ نہیں آسکتا‘ سڑکوں اور پگڈنڈیوں پر جو نشانات لگائے گئے ہیں‘ انکی خلاف ورزی ناقابل قبول ہو گی‘ کسی پودے‘ درخت‘ جھاڑی‘ پرندے یا جانور کو نہ تو چھیڑنے کی اجازت ہے نہ لے جانے کی‘ سارا کوڑا کرکٹ اپنے ساتھ واپس لے جانا ہو گا۔ کوئی کوڑے دان کہیں بھی نہیں رکھا گیا‘ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ یہ قوانین ڈی آئی جی‘ ایس پی‘ ڈی سی‘ چودھری صاحب‘ سردار صاحب‘ میاں صاحب‘ لغاریوں‘ مخدموں‘ ہاشمیوں‘ گیلانیوں‘ مزاریوں‘ پیروں‘ مولانائوں‘ سب پر یکساں نافذ ہیں۔ خلاف ورزی کرنیوالا وزیر ہو یا اس کا صاحب زادہ‘ فورسٹار جنرل ہو‘ پچاس ستاروں والے افسر کی بیگم یا بیٹی پکڑی جائیگی اور سزا پائے گی۔
یہ صرف ایک مارگلہ‘ ایک دامن کوہ‘ ایک ڈینڈی نانگ اور ایک مس مارپل کا قصہ نہیں‘ یہ تہذیبوں اور تمدنوں کا فرق ہے۔ جو معاشرتی قدریں اسلام لے کر آیا تھا‘ وہ ان ملکوں نے اپنا لیں اور سرخ رو ہوئے اور ہم نے ان قدروں سے منہ موڑکر صرف اس اسلام کو قبول کیا‘ جو ہمارے مفادات سے مناسبت رکھتا ہے۔ آسٹریلیا میں گزشتہ ہفتے تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعظم نے حکومت سنبھالی‘ اسلئے کہ برسر اقتدار سیاسی جماعت کے اندر انتخابات کی وجہ سے پارٹی کا سربراہ اسے چنا گیا اور پہلے سربراہ کو اتار دیا گیا۔ خاتون وزیراعظم کا باپ دماغی امراض کے ہسپتال میں ایک عام ڈسپنسر تھا اور ماں بھی عام سی ملازمہ۔ وزیراعظم کی زندگی کا ساتھی حجام ہے‘ لیکن اس معاشرے میں ڈسپنسر ہونا یا حجام کا کام کرنا اتنا ہی باعزت ہے جتنا زمینداری کرنا یا شہزادہ ہونا۔ کیا اسلام نے مسلمانوں کو یہی نہیں سکھایا تھا؟
کالم یہاں تک لکھا تھا کہ کمپیوٹر نے تازہ ترین خبر دی ہے کہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر سندھ بھر میں پیپلز پارٹی کے جیالوں نے خون کے جو عطیات دیئے‘ ان میں سے کم از کم تیس فیصد ایسے ہیں جن میں ہیپاٹائٹس کے جراثیم ہیں‘ خون لینے سے پہلے جو ضروری چھان بین (سکریننگ) کرنا تھی‘ وہ نہیں کی گئی‘ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ خون تھیلاسیمیا میں مبتلا بچوں اور جنگ میں زخمی ہونے والے فوجی جوانوں کو دیا جائیگا‘ یہ ہیں ہماری سیاسی جماعتیں جو زندگی کے بجائے موت بانٹتی پھر رہی ہیں لیکن پھر بھی… ہے کوئی ہم سا؟ ہم ساہو تو سامنے آئے۔