گو اب آ کے، انسانوں نے یہ بہت آسان کام بنا لیا ہے کہ انہیں جب کوئی شخص ایسا نظر آتا ہے جس کے ساتھ وہ احساسات جڑے رکھتے ہیں تو وہ اسے سادہ الفاظ میں بتا دیتے ہیں کہ تم مجھے اچھی/اچھا لگتی/لگتے ہو۔ اور یوں انسان اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کر لیتے ہیں۔ یا کم از کم ایسی کوشش کر لیتے ہیں۔
مگر
جنگل کی دنیا ابھی تک اظہار کی یہ خصوصیات نہیں رکھتی اس لئے وہاں جیون ساتھی کی تلاش خاصی مشکل ہے۔ ایک جنگل میں چونکہ خطوط لکھنے اور پیار کے بول بولنے کا رواج نہیں ہوتا اس لئے وہاں کسی بھی جیون ساتھی کی تلاش خاصی خونخوار اور مشکل ہو سکتی ہے۔
ایسے میں جیون ساتھی ڈھونڈنے کے دو سب سے اہم طریقے ہیں؛
اول یا تو مادائیں نر کو خود چن لیں
یا پھر
نر مادہ کے حصول کے لئے آپس میں لڑائی کریں
ان دونوں طریقوں کو ہم سیکسوئل سیلیکشن کہتے ہیں۔ اگر مادہ کسی نر کو خود چنے تو ہم اسے انٹرسیکسوئل سیلیکشن کہتے ہیں اور وہیں اگر نر آپس میں باہمی مقابلہ بازی کرکے مادہ کو حاصل کریں تو اسے انٹراسیکسوئل سیلیکشن کہتے ہیں۔
انٹرسیکسوئل سیلیکشن کافی سادہ ہوتی ہے جس میں مادہ اس نر کو چنتی ہے جو خوبرو (سادہ الفاظ میں سیکسی) نظر آتا ہے۔ عموما اس بات کا تعین مادائیں اس لئے کرتی ہیں کیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں میں بہتر جینز ٹرانسفر کرانا چاہتی ہیں تاکہ انکی نسل زیادہ سے زیادہ جینے کے امکانات رکھ سکے۔
اسی لئے ماداؤں میں یہ فطری رجحان ہوتا ہے جس کے تحت وہ ایسے پارٹنر کو سیلیکٹ کرتی ہیں جو کہ اچھے جینز اور اچھی حفاظت فراہم کر سکتا ہے۔
مادائیں کیسے اپنا جیون ساتھی چنتی ہیں؟
عموما اچھے جینز اور حفاظت وہی میٹ دے سکتا ہے جو کہ ظاہری اعتبار سے خوبرو ہو۔ بہت سے جانداروں میں اسکا معیار مختلف ہوسکتا ہے جیسا کہ
مچھلیوں کی ایک قسم جس کا نام مولی فش ہے وہ ایسا پارٹنر چننے کی کوشش کرتی ہے جس کے ہونٹوں پہ مونچھیں ہوں۔ وہیں جو نر ایسے خصائص نہیں رکھتے مادائیں ان کو چنتی ہی نہیں ہیں۔
اس بات کا سب سے زیادہ فائدہ اس مچھلی کی آنے والی نسلوں کو ہوتا ہے کیونکہ مونچھوں والے باپ پہ جانے کی صورت میں اسکے بچوں کے پاس اس بات کا زیادہ چانس ہوگا کہ وہ ایک اچھی پارٹنر جلدی سے ڈھونڈ سکیں۔ اور یوں نسل کی بقا باآسانی ممکن ہوگی۔
اسی طرح مور اپنا جنسی ساتھی ایسا چننے کی کوشش رکھتی ہیں جس کی دم زیادہ لمبی ہو۔
وہیں اگر آپ باہر دیکھتے ہیں تو آپ اس بات کا تجزیہ کرتے ہونگے کہ بہت سے پرندے تیز رنگت والی جلد رکھتے ہیں تو وہیں بہت سے چمکیلی جلد کی بجائے سادہ سی رکھتے ہیں۔ ایسے میں آپ آسانی سے فرق تلاش کرتے ہوئے چمکیلی جلد والے پرندوں کو نر بھی کہہ سکتے ہیں اور اس مفروضے کے غلط ہونے کے امکانات صفر کے قریب ہونگے۔ لیکن وہیں ایسی بات کہ لمبی دم یا پھر چمکیلی جلد ان نر پرندوں کو خطرے کے زیادہ نزدیک کر دیتی ہیں مگر اچھا جیون ساتھی بنانے کے لئے ایسے خصائص زیادہ تر جانوروں اور پرندوں میں موجود ہیں اور عموما نر ہی ایسے خصائص رکھتے ہیں۔
چونکہ نر زیادہ تر ماداؤں کو متاثر کرنے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں اس لئے ایک اور میکنزم جو مادائیں چنتی ہیں وہ بہت سی جگہ رکھنے والا جیون ساتھی ہے۔ جیسا کہ کوئل ، سانگ برڈ وغیرہ کے نر اپنی جگہ کے بارے میں کافی حساس ہوتے ہیں اور یہ وہاں کسی کو بھی داخل نہیں ہونے دیتے اس لئے ان کی مادائیں اسی نر کو چنتی ہیں جو زیادہ جگہ اپنے پاس رکھتا ہے۔
تو ایسے میں نر کی لڑائی والا سین کہاں رہ گیا؟
اس بہیوئر میں نر مادہ کو متاثر کرنے کے لئے آپس میں مقابلہ کرتے ہیں۔Elephant seals وہ مخلوق ہیں جن کے نر ان سے کافی بڑے ہوتے ہیں سو جب انکا تولید کا سیزن نزدیک آتا ہے تو تمام نر آپس میں لڑتے ہیں اور اس باہم لڑائی کے بعد جو نر جیت جاتا ہے وہ ماداؤں کے گروپ (heram) تک رسائی رکھتا ہے۔ اور ایک گروپ میں تقریباً تیس سے سو تک مادائیں اسکے قبضے میں آ جاتی ہیں۔ اور یوں وہ جنگ جیت کر فائدہ پا لیتا ہے۔
اسی طرح کیکڑے ہیں۔ کیکڑوں کا یہ بہیوئر انسانوں کے بہت زیادہ قریب ہے کہ یہ سب سے پہلے آپس میں کسی بھی جگہ کے لئے لڑتے ہیں اور جو نر کیکڑا دوسرے کیکڑے کو نیچے گرا دیتا ہے وہ فاتح قرار پاتا ہے اور سب سے زیادہ صحتمند مادہ کیکڑا اسکو چنتی ہے۔ بلکہ یوں ہوتا ہے کہ ان کی تمام مادائیں اس طاقتور کیکڑے تک رسائی رکھنے کی خواہش رکھتی ہیں۔
سینگوں والے جانور اپنے سینگوں کا استعمال کرتے ہوئے حریف کو چت کرتے ہیں اور پھر مادہ تک رسائی پا لیتے ہیں۔ اسی طرح دیگر ممالیہ جانور بھی زیادہ تر ایسا ہی بہیوئر رکھتے ہیں۔ عموما ان بہیوئرز میں مادہ کو متاثر کرنے کے لئے نر کو بہت زیادہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ بہت کم سپی شیز ایسی ہیں جن میں نر کو مادہ متاثر کرنے کی یا نر کی بجائے مادہ اپنے گروپ پہ کنٹرول رکھتی ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...