کتاب کہتی ہے’’ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ‘‘۔ اب یہ انسان پر ہے کہ موت کا یہ جام تعصب کی تلخی کھول کر پیتا ہے یا الفت کی چاشنی ملا کر کہ مہلت بھی اسے حاصل ہے اور انتخاب کا حق بھی(مجھے لگتا ہے جس کے حلق میں خوش گفتاری مٹھاس بن کر گھلی ہو،موت کبھی اس کے گلے میں تلخی بن کر نہیں اترتی
کچھ یہی حال لفظوں کا بھی ہے۔کسی کا کوئی کومل سا جملہ اسے لاکھوں دلوں میں زندہ رکھتا ہے تو کسی کی زبان کی ہلکی سی بے احتیاطی اسے تاریخ کے کوڑے دان میں ’’رول ‘‘دیا کرتی ہے ۔ شاعر کو شعروں کا انتخاب رسوا کرتا ہے تو نثر نگار اور باتونی آدمی کو اس کا لکھا یا بولا گیا کوئی ایک جملہ خلق کی نظروں سے ہمیشہ کے لئے یوں گراتا ہے کہ بندے کی روح اوپر اٹھ جاتی ہے گرا ہوا مقام کبھی بلند نہیں ہو پاتا۔کہتے ہیں اللہ کو زبان کی سختی پسند نہیں جبھی تو اس خالقِ خشک و تر نے زبان میں کوئی ہڈی نہیں رکھی۔پھر بھی کتنی عجیب بات ہے کہ ہڈیوں کی یہ عمارت ایک چمڑے کے لوتھڑے پر استوار ہے۔اور کیوں نہ ہو کسی کے بارے میں ہمارا پہلا تاثر اس کی اخلاقی خوبصورتی کا ہی تو پرتو ہوتا ہے۔
اخلاق کا پودا نرم خوئی کی کھاد سے پروان چڑھتا ہے اور تسلسل کا موسم نصیب ہو جائے تو اسے چھتنار درخت بننے سے کوئی روک نہیں پاتا۔
پھر یہ شجر سایہ دار ایک عالم کو اپنی ٹھنڈی چھاؤں کا اسیر بنائے رکھتا ہے۔
سو برگد کا یہ درخت تا دیر محسن نقوی کے الفاظ میں ’’دھوپ پھانکتا اور چاندنی اگلتا‘‘ رہتا ہے ۔
خوش خلقی کا اسیر انسان برگد کے اس تناور درخت کی ماند ہوتا جس کی ہمسری کسی طور ممکن نہیں کہ برگد کے درخت کے نیچے کبھی کوئی دوسرا درخت پروان نہیں چڑھ پایا۔لفظوں کے ضمن میں جناب امیر کا یہ فرمان آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے ’’لفظ تمھارے غلام ہیں جب تک انہیں استعمال نہیں کر لیتے اور جب ایسا کر لیتے ہو تو تم ان کے غلام ہوتے ہو‘‘ ۔
کسی بھی قوم پر جب زوال آتا ہے تو سب سے پہلے اخلاق کی ڈھال اس کے ہاتھوں سے پھسل کر گرتی ہے اور اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی متاع حیات مٹی میں خود ’’رول‘‘چکی ہے۔پھر رفتہ رفتہ عوام کے آئینہ دل میں خود اپنے ہی ہم وطنوں کے لئے بال سا آ جاتا ہے سو یہ بال ،ابال بن کر خود انکے پیدا کردہ مآل کو تاریخ کی بد ترین مثال بنا دیا کرتا ہے ۔آ ج وطن عزیز مسائل و مصائب کے جس گرداب میں پھنسا ہے اس سے اس قوم کا بچہ بچہ بخوبی واقف ہے۔لیکن افسوس حکمران انا کی جنگ میں یہ تک بھلا بیٹھے ہیں
’’ہم کس لئے آئے تھے کیا کر چلے‘‘۔
لائن آف کنٹرل پر بھارتی پریشر ہی کو دیکھ لیں ۔ کشمیر میں ہندوؤں کے ظلم و ستم دیکھ لیں ۔قوم اتنی بھی بے وقوف نہیں کہ ان کی آنیاں جانیاں دیکھ کر مطمئن ہو جائے ۔
ادھر ہمارے رہنما ہیں کہ انہیں آپسی لڑائی سے فرصت ملے تو وطن اور اہل وطن کا بھی سوچیں ۔
ہمارا اخلاقی معیار کتنا گر چکا ہے اس کا اندازہ ہمارے ہاں کے اہم قلم اور اہلِ صحافت حضرات کی باہمی دھینگا مشتی سے بخوبی ہو جاتا ہے۔دو مختلف واقعات میں ایک ہی روح کار فراما دکھائی دیتی ہے۔ایک ایسی روح جس نے ہماری روحوں کو شرمشار کر ڈالا ہے۔ سیاستدانوں کو تو جانے دیجئے کہ ان پر ہر کوئی برستا رہتا ہے ۔افسوس کہ دوسروں کی اخلاقیات پر زبانِ طعن دراز کرنے والوں کا اپناا خلاقی معیار اعلی بھی ہرگز قابلِ تقلید نہیں ۔ اس کا بخوبی اندازہ قلم قبیلے کے دو ڈاکٹروں کی لڑائی سے ہوتا ہے ۔ کچھ زیادہ عرصہ تو نہیں گزرا کہ ہو ہماری یاداشت سے محو ہو گیا ہو۔
دونوں کی لفظی جنگ نے ’’دو ڈاکٹروں میں مریض ہلاک‘‘ کی سی کیفیت پیدا کر دی ۔اول تو یہ بحث ہی نامناسب تھی کہ ہمارے تفریحی چینل رمضان امان کے نام سے وہ پروگرام چلاتے رہے کہ الاامان والحفیظ ۔بھئی رمضان کے اپنے تقاضے ہیں اور ان ٹی وی چینلز کی اپنی مجبوریاں ۔اسلامی پروگرام دیکھنے کا اتنا ہی شوق ہے تو کوئی اسلامی چینل لگا کر ثواب دارین کمائیں ۔ ر یموٹ ہاتھ میں تو واویلا کیسا ؟ دیگر مہینوں میں جو پروگرام پیش ہوتے ہیں کیا وہ جائز ہیں جو ان کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھتی ۔ جہاں فنکار مہمان اور فنکار ہی میزبان ہوں وہاں کیسا اسلام اور کہاں کا رمضان؟سچ ہے ’’فنکار فنکاری سے جائے پر اداکاری سے نہ جائے‘‘۔مجھے نہیں پتہ کہ کراچی کے ایک نسبتاً غیر معروف ڈاکٹر نے ایسا کیا لکھا دیا کہ ایک معروف ڈاکٹر کو خوش اخلاقی کا لبادہ ا تار کر اپنے لائیو شو میں فرمانا پڑا
’’یہ د نیا کا گھٹیا ترین آدمی ہے ‘‘
۔میں سمجھا بات یہیں پر تمام ہوئی لیکن موصوف نے اپنا ’’لاؤڈ اسپیکر‘‘اٹھایا اور شروع ہو گئے ۔یقین مانیں میں باوجود پوری کوشش کے وہ کالم آدھا بھی نہیں پڑھ پایا کہ حوصلہ ہی نہیں پڑا۔ لیکن یہ مانے بنا چارہ نہ رہا کہ یہ صاحب صرف تقریر ہی کے نہیں تحریر کے بھی بادشاہ ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ اردو میں ہجو گوئی کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی ’’بازاری‘‘ حوالے کے طور پر ضرور پیش کیا جائے گا۔کاش ڈاکٹر عامر ’’ قالو سلاما‘‘کی قرآنی تدبیر جانتے ہوتے اور جانتے تھے تو عمل بھی کر پاتے۔محض یہ دو لفظ اس سارے فساد کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیتے اور ’’بازاری‘‘وجود میں آ کر ہمیں شرمندہ تو نہ کرتا۔ اگلے دن موصوف کو صبر و تحمل کی اہمیت پر لیکچر دیتا ہوا پایا تو مجھے ذرا سی بھی حیرت نہیں ہوئی ہاں کتاب الہی کی ایک آیت کا مفہوم دیر تک در احساس پر دستک دیتا رہا ’’مومنو ! وہ بات کہتے کیوں ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے‘‘
میرا گمان تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے اس واقعے سے بہت کچھ سیکھا ہوگا ۔اور نہیں تو کم از کم چپ رہنے کی عظمت کا بھید تو ان پر ضرور واضح ہوگیا ہوگا لیکن افسوس میرا اندازہ غلط ثابت ہوا اور اس بار انہوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار ادا کرتے ہوئے جو کیا وہ ان کے سابقہ کارناموں کو بھی مات دے گیا ۔ابتری میں خوب ترکی تلاش انہیں اس مقام پر لے آئی کہ انہوں نے’’ کتے‘‘ لکھ مارا ۔ستم بالائے ستم یہ کہ کالم کے آخر میں یہ تک لکھ ڈالا کہ کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقیہ ہوگی(گویا اشارہ کر دیا گیا کہ مطابقت کا امکان موجود ہے ) ۔جانے یہ مسابقت ہمیں اور کیا کیا رنگ دکھائے گی ۔ڈاکٹر صاحب کا حوالہ اور پس منظر مذہبی نہ ہوتا تو میں باتیں ہرگز تحریر نہ کرتا کہ ذاتیات پر اترنا اور ذاتیات پر اتر آنا دونوں میرے مسلک کا حصہ نہیں ہیں ۔کاش ڈاکٹر صاحب مولا علی کے اس فرمان پر عمل کرتے کہ فتنے کے وقت اونٹ کے بچے جیسا کردار ادا کرو کہ نہ تمھاری سواری کی جا سکے نہ
قربانی کی جا سکے