کاربن، ہائیڈروجن اور آکسیجن، یہ تین عناصر ہوں تو بنتا ہے انسان۔ یہ فقرہ ترانوے فیصد درست ہے۔ ہمارے جسم میں درجنوں دوسرے عناصر بھی چاہییں۔ یہاں تک کہ مولبڈینیم جیسے غیرمعروف عناصر بھی۔ جسم میں چوتھا سب سے زیادہ عنصر وہ ہے جو ہوا میں سب سے عام ہے یعنی نائیٹروجن۔ یہ ہمارے جسم کا تین فیصد ہے۔ ہمارے سائس میں جانے والے ہر پانچ میں سے چار مالیکیول نائیٹروجن کے ہوتے ہیں۔ تو پھر اس کا جسم میں جانا سب سے آسان ہو گا؟ نہیں، اس کا جسم کا حصہ بننا سب سے مشکل ہے۔ ہم اس کے علاوہ ہر عنصر کو براہِ راست اپنے خلیے کا حصہ نہیں سکتے ہیں مگر اس کے ایک ایک ایٹم کے لئے لڑائی کرنا پڑتی ہے۔ اس کو دوسری حالت میں بدلنا پڑتا ہے اور زمین پر اربوں سال تک یہ فن صرف چند مائیکروب ہی سیکھ سکے تھے۔ تمام تر زندگی اربوں سال تک زندہ رہنے کیلئے نائیٹروجن فکس کرنے والے بیکٹیریا کی مرہونِ منت رہی ہے۔
ہمارے جسم کے تین سو کھرب خلیوں میں سے ہر ایک میں ڈی این اے کے تین ارب بیس ہیں۔ ہر ایک میں نائیٹروجن ہے۔ ہر پروٹین میں نائیٹروجن ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جہاں پر نائیٹروجن نے اپنے تنہا پسند طبیعت کی وجہ سے زمین کی فضا کو زندگی کے لئے مہربان کر دیا، وہاں پر اس قدر تنہائی پسندی کا مطلب یہ نکلا کہ ہم نائیٹروجن کے سمندر میں بھی پیاسے رہ جاتے ہیں۔ یہ مرحلہ نائیٹروجنیز نامی ایک اینزائم کے ذریعے طے ہوتا ہے۔ چند خاص بیکٹیریا میں موجود لوہے، سلفر اور مولبڈینم سے بنی یہ انزائم زندگی کے جبڑے ہیں جو اس نائیٹروجن کے ایٹموں کی آپس کی تین مضبوط زنجیروں کو ایک ایک کر کے توڑتی ہے۔ یہ عمل بڑی توانائی مانگتا ہے اور اس کے لئے پانی کے سولہ مایکیولز کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے تا کہ امونیا بن سکے اور یہ جسم کا حصہ بن سکے۔ ان کے بغیر دنیا میں نہ کوئی پودا ہوتا اور نہ ہی کوئی جانور۔
نائیٹروجن فکس کرنے والے بیکٹٰریا کچھ پودوں کی جڑوں میں رہتے ہیں اور ان سے باہمی تعاون کے رشتے میں ہوتے ہیں۔ کونسی جگہ پر کتنی آبادی ہونا ممکن ہے؟ اس کا سب سے زیادہ انحصار مٹی میں موجود نائیٹروجن پر ہے۔
کسانوں نے اس حد کو آگے بڑھانے کے اپنے طریقے نکال لئے۔ مویشیوں کا فضلہ بکھیر کرہ، فصلوں کو روٹیٹ کر کے، گلتے سڑتے پتوں کی مدد سے۔ (سویابین جیسے فصلیں نائیٹروجن والے بیکٹیریا کی دوست ہیں)۔ ان کی مدد سے ان نائیٹروجن فکس کرنے والے بیکٹیریا کی محنت دوبارہ استعمال کرنے کا موقع ملتا تھا۔ لیکن دنیا کی آبادی بڑھتی جا رہی تھی اور جانوروں کے فضلے کی بھی حد تھی۔ لیکن اٹھارہویں صدی کے اختتام تک صنعتی دور میں نائیٹروجن کی پیاس ملکی سرحدوں سے باہر نکل چکی تھی۔ یہ فضلے کی ایک عالمی اور تاریخی مانگ تھی۔ انیسویں صدی میں برِصغیر کی ایک بڑی برآمد گائے کے گوبر کے اپُلے تھے۔ مزدوری کی کم لاگت کی وجہ سے آبادی کا بزا حصہ اس کام میں مشغول تھا۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کی نظر پرندوں کے فضلے پر پڑی جو کئی جگہوں پر کروڑوں برس سے اکٹھا ہو رہا تھا۔ (دنیا میں انسانوں کی خوراک کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ہونے والے بدترین مظالم ان جزائر پر ہوئے)۔ لیکن اس کی بھی حد ہے۔
آخر دنیا میں اربوں برس کے بعد ایک دوسرے جاندار نے یہ ٹرپل بانڈ توڑنے کا ایک طریقہ ڈھونڈ بیسویں صدی میں دھونڈ لیا۔ جاندار انسان تھا۔ یہ دریافت کرنے والے دو جرمن سائنسدان نوبل انعام کے حقدار بھی ٹھہرے اور دونوں ہی جنگی مجرم بھی قرار پائے۔
اس ری ایکشن کو ممکن کر دینے کی بنیادی وجہ کسی کا مہلک ہتھیار بنانے کا شوق اور کسی کا امیر۔ ان میں سے ایک ہیبر تھے اور ایک بوش۔ اس وقت دنیا میں عالمی توانائی کی کھپت کا ایک فیصد حصے صرف فیکٹری میں نایٹروجن کے تین بانڈ توڑنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کی کھوج میں کیمیائی ہتھیار بھی بنے اور صنعتیں بنانے کے نئے طریقے بھی۔ ہیبر کی سنگدلی اور بوش کے لالچ سے ڈھونڈے گئے اس طریقے کے بغیر دنیا میں پونے چار ارب افراد آج زندہ نہ ہوتے۔ آپ کے جسم میں نصف نائیٹروجن فیکٹری میں بنی ہے۔ نصف نائیٹروجن توڑنے والے بیکٹیریا نے بنائی ہے۔