30 سال تک مسلسل تحقیق کی، زندگی کا قیمتی وقت سائنس کو دیا، راتوں کو جاگ کر لیبارٹریوں میں تجربے کیے ، تحقیق کے لیے فنڈنگ پرپوزل لکھے، نئے سے نئے طریقے ایجاد کیے جن سے پرانے دور کے انسانوں کی ہڈیوں سے جینیاتی مواد حاصل کیا۔ لوگ کہتے تھے یہ ناممکن ہے کہ اتنی پرانی ہڈیوں سے جینیاتی مواد حاصل کر کے انکا صحیح تجزیہ کیا جائے، مگر اُنہوں نے ہمت نہ ہاری، ڈٹے رہے، دنیا کے مختلف ممالک میں کھدائی کے دوران ملنے والی پرانی انسانی ہڈیوں کے حصول کے لیے تگ و دو کی۔ جدید لیبارٹریاں اور کلین روم بنائے تاکہ ان ہڈیوں کے تجزیے میں کوئی ملاوٹ نہ ہو۔ ریاضی کے کڑے اُصولوں پر مشقِ سخن جاری رکھا۔ نئے سے نئے اور بہتر سے بہتر ماڈلز بنائے اور بلآخر ارتقاء کی ایک اہم کڑی کو ثابت کیا کہ جدید انسانوں جو آج زمین پر موجود ہیں اور نیڈرتھل جو اج سے تیس ہزار سال پہلے تک موجود تھے انکے جدِ امجد آج سے چھ لاکھ سال پہلے ایک تھے۔
40 ہزار سال پرانی ہڈیوں سے جینیاتی مواد حاصل کرنا کونسا اسان کام تھا مگر انسان کی جستجو نے اس پر نئے در کھولے۔ آج ہم ڈاکٹر سونتے پابو کے شکر گزار ہیں کہ اُنہوں نے ہمیں بتایا کہ جدید انسان میں کہیں نینڈرتھل انسانوں کے جینز موجود ہیں جو اسے مختلف بیماریوں سے بچاتے ہیں، جو اسے اونچے پہاڑی علاقوں میں زندہ رہنے میں مدد دیتے ہیں۔
اور انکے اسے کام پر آج یعنی 3 اکتوبر 2022 کو اُنہیں سائنس کی دنیا میں میڈیسن اور فیزیالوجی کا سب سے بڑا انعام یعنی نوبل انعام دینے کا فیصلہ کیا گیا یے۔
اب ہم ایک لمحے کو تصور کرتے ہیں کہ اتنی محنت، اتنی لگن اور اتنی مشقت کے بعد حاصل کیا جانے والا یہ انعام جو ارتقاء انسان کے حوالے سے ہے، اُسے ہم کیونکر جھوٹ کہہ سکتے ہیں؟ اور کہنے والے بھی وہ جنکا ارتقاء کا علم اتنا محدود ہے کہ وہ سنی سنائی رٹی رٹائی باتوں پر برسوں سے تلے بیٹھے ہیں کہ “انسان بندروں سے ہی بنا ہے”۔ وہ جو بیالوجی کے میٹرک کے مضامین میں مشکل سے پاس ہوئے ، وہ کس رعونت سے اس نوبل انعام یافتہ سائنسدان کا کام رد کر سکتے ہیں؟
کیا ہی بہتر ہو کہ ہمیں اگر اس نظریے سے اختلاف ہو تو سائنسی بنیادوں پر ہو اور کیا ہی بہتر ہو کہ ہم میں سے وہ جو اسے غلط سمجھتے ہیں، وہ بھی اہنی زندگی کے تیس سال اسے جھٹلانے میں صرف کریں بجائے اسکے کہ محض یہ کہہ دیں کہ یہ سب جھوٹ ہے اور اسے بنا سوچے ہنسی میں اُڑا دیتے ہیں۔
مگر خیر جس طرح ارتقاء سے انسان نے عقل کی معراج کو پایا ایسے ہی اُمید ہے کہ ہمارا معاشرہ اور معاشرتی رویے بھی جدید سائنس کو اپنانے میں ارتقائی عمل سے گزریں گے اور وقت ائے گا جب پاکستان میں بھی سنجیدہ سائنس اور ذاتی نظریات سے ہٹ کر جدید علوم کا حصول ممکن ہو گا۔
پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ!!
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...