جس دیش میں گنگا بہتی ہے۔۔۔۔۔قسط آخر
بچھڑے سبھی باری باری۔
کراچی ائرپورٹ پر کسٹمز والوں نے وہی سلوک کرنا چاہا جو خلیجی ممالک سے میری واپسی پر کیا کرتے تھے، مجھے اب ان سے نمٹنا آگیا تھا۔ کسٹم کے اہل کار نے سوٹ کیس میں موجود ساڑھیوں اور زنانہ کپڑوں کو دیکھ کر مجھے بتایا کہ بغیر سلا کپڑا لانے کی اجازت نہیں ہے۔
" ٹھیک ہے ، بتاؤ کتنی ڈیوٹی ہوگی؟"
" جی! " اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔
" آپ بتائیں کہ کتنی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ میں آپ کے افسر سے چیک کرواؤں گا اور اگر درست ہوئی تو ادا کردوں گا"
" میرا مطلب ہے جی ، کیوں اتنی ڈیوٹی دیں گے" وہ لجاجت سے بولا
" مجھے پتہ ہے اس پر کوئی ڈیوٹی شیو ٹی نہیں ہوتی" اب میرا رویہ جارحانہ تھا۔
" آپ یہ ایک سوٹ پیس چھوڑ دیں ۔ اور نکل جائیں" اسے ڈیوٹی لینے میں ہرگز دلچسپی نہیں تھی۔
یہ سن کر میرا ناریل چٹخ گیا۔ یہ سوٹ پیس اور ساڑھیاں محض کپڑے نہیں تھے۔ یہ میرے پیاروں کی محبت کی نشانیاں تھیں۔
آپ شاید اسے مبالغہ جانیں۔ لیکن میرے ساتھ کسٹمر میں تقریباً ہر دفعہ ایسے معاملات ہوتے تھے اور میں ان کی ذہنیت کو اچھی طرح پہچانتا تھا۔ یہ تب کی بات ہے۔ اب تو آپ بغیر کسی چیکنگ کے گرین چینل سے نکل سکتے ہیں۔ ان دنوں کسٹم والے بھوکے جانوروں کی طرح مسافروں کو بھنبھوڑتے تھے۔ ہاکی میرا پسندیدہ کھیل ہے، میں خود بھی ہاکی کھیلتا رہا ہوں۔ کسٹم میں اکثر میرے بہت سے پسندیدہ ہاکی کے ہیرو نظر آتے۔ لیکن یقین جانئیے،جب وہ کسٹم کے کاؤنٹر پر ملتے تو ان میں اور بھکاریوں میں شمہ برابر فرق نہیں ہوتا۔ میرے پاس ہمارے بہت سے قومی ہیروز کی داستانیں ہیں۔ لیکن جانے دیں ۔ یہاں اس کا موقع نہیں۔
" تم ان کپڑوں کو ہاتھ لگا کر تو دیکھو" میں چلایا۔ ' ڈیوٹی لگانی ہے تو لگاؤ نہیں تو مجھے جانے دو" میری آواز بدستور بلند تھی۔
" کیا بات ہے، کیا مسئلہ ہے" نوکدار مونچھوں والا ایک سینئیر افسر میرا شور وغل سن کر متوجہ ہوا۔
" دیکھئے میں بمبئی سے آرہا ہوں۔ یہ کپڑے دیکھیں ، یہ میں نے نہیں خریدے، یہ میرے عزیزوں نے تحفے بھیجے ہیں" میں نے اسے کپڑوں پر لگی چٹیں دکھائیں جن پر لکھا تھا " بابو کی دلہن کے لئے، ۔۔۔۔بی بی جان کیلئے،۔۔۔۔
" تو کیا بات ھوگئی۔ آپ کیوں چلا رہے ہیں"
" میں اس لئے چلا رہا ہوں کہ یہ صاحب مجھ سے رشوت مانگ رہے ہیں اور اس میں سے ایک جوڑا لینا چاہتے ہیں " میری آواز مزید بلند ہوگئی۔
اس کسٹم اہلکار کا رنگ زرد ہوگیا۔ سینئر افسر شاید بہت ہی سینئر تھا۔ اتنے کھردرے انداز میں شاید کسی نے رشوت کا لفظ استعمال نہیں کیا ہوگا۔
" نہیں سر جی، میں یہ کہہ رہا تھا" اس نے گڑگڑا کر کچھ کہنا چاہا۔
" شٹ اپ۔ تمہیں شرم نہیں آتی، جینئیون مسافروں کو تنگ کرتے ہو۔ کاؤنٹر کسی اور کے حوالے کرو اور میرے کیبن میں آؤ"
اس نے دوسرے کسٹم افسر کو اشارہ کیا کہ یہاں آئے۔ وہ دونوں چلے گئے۔
مجھے اب شرمندگی کا احساس ہونے لگا کہ شاید غریب کی نوکری خطرے میں پڑجائے۔
دوسرا افسر میرے باہر نکالے ہوئے کپڑے تہہ کر کے مناسب طریقے سے سوٹ کیس میں رکھنے لگا۔
" سر یہ نیا آیا پے۔ اسے پسنجرز سے ڈیل کرنا نہیں آتا"
" یار اس کی نوکری کی تو کوئی مشکل نہیں ہوگی" اب میں اپنے آپ کو مجرم سمجھ رہا تھا ۔
" ارے نہیں،۔ " اس نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ " وہ اندر لے جاکر اسے لتاڑ رہا ہوگا کہ سامنے والے بندے کو بھی دیکھ لیا کرو۔ دوبئی ، سعودی عرب سے آنے والے مزدور ، پٹھانوں سے یہ خوب اینٹھنے ہیں ۔ پڑھے لکھے پر ہم ہاتھ نہیں ڈالتے"
" آپ لوگ کیوں کرتے ہیں ایسا" ائرپورٹ پر اس وقت زیادہ مسافر نہیں تھے۔ میں نے سوٹ کیس بند کیا اور باہر نکلنے کی تیاری کرنے لگا۔
" ایسا نہ کریں تو یہاں نوکری بھی نہیں کرسکتے۔ جتنا ہم لیتے ہیں اس سے زیادہ ان افسروں کو جاتا ہے" اس نے اپنا ملبہ اعلی افسران پر ڈال دیا۔ اس حمام میں سب ننگے تھے۔ ( اور ہیں )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں سب تھے، بائی نہیں تھیں۔
مجھے یکایک بائی کی کمی کا احساس ہوا۔ امی سے ملکر میں پلنگ پر بیٹھ گیا اور یکایک اندر کی گھٹا امڈ کر باہر آگئی۔
رو کر جی کچھ ہلکا ہؤا۔نہیں تو میں اب تک اپنے آپ کو بائی کا مجرم سمجھ رہا تھا ۔ میری جس دادی نے میری پرورش کی، مجھے کسی قابل بنایا ، ان کی موت پر میری آنکھ سے ایک آنسو نہیں ٹپکا تھا۔
کچھ دیر بعد ابا بھی آگئے۔ ابا کبھی دفتر سے جلد گھر نہیں آتے تھے۔ لیکن آج وہ میرے لئے آئے تھے۔ ابا سے گلے لگا تو سمجھ نہیں آیا کہ میں ان کا دکھ بانٹ رہا ہوں یا وہ مجھے پر سا دے رہے ہیں۔ ان کی ماں تھیں، لیکن مجھے بھی تو بائی نے ماں کے طرح ہی پالا تھا۔
ہم قبرستان گئے، بائی کی قبر ابھی تازہ تھی۔ اس پر مزید پانی چھڑکا، پھول چڑھائے۔ کچھ دیر بیٹھ کر آنسو بہائے، ان کے لئے دعا کی۔ قبرستان سے باہر آکر تمام اہل قبرستان کے لئے دعا کی اور اپنی دنیا میں واپس آگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج چونتیس پینتیس سال ہوگئے۔ ہندوستان ، جہاں میں تو صرف اپنوں سے ملنے گیا تھا۔ فوزان کی مہربانی سے اجمیر، جے پور، آگرہ اور دلی بھی گھوم آیا۔
اس بیچ ساری باتیں بھلا بیٹھا تھا لیکن جب یہ کہانی لکھے بیٹھا تو ایک ایک لمحہ کی داستان آنکھوں کے سامنے آگئی۔ بہت سی باتیں میں نے نہیں لکھیں کہ وہ خالص ذاتی یا خاندانی تھیں۔ لیکن اس سفر میں نہ صرف اپنوں کی محبتوں اور رشتوں کی مٹھاس کی دولت لے کر واپس آیا وہیں، اولیاء اللہ اور بزرگان دین کی درگاہوں کی حاضری نصیب ہوئی۔ ساتھ ہی ہندوستان کی عظمت رفتہ کے نقوش کا اثر لئے واپس آیا۔ دونوں ملکوں کے لوگوں کی مماثلت بھی دیکھی اور دونوں کے بیچ کے فرق کو بھی دیکھا۔ ہندوستان کی ترقی بھی دیکھی اور لوگوں کی زبوں حالی بھی دیکھی۔
اس دوران کئی بار جانے کا ارادہ کیا، لیکن جب تک والدین حیات تھے، چھٹی پر سارا وقت صرف اور صرف ان کے ساتھ ہی گذارا۔ کراچی سے باہر بھی کبھی نہیں گیا۔ باجی البتہ تقریباً ہر سال کراچی آتی ہیں ، چار بار دوبئی بھی آچکی ہیں اور آزاد بھائی نے بی بی جان سے کئے ہوئے وعدے کا ہمیشہ پاس رکھا اور کیسے بھی نا مساعد حالات ہوئے، باجی کو ضرور پاکستان بھیجا۔
بہت پہلے کی بات ہے ، باجی ان دنوں شدید بیمار تھیں اور میں انڈیا جانا چاہتا تھا، ان دنوں پاکستانی پاسپورٹ پر بھارت، اسرائیل، جنوبی افریقہ اور تائیوان جانے کی اجازت نہیں تھی۔ بھارت جانے کےلئےپاسپورٹ پر خصوصی " انڈورسمنٹ" لینا پڑتی تھی۔ میں اس مقصد کے لئے دوبئی کی پاکستانی قونصلیٹ گیا۔
میں نے درخواست کے فارم میں واضح طور پر لکھا تھا، "اہنی بیمار بہن کی عبادت کے لئے
" To visit my ailing sister"
قونصل خانے فرسٹ سکریٹری جنھوں نے اس پر دستخط کرنے تھے دس بجے تشریف لائے جبکہ میں آٹھ بجے سے وہاں انتظار کر رہا تھا۔
" بھئی کیا انڈیا فلمیں دیکھنے جارہے ہو۔ ہم نے تو سنا ہے گھی چینی وہاں پاکستان سے زیادہ مہنگی ہے" انہوں نے پھکڑپن سے کہا۔
" آپ نے میرا فارم پڑھا ہے"
" کیا لکھا ہے اس پر"
" آپ نے وجہ پڑھی ہے کیا لکھی ہے اس پر"
میں نے فارم ان کے ہاتھ سے کھینچ لیا اور غصے میں کانپتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔ یہ پاکستان قونصل خانے میں اس قسم کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ میرے پاس چالیس سال کی کہانیاں ہیں۔ ان دنوں میں کہا کرتا تھا کہ خبیث اور کمینے ترین لوگوں کو ہزار سے ضرب دی جاتی ہے اور جو اس پر پورے اترتے ہیں انہیں پاکستانی سفارتخانوں میں بھیجا جاتا ہے۔
اگر آپ کو یاد ہو کہ میں نے انڈیا کے ویزا کے لئے صبح درخواست دی تھی اور دوپہر دو بجے مجھے میرا پاسپورٹ ویزا کے ساتھ مل گیا تھا۔
لیکن اب ایسا نہیں۔
دو تین سال قبل باجی پھر بیمار تھیں اور میں نے ویزا کی درخواست دی۔ اب سفارتخانے یا قونصلیٹ میں نہیں بلکہ ان کے مقرر کئے ہوئے ایجنٹوں کے زریعے درخواست دی جاتی ہے، تقریباً سارے ممالک کے سفارتخانے یہی کررہے ہیں۔ ( سوائے مملکت خداداد کے) ۔ یہ تھرڈ پارٹی سارے کوائف اور کاغذات جانچ پڑتال کرکے متعلقہ سفارت خانے کو بھیج دیتے ہیں اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔
مجھے امید تھی کہ ویزا آسانی سے مل جائے گا۔ میری کمپنی کے دفاتر انڈیا میں بھی ہیں اور وہاں بھی میری انکوائری ہوئی۔ میرا تعلق بھی انڈیا کی شاخ سے رہتا ہے اور وہاں کے لوگ میرا بہت احترام کرتے ہیں ۔ انہوں نے انکوائری کی بہت اچھی رپورٹ دی۔ لیکن شاید انہی دنوں مودی جی کی سرکار آگئی۔ مجھے میرے ویزے کی درخواست کا جواب اب تک نہیں ملا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب میں وہاں جاؤں تو کون ہے جو میری پیشانی پر بوسہ دے۔ خالو ابا، خالہ اماں،ماموں صاحب، ماموں میاں، خالد ماموں ، مسعود ماموں، دونوں چھوٹی خالائیں، دونو ں چھوٹے خالو، اب ان میں سے کوئی نہیں رہا۔ نہ یہاں میرے امی ابا رہے۔ امی بے چاری ہر دو چار سال میں کسی ماموں اور خالہ کے جانے کی خبر سنتیں ، کچھ دیر روتیں پھر اپنے کاموں میں لگ جاتیں۔ اور وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔
اور یہ قدرت کا قانون ہے، جو دنیا میں آیا ہے اس نے جانا ضرور ہے۔ ہمارے بزرگوں کی نسل ختم ہوئی اب ہماری باری ہے ، لیکن کچھ لوگ لائن توڑ کر نکل جاتے ہیں۔
سب سے پہلے ، امی کی سب سے چھوٹی بہن ، میری چھوٹی، شریر مزاج، بدلہ سنج خالہ کی خبر آئی۔
پھر ایک دن ہم سب کی جان، ہنستی مسکراتی "سسٹر" ہمیں چھوڑ گئیں۔
وہی سسٹر جن کے قہقہوں سے سارا سفر ہم سب سفر کی تکان محسوس نہیں کرتے تھے۔
سب سے چھوٹے ماموں اچانک کہیں راہ چلتے ہوئے گرے اور آنا" فانا" اپنے اللہ سے جا ملے۔
لیکن درویش صفت، فقیر منش اور عبادت گذار خالد ماموں کی موت ایسی تھی کہ جو سنے رشک کرے۔
خالد ماموں گھر سے متصل مسجد میں فجر سے اشراق تک اوراد ووظائف میں مشغول رہتے یا تلاوت میں مصروف ہوتے، یہ میرے واحد ماموں ہیں جو پاکستان آئے۔ گھر پر کبھی جماعت ہوتی تو ابا خالد ماموں سے امامت کے لئے کہتے اور ان کی پرسوز قرات دل میں اترتی چلی جاتی۔
ایسے ہی ایک دن جب بہت دیر وہ صبح گھر نہیں آئے تو مسجد کا موؤذن دروازہ بند کرنے اندر آیا تو دیکھا کہ ماموں دوزانو جھکے ہوئے ہیں ، دونوں باتھوں کے انگوٹھوں میں تسبیح لپٹی ہوئی ہے اور ان کی گردن جھکی ہوئی ہے۔ موؤذن نے کاندھا پکڑ کر ہلایا تو ایک جانب جھول گئے۔ خالد ماموں کی روح نہ جانے کب سے قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ اللہ کی بارگاہ میں تو وہ حاضر تھے ہی، اللہ نے انہیں اور اپنے قریب کرلیا۔
اور ایک دن باجی کے فون سے ایسی خبر ملی کہ آج بھی یاد آتی ہے تو دل کا حال عجیب ہوجاتا ہے۔ یہ ننھی ثمین کی خبر تھی، جو عین جوانی میں داغ مفارقت دے گئی۔ وہی ثمین جو جے پور کے چڑیا گھر میں میرے کندھوں پر سوار، جانوروں کو دیکھ کر کلکاریاں بھرتی تھی۔ جس کی سالگرہ کا کیک ہم نے دہلی کے ریستوران میں کاٹا تھا، جو میری گود میں بیٹھی سب کی شکلیں دیکھتی تھی۔
آج سے تین ساڑھے تین سال پہلے ایک دن آزاد بھائی کا فون آیا کہ کسی شادی سے واپسی میں کسی راہگیر کو بچاتے ہوئے فوزان کی موٹرسائیکل بے قابو ہوگئی اور فٹ پاتھ کی منڈیر سے جا ٹکرایا۔ سر میں شدید چوٹیں آئیں ہیں اور وہ بے ہوش ہے،
اگلے دو ہفتے کوئی نماز ایسی نہ تھی کہ فوزان کے لئے دعا نہ کی ہو لیکن آخر ایک دن وہ بھی اجل کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔
میرا یار جانی، میرا بھائی فوزان میرے سارے کزنز میں واحد میرا ہم عمر تھا۔ فوزان ہی کی وجہ سے مجھے ہندوستان دیکھنے ملا۔ اور اسی فوزان ہی کی وجہ سے مجھے فیس بک کا پتہ چلا۔
میرا فیس بک کا اکاؤنٹ میرے ایک ساتھی نے بنا کر دیا لیکن مجھے علم نہیں تھا کہ اس میں کیا کرتے ہیں۔ ایک دوبار کے علاوہ میں نے کبھی فیس بک نہیں دیکھا تھا۔ فوزان کے انتقال کی خبر سن کر مجھے فکر ہوئی کہ اس کے دیکھوں فوزان کے بچے کتنے بڑے ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ فیس بک پر اکثر نوجوان ہوتے ہیں اور ان کی تصویریں وغیرہ بھی ہوتی ہیں۔ میں فیس بک پر، " فاران فوزان' سرچ کررہا تھا کہ نیچے دائیں جانب ان باکس پر لکھا نظر آیا " ابو! آپ کیا کرکے ہیں فیس بک پر" یہ میری بڑی بیٹی تھی جو انگلستان میں ہوتی ہے۔ تب مجھے پتہ چلا کہ فیس بک کے زریعے بات چیت بھی ہوسکتی ہے۔ اور اس کے بعد تو میں فیس بک کا ہی ہو کر رہ گیا۔
اور آج سے چار ماہ پہلے، امریکہ میں میرے چھوٹے پھوپھا کا انتقال ہوا۔ یہ پھوپھا، میرے بزرگ ہی نہیں بلکہ بڑے بھائی اور بے تکلف دوست بھی تھے۔ ویسے بھی کراچی میں وہ محلے میں " بھاؤ" یعنی بھائی کے نام سے ہی مشہور تھے۔
ابھی ایک دن بھی نہ گذرا تھا کہ باجی کا فون آیا کہ میرے سب سے بڑے ماموں کے بڑے بیٹے نعیم کا انتقال ہوگیا۔ کرکٹ کے دلدادہ نعیم بھائی سے میری بمبئی کی جامع مسجد کے پاس صرف راہ چلتے ملاقات ہوئی تھی اور آزاد نے بتایا کہ یہ بی بی جان کا بابو ہے، نعیم بھائی کچھ جلدی میں تھے، پھر ملنے کا کہہ کر لوگوں کے ہجوم میں غائب ہوگئے۔
آزاد کے لئے یہ دن بہت بھاری تھا۔ اسی دن اورن میں ان کے چچا کے بیٹے کا بھی انتقال ہوا یعنی اپنے دو فرسٹ کزنز سے ایک ہی دن میں محروم ہوئے۔
اس ہفتے میں یہ تین جدائیاں کم نہ تھیں کہ ہفتے کہ آخر ی دن اسمعیٰل بھائ جان کے اچانک انتقال کی روح فرسا خبر ملی۔
دکھ اور سوگ کے اس نہ تھمتے سیل رواں سے کون کہتا
" اے درد ذرا دم لے، کروٹ تو بدلنے دے"
یہی دنیا ہے، وہ سب چلے گئے، ہم بھی چلے جائیں گے۔ کوئی اس رین بسیرے کا مستقل باسی نہیں ۔ زندگی کا سفر لیکن چلتا رہے گا۔ زندگی تو ویسے بھی ایک پڑاؤ ہے، جانا تو سب کو وہاں ہے جہاں ہمیشہ رہنا ہے ،
" جاوداں ، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی۔'
کُل ُّمن علیہا فان ویبقٰی وجہُ ربک ذوالجلال ولاکرام
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/655537754633755