جس دیش میں گنگا بہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔6
سلطان الہند، ملکہ ترنم اور تبرک شریف
شکور صاحب ہی نہیں ، اور بھی بہت سے تھے جوشیروانیاں پہنے ٹرین کے ڈبوں کے آس پاس منڈلا رہے تھے۔ میں نے کراچی میں اکا دکا ہی لوگوں کو شیروانی میں دیکھا تھا۔ بچپن میں بہار کالونی میں ہمارے مکان مالک جن کا تعلق کانپور سے تھا، سردیوں میں اکثر شیروانی میں دفتر جایا کرتے ۔ میری چھوٹی پھوپھی کے ہاں ان کے سسرال کے ایک بزرگ شیروانی اور ترکی ٹوپی میں آیا کرتے اور یہ بابائے اردو جیسے لگتے تھے۔ اسکول میں ہمارے فارسی کے استاد ہمیشہ شیروانی میں آتے اور ان میں مولانا مودودی کی مشابہت تھی۔ کالج
میں بھی اے ڈبلیو قریشی صاحب اور مسعود صاحب اور کبھی کبھار پرنسپل اے این فاروقی بھی شیروانی میں آتے اور یہ سب بڑے وجیہ نظر آتے تھے۔ کورنگی میں ہمارے دوست چاند کے چچا شیروانی اور چوڑی دار پاجامے میں نظر آتے تیکھی نوکدار مونچھوں اور ہاتھ میں پانوں کا بٹوہ لئے ان چچا کو ہمارے اکثر دوست “راسپوتین” کہتے۔
اور اکثر اخبارات میں حکومت سندھ کے افسر مہمانداری نواب راحت سعید چھتاری کی تصویر نظر آتی جو ہمارے دوست کے چچا سے بہت ملتی تھی۔ یا پھرٹی وی پر شاہ بلیغ الدین کو شیروانی میں دیکھتے۔ اور ایک اور ہستی جیسے شیروانی کے بغیر کبھی نہیں دیکھا وہ حکیم سعید تھے۔ لیکن شیروانی میں سب سے زیادہ وجیہ ، با رعب اور پروقار شخصیت جو نظر آتی تھی وہ میرے قائد کی تھی۔
یہ ایسا لباس ہے کہ میں نے جسے پہنے دیکھا خوبصورت اور با وقار نظر آیا لیکن کراچی میں یہ لباس کبھی عام نہیں تھا۔ سوائے شادی کے ، شاید ہی کوئی نوجوان اسے زیب تن کرتا ہو۔ لیکن یہاں پہلی بار اتنے زیادہ لوگوں کو شیروانی میں دیکھا تو عجیب سا لگا۔ یہ شیروانی نامہ کچھ طویل ہوگیا لیکن ہمیں کون سی جلدی ہے یہ قصہ ختم کرنے کی۔
شکور صاحب اجمیر میں ہمارے قیام کے جملہ امور کے ذمہ دار تھے۔ یہ ان گنت خادمین اور مجاوروں میں سے ایک تھے جن کا ایک عظیم نیٹ ورک خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کا انتظام وانصرام اور آمدنی سنبھالتا تھا۔ فوزان نے انہیں بذریعہ خط اطلاع دی تھی کہ ہم فلاں دن فلاں ٹرین سے پہنچیں گے۔ وقت کی پابندی اور وعدے کی پاسداری ان دنوں جب کمپیوٹر اور موبائل فون وغیرہ ہماری زندگی کا اٹوٹ آنگ نہیں بنے تھے، آج سے کہیں زیادہ تھی کہ دراصل اعتبار ایک دوسرے کی زبان کا ہوتا تھا اور قول نبھانے کے لئے تو لوگ جان پر کھیل جایا کرتے تھے۔
” اللہ تیرا شکر ہے” ” آپ سب خیریت سے تو پہنچے؟” شکور صاحب ٹرین کی کھڑکی سے ہی فوزان سے مصافحہ کرکے ہم سب کی جانب دیکھ رہے تھے۔نوکدار مونچھوں والے، منحنی سے شکور صاحب دیکھ کر مجھے کلن قوال یاد آئے۔
شکور صاحب کے پیچھے قلیوں کا دستہ منتظر تھا۔ ہم آرام سے نیچے اترے ، قلیوں نے سامان اسٹیشن سے باہر کھڑے تین تانگوں پر لادا، ساتھ پی ہم سب بھی سوار ہوتے رہے۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی تھی اور اب سردی محسوس ہورہی تھی ۔ تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم درگاہ شریف کے قریب زائرین کے لئے بنے ریسٹ ہاؤس کے پاس اترے۔ جی ہاں ، اجمیر شریف میں ہر چیز شریف تھی۔ درگاہ شریف، چلہ شریف، چادر شریف، حاضری شریف، دیگ شریف، تبرک شریف ۔ مجھے کسی چیز کا نام لینے سے پہلے سوچنا پڑتا تھا کہ کہیں کسی گستاخی کا مرتکب نہ ہوجاؤں۔ ہمارے لئے بڑے سے ہال نما دو کمرے مختص تھے، زنانہ اور مردانہ لیکن ہم سب ایک ہی کمرے میں ڈھیر ہوگئے۔
” یہاں بیت الخلا کتنے ہیں ؟ ” میں نے شکور صاحب کے بیٹے احمد سے پوچھا۔
” بیت الخلا شریف” آزاد کی سب سے چھوٹی بہن مبی نے تصحیح کی۔ اسے ڈر تھا کہ میں اتنے بھاری بھرکم عربی نام کو گستاخی سے ادا کررہا ہوں۔
” یہ سنڈاس کی بات کررہا ہے” باجی نے اسے بمبئی میں بیت الخلا کے لئے عام مستعمل لفظ سے سمجھایا۔
ہونٹوں اور آنکھوں چومتی ، مبی ، کی انگلیاں رک گئیں۔
” ارے اتنی عزت سے نام لیتے ہیں سنڈاس کا، واہ!”
ہم سب رات کے سونے کیلئے کپڑے بدل کر بیٹھے تھے کہ احمد دو خادمین کے ساتھ نمودار ہوا جو بڑے سے تھال اٹھائے ہوے تھے۔ تھال ذمین پر رکھ وہ باہر سے دوبڑے سے ڈونگے لے آئے جس میں دالچہ (دال گوشت) تھا۔ ہم سب تھا لوں کے آس پاس بیٹھ گئے، بھاپ اڑاتےچاول، گرما گرم دالچہ اور اچار۔ مجھے اب تک وہ ذائقہ نہیں بھولتا۔ یہ بھی زندگی کے ان چند کھانوں میں سے تھا جو شاید اس سفر کی تکان اور خنک موسم میں کچھ ایسا مزیدار لگا کہ آج بھی دال گوشت دیکھ کر مجھے اجمیر یاد آتا ہے۔
کل شام کے بعد سے پہلی بار آرام کا ٹھکانہ ملا تھا۔ کچھ دیر بعد سب خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔
ناشتے کے بعد سب غسل وغیر سے فارغ ہو رہے تھے۔ آج زیارت شریف کے لئے جانا تھا۔ وہ جو فجر پہ نہ اٹھ سکے تھے اب قضا ادا کررہے تھے۔ مرد پاجامہ کرتا پہنے، عطر لگا کر سروں پر ٹوپیاں جما رہے تھے۔ جن کے پاس ٹوپی نہیں تھی وہ رومال باندھ رہے تھے۔ میں اور فوزان شلوار قمیض میں تھے۔ عورتوں نے برقعے نکال لئے تھے جو اورن سے باہر آتے ہی بیگوں اور تھیلوں میں چلے گئے تھے۔ جی ہاں ہمارے اورن میں پردے کی سخت پابندی ہے اور کوئی بھی عورت برقعے کے بغیر کہیں نہیں آتی جاتی، البتہ چونکہ بمبئی میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے اس لیے لانچ یا ایس ٹی کی بس سے اترتے ہی برقعے پرس، بیگ اور تھیلوں میں چلے جاتے ہیں۔ اب چونکہ حضرت غریب نواز کی درگاہ شریف میں حاضری شریف کا مرحلہ تھا اور احترام کا تقاضہ تھا چنانچہ نہ صرف برقعے بلکہ دوپٹّے بھی سر اور چہرے پر نماز پڑھنے کے انداز میں لپیٹ لئے گئے تھے۔
میرے ہم نام ، شکور صاحب اور ان کا بیٹا احمد باہر کوریڈور میں دھری کرسیوں پر بیٹھے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔
” کل یہاں بہت رش تھا” احمد مجھ سے مخاطب تھا۔
” آپ کے پاکستان سے نورجہاں آئی تھی” احمد کا انداز کچھ ایسا تھا گویا کہہ رہا ہو کہ نورجہاں آئی تو پاکستان سے تھی لیکن وہ تھی ہماری ہی۔
” اوہ۔ ہمیں خبر ہوتی تو تم ہم ایک دن پہلے آتے” میں نے تاسف سے کہا۔
” نہیں اچھا ہوا آپ کل نہیں آئے۔ درگاہ کو پبلک کے لئے بند کردیا تھا۔ بہت لوگ تھے ان کے ساتھ” احمد نے مجھے پاس پڑا ہوا اخبار دکھایا جس میں ملکہ ترنم سر پر چادر اوڑھے لوگوں کے ہجوم میں درگاہ جارہی ہیں اور خادمین بھی پھولوں کی چادریں اور ٹوکرے سر پر رکھے ہم رکاب ہیں۔ مادام کو اسٹیٹ پروٹوکول دیا گیا تھا۔ ہندوستان کے لوگ شاید ہم سے زیادہ ملکہ ترنم کو چاہتے تھے۔
شکور صاحب اور احمد اپنے ہی لوگ تھے چنانچہ میرا پاکستانی ہونا ان سے چھپا ہوا نہیں تھا۔ احمد میرے آس پاس ہی رہتا ۔ کچھ دیر میں خالہ اماں۔ سسٹر، دیدی، چاچی، باجی اور دیگر مستورات اور بچے برآمد ہوئے اور ہم سب شکور صاحب اور احمد کی قیادت میں درگاہ شریف روانہ ہوئے۔ خالہ اماں اور کچھ اور خواتین زیر لب درود شریف پڑھتی جارہی تھیں۔
ایک تنگ گلی سے نکل کر ہم درگاہ کے مرکزی دروازے پر پہنچے۔
” یہ بلند دروازہ پے” شکور صاحب نے مطلع کیا۔
” اسے حضرت نظام دکن نے بنوایا تھا” شکور صاحب نے بتایا تو ہم سب نے عقیدت سے دروازہ شریف کی جانب دیکھا۔ خواتین کے لبوں کی جنبش تیز ہوگئی۔
درگاہ کے احاطے میں شکور صاحب نے اپنی نگرانی میں ہم سب سے جوتے اور چپلیں اتروائیں اور ایک خادم کے حوالے کی جس نے کوئی ٹوکن ان کے حوالے کیا۔
درگاہ سے باہر شکور صاحب ایک نسبتا” اونچی جگہ کھڑے ہوکر مخاطب ہوئے۔ وہ صاحب مزار کے بارے میں ہمیں بتا رہے تھے تاکہ ان کی عظمت کا نقش ہمارے ذہنوں میں واضح ہو اور ہم حاضری کے آداب سے واقف ہو سکیں۔
” روایت کے مطابق، ہندالولی، سلطان الہند حضرت خواجہ صاحب کو روضہ رسول میں حاضری کے دوران ہندوستان کی ولایت عطا ہوئی کہ جاؤ بت خانہ ہند میں کفروظلمت کو دور کرو اور اسلام کی روشنی پھیلاؤ۔” ہماری خواتین غور سے شکور صاحب کا چہرہ دیکھتی تھیں اور درود شریف پڑھتی جاتی تھیں۔
” حضرت سلطان الہند کی کرامات بے انتہا ہیں” شکور صاحب نے بیان جاری رکھا۔
” سلطان الہند کون؟” یہ گلزار تھی، آزاد کی پھوپھی کی بیٹی جو بمبئی میں کالج میں پڑھتی تھی۔اور چاچا اور چاچی کے ساتھ ہی آئی تھی۔
” حضرت خواجہ غریب نواز کا لقب ہے” شکور صاحب نے بتایا۔
” اور معین الدین اجمیری کون ہیں” یہ چاچا کا بیٹاسفیان تھا جو اگلے سال کالج میں جانے والا تھا،
” حضرت صاحب کا نام معین الدین تھا، چشت میں سلوک کے مراحل طے کئے تو چشتی کہلائے” شکور صاحب سلسلہ کلام ٹوٹنے پر جز بز نظر آتے تھے۔
” آپ غریبوں کی دادرسی فرماتے تھے اس لئے غریب نواز کہلاتے تھے” شکور صاحب نے سلسلہ جاری رکھنے کی کوشش کی”
“ایک بار آپ اپنے مصاحبین کے ساتھ تشریف رکھتے تھے کہ سامنے سے ایک بارہ سالہ لڑکا تیر کمان لے کر گذرا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ایک دن بادشاہ بنے گا۔ بڑا ہوکر یہ لڑکا سلطان شمس الدین التمش بنا، رضیہ سلطانہ کا باپ۔”
“حضرت کی ایک کرامت یہ تھی کہ عشاء کعبتہ اللہ میں ادا فرماتے اور فجر میں اجمیر میں اپنے حجرے میں ہوتے”
” وہ کیسے؟ ” ہم میں سے کسی کی گستاخانہ آواز بلند ہوئی۔
” یہ اللہ کا اپنے خاص بندوں پر کرم ہوتا ہے۔ وہ زمان و مکان کے پابند نہیں ہوتے” خواتین کے لبوں پر درود شریف کا ورد مزید تیز ہوگیا۔
” ایک بار کسی بے گناہ کو پھانسی ہوگئی۔ حضرت کی کرامت سے وہ پھانسی کے بعد زندہ ہوگیا”
” خواجہ صاحب مندر کے سامنے سے گذرتے تو پنڈت مسلمان ہوجاتے، آتشکدےکے پاس سے گذرتے تو پروہت ایمان لے آتے۔”
” پرتھوی راج نے جب بھی حضرت صاحب کی خانقاہ پر حملہ کی کوشش کی اندھا ہوجاتا تھا”
” کل آپ کو انا ساگر لے جاؤں گا۔ وہاں کا راجہ رام دیو تو حضرت صاحب کے ہاتھوں مسلمان ہوگیا”
اب وہ فوزان کو الگ لے جاکر کچھ باتیں کرنے لگے۔ اس سارے سفر کا انتظام فوزان نے کیا تھا۔ وہ خواجہ صاحب کا عقیدتمند تھا اور سفر کا پہلا پڑاؤ اجمیر شریف اسی لئے رکھا تھا کہ غریب نواز کو ہدیہ تشکر پیش کرسکے۔
فوزان ، شکور صاحب اور بڑے بھائی ایک پھولوں کی دکان سے چادر خرید رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد ہم چادر کو چاروں کونوں سے پکڑے مزار کی جانب جارہے تھے۔ مزار میں اگر بتیوں ، گلاب کے پھولوں اور عطر کی خوشبو نے ایک عجب تقدیس آمیز ماحول پیدا کیا ہوا تھا۔ خواتین نے سر پر دھرے برقعے اور دوپٹّے درست کئے، مردوں نے ٹوپیاں ٹھیک سے سر پر جمائیں۔
فوزان، بڑے بھائی، خالو ابا، چاچا، غلام نبی بھائی جان وغیر نے چادر کو مختلف جانب سے پکڑا ہوا تھا۔ میں ایک جانب کھڑا یہ تماشا دیکھتا تھا۔
” ارے بابو کو تو لو” خالہ اماں کو خیال آیا کہ ان کا بھانجہ اس سعادت سے محروم ہے۔
میں نے بھی ایک کونا تھاما اور ہم سب نے شکور صاحب کی سربراہی میں چادر کو مزار پر پھیلا دیا، جہاں پہلے ہی سے کئی چادریں تھیں۔ مجھے شک سا گذرا کہ یہ چادریں ” ری سائیکل ” ہوتی ہیں ، یعنی خادمین واپس لے جاکر ان دکانوں کو بیچتے ہیں۔ میں ان شیطانی خیالات میں تھا کہ مورچھل جھلتے ایک خادم نے دونوں ہاتھ اٹھا کر فاتحہ شروع کی۔
ہم میں سے اکثر کی آنکھیں بند تھیں اور سب اپنی اپنی حاجات زیر لب دہرا رہے تھے۔ میری دعا کب کی ختم ہوچکی تھی اور میں مزار سے باہر جانا چاہتا تھا لیکن لگتا تھا کہ باقی سب یہاں سے کچھ لئے بغیر جانے کے لئے نہیں آئے۔ فاتحہ سے فارغ ہو کر کچھ لوگ مزار کی جالی کو چومتے تھے۔ ہم اس طرح باہر آئے کے ہمارا چہرہ مزار کی جانب اور پیٹھ دروازے کی طرف تھی۔ سب عقیدت میں شرابور تھے۔ باہر آتے ہوئے میں نے دیکھا کچھ لوگ سجدے میں تھے۔
مجھے تصوف سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ کراچی میں میرے ابا کو لوگ وہابی کہتے تھے حالانکہ وہ تھے نہیں۔ میں کراچی میں عبداللہ شاہ غازی اور ٹھٹھہ وغیرہ میں مزاروں پر جا چکا تھا، ایک بار دودن سیہون شریف میں بھی گذار چکا تھا۔ لیکن میرے دل میں وہ گداز کبھی نہیں پیدا ہوا۔ میں تو سب سے بڑی درگاہ میں حاضری دے چکا تھا اور روضۂ رسول کی حاضری کے بعد کوئی اور در آنکھوں میں جچتا ہی نہ تھا۔
مجھے درگاہوں اور مزارات پر کی جانے والی حرکات عجیب تو لگتیں لیکن میں کبھی کسی سے الجھتا نہیں تھا کہ آج بھی مجھے یقین پے کہ جو ایک بار اللہ کی وحدانیت کاکلمہ پڑھ لے وہ کبھی شرک کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی مسلمان ، مشرک نہیں ہو سکتا۔ یہ ضرور ہے کہ کچھ لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن گمراہی، گناہ گاری نہیں پے۔ میرے نزدیک گم راہ وہ ہے جسے غلط راہ دکھادی گئی لیکن وہ اسے صحیح سمجھ کر پورے خلوص سے اسے ہی اصل راہ سمجھ کر اس پر چل رہا ہے۔ ایسے لوگوں سے نفرت نہیں کی جانی چاہئے بلکہ ان کے لئے اور اپنے لئے راہ راست کی دعا کرنی چاہئیے۔
درگاہ سے باہر آکر شکور صاحب نے آس پاس کے حجروں ، چبوتروں اور مختلف چیزوں کے بارے میں بتا یا۔ یہاں فلاں بزرگ نے چلہ کیا تھا۔ حضرت معین الدین چشتی کے بارے میں بتایا کہ آپ نے حضرت علی ہجویری، المعروف بہ داتا گنج بخش کے مزار پر چلہ کیا تھا اور داتا صاحب کو ان لافانی الفاظ میں ہدیہ عقیدت پیش کیا تھا
گنج بخش فیض عالم، مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملا ں را رہنما۔
ہم مزار کے چاروں طرف گھوم پھر رہے تھے۔ دائیں جانب ایک گول سے پلیٹ فارم نما جگہ پر سیڑھیا بنی ہوئی تھیں ۔ شکور صاحب کی سربراہی میں ہم سیڑھیا ں چڑھ کر اوپر پہنچے۔
” ارے ، یہ کیا، کتنی بڑی دیگ ہے” ہم سب کی حیرت میں ڈوبی آوازیں ابھریں۔
” یہ بڑی دیگ ہے” شکور صاحب نے بتایا۔ ” اسے اکبر بادشاہ نے بنوایا تھا۔ اس میں سو من سے زیادہ تبرک پکتا ہے”
تانبے کی بنی اس بڑی دیغ میں جو ایک کمرے کے برابر تھی، تہہ میں روپے، سکے، سونے کی چوڑیاں، کڑے، زیور، گھڑیاں وغیرہ نظر آرہی تھیں۔ایک لکڑی کی سیڑھی سے اس میں اترا جاتا تھا۔ شکور صاحب نے بتایا کہ خادمین کا خاص گروہ ہے جو اس کام پر مامور ہے اور وہ چمڑے کے خاص لباس میں دیگ میں اترتے ہیں، جس میں بنے تبرک کے زائقے کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی کی جوتی پر گر جائے تو وہ جوتی اٹھا کر چاٹ لے۔ یہ شاید محاورتا” کہا ہوگا کہ درگاہ کے احاطے میں سب ننگے پیر ہوتے تھے۔ یہ تبرک ہندو مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی سب بڑی عقیدت سے کھاتے تھے کہ اس میں غیر مسلموں کا خیال کرکے گوشت، پیاز اور لہسن وغیرہ نہیں ڈالے جاتے تھے۔
” چلیں فاتحہ پڑھ لیں ” ایک معمر خاتون نے کہا ، جو دوسرے زائرین کے ساتھ تھیں۔
” یہاں فاتحہ نہیں پڑھی جاتی” شکور صاحب نے کہا ” صرف زیارت کی جاتی ہے اور نذرانہ چڑھایا جاتا ہے”
بڑی بی کے فاتحہ کے لئےاٹھے ہوئے ہاتھ نیچے آکر اب دیغ کو چھو رہے تھے، وہ اپنے ہاتھوں کا بوسہ لے رہی تھیں ۔
دیغ میں روپے اور سکے پھینکے جارہے تھے۔ میں سعودی عرب سے آیا تھا اور مجھے دوسروں سے بڑی رقم نذر گزارنی تھی۔ لیکن یہاں جیب سے پیسے نکال کر نمائش کرنا بے حد خطرناک تھا۔
جب سے ہم بلند دروازے سے داخل ہوئے تھے، فقیروں اور مانگنے والوں کی فوج ہماری ہم رکاب تھی، بعض اوقات راستہ چلنا مشکل ہوجاتا اور احمد انہیں گالیاں دیتا ہوا ہٹاتا۔ بعضے تو ہاتھ پکڑ کر کھینچتے۔ مزار میں داخل ہونا ایک عذاب تھا۔
ہم نے مزار کے دائیں جانب سے اجمیر شہر کو دیکھا، اور کچھ دیر بعد اپنے ٹھکانے پر واپس آئے، جہاں دوپہر کے کھانے کے بعد خواتین کو بازار میں ” خریدی ” کے لئے جانا تھا۔ اور یہ خریدی ( شاپنگ) آگے چل کر اس سفر میں مجھے سب سے زیادہ کھلنے والی تھی کہ جے پور، آگرہ اور دہلی کے تاریخی مقامات کو جلدازجلد نمٹا کر ہماری خواتین ” خریدی” کے لئے جانا چاہتی تھیں جہاں وہ گھنٹوں گذارتیں۔ مرد حضرات کھانے پینے کہ جگہیں ڈھونڈتے گویا کہ یہاں آنے کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے۔
” تم جاؤ، میں کچھ دیر سؤوں گا”
” ارے یہاں سونے کے لئے آئے ہو”
” تو کیا شاپنگ کے لئے آئے ہیں”
” اچھا کچھ دیر سو جاؤ پھر اکھٹے چلیں گے”
میں نے چادر منہ پر تان لی اور آنکھیں بند لرلیں۔
( باقی باقی)
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/639749446212586