جس دیش میں گنگا بہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔5
سفر در سفر
آنکھ کھلی تو گھر میں بھاگ دوڑ مچی ہوئی تھی۔ لیکن یہ ہلچل صرف گھر کی عورتوں میں نظر آرہی تھی۔ مرد نسبتا” اطمینان سے اپنے کاموں میں مشغول نظر آتے تھے۔ خالہ اماں اور باجی پر سفر سوار تھا۔ یہ دس بارہ دنوں کا سفر تھا اور اس قافلے میں خالو ابا سے لے کر شیرخوار ” ثمین” تک شامل تھے اور چار مختلف شہروں میں ٹھہرنا تھا۔ کل اٹھارہ افراد کا قافلہ بننا تھا۔ میں اٹھارہواں تھا۔ جس کا نہ کوئی ٹکٹ تھا، نہ ان شہروں کا ویزا۔میں کریلا اوپر سے نیم چڑھا کے مصداق نہ صرف غیر قانونی طور پر ان شہروں میں جارہا تھا بلکہ بلا ٹکٹ جارہا تھا۔ گویا بارود کے ڈھیر پر بیٹھا حقہ گڑگڑا رہا تھا۔
ہندوستان ، پاکستان کے تعلقات ان دنوں کچھ بہتر تھےاور دونوں طرف کے عوام ، کھلاڑی، فنکار اور شعرا ایک دوسرے کے ہاں آجا رہے تھے لیکن وہ بہرحال “بھارت” تھا۔ ان دونوں ملکوں میں ایسا’ بہناپا’ کبھی نہیں ہوا جیسا امریکہ اور کینیڈا کے درمیان ہے۔ دونوں طرف ایک دوسرے کے لئے شکوک اور بدگمانیاں روز اوّل سے تھیں اور ان میں آج تک ایک دن کے لئے بھی کمی نہیں آئی۔
میں اگر کہیں پکڑا جاتا تو سیدھا جاسوسی کے الزام میں اندر ہوتا اور میرے عزیز رشتہ دار بھی کچھ نہ کر پاتے کہ یہ معاملہ خاندانی نہیں ‘ سفارتی’ بن جاتا۔ الٹا میرے عزیز مشکل میں پڑ جاتے۔ اب یہ میرا امتحان تھا کہ میں کس طرح اپنے آپ کو اس قافلے میں کیموفلاژ کرتا۔ میرے لئے یہ بہت زیادہ مشکل نہیں تھا کہ میں ٹوٹی پھوٹی مراٹھی جانتا تھا۔ مجھے جے پور والوں کے لہجے میں رانگڑی بھی آتی تھی کہ میرے قریبی اور عزیز ترین پڑوسی سنگھانے کے راجپوت تھے۔ ہندی فلموں کی بدولت ہندی نما اردو بھی بول سکتا تھا اور دہلی میں حسب ضرورت پنجابی سے بھی کام چلا سکتا تھا۔ لیکن ان سب باتوں کی نوبت آتی ہی کیونکر۔ اگر بات خدانخواستہ پولیس تک پہنچتی تو مراٹھی، رانگڑی اور پنجابی دھری کی دھری رہ جاتیں۔
لیکن یہ سب کچھ میں اب کہہ رہاہوں۔ ہم جب چلے تو کسی کے ذہن میں اس حوالے سے کوئی اچنبھا یا پریشانی نہ تھی۔ صرف یہ طے ہوا تھا کہ اگر کبھی ریل میں ٹکٹ چیکر سے ٹاکرا ہو تو میں دائیں بائیں ہوجاؤں۔ اور میں چند سال پہلے ہی کالج سے فارغ ہوا تھا اور کراچی کی بسوں میں بلا ٹکٹ سفر کرنے کا طویل تجربہ تھا اور یہ کسی مجرمانہ نیت سے نہیں بلکہ غربت کی وجہ سے تھا کہ روزانہ جیب خرچ ہی اتنا کم تھا۔
ننھی ثمین کے دودھ کے ڈبوں سے لے کر خالو ابا اور خالہ اماں کی دوائیں اور دہلی کی سردی کی مناسبت سے گرم کپڑے غرض ہر چیز کی بار بار یاددہانی ایک دوسرے کو کرائی جارہی تھی۔ ثمین کی پہلی سالگرہ دوران سفر ہونے والی تھی، لیکن اس کے اماں ابا یعنی بھائی جان اور بھابی ساتھ نہیں تھے۔ گھر میں یوں بھی وہ باجی اور آزاد بھائی کے پاس ہی زیادہ رہتی تھی اور اب سفر میں بھی انہی کے ساتھ جارہی تھی اور اس حوالے سے بھائ جان اور بھابی کو کوئی فکر نہیں تھی۔
” جلدی سے جاکر کر خالہ اور بڑی ممانی سے مل آتے ہیں” آزاد نے آج کا ٹائم ٹیبل بتایا۔ ” ظہر کے بعد بمبئی کے لئے نکلیں گے۔ ”
مجھے یہاں آئے آج تیسرا دن تھا اور میری سب سے چھوٹی خالہ جن کے ہاں میں نے بچپن میں سب سے زیادہ وقت گذارا تھا، ان سے اب تک ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ نہ ہی ماموں میاں ، یعںی سب سے بڑے ماموں کے گھر والوں سے ملا تھا۔ ماموں میاں اپنے کاروبار کے سلسلے میں پنویل میں تھے۔ میری پہلی ممانی کا انتقال بہت پہلے ہوچکا تھا۔ یہ دوسری ممانی تھیں۔
میں اٹھنے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ دروازے پر شور سا بپا ہوا۔
“ارے بابو تین دن سے آیا ہوا ہےاور میری طرف نہیں آیا” یہ آزاد کی سب سے بڑی بہن تھیں اور باجی سے شکایت کررہی تھیں۔ انہیں ہم ” سسٹر” کہتے تھے۔ سسٹر میں میری امی کی شباہت تھی۔ خالہ اماں اور امی میں بھی بہت مشابہت تھی ۔
ہماری برادری میں بھائی جان ، باجی، چاچا ، چاچی کے ساتھ ساتھ بڑے بھائی بہنوں کے لئے ” برادر، سسٹر اور چچا چچی کے لئے انکل آنٹی ہم بالکل کوکنی الفاظ کی طرح ہی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن مزیدار تر رشتہ ہے ” مسٹر” ۔ یہ اکثر گھرانوں میں بڑی بھابیاں اپنے سے چھوٹے دیوروں کو اس نام سے بھی پکارتی ہیں۔ لیکن یہ مسٹر عام طور پر ” مشٹر’ بن جاتا ہے۔
سسٹر بڑی صاف دل اور بدلہ سنج تھیں۔ شکایت بھی ان کے پیار کا ایک انداز تھا۔ ان کے ساتھ ان کے شوہر جنہیں ہم ” بڑے بھائی” کہتے تھے اور بیٹی فرناز بھی تھے۔ یہ بھی اس قافلے کا حصہ تھے۔
سسٹر سے کچھ باتیں کرکے ہم چھوٹی خالہ کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن اورن میں سیدھا کسی گھر میں جانا آسان نہیں۔ راستے میں دوچار کھڑکیوں اور دروازوں کے پاس رک کر آزاد نے بتایا کہ یہ ” بی بی جان کا بابو ہے، کراچی سے آیا ہے۔ ” ان میں سے جو معمر خواتین و حضرات تھے ان کی آنکھیں گویا کہتیں ” اوہ۔ وہ والا؟ ” پھر میرے ایک دو کارنامے یا دلاتے جو آج سے بیس سال پہلے میں نے یہاں انجام دئے تھے۔ میری شہرت میرا پیچھا نہیں چھوڑتی تھی۔
” خالہ کے گھر جانا میرے لئے چند آں مشکل نہیں تھا۔ وہ اب بھی وہیں رہ رہی تھیں گو کہ ان کا نیا مکان بھی زیر تعمیر تھا۔ خالو بحرین میں تھے اور بیٹے شاید دوحہ قطر میں تھے۔ بڑی بیٹی پروین بمبئی میں اور چھوٹی یاسمین یہیں اورن میں بیاہی گئی تھیں۔ خالہ نے پیار کیا لیکن روئی نہیں۔ میری یہ خالہ بڑی زندہ دل، ہنس مکھ اور دلچسپ تھیں۔ اور شاید یہی ہنسی اللہ کو کچھ زیادہ بھائی اور آٹھ بہن بھائیوں میں اللہ نے سب سے پہلے انہیں ہی اپنے پاس بلایا۔
” تم کچھ سدھرے یا نہیں ؟ ” میری سب سے زیادہ شکایتیں خالہ کے پاس ہی پہنچتی تھیں کہ میں زیادہ تر انہی کے پاس رہتا تھا۔ پھر خالہ کو بھی آپا (میری امی) یاد آگئیں۔ وہ ناراض ہونے لگیں کہ اکیلے کیوں آئے، آپا کو ساتھ کیوں نہیں لائے۔
خالہ کی ہاں سے اٹھنے ہی والا تھا کہ ساڑھی میں ملبوس ایک نوجوان ، گوری چٹی، کھلے بالوں والی محترمہ بے دھڑک اندر چلی آئیں۔ یہ خالہ کی پڑوسن تھیں اور یہاں سب پی ہمارے رشتہ دار تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ شہناز کا بھائی ہے۔ یہ خاتون خاصی طرح دار اور بے باک تھیں۔
انہوں نے تنقیدی نظروں سے مجھے دیکھا۔ ” سنا ہے پاکستانی بڑے خوبصورت ہوتے ہیں ” ان دنوں یہاں عمران خان ، ظہیر عباس اور محسن خان وغیرہ کا بڑا شہرہ تھا۔ مجھے شاید مطلوبہ معیار سے کمتر پاکر انہیں مایوسی ہوئی تھی۔
” جی میں نے بھی سنا ہے” میرا انداز کچھ معذرت خواہانہ سا تھا۔
” ایسی بات نہیں ہے۔ ہمارے انڈیا میں بھی بہت خوبصورت لوگ رہتے ہیں” نجانے وہ کیا ثابت کرنا چاہتی تھیں۔
” جی بے شک۔۔ میری خالہ جان کو دیکھ لیں”
” اور میں کیا نہیں ہوں؟ ” وہ شوخی سے اٹھلائیں۔
میں پچھلے سات سال سے بحرین اور سعودی عرب میں فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ملازمت کرتا آرہا تھا اور دنیا بھر کی خواتین سے معاملہ رہتا تھا اور میں جو کبھی کراچی میں ایک شرمیلا سا لڑکا ہوا کرتا تھا جس نے چار سال کے دوران اپنی کلاس کی صرف ایک لڑکی سے شاید ایک کوئز پروگرام کے دوران چند جملے بولنے کے علاوہ کسی لڑکی سے بات نہیں کی تھی۔ ہوٹل کی ملازمت کے دوران دیگر مہمانوں کے علاوہ مختلف ائیرلائنز کے کریو سے بھی واسطہ پڑتا تھا جن میں ائر ہوسٹسیں بھی شامل تھیں اور خواتین سے بات کرنا اب میرے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
میں ان کے شایان شان جواب دینا چاہتا تھا کہ آزاد نے گھڑی کی طرف دیکھ کر یاد دلایا کہ دوپہر کو سفر کے لئے نکلنا ہے۔
کچھ دیر بعد ہم بڑے ماموں کے گھر میں تھے۔ ماموں کے کاروباری اور مالی حالات کچھ اچھے نہیں تھے اور گھر کے درودیوار سے اس کا اظہار ہوتا تھا، میں بھاری دل سے وہاں سے واپس آیا۔
یہاں چند ایک کو چھوڑ کر ہمارے بیشتر عزیز اور رشتہ دار بہت برے حالوں میں تھے۔ کچھ ان کی اپنی کوتاہی تھی اور کچھ یہ بھی کہ مسلمان نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے مواقع اس قدر آسان نہ تھے۔ بہت کم نے اعلی تعلیم حاصل کی تھی اور ان کی اکثریت چھوٹی موٹی ملازمت یا کاروبار کرتے تھے۔ وہ اپنے پاکستانی عزیزوں کو حسرت اور رشک سے دیکھتے تھے جن کے بچے نہ صرف اچھی تعلیم حاصل کررہے تھے بلکہ اکثر وبیشتر خوشحال اور مطمئن زندگی گذار رہے تھے۔ ہمارے عزیزوں میں سے جو کوئی کراچی آتا یہاں آکر بتاتا کہ کراچی میں ان کے رشتے دار کا کتنا بڑا گھر ہے، فلاں کی بیگم بھی گاڑی چلاتی ہے اور فلاں کے بچے باہر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہمارے آبائی علاقے کے لوگ اپنے پاکستانی عزیزوں کے سامنے ایک احساس کمتری میں مبتلا رہتے تھے۔ اس کا ایک مظاہرہ میں پہلے ہی دن دیکھ چکا تھا جس کا احوال ابتدا میں آپ کے گوش گذار کیا تھا۔
اب سنا ہے کہ حالات بہت بہتر ہوگئے ہیں۔ مسلمانوں میں تعلیم بھی عام ہوگئی ہے نہ صرف خلیجی ممالک بلکہ ہندوستان میں بھی انہیں اچھی ملازمتیں مل رہی ہیں۔ اور میرا دل یہ سب کچھ سن کر خوش ہوتا ہےکہ وہ بھی میرے ہی دل کے ٹکڑے ہیں۔
فوزان کی ایمبیسیڈر، رکشوں اور تانگوں میں ہم سب مورا کی جانب رواں تھے۔ سامان لانچ میں منتقل کرنا ایک کٹھن مرحلہ تھا۔ بہرحال کچھ دیر بعد سب لانچ میں آمنے سامنے بیٹھے گپ شپ کرتے کچھ ہی دیر بعد بمبئی پہنچ گئے۔ جہاں ” بمبے سنٹرل” کے اسٹیشن پر چاچا اور دیدی اور ان کے گھر والوں کا انتظار تھا۔ یہ چاچا، خالو ابا کے سب سے چھوٹے بھائی تھے اور بمبئی میں رہتے تھے۔ دیدی آزاد سے بڑی تھیں اور نوی ممبئی یعنی واشی میں رہتی تھیں۔
شام تک چاچا ، چاچی، ان کے دو بچے، دیدی، انکے میاں غلام نبی بچے صاعقہ اور فہیم بھی پہنچ چکے تھے اور اب ” گجرات میل” کا انتظار تھا۔ قلیوں نے سامان پر اپنی لال پگڑیاں ڈال کر اپنا حق حاصل کرلیا تھا۔ میں چاچا اور غلام نبی بھائی اور بڑے بھائی کے ساتھ ایک بنچ پر بیٹھ کر کراچی کے حالات سنا رہا تھا۔
” گجرات میل” پلیٹ فارم پر لگی اور میں توقع کررہا تھا کہ اب قیامت بپا ہوگی اور قلیوں کا ہٹو بچو کا شور ہوگا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ فوزان اور بڑے بھائی ڈبوں کے دروازوں کے باہر لگی فہرستوں پر نام پڑھتے جارہے تھے۔ آخر ایک ” سلیپر” کے باہر ہمارے قافلے کے نام مل گئے۔ میرا نام ان میں نہیں تھا۔
قلیوں نے اطمینان سے سامان رکھا، اپنا محنتانہ وصول کیا اور چلے گئے اور اب ہم آرام سے اپنی نشستوں پر براجمان ہو رہے تھے۔ تم یہاں بیٹھو، نہیں تم میرے ساتھ رہو، اچھا تم یہاں آجاؤ۔
اور میری آنکھوں کے سامنے کراچی کے کینٹ اور سٹی اسٹیشن کا نقشہ گھومتا تھا جہاں جب بھی کسی کو رخصت کرنے گیا تو عجب طوفان بدتمیزی دیکھتا تھا۔ یہاں ہماری سیٹیں ریزرو تھیں اور کسی نے ان پر قبضہ نہیں کیا تھا۔ اس ڈبے میں صرف وہی مسافر تھے جن کی ریزرویشن تھی۔ اور میں ایک ایسا مسافر تھا جس کی نہ صرف ریزرویشن نہیں تھی بلکہ اس کے پاس ٹکٹ بھی نہیں تھا۔ فوزان نے مجھے جلدی سے ایک نشست پر بٹھایا۔ اب ایک خاتون باقی رہ گئی تھیں۔ جنہیں دانستہ کھڑا رکھا گیا تھا۔ سامنے ایک نشست پر کچھ نوجوان بیٹھے تھے۔ ایک نے اپنی نشست خالی کی اور ہم میں سے ایک مرد کو وہاں بلا کر کہا کہ ماتا جی کو وہاں بٹھاؤ اور تم میری جگہ آجاؤ۔ہم ناں ناں کرتے رہے۔ کچھ دیر بعد وہ نوجوان بھی کہیں گھس گھسا کر بیٹھ گیا تھا اور ہم سب سکون سے بیٹھے ٹرین چلنے کا انتظار کرتے رہے۔ مجھے نہیں یاد کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ منظر کبھی میرے سامنے سے گذرا ہو۔
یاد نہیں کس وقت ریل چلنا شروع ہوئی، ہم اپنی باتوں ہی میں مگن تھے۔ کچھ دیر بعد ٹفن کھلے اور کھانا ایک دوسرے کی طرف بڑھا یا جانے لگا۔ شاید کھانے کا نشہ یا دن بھر کی تھکن تھی کہ سب ہی کچھ دیر بعد نیند میں جھوم رہے تھے۔ مجھے سفر میں نیند کی عادت نہیں لیکن میں بھی اونگھتا جاگتا رہا، نہ جانے کس وقت آنکھ لگی۔
آنکھ کھلی تو ہم احمدآباد کے اسٹیشن پر تھے۔ تقریباً ساڑھے چار پانچ بجے کا وقت ہوگا۔ ہم نے یہ ٹرین چھوڑنی تھی۔ سامان اتار کر ہم اسٹیشن پر بیٹھے تھے اور مجھے پہلی بار سردی کا احساس ہوا۔ یہ مارچ کا مہینہ تھا بمبئی میں بالکل ٹھنڈ نہیں تھی۔ ایک جگہ زمین پر سماوار دھرے ایک چائے والا نظر آیا۔ اس چائے نے گویا جسم میں زندگی دوڑا دی۔ میں نے زندگی میں بہت کم ایسی چائے پی ہوگی۔ اجمیر جانے والی ٹرین آنے میں بہت دیر تھی۔ میرا جی چاہا کہ اسٹیشن سے باہر جاکر ذرا احمدآباد شہر کا نظارہ کروں لیکن بڑے بھائی نے سختی سے منع کردیا۔ کچھ دن پہلے بھیونڈی میں شدید ہندو مسلم فساد ہوچکے تھے اور احمدآباد مسلمانوں کے لئے کبھی بھی دوستانہ شہر نہیں رہا۔
نہ جانے بڑے بھائی کی بات کا اثر تھا یا ما تھے پر قشقہ لگائے گھومتے ہوئے بنیوں اور قلیوں کو دیکھ کر مجھے یہ جگہ بڑی ناپسندیدہ اور غیر دوستانہ سی لگی۔ میں باہر جانے کے بجائے اسٹیشن پر لگے مختلف اسٹالوں کو دیکھتا رہا۔ ایک جگہ کتابوں کا اسٹال تھا لیکن ساری کتابیں ہندی میں تھیں۔ اک کونے میں شمع نئ دہلی نظر آیا۔ میں خریدنا چاہتا تھا کہ میرے قریب کھڑے غلام نبی بھائ جاں اور بڑے بھائی اجمیر شریف کی باتیں کرنے لگے۔ میں نے شمع نئی دہلی واپس اپنی جگہ پر رکھ دیا۔ بھلا غریب نواز کی نگری میں میں فلمی رسالہ پڑھوں گا۔
کچھ دیر بعد ایک پسنجر ٹرین آکر رکی اور اس بار منظر ” بمبے سنٹرل” سے قطعی مختلف تھا۔ ہمارے ٹکٹ تو تھے لیکن اس ٹرین میں شاید اس روٹ کے لئے ریزرویشن نہیں ہوتی تھی۔ اور یہ ٹرین نہ جانے کہاں سے آئی تھی کہ اس میں پہلے ہی مسافر ٹھسے ہوئے تھے۔ ہم نئے مسافروں کو انہوں نے ناپسندیدگی سے دیکھا۔ یہاں کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ بمشکل خالو ابا اور خالہ اماں اور ثمین کو جگہ ملی ، باقی ہم سب کھڑے رہے اور راستے بھر دوسرے مسافروں سے لڑتے بھڑتے، چھوٹے بڑے اسٹیشنوں پر رکتے، شام ڈھلے اجمیر کے اسٹیشن جا رکے۔
میں نے ٹرین سے باہر نظر دوڑائی۔ ایک صاحب شیروانی پہنے مختلف ڈبوں میں جھانک رہے تھے کہ فوزان نے انہیں آواز دی
” شکور صاحب!!”
( باقی باقی)
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/638827016304829