جس دیش میں گنگا بہتی ہے۔۔۔۔۔4
اورن کا کلفٹن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالہ کو یقین ہی نہیں آتا تھا کہ میں اتنا بڑا ہوگیا ہوں کہ میری منگنی بھی ہوگئی ہے۔
“اتنا سا تو تھا یہ، جب یہاں آیا تھا” یعنی مجھے بیس سالوں میں اتنا ہی رہنا تھا۔ شاید یہ بھی محبت کا ایک رنگ ہے کہ بچے کتنے بھی بڑے ہوجائیں والدین اور پیار کرنے والوں کی نظر میں بچے ہی رہتے ہیں۔
” تمہارے ابا اسے لیکر گھنٹوں چھت پر باتیں کیا کرتے تھے‘
خالہ نے شاہین کو بتایا تو مجھے خالو یاد آئے۔ یہ خالو میرے واحد قدردان تھے جب بیس سال پہلے میں یہاں آیا تھا۔ اورن میں تو میری شہرت کچھ اچھی نہیں تھی ۔ ہر تخریب کاری کا کھرا ” وہ پاکستان سے آیا ہوا چھو کرا” تک ہی پہنچتا تھا۔ جسے دیکھو کوئی نہ کوئی شکایت لئے چلا آتا تھا اور مجھے اب بھی یقین ہے کہ ان میں سے اکثر الزامات بے بنیاد تھے۔ لیکن بد اچھا بدنام برا۔ میرا نام ‘ بستہ ب کے ملزمان کی مانند تھا۔ اور ہر شرارت کی تفتیش مجھ معصوم سے شروع ہوتی اور یہ بھی میری بدقسمتی تھی کہ بعضی باتیں سچ بھی ثابت ہوتیں۔
لیکن خالو تو گویا میرے مداحوں میں سے تھے۔ دراصل انہیں مجھ سے بات کرنے میں مزا آتا تھا۔وہ فلم ہدایتکار ہونے کے علاوہ کہانی کار اور شاعر بھی تھے اور بمبئی میں بچے تو دور کی بات ہی بڑے بھی اردو ڈھنگ سے نہیں بول سکتے تھے۔ انہیں ایک آٹھ سالہ بچے سے خالص اردو سن کر سرور سا آتا۔ اور یہ اعجاز تھا میرے بہار کالونی کے پڑوسی دوستوں کا جن کے والدین کانپور کے تھے۔ مجھے بھی ان کی طرح اپنے آپ کو ” ہم ” کہنے کی عادت تھی۔ برابر کے دوستوں کو تم لیکن کسی کو بھی ” تو” کہہ کر مخاطب نہیں کرسکتا تھا کہ یہ لفظ سیکھا ہی نہیں تھا۔
اب خالو ملتے تو انہیں مایوسی ہوتی کہ پچھلے سات آٹھ سال کی گلف کی ملازمت میں ، ماموں ہی کے ہم وطنوں کی وجہ سے میری اردو کا تیا پانچہ ہوگیا تھا کہ ساتھ کام کرنے والے ہندوستانی دوست بمبئیا ہندی زیادہ آسانی سے سمجھ سکتے تھےاور میں بھی اب ان ہی کی طرح بولنے لگا تھا۔
خالہ میرے بچپن کے قصے بتا رہی تھیں اور آزاد بار بار گھڑی دیکھتے تھے۔ ہمیں واپس جاکر سفر کی تیاری کرنا تھی۔
اپولو بندر جانے والی بس میں نیم غنودگی میں تھا کہ ایک منظر دیکھ کر چونک پڑا۔
ایک میدان میں کچھ عجیب وغریب جانور فاصلے فاصلے سے بیٹھے نظر آئے۔ بمبئی میں خالی میدان خال خال ہی نظر آتا تھا، اور میں نے اسی لئے میدان کی جانب دیکھا کہ یہاں آبادی کیوں کر نہیں ہے۔
ان میں سے ایک جانور نما چیز اٹھ کھڑی ہوئی اور اب اس کے ہاتھ میں لوٹا بھی نظر آیا۔ یہ کوئی ساڑھے تین بجے کا وقت تھا اور خدا جھوٹ نہ بلوائے کوئی ڈھائی تین سو بچہ و مرد وزن ، تقاضائے بشریت سے فراغت حاصل کر رہے تھے۔ یہ نظارہ پاکستان میں کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا۔ لیکن میں نے پاکستان دیکھا بھی کتنا تھا۔ شاید وہاں بھی کہیں ایسا ہی ہوتا ہو۔
آزاد دوسری جانب دیکھ رہے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ اب میں کوئی طنز آلود سوال کروں گا۔ لیکن میں خاموش رہا۔ بعد میں اجمیر کے سفر کے دوران ریل کی پٹریوں کے ساتھ جگہ جگہ یہ منظر رونما ہوتا رہا۔
“ایرانی” نام کی لانچ خراماں خراماں اورن کی جانب جارہی تھی۔ دوسرے کنارے پر سبزے سے ڈھکے اورن کے پہاڑی ٹیلے نظر آتے تھے جن کے عقب میں سورج غائب ہوتا جارہا تھا۔ آسمان کی لالی، اورن کی ہریالی اور سمندر کی نیلا ہٹ ایک دلا آویز تصویر بنا رہی تھی۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں کیمرہ ساتھ نہیں لایا تھا۔
شام کے جھٹ پٹے میں ہم مورا کی بندرگاہ پر اترے۔ گھر پہنچے تو باجی انتظار کر رہی تھیں۔
کھانے کے دوران خالو ابا سارے دن کی روداد سنتے رہے۔ باجی اور آزاد کی بہنیں کل کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ تلی ہوئی مچھلی ہم کوکنیوں کے کھانے کا لازمی جزو ہے۔ اورن کی مچھلی کا ذائقہ کراچی سے بہت مختلف تھا، اورن تھا ہی ماہی گیروں کا گاؤں اور مچھلی بالکل تازہ ملتی تھی۔
گھر والے تیاری میں لگے تھے۔ مجھے کوئی تیاری ہی نہیں کرنی تھی کہ میں تو تھا ہی مسافر۔ میں خاموشی سے نکل کر باہر آیا اور کوئی ایسا گوشہ ڈھونڈنے لگا جہاں کسی بزرگ کی آمدورفت نہ ہوتا کہ میں سکون سے سگریٹ پی سکوں۔ اورن میں یہ مشکل تھی کہ سارا محلہ ہی ہماری برادری کا تھا اور ہر وقت کوئی نہ کوئی بزرگ مسجد ، یا بازار جاتے یا یونہی ٹہلتے نظر آتے۔ اور میں کسی بھی بزرگ، چاہے ان سے جان پہچان ہو نہ ہو، کے سامنے سگریٹ نہیں پی سکتا تھا۔
میں نے سگریٹ سلگائی ہی تھی کے دروازے کے پاس کسی کی آہٹ ہوئی۔ یہ فوزان تھا اور مجھے ہی ڈھونڈتا آرہا تھا۔
” کیا کروگے اب؟ سونے کا موڈ تو نہیں ہے؟ ”
نہیں اتنے جلدی کہاں سوؤں گا۔
” کہیں چلیں”
یہاں کہاں جائینگے ؟
” پیر واڑی چلتے ہیں ”
“اس وقت؟ ”
” ہاں اس وقت ہی مزہ آتا ہے پیر واڑی میں “
سڑک کنارے ایمبیسیڈر پارک کرکے ہم کچھ دور چل کر ” ہم مقیم شاہ بابا’ کی درگاہ پہنچے۔ جہاں ایک ہندو پریوار الٹے قدموں درگاہ سے باہر نکل رہا تھا اور اپنے طریقے سے پر نام کرتا جاتا تھا۔
ہم درگاہ کے سامنے سمندر کنارے ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔
” یہاں ہندو بھی آتے ہیں” مجھے حیرت تھی۔
‘ پہلے نہیں آتے تھے۔ سکسٹی فائیو کی وار میں یہ لوگ اس درگاہ کو تباہ کرنے آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ درگاہ سے آسمان کی طرف روشنی پھینکی جاتی ہے تاکہ پاکستانی جہازوں کو متوجہ کر سکیں”
” تو پھر؟۔
” لیکن جب وہ حملہ کرنے آئے تو پہاڑی سے سبز کپڑے پہنے پٹھان اتر کر آگئے اور انہیں مار بھگایا “‘ فوزان نے ہمارے عقب میں پہاڑیوں کی طرف اشارہ کیا جن کے پیچھے آئل ریفائنری کا بڑا سا شعلہ روشن تھا۔
یعنی یہاں بھی وہی کہانی تھی۔ یہ سبز پوش بابا راوی کے پل پر اور کبھی سکھر کے پل پر ہندوستانیوں کے بم کیچ کرکے دریا میں پھینک دیتے تھے۔ جیسے کوئی نیکی کرکے دریا میں ڈال دیتا ہے۔
اور ہندوستانیوں کے نزدیک ہر پاکستانی ‘ پٹھان ‘ تھا۔ اور اب بھی ہے۔ یہاں دوبئی میں بھی وہ آپس کی گفتگو میں پاکستانی کو پٹھان ہی کہتے ہیں۔ خدا جانے خوف کے مارے یا تمسخر سے۔؟ اور یہ تاثر ان پر ایوب خان کے زمانے سے قائم ہے۔
اپنے کلفٹن کی طرح ” مقیم شاہ بابا ” کی درگاہ بھی سمندر کنارے ہے۔ پیر واڑی ، اورن والوں کا روحانی مرکز، پکنک اسپاٹ اور عرس کے موقع پر میلہ بھی یہیں لگتا تھا۔ دوبئی کے شاپنگ فیسٹیول کی طرح اورن اور بمبئی میں مقیم اورن والے اس کا سال بھر انتظار کرتے ہیں۔ میں نے سعودی میں اکثر اورن والوں کو دیکھا کہ عرس کے دنوں کی مناسبت سے سالانہ چھٹیاں لیتے تھے۔
عرس کے دنوں میں سارا اورن خالی ہوتا ہے، پہاڑی اور درگاہ کے درمیانی میدان میں یہاں سے وہاں خیمے تن جاتے ہیں ، پکوان پکتے ہیں، جھولے اور ہنڈولے لگتے ہیں ۔ چھوٹی موٹی دکانیں لگتی ہیں، جہاں سے لڑکیاں بالیاں ہار بندے خریدتی ہیں اور لونڈے انہیں تاڑتے ہیں اور یہیں کئی رشتوں کی بنیاد پڑتی ہے۔
آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں پیر واڑی یا بابا کے عرس کا آنکھوں دیکھا حال سنا رہاہوں۔
یہ تو وہ ہے جو لوگوں سے سنا ورنہ پچھلی بار جب میں یہاں آیا تو یہ عرس یا میلہ بھی لگا تھا لیکن مجھے اپنی چھوٹی خالہ کے گھر چھوڑ کر گھر والے عرس میں گئے تھے کہ میں ” سیکیورٹی رسک ” تھا آور عرس میں تباہی مچا سکتا تھا۔ خالو کے رشتے کی کوئی خاتون بمبئی سے خاص اس مقصد کے لئے بلوائی گئی تھیں کہ جتنے دن گھر والے عرس میں رہیں گے، وہ گھر پر میری نگرانی کریں گی۔
اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ میرے بچپن کے کراچی میں دو تفریح گا ہیں تھیں ، منگھوپیر اور کلفٹن۔ دونوں جگہ مزار تھے۔ پہلی بار اسکول سے پکنک کے لئے ٹھٹھہ گئے تو وہاں بھی مزار تھا۔ اور اب یہاں بھی ساحل اور مزار ساتھ ساتھ ہیں۔ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ مزارات کی وجہ سے یہ جگہیں تفریحی مقام بن جاتی ہیں ، یا تفریحی مقامات کو منافع بخش جان کر مزارات وہیں بنائے جاتے ہیں۔
” بابا مقیم شاہ ” کے نزول کی داستان بھی کچھ عجیب سی مافوق الفطرت سی تھی۔ بہرحال ان کے معتقدین کی ایک بہت بڑی تعداد ہے اور بابا کی کوئی نہ کوئی کرامت تو ہوگی جس کی وجہ سے ان کے ماننے والے یہاں آتے ہوںگے۔ میں ایسی باتوں میں بہت زیادہ سر نہیں کھپاتا۔
اورن کی ترقی نے اورن کے حسن کو گہنا دیا۔ او این جی سی کی اس ریفائنری کی وجہ سے پیر واڑی کا بہت سا علاقہ زد میں آیا۔ دوسرے طرف اورن میں نیول بیس قائم ہوگیا جس کے سبب بمبئی اور دوسری جگہوں سے تفریح کے لئے آنے والوں کو سیکیورٹی چیک کےمراحل سے گذرنا پڑتا تھا اور اب بہت کم لوگ یہاں آتے تھی۔
یہ ہر لحاظ سے ایک حساس علاقہ تھا۔ میرے پاسپورٹ پر انڈین ویزا میں صراحت سے لکھا تھا ” Not valid for cantonment and restricted areas” . اور یہاں نیوی کا اسلحہ خانہ ” armament depot” تھا۔ اور یہ کہ میں نے ویزا میں اورن کا اندراج بھی نہیں کرایا تھا نہ یہاں پولیس کو رپورٹ کی تھی۔ بھارتی ہم پاکستانیوں کو یوں ہی تو “گھس بیٹھئے “نہیں کہتے۔
سمندر کنارے ملگجی سی چاندنی، لہروں کا ہلکا ہلکا سا شور، مارچ کی خنک سرسراتی ہوا۔ میری پلکیں بوجھل ہونے لگیں۔
گھر آکر سونے کی تیاری کی تو شاید ایک دن میں اورن کے مچھر اور میں ایک دوسرے سے مانوس ہوگئے تھے۔ یا سارے دن کی تھکن ، یا پھر پیر واڑی کی سحر بھری رات کا خمار تھا کہ بستر پر پڑتے ہی آنکھ لگ گئی۔
اور میں نیند میں کبھی سبز پوش پٹھانوں کو پہاڑی سے اترتے دیکھتا تو کبھی بمبئی کے میدان میں بیٹھی مخلوق نظر آتی۔
( باقی باقی)
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/637722139748650