بابو آیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزاد بھائی کا گھر “اورن ” کے بڑے گھروں میں سے ایک تھا۔ یہ ایک بڑی ساری حویلی تھی۔ لیکن جتنی وسیع وعریض یہ حویلی تھی اس سے کہیں زیادہ لوگ اس میں رہتے تھے۔ بڑے خالو (خالو ابا)ان کے بھائی، ان کے چچا زاد بھائی ، ان کی اولادیں، اولادوں کی اولادیں ، یعنی تین چار نسلیں اور ان کی شاخیں یہاں رہ رہی تھیں اور کوئی حویلی چھوڑ کر جانے کو تیار نہیں تھا چنانچہ ہر نئے نکاح کے بعد کسی کمرے میں لکڑی کی ایک پارٹیشن نما دیوار ڈال کر اور کمرہ بن جاتا۔ ایک کمرے میں کئی کمرے تھے۔ ہر بڑے کمرے کے ساتھ ایک غسل خانہ ہوتا
لیکن پوری حویلی کا بیت الخلا صرف ایک تھا جو کہ چھت پر تھا۔ اگر آدھی رات کو تقاضا ہے بشریت سے مجبور ہو کر جانا ہو تو دس کمروں سے گذر کر جانا ہوتا اور چند ایک سوالوں کے جواب میں بتانا پڑتا کہ کیا صورتحال پیش آئی ہے۔ “چھوٹے موٹے ” کام کمروں سے ملحق غسلخانے ہی میں انجام دے دئے جاتے اور یہ بمبئی کا عام رواج تھا۔
اس حویلی کی بیٹھک البتہ بڑی وسیع اور آراستہ تھی۔ قدیم وضع کا فرنیچر اور ظروف، اور حویلی کا سب سے قیمتی اثاثہ یعنی “جھومر” بھی اسی بیٹھک میں تھا۔ یہ بیلجیئن کٹ گلاس کا بنا ہوا ایک بھاری بھرکم، قدیم اور بے حد قیمتی فانوس تھا۔ یہ دیوان خانہ اور فانوس پورے خاندان کی مشترکہ ملکیت تھا اور صرف شادی بیاہ اور میت کے موقع پر اسے کھولا جاتا تھا۔ جن بھائیوں کے مکانوں کے حصے باہری جانب تھے وہاں ان کی ایک چھوٹی سی مردانہ بیٹھک بھی تھی۔ ایسی ہی ایک بیٹھک بڑے خالو کی بھی تھی۔
“ارے آگیا بابو!”
آزاد بھائی سوٹ کیس اتروار ہے تھےاور میں خالہ اماں کے گلے سے لگا ہوا تھا۔ میری پیشانی نیچے جھکا کر بوسہ دیا۔ ” زلیخہ کیسی ہے” ۔۔مجھے دیکھ کر خالہ اماں کو اپنی بہن یاد آگئیں۔
“ارے دیکھیں! زلیخہ کا بابو آیا ہے” ۔۔۔یہ اطلاع قطعا” غیر ضروری تھی کیونکہ کار رکنے کی آواز سن کر بڑے خالو بھی نیچے ہی آرہے تھے۔ میں نے سلام کیا اور جھجکتے ہوئے ان کی طرف بڑھا۔
بیس سال پہلے جب میں یہاں آیا توان کا بڑا رعب تھا۔ ہم بچے انہیں آتے دیکھ کر کھیل روک دیتے اور ادھر ادھر ہوجاتے۔ میں کبھی ان کے سامنے نہ جاتا تھا، میری شہرت بھی ان دنوں وہاں بہت اچھی نہ تھی۔
” کیسے ہو بابو” خالو نے ہاتھ بڑھائے تو میں ان کے سینے سے لگ گیا۔ وہ عمارت اب ڈھے چکی تھی اور میں بھی اب بچہ نہیں، اٹھائیس سال کا منگنی شدہ جوان تھا۔
بھائی جان ( بڑے بھائی) نے انگریزی میں خیریت پوچھی۔ پھر خالہ زاد بہنوں کا تعارف شروع ہوا۔ سب نے آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا۔ یہ رواج اس وقت تک کراچی میں نہیں تھا۔
” جا منہ ہاتھ دھولے، پھر کھانا نکالتے ہیں ” خالہ اماں نے کہا۔
میں نہانا چاہتا تھا مگر یہاں وقت بے وقت نہانے کا رواج نہیں تھا کہ پانی ہر وقت نہیں آتا تھا۔
ادھر کھانا ختم ہوا، ادھر حویلی سے ملحق مسجد سے عشاء کی اذان بلند ہوئی۔ خالو ابا مسجد کی طرف چلے اور میں بھائی جان کے سوالات کا جواب دینے لگا۔ ۔کچھ دیر بعد باجی نے حویلی کے دوسرے مکینوں سے ملوانا شروع کیا۔ یہ وہ تھے جو خالو ابا کے حصے میں رہتے تھے ، یعنی ان کے بھائی وغیرہ۔ ۔
” سنا ہے راجہ کا بیٹا آیا ہے؟” دروازے پر آواز آئی۔
” ہاں ، ہاں بلاتا ہوں” یہ آزاد بھائی کی آواز تھی۔
اور کچھ دیر بعد میں تین بزرگوں کے سامنے تھا۔ یہ ابا کے بچپن کے ساتھی تھے۔
” تمہیں تمہارے دادا کا نام دیا ہے ناں!”
میرے دادا کا بھی یہ ہی نام تھا اور میرے ابا کانام بھی ان کے دادا کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ہماری چار نسلوں نے ناموں کے معاملے میں بڑی کفایت سے کام لیا تھا۔
“جی” میں نے سر جھکا کر کہا۔
” تمہارے دادا تو بس ضد میں چلے گئے تھے پاکستان۔ یہاں اچھا بھلا کام چل رہا تھا ان کا۔ لیکن انہیں تو بس جناح صاحب اور مسلم لیگ کی پڑی رہتی تھی۔ فیضی صاحب آئے تھے پچھلے دنوں کراچی سے۔ وہ تو کہتے تھے میں ایک گھر یہاں خرید لوں ”
” فیضی صاحب ایسا کہتے تھے تو بڑے نا شکرے تھے” ۔اس بار میری گردن جھکی ہوئی نہیں تھی۔
فیضی صاحب کراچی میں ہماری برادری کے متمول ترین فرد تھے اور میرے ابا کے بچپن کے دوست تھے۔ ہندوستان میں تھے تو کچھ نہیں تھے۔ کراچی آئے تو ہن برسنے لگا۔ مٹی کو ہاتھ لگاتے تو سونا بن جاتی۔ جس پاکستان نے انہیں سب کچھ دیا، اسے چھوڑ کر اپنے اس گاؤں کی تعریف کر رہے تھے جہاں کبھی ان کی اسکول کی فیس میرے دادا دیا کرتے تھے۔
تینوں بزرگوں نے تکدر سے میری طرف دیکھا۔ راجہ کے بیٹے سے انہیں اس لہجے اور بدتمیزی کی امید نہیں تھی۔ میری ابا بہت دھیمی طبیعت اور ہر ایک کا احترام کرنے والے انسان تھے۔ دھیمے لہجے میں وہ بولتے تو ان کی بات سننے کے لئے کان لگانا پڑتا۔ اور ان ہی راجہ صاحب کا بیٹا بزرگوں کی بات کاٹ رہا تھا۔
اب تک میں باجی، خالہ اماں، خالو ابا اور خالہ زاد بہن بھائیوں کی محبت کے شیرے میں لتھڑا ہوا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ چھٹی پر اپنے گھر آیا ہوں اور امی، ابا اور بہن بھائی آس پاس بیٹھے ہیں۔
اب اچانک احساس ہوا کہ میں ہندوستان میں آگیا ہوں۔ وہ ہندوستان جس میں کبھی پاکستان بھی شامل تھا اور جس سے الگ ہوکر ہم نے ایک اپنا ملک بنا لیا تھا اور یہ کہ وہ اب تک ان کے سینے میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا ۔
” آپ پاکستان گئے ہیں کبھی؟ ” میں نے نرم آواز میں پوچھا، میرا لہجہ لیکن میری آواز کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
” نہیں، ہمیں کرنا بھی کیا ہے وہاں جا کر۔ ہمارے رشتہ دار آتے رہتے ہیں ، وہ تو بڑے خوش ہوتے ہیں یہاں آکر”
” جی ، مجھے بھی بہت اچھا لگا یہاں آکر ، لیکن ایک بار آپ پاکستان آکر دیکھیں”
” کیا ہے کراچی میں ؟” یہ بزرگ اب تک خاموش بیٹھے تھے۔
” آپ پاکستان آئیں، آپ کو اندازہ ہوگا کہ آزاد ملک کسے کہتے ہیں ”
خالو ابا نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ مہمان بزرگوں کے چہرے تمتائے ہوئے تھے، سوچ رہے تھے کہ کس قدر گستاخ اور منہ پھٹ لڑکا ہے، راجہ کا؟.
” یہاں اپ کو مکان لینے سے پہلے دیکھنا پڑتا ہے کہ آس پاس مسلمانوں کی آبادی ہے یا نہیں۔ پاکستان میں ہمیں ایسا کچھ نہیں سوچنا پڑتا”
میں سعودی عرب اور بحرین میں چھ سال سے کام کررہا تھا اور میرے بہت سے ہندوستانی، مسلمان دوست تھے۔ میرا ہوم ورک مکمل تھا۔
” اور یہاں وہی مسلمان خوشحال ہیں جو اسمگلنگ وغیرہ کے دھندے میں ہیں یا کانگریس پارٹی کے ممبر ہیں۔ “۔ میں نے ہندوستانی فلمیں بھی دیکھ رکھی تھیں اور حاجی مستان جیسے کرداروں سے بھی واقف تھا۔
” باقیوں کا حال تو برا ہی رہتا ہے۔ ”
” عبدالرؤف، ہم چلتے ہیں۔ تینوں بزرگ ایک ایک کرکے اٹھ کھڑے ہوئے۔ خالو ابا خاموشی سے اندر چلے گئے۔
آزاد نے میری کمر میں ہاتھ ڈالا اور گھسیٹتے ہوئے دوسرے کمرے میں لے گئے۔
” ارے یہ تو نے کیا کردیا۔”
” کیا ہوا؟”
ان میں سے جو فیضی صاحب کے چچا زاد بھائی ہیں وہ اسمگلنگ کے کیس میں اندر ہوچکے ہیں اور اب کانگریس جوائن کرلی ہے، مصیبت سے بچنے کے لئے”
” ایسا ہے تو اچھا ہی ہوا۔ مجھے معلوم ہوتا تو شاید میں مروت کے مارے خاموش رہتا اور وہ میرے دادا اور ابا کی غلطیاں گنواتے رہتے۔۔۔ دفع کرو ان کو، چلو خالہ اماں کے پاس چلتے ہیں۔ “
رات کا کھانا کھا کر ہم بیٹھک میں بیٹھے تھے۔ میرے پچھلے دورے کی باتیں ہورہی تھیں جب میں آٹھ سال کا تھا۔ میری حرکتوں کا ذکر ہورہا تھا اور قہقہے لگ رہے تھے۔
” اگر ہمت ہے تو خالد ماموں کے ہاں چلیں” آزاد نے پوچھا۔
” کیا خیال ہے ، صبح سب سے نہ مل لیں”
” کل بمبئی جا کر رپورٹنگ کرںی ہے۔ دوپہر کو خالہ جان کے ہاں بھی جانا پے۔ کچھ آج مل لیتے ہیں۔ صبح ماموں صاحب سے بھی ملنا ہے” آزاد بھائی نے پروگرام بتایا۔
ہم خالد ماموں کی طرف جارہے تھے۔ میری امی سے چھوٹے یہ درویش صفت اور سادہ طبیعت ماموں ” اورن” کے نواح میں ایک پر فضا مقام پر رہتے تھے جو ” بنگلہ” کہلاتا تھا۔ یہاں سبزے سے ڈھکے پہاڑی ٹیلے اور دور تک پھیلے ہریالی کا غلاف اوڑھےمیدان ہوتے تھے۔ میدان میں جگہ جگہ چنار کے درخت تھے۔ پت جھڑ کے دنوں میں یوں لگتا کہ سبزے پر چنگاریاں بکھری ہوئی ہیں۔ میدان کے بیچ سے گذرتی سڑک کے کنارے آم کے درخت تھے، جہاں بچپن میں ، میں نے سڑک سے اٹھا کر ایک آم کھایا تھا اور اس کی مٹھاس اب تک لبوں پر محسوس کرتا تھا۔ یہاں کسی کی درگاہ تھی اور ہم اسی درگاہ پر آتے تھے۔ یہیں اورن کا واحد سنیما گھر تھا، جس کے ساتھ والے میدان میں ایک صاحب نے پانچ دن مسلسل سائیکل چلائی تھی اور میں بھائی جان (اسمعیٰل بھائی) کے ساتھ یہ تماشا دیکھنے آتا تھا۔
لیکن اب ہے سب کچھ نہیں تھا۔ رات میں ویسے بھی ہریالی نظر نہ آتی تھی ور جہاں میدان تھے اب وہاں بے تحاشا چھوٹے بڑے مکان بن گئے تھے۔ خالد ماموں بھی یہیں رہتے تھے۔
“آپا کا بابو آیا ہے” ممانی جان نے ماموں کو آواز دی جو اندر نماز پڑھ رہے تھے۔
ماموں نے میرے رخسار پر بوسہ دیا اور ان کی آنکھیں نمناک ہوگئیں۔ میرے یہ ماموں ، امی سے سب سے زیادہ قریب تھے اور انہیں بہت چاہتے تھیں۔
“آپا کیسی ہیں۔ انہیں بھی ساتھ لاتے ناں” ماموں آنسو پوچھتے ہوئے بولے۔
” سعیدہ کھانا نکالو۔ بابو اور آزاد بھی کھائیں گے”
” نہیں ماموں ہم کھا کر آئے ہیں۔ ہم زیادہ دیر نہیں بیٹھیں گے۔ صبح ممبئی جانا ہے” آزاد نے بتایا۔
گھر واپس پہنچ کر خالو ابا کے بھائی کے کمرے میں فوزان کے ساتھ میرا بستر لگادیا گیا۔ خالو ابا کے یہ بھائی بمبئی میں رہتے تھے لیکن گھر میں ان کا حصہ موجود تھا۔ فوزان ریاض (سعودیہ) سے کما کر واپس آگیا تھا۔ ہم دونوں ہم عمر تھے۔ دیر تک باتیں کرتے رہے۔ فوزان پر غنودگی طاری ہورہی تھے اور میں اورن کے مچھروں سے لڑ رہا تھا۔ مچھر کراچی میں بھی کم نہ تھے لیکن اورن اور کراچی کے مچھروں میں وہی فرق تھا جو آسٹریلئین اور پاکستانی گائے میں ہوتا ہے۔
یہ البتہ آسانی تھی کی جب بھی تالی بجاؤ تا ایک آدھ مچھر ضرور زد میں آتا۔ لیکن کانوں میں ان کی بھن بھن سے شدید الجھن ہورہی تھی۔
مچھر ہو یا مگر مچھ ، نیند بہرحال آکر رہتی ہے۔سو آہی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” پاسپورٹ لینا نہ بھولنا” آزاد بھائی نے تلقین کی۔
آزاد بھائی ہر کام ناپ تول کر اور ڈسپلن کے ساتھ کرنے کے عادی ہیں۔ انہوں نے پورا پروگرام ترتیب دیا ہوا تھا کہ کب کہاں جانا ہے اور کس سے ملنا ہے۔
میریے چار ماموں اور تین خالائیں، اور ان کی اولادیں اور ان کے بچے ، اورن اور بمبئی میں رہتے تھے۔ اتنے کم عرصے میں سب سے ملںے کے لئے ترتیب کی واقعی ضرورت تھی۔ آزاد بھائی نے میرے ” ٹور مینیجر” کا کام سنبھالا ہوا تھا۔
یہ کہانی کچھ طویل ہوجائے کہ سب سے ملاقات کا احوال بیان کئے بغیر یہ داستاں مکمل نہ ہوگی۔ میں ان ہی سے تو ملنے آیا تھا۔ اب آتا تو شاید اتنی لمبی بات نہ ہوتی کہ اب نہ کوئی ماموں رہے نہ خالہ۔ بہت سے خالہ زاد اور ماموں زاد بہن بھائی بھی اب نہیں رہے۔
ناشتے کے بعد ہم ماموں صاحب کی طرف جارہے تھے۔ کہ کسی گھر کی کھڑکی کھلی اور کسی بڑی بی نے آزاد کو آواز دی ۔ یہاں تمام گھر میں ہماری برادری اور رشتے دار رہتے تھے۔
” یہ بی بی جان کا بابو ہے، شہناز کا بھائی” آزاد بھائی نے تعارف کروایا۔
‘ ارے اندر آؤ”
آزاد ناں ناں کرتے رہ گئے اور بڑی بی نے دروازہ کھول دیا۔
” یہ کراچی والے فلاں کی رشتہ دار ہیں ” آزاد نے بتایا۔
” ارے ہاں۔ یاد آیا انہوں نے آپ کو بہت سلام کہا تھا” میں نے ہوا میں تیر چلایا۔
بڑی بی خاموش ہوگئیں اور کسی سوچ میں گم ہوگئیں۔ پھر کچھ دیر بعد اٹھیں۔
” میں چائے لاتی ہوں”
” ہم ناشتہ کرکے چلے ہیں”
” اچھا کافی پی لو” ۔
ماموں صاحب کے ہاں پہنچنے سے پہلےہم کم از کم تین گھروں سے کافی، شربت اور چائے پی چکے تھے۔
ماموں صاحب میری امی سے بڑے اور خالہ اماں سے چھوٹے ہیں۔ ان کا بڑا سا فارم ہاؤس تھا جسے یہاں ” واڑی” کہتے ہیں۔ اس فارم میں سبزیوں، پھلوں، پھولوں کے درختوں اور پودوں کے علاوہ بڑی تعداد میں کیلے، ناریل اور تاڑ کے درخت تھے۔ تاڑ گولہ ایک عجیب وغریب پھل ہے جس سے شاید کراچی میں کوئی واقف نہیں ، جیسے بمبئی والے چلغوزوں سے واقف نہیں تھے۔ یہ لیچی کی طرح ایک نرم سا شفاف سا پھل ہوتا ہے۔ اس کی لفظی تصویر کشی سے یہ عاجز بیاں معذور ہے۔ یہاں تصویر لگادی ہے۔ یہ ہتھیلی سے کچھ چھوٹا نرم سا پھل ہوتا ہے جس کی دو پرتیں ہوتی ہیں۔ پرتوں کے درمیان نہایت مفرح اور شیریں پانی ہوتا ہے جو عام طور پر کچے اور نوخیز تاڑگولوں میں ہوتا ہے۔ زیادہ پک جانے کے بعد اس میں پانی غائب ہوجاتا ہے اور یہ اپنی لطافت اور مٹھاس بھی کھودیتا ہے۔ خشک ہوجائے کے بعد یہ سخت ہوجاتا ہے جس سے قمیص کے بٹن وغیرہ بھی بنائے جاتے ہیں۔ شاید کچھ دوستوں کو یاد ہو کہ سن اکہتر میں جب ہندوستان اور بنگلہ دیش سے چھالیہ آنا بند ہوگئی تھی تو پان کے شوقین تاڑگولوں کی گری بطور چھالیہ استعمال کرتے تھے۔
فارم کے ایک گوشے میں ماموں کی رہائش تھی۔ یہ چھوٹا سا بنگلہ نما گھر تھا جس کے ایک حصے میں ماموں صاحب کا دفتر تھا، اسی فارم ہاؤس میں ایک ڈیری فارم بھی تھا اور ماموں اس وقت مقامی ، دودھ کے کاروباریوں سے مراٹھی میں حساب کتاب میں مصروف تھے۔ مجھے اور آزاد کو آتے دیکھ کر فورا” اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ میرے ماموں بڑی دبنگ شخصیت کے مالک تھے لیکن ان کے سینے سے لگ کر جب انہوں نے میرے گال چومے تو لگا کہ میں وہی آٹھ سال کا بچہ ان کی چھاتی سے لگا ہوا ہوں۔
اور یہ بھی عجیب سا تجربہ تھا، چھٹیوں سے واپس آتا تو امی ابا مجھے پیار کرتے لیکن کسی اور کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا تھا۔ یہاں جب ماموں اور خالائیں پیار کرتیں تو میں اپنے آپ کو چھوٹا سا بچہ محسوس کرتا۔ اور ان سب کے نزدیک تو میں “زلیخا کا بابو” ہی تو تھا۔ محبت کے یہ دریا اب سوکھ چکے۔ لیکن اس پیار کی نرمی، مٹھاس اور حدت آج بھی یاد آتی ہے تو حلق میں کچھ گھٹتا ہوا سا لگتا ہے۔
اس دورے کی اگر سب سے حسین یاد ہے تو وہ یہی پیار ہے جو ہندوستان میں ملا اور بے تحاشا ملا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آٹو رکشا ” مورا” کی طرف جارہی تھی۔ یہ سمندر کا کنارا تھا جہاں بمبئی جانے کے لئے لانچیں لگتی تھیں ، مقامی زبان میں اسے ” دھّکا” کہتے ہیں۔
میں رکشا سے باہر گردن نکال کر اورن کی گلیوں اور بازاروں کو دیکھتا جاتا تھا۔ یہ قصبہ بمبئی والوں کے لئے پکنک کا مقام تھا جیسے ہم کراچی والے منوڑا جاتے ہیں۔
بمبئی میں ” گیٹ وے آف انڈیا ” سے سمندر کے اس پار دیکھیں تو درختوں اور سبزے سے گھری پہاڑیاں نظر آتی ہیں۔ یہ اورن کا ” کرنجا بیچ” والا علاقہ ہے۔ اورن ایک جزیرہ نما ہے اور تین طرف سمندر سے گھرا ہوا ہے۔ یہ بنیادی طور پر ماہی گیروں کی بستی ہے جہاں کی اسی فیصد آمدنی ماہی گیری سے حاصل ہوتی ہے۔ بمبئی کو مچھلی اورن کے ہی ” کولی” سپلائی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کھیتی باڑی جس میں چاول کی کاشت نمایاں ہے ، بھی اورن کی معیشت کا اہم جزو ہے۔ ایک اہم کاروبار سمندری نمک کا بھی ہے۔ ساحل کے ساتھ ساتھ کھیتوں کی طرح منڈیریں بنا کر سمندری پانی کو خشک کرکے نمک حاصل کیا جاتا ہے۔ میرے دونوں بڑے ماموں، خالو ابا اور سب سے چھوٹے خالو بھی اس کاروبار سے منسلک تھے۔ نمک کے ذخیروں کو ” اگر” کہا جاتا ہے۔ یہ کاروبار اب ختم ہوچکا ہے کیونکہ یہاں جواہر لال نہرو پورٹ (جو ایشیا کا سب سے بڑا کنٹینر ٹرمینل ہے) کی تعمیر کے لئے حکومت نے ان ” اگروں” پر قبضہ کرلیا اور پچھلی تین عشروں سے اورن والے معاوضے کے لئے حکومت سے برسر پیکار ہیں۔
” مورے میں ایک طویل پل نما پلیٹ فارم ہے جو لانچ میں سوار ہونے کی جگہ “دھکا” تک جاتا ہے۔ اس پل سے کچھ دور پہلے ہم رکشہ سے اتر گئے۔ کولی مرد اور عورتیں سروں پر مچھلی ، کیلوں اور بیلے کے گجروں کے ٹوکرے دھرے لانچوں کی جانب جارہے تھے۔ اور میں ایک نہایت کریہہ المنظر شے سے بچتا ہوا چلتا تھا۔ یہ سیاہ رنگت والے سؤراور ان کے بچوں کے غول تھے جو پیروں سے لپٹتے چلتے تھے۔ یہ غلیظ جانور میں نے کراچی، بحرین یا سعودی عرب میں نہیں دیکھا تھا۔
پل سے نیچے سیڑھیاں اتر کر لانچ کی جانب جارہے تھے کہ پروین مل گئی۔
پروین میری سب سے چھوٹی خالہ کی بیٹی تھی جو بمبئی سے آرہی تھی۔ پروین مجھ سے چھوٹی تھی اور جب میں یہاں بچپن میں آیا تھا تو نہ جانے کس وجہ سے میں اپنی امی اور بہن بھائیوں سے الگ، خالہ کے ہاں رہتا تھا۔ امی وغیرہ نانا کے ہاں رہتے تھے۔ ہم سارا دن گھر میں ساتھ کھیلتے، کبھی سیڑھیوں پر سے پھسلتے نیچے آتے، تو کبھی نیچے بنے ہوئے بھینسوں کے باڑے میں گائے بھینسوں کے بچوں سے کھیلتے۔
پروین بڑی گوری چٹی تھی اور اس کی بڑی بڑی آنکھیں شرارت سے بھرپور ہوتیں۔ میں جب ( سن باسٹھ) میں کراچی واپس آیا تو میرے چھوٹے چچا ے پوچھا وہاں کون دوست تھے تمہارے ؟ اور میں نے پروین کا نام لے دیا۔
” اوہو!!! پروین تھی”
اور اس کے بعد سالہا سال تک چچا مجھے اس نام سے چھیڑتےرہے۔ آج یہ پروین میرے سامنے ایک موٹی تازی خاتون کی شکل میں کھڑی تھی۔ مٹاپے کی سبب اس کی عمر زیادہ نظر آتی تھی اور وہ مجھ سے بہت بڑی لگ رہی تھی۔ اور وہ بڑی تھی بھی، کیونکہ وہ اب شادی شدہ تھی اور میری ابھی منگنی ہی ہوئی تھی۔
سیڑھیوں پر سے سامان سروں پر رکھے لوگ آجا رہے تھے۔ ہم نے جلد ہی ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔ پروین کو میں نے اس کے بعد آج تک نہیں دیکھا۔
” اصغری” نام کی لانچ میں مچھلیوں اور سبزیوں کے ٹوکروں کو ایک طرف رکھ کر چند مسافر تو آلتی پالتی مار کر فرش پر بیٹھ گئے اور تاش کے پتے بانٹنے لگے۔ اور میں سمندر کا نظارہ کرنے لگا،
دور دائیں جانب ” ایلیفینٹا ” کی پہاڑی نظر آرہی تھی۔ جس کے غاروں اور مورتیوں کے بارے میں پہلے بتا چکا ہوں۔
گیٹ وے آف انڈیا سے کچھ آگے ” بھاؤ کے دھکّے” کے پاس ہم لانچ سے اترے اور باہر آکر ٹیکسی روکی۔
” کر افورڈ مارکیٹ” آزاد نے ٹیکسی والے کو بتایا۔ اور ہم بمبئی شہر کی طرف روانہ ہوئے۔
( باقی باقی)
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/634537416733789