جس دیش میں گنگا بہتی ہے۔۔۔۔۔18
خواب ، بائی اور مخدوم صاحب
بمبئی سنٹرل پر ہم سب مضمحل اور تھکے ماندے اتر رہے تھے۔
" ارے ادھر دیکھو، اس طرف، آزاد، فوزان ، ادھر دیکھو"
یہ اسمعیٰل بھائی کی آواز تھی۔ وہ ہمیں ڈھونڈ رہے تھے۔ اسمعیٰل بھائی جان ٹرک لے کر آئے تھے جس میں گدے اور دریاں بچھی ہوئی تھیں۔ چاچا، چاچی، ان کے بچے اور گلزار ہم سب کو خدا حافظ کہہ کر محمد علی روڈ کی جانب روانہ ہوئے اور ہم نے نئی ممبئ کی راہ پکڑی۔
یہ بھائی جان کے کسی ٹھیکیدار دوست کا ٹرک تھا اور آج واقعی اس سے ایک بڑا مسئلہ حل ہوگیا تھا۔ شام کے بعد لانچ تو کب کی بند ہوچکی تھی اور بمبئی سے بس کے زریعے اورن دوگھنٹے کا سفر ، دلی سے بمبئی کےسفر سے زیادہ صبر آزما ہو تا۔ خالو ابا اور خالہ اماں بہت تھک چکے تھے۔ ان کے لئے بس کا سفر اور تھکن کا باعث بنتا۔
خالو ابا اور خالہ اماں ٹرک کے اگلے حصے میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اسمعیٰل بھائی ہم سے سفر کی روداد سن رہے تھے۔ کھلی ہوا میں سفر کا اپنا ہی ایک مزا تھا اور نیند سے آنکھیں بوجھل ہوتی تھیں۔ چیمبور کے پاس ایک جگہ رک کر ایک ریستوران سے ہم نے کھانا کھایا۔ پیٹ پوجا ہوئی تو نیند اور شدت سے حملہ آور ہونے لگی۔ واشی پہنچ کر دیدی ، غلام نبی بھائ جان اور انکے بچے اتر گئے۔ دیدی نے مجھے اپنا گھر دکھانے کے لئے نیچے اتار لیا۔
وہ بضد ہوتی تھیں کہ میں چائے بناتی ہوں مگر یہ وقت تکلفات کا نہیں تھا ۔ بمبئی سے اورن رات کا سفر دن سے مختلف تھا اور ہم جلد سے جلد اورن پہنچنا چاہتے تھے۔
" دیکھو! اگر وقت ملے تو چکر لگا لینا"
میں نے خدا حافظ کہا تو غلام نبی بھائی جان اور دیدی کی بات سن کر مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ میں تو ابھی مزید کچھ دن یہاں رہنے والا تھا اور اب سب سے مل کر ہی جانے والا تھا۔
اب ہمارا رخ اورن کی جانب تھا۔۔ پنویل کے قریب چونگی ناکے پر ٹرک کو رکنا پڑا۔ ایک پولیس والے نے ٹرک پر چڑھ کر جھانکا اور مراٹھی میں بڑبڑانے لگا " ارے یہاں تو ۔۔۔۔"
وہ کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ اسمعیٰل بھائی نے اس کی مٹھی گرم کرکے اس کا منہ بند کردیا۔ اگر وہ نیچے بتاتا تو نیچے موجود اہل کار بھی اپنا حصہ مانگتے۔ اصولا" تو اسے ہم سب کو ٹرک سے اتار دینا چاہئیے تھا کہ بار برداری والے ٹرک میں انسانوں کو " ڈھونے" کی اجازت نہیں ہوتی۔
لیکن وہاں بھی قانون کا استعمال صرف یہ تھا کہ قانون نافذ کرنے والوں کو خوش رکھیں کہ وہ بچارے ایسے شکار کی تلاش میں رہتے ہیں جس سے ان کا دانہ پانی چل سکے۔
پنویل کے بعد کوئی ناکہ نہیں ملا اور ہم بخیریت اورن پہنچ گئے۔ اس وقت ساڑھے بارہ کا عمل تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" بابو ، بائی گذر گئیں ' باجی کی لرزتی سی آواز سن کر میں وضو کرتے کرتے رک گیا۔
باجی اب ہچکیاں لے کر رو رہی تھیں اور میں غسل خانے کی دہلیز پر گم سم بیٹھا تھا۔
ہم اپنی دادی کو بائی کہتے تھے۔ دراصل ہمارے ابا اور چچا اور پھوپھی انہیں بائی کہتے تھے۔
اور ایسے موقعوں پر میرے آنسو خشک ہوجاتے ہیں۔ میں بالکل رو نہیں پاتا۔ ابا اور امی کے انتقال کی خبر سن کر بھی میں فورا" نہیں رویا۔
یہاں آنے سے ایک دن پہلے میں نے دادی کو پھوپھی کے ہاں چھوڑا تھا اور راستے بھر ان سے لڑتا آیا تھا کہ وہ میرے جانے کے بعد چلی جاتیں۔
" نہیں بس تم مجھے وہاں چھوڑ دو۔ تم چلے جاؤگے تو مجھے وہاں کون لے جائے گا۔ " وہ بضد تھیں۔
میری زندگی سے اگر بائی کو نکال دیا جائے تو پھر شکور پٹھان صرف بابو ہی رہ جاتا جسے گلی کوچوں میں آوارہ گردی اور کھیل کود کے علاوہ کچھ نہ آتا تھا۔ جو تیسری جماعت کے ششماہی امتحان میں فیل ہوگیا تھا اور سالانہ میں جسے " ترقی" پاس کیا گیا تھا، اور جسے میں نے بہت بڑا اعزاز جانا تھا کہ دوسرے بچے تو صرف " پاس" ہوئے تھے اور میں پوری جماعت میں واحد لڑکا تھا جو " ترقی پاس" ہوا تھا۔
میرا کھلنڈرا پن اور نالائقی تھی یا بائی کا اکیلا پن۔ ابا نے مجھے چوتھی جماعت میں دادی کے پاس بہار کالونی میں چھوڑ دیا تھا۔
دادی کی سختی اور چھوٹے چچا کی توجہ تھی کہ پچھلے سال ترقی پاس ہونے والا بابو چوتھی جماعت کےششماہی اور سالانہ امتحانوں میں اوّل آیا۔ اور یہ،سلسلہ دسویں جماعت تک جاری رہا۔
نویں سے بارہویں تک میں پھر دادی کے پاس رہا۔ اور مزید " انسان" بن گیا۔ میں جو کھیل کود کا دیوانہ تھا۔ ان چار سالوں میں صرف چھٹیوں میں اپنا شوق پورا کرتا۔
اور مجھے انسان بنانے والی ' بائی' اب نہیں رہی تھی۔
اور اب مجھے دیدی کا خُداحافِظ کہنا یاد آیا۔ اسمعیٰل بھائی جان نے کسی وقت راستے میں انہیں اور دوسروں کو بتادیا تھا۔ صرف مجھ سے بات چھپائی تھی کہ رات بہت ہوگئی تھی اور وہ مجھے پریشان اور دُکھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔
"آزاد بھائی۔ مجھے اپنی ٹکٹ تبدیل کروانی ہے" مجھے ابھی اور کچھ دن رکنا تھا لیکن اب میرا جی نہیں لگ رہا تھا۔ آزاد بھائی اور باجی، اور کسی اور نے بھی رکنے پر اصرار نہیں کیا۔ انہیں بائی سے میری جذباتی وابستگی کا علم تھا۔
اب کراچی جاکر بائی تو نہ ملتیں۔ ہاں ایک ماٹی کے ڈھیر سے ضرور ملاقات ہوتی۔ میں بد قسمت تھا کہ چھٹی پر آنے کے باوجود انہیں کاندھا نہ دے سکا تھا۔ بلکہ تفریح کرتا پھررہاتھا۔ جبکہ میرے دونوں چچا بحرین سے کراچی پہنچ کر میت میں شامل ہوچکے تھے۔ لیکن میں ابا کے لئے جانا چاہتا تھا، اب وہ خاندان کے سب سے بڑے تھے اور جو سب سے بڑا، سب سے اوپر ہوتا ہے وہ ہمیشہ اکیلا ہوتا ہے۔ نیچے والے ایک دوسرے کے کاندھے پر سر رکھ کر روتے ہیں ، یا بڑوں کے کاندھے پر سر رکھ سکتے ہیں، لیکن جو بڑا ہےوہ کس سے اپنا دکھ کہہ سکتا ہے۔
بائی کے انتقال کو ہفتہ بھر سے زیادہ ہوچکا تھا۔ اور یہ شاید اجمیر میں ہماری دوسری رات تھی کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں کراچی واپسی آیا ہوں اور بائی گھر پر نہیں ہے اور میں گھر والوں سے لڑرہا ہوں کہ بائی کو روکا کیوں نہیں۔
پریشانی کی عالم میں میری آنکھ کھل گئی تھی لیکن میں نے لاحول پڑھ کر اس خواب کو بھلانے کی کوشش کی تھی۔ مجھے یہ بھی خیال آیا تھا کہ اجمیر میں ہی مجھے یہ خواب کیوں آیا۔
چونکہ ہم سفر میں تھے اس لئے ہم سے را بطہ ہونا ممکن نہیں تھا، ہمیں یہاں آکر یہ اطلاع ملی۔ُ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھنڈی بازار کے میں ہمارے ایک عزیز کے گھر ہم چائے پی رہے تھے جو پی آئی اے میں تھے۔ انہوں نے کسی کو فون کرکے میری ٹکٹ تبدیل کرنے کے احکامات دئےپھر بھی دو دن کے بعد کی سیٹ ملی۔
ہم ٹکٹ پر نئی تاریخ کا اسٹیکر لگوانےاوبرائے شیراٹن میں پی آئی اے کے دفتر آئے۔ یہ نریمان پوائنٹ کا علاقہ تھا اور بمبئی شہر کا شاید سب سے خوبصورت اور صاف ستھرا علاقہ تھا۔
اسی ہوٹل میں چھوٹی خالہ کی بیٹی نور کی پھولوں کی دکان تھی۔ ہم کچھ دیر کے لئے وہاں بیٹھے رہے۔ اس دکان سے ممبئی کی اشرافیہ کو گلدستے جاتے تھے۔ امیتابھ بچن ، ہیما مالنی اور دھرمیندر اور دوسرے کئی فلمی ستارے اس دکان کے مستقل گاہک تھے جہاں سے فلمی پارٹیوں کے لئے پھول اور گلدستے مہیا کئے جاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تک صرف ننہیالی عزیزوں سے ملاقات ہوئی تھی۔ آج کر افورڈ مارکیٹ سی آئی ڈی آفس میں واپسی کی رپورٹ بھی کرنی تھی۔ یہیں بمبئی کی جامع مسجد بھی تھی۔ مسجد کے سکریٹری ، ابا کے ایک بزرگ۔ جناب حبیب پٹھان تھے جو کہ " حبیب چچا کہلاتے تھے۔ واضح رہے کہ ہمارے ہاں چچا، زیر کے ساتھ پڑھا اور پکارا جاتا ہے۔
بمبئی کی یہ جامع مسجد اٹھارویں صدی کی تعمیر شدہ ہے جسے انگریزوں نے تباہ کردیا تھا۔ اس کی تعمیرنو پھر انیسویں صدی کےآخر
میں ہوئی۔ یہ خوبصورت مسجد ، روایتی مسلم فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ مجھے اس کے صحن میں بنے حوض کی رنگ برنگی مچھلیاں یاد ہیں۔ ایسا ہی وضو کا حوض اورن کی مسجد میں بھی ہے اور وہ اس سے چھوٹا لیکن زیادہ خوبصورت ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے مولانا محمد حسین برے رحمہ اللہ بمبئی کی جامع مسجد کی امامت کیا کرتے تھے۔ اور قائد اعظم نے بھی ان کی اقتدا میں نماز عید ادا کی تھی۔ قائد کی ہمشیرہ شیریں جناح نے جب قائد کی جائیداد کے سلسلے میں کراچی میں مقدمہ دائر کیا تو قائد کے مسلک کے تعین کےلئے مولانا برے کی بھی گواہی لی گئی تھی۔ اس خاکسار کا نکاح بھی مولانا مرحوم و مغفور نے پڑھایا تھا۔ میرے چھوٹے بھائی منیر کا نکاح بھی مولانا برے نے ہی پڑھایا تھا اور اس کے لئے اپنی ضعیفی کے باوجود ماری پور تشریف لے گئے تھے۔ منیر کا مولانا سے قلبی تعلق تھا اور ان کے ارادت مندروں میں شامل تھا۔
مسجد کے دفتر میں حبیب چچا سے ملاقات ہوئی۔ دادی کے لئے دعائے مغفرت کی اور بہت دیر تک میرے ابا، چچاؤں ، پھوپھیوں اور دیگر اعزہ کے احوال پوچھتے رہے۔
ان سے اجازت لے کر ہم ماہم جانے والی بس میں سوارہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ڈاکٹر، حکیم، قاضی، حافظ، قاری، مولوی جلیل پٹھان، چشتی، قادری، نقشبندی، سہروردی" اور نجانے کیا کیا کچھ اس تختی پر لکھا تھا جو ایک حجرے کے دروازے پر لگی تھی۔ حجرے کی دیوار اور دروازے سبز رنگے ہوئے تھے۔
ہم نے ہلکے سے دروازے پر دستک دی۔ چوگوشیہ ٹوپی اور کاندھوں پر ' حاجی رومال' اوڑھے ایک باریش نوجوان نے دروازہ کھولا۔ اندر بہت سارے مرید خاموش بیٹھے تھے۔ ایک جانب مسند پر حضرت ، مولانا جلیل پٹھان متمکن تھے۔ آزاد بھائی کے سلام کرنے اور میرا تعارف کرانے پر حضرت اپنی نشست سے اٹھے، اور مجھ سے معاںقہ فرمایا،
" آپ دونوں برابر والے کمرے میں بیٹھیں۔ میں آتا ہوں " مولانا نے ایک مرید کو اشارہ کیا کہ ہمیں کمرہ دکھائے۔
مولانا میرے ابا کےچچا زاد بھائی تھے اور انکے مرید اور عقیدتمند دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔ بعض اوقات ان کے ارادت مند انہیں جہاز کے ٹکٹ بھیج کر صرف دعا کروانے نہ صرف ہندوستان کے دور دراز شہروں بلکہ خلیجی ممالک ، افریقہ اور برطانیہ وغیرہ بھی بلواتے تھے۔
مولانا ، اس درگاہ کے مہتمم یا مجاور بھی تھے۔ ماہم شریف کے حضرت مخدوم شاہ بابا کا مزار مرجع خلائق ہے، لیکن ممبئی پولیس ان کی خصوصی عقیدتمند ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماہیم پولیس اسٹیشن حضرت مخدوم شاہ کی جائے رہائش تھی۔ مخدوم صاحب کے عرس پر سب سے پہلی چادر بمبئی پولیس کے تمام سینئر ترین افسران کی جانب سے چڑھائی جاتی ہے جس میں پولیس کے ہزاروں اہل کار شرکت کرتے ہیں۔ حضرت مخدوم شاہ بابا سے کئی کرامات منسوب ہیں۔ میری امی ہمیں مخدوم صاحب کے قصے سناتی تھیں اور سمجھ نہیں آتا تھا کہ یہ کن کا ذکر ہے۔ مخدوم صاحب کے عقیدتمندوں نہ صرف ہندو بلکہ انگریز بھی شامل ہیں ۔اور مخدوم صاحب کے نوادرات اور تبرکات ماہیم پولیس اسٹیشن کی جس الماری مین بند ہیں وہ الماری ایک برطانوی پولیس افسر نے بنوائی تھی جو حضرت کا مرید تھا۔
ہمیں مولانا کے حجرہ خاص میں بٹھایا گیا۔ اور ہمارے سامنے انواع اقسام کے کھانے اور پھل لا کر چن دئیے گئے۔ کچھ ہی دیر میں مولانا تشریف لے آئے۔ اور اصرار کر کے ہماری پلیٹیں بھرتے رہے۔ ہم نہ نہ ہی کرتے رہ گئے۔
مولانا کی تین بیویاں تھیں۔ اور اس وقت ساتھ کے کمرے میں ان کی سب سے نئی دلہن کی رہائش تھی۔ دادی کے لئے دعائے مغفرت کے بعد مولانا سب رشتہ داروں کے حالات پوچھتے رہے۔ مولانا کے چھوٹے بھائی بحرین میں ہوتے تھے اور میری ماموں زاد بہن کے شوہر تھے اور رشتے میں میرے چچا اور بہنوئی لگتے تھے۔ میری ان سے بڑی بے تکلفی تھی۔
مجھے شرارت سوجھی۔
" مولانا آپ نے شریعت کے تقاضے پورے نہیں کئے" میری بات پر مولانا سوالیہ انداز میں میری ظرف پر دیکھنے لگے۔ آزاد بھی کچھ سمجھ نہیں پارہے تھے۔
"آپ نے چوتھی شادی اب تک نہیں کی" میں نے مولانا کے برادر خورد سے تعلق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے تکلفی کا مظاہرہ کِیا۔
خلاف توقع مولانا کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ آزاد کی بھی جان میں جان آئی۔
" دیکھو اللہ کا حکم کب ہوتا ہے۔ جب وقت آئے گا تو انشاء اللہ تعمیل ہوگی" مولانا نے بشاشت سے جواب دیا۔
' اور آپ بتائیں، آپ نے کوئی سلسلہ شروع نہیں کیا" مولانا بھی اس بے تکلفی کا لطف لے رہے تھے۔
" ابھی تو منگنی ہوئی ہے میری"
" اوہ واہ۔ مبارک ہو بھئی۔ شادی کب کررہے ہو ؟ "
" آپ سر پر ہاتھ رکھ دیں، انشاء اللہ آپ کی دعا کی برکت سے جلد ہوجائے گی۔ "
کچھ دیر بعد مولانا نے مجھے میری نئی چچی سے ملوایا۔ وہ تقریباً میرے برابر کی یا شاید مجھ سے چھوٹی ہی تھیں۔
کچھ دیر بعد ہم نے اجازت چاہی۔ مولانا نے دو ایک عطر کی شیشیاں اور کچھ تحائف ہمارے حوالے کئے اور ہمیں باہر تک رخصت کرنے آئے۔
مرید ہمیں حیرت سے دیکھتے تھےکہ یہ لونڈے حضرت کے نہ جانے کیا لگتے ہیں۔
کچھ دیر بعد ہم گیٹ وے آف انڈیا جانے والی بس میں سوار " بھاؤ" کے دھکے (جیٹی) پر جارہے تھے۔
( باقی باقی)
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/654134678107396