جس دیش میں گنگا بہتی ہے۔۔۔۔۔16
لال کلِا تے تاج محل ساڈے
ٹھیک سے یاد نہیں ، شاید یہ لاہوری دروازہ تھا جس سے ہم قلعے میں داخل ہورہے تھے۔بلند وبالا فصیل پر ترنگا لہرا رہا تھا۔ اس وقت نو بھی نہیں بجے تھے۔ یہ ایک طویل راہداری تھی جس کے دونوں طرف دکانیں تھیں اور ابھی چند ایک ہی دکانیں کھلی تھیں اور کھل رہی تھیں۔
میں اور آزاد یونہی دکانوں میں جھانکتے جارہے تھے۔ زیادہ تر دستکاری اور زنانہ کڑے ہوئے کرتے وغیرہ تھے۔ پیتل کے بنے ہوئے " شو پیس " کثرت سے تھے جن میں زیادہ تر ہاتھی یا مختلف بھگوانوں کی شبیہیں تھیں۔ مجھے کراچی کے لئے کچھ تحفے لینے تھے۔ ایک دکان پر ہم کچھ چیزیں الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے، ایک کونے میں بھگوان شیو کی تصویر کے سامنے اگربتی جلائے دکاندار منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ ہمیں کھٹ پٹ کرتا دیکھ کر وہ مڑا۔ اسکی پیشانی پر بھبھوت ملی ہوئی تھی۔ وہ دن کا آغاز پوجا سے کررہا تھا۔
" اگر کچھ لینا ہے تو دیکھو، ورنہ ہاتھ نہ لگاؤ" اس کا لہجہ درشت تھا۔
" اگر دیکھیں گے تبھی تو خریدیں گے" آزاد نے رسانی سے جواب دیا۔
" اگر دیکھو گے تو لینا بھی پڑے گا" اس کا لہجہ بدستور کھردرا تھا۔
" کیوں کوئی زبردستی ہے، اگر پسند نہ آئے تو کیوں لیں گے" میں بھی گفتگو میں شامل ہوگیا۔
"سویرے سویرے اگر پہلا گراہک خالی جائے تو بڑی پنوتی (نحوست) ہوتی ہے، پھر پورا دن کوئی نہیں آتا" اس نے ابھی بھگوان سے پرارتھنا کی تھی لیکن اسے شاید بھگوان پر زیادہ بھروسہ نہیں تھا۔
اس کی توہم پرستی کی وجہ سے ہم کیوں زبردستی کوئی چیز خریدتے۔ یہ بھی اپنی طرز کا ایک ہی دکاندار دیکھا تھا۔ آزاد کو شرارت سوجھی۔
" اگر ہم نہیں خریدیں گے تو سارادن گاہک نہیں آئے گا؟ "
" اور کیا ! پہلے گاہک سے بوہنی نہ ہو تو پورا دن نہیں ہوتی"
" ٹھیک ہے پھر ہم نہیں لیتے" آزاد کا یہ کہنا تھا کہ دکاندار بری طرح بپھر گیا اور گالی گلوچ پر اتر آیا۔
پڑوس کا ایک دکاندار اپنے پڑوسی کی حمایت میں ہمیں سمجھانے لگا کہ ہم دکاندار یہ سمجھتے ہیں کہ پہلا گاہک بھگوان کی طرف سے آتا ہے اوراگر وہ کچھ نہ خریدے تو سمجھو بھگوان آج خوش نہیں ہے۔ اور دن خراب جاتا ہے۔
اب ان کی توہم پرستی کی وجہ سے ہم اپنی جیب کیوں خالی کرتے۔ ہمیں ویسے بھی کچھ لینا تو تھا نہیں۔ اس دکاندار کا دن واقعی برا تھا کہ ہم آٹکرائے تھے۔
اس وقت گاہک کوئی نہیں تھا اور سارے دکاندار ہمیں خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے تھے، شاید وہ بھی یہ پرارتھنا کر رہے ہوں کہ ہم ان کی دکان پر نہ آئیں۔
اور ہمیں کون سا کچھ خریدنا تھا۔ ہم اندر کی جانب بڑھ گئے۔
ہم دونوں کی ہنسی نہ رکتی تھی اس بے چارے کا دن خراب کرکے۔
راہداری ختم ہوئی اور ہمارے سامنے ایک وسیع وعریض عالیشان قلعہ تھا۔
اور لال قلعہ واقعی لال قلعہ تھا۔ مغلیہ عظمت کا سب سے عظیم الشان نشان۔ لیکن میرے ساتھ ایک مسئلہ ہوگیا۔
اب تک جے پور، آگرہ اور فتح پور سیکری کے قلعے دیکھے تھے۔ پہلی بار لال قلعے کا نام آیا تو میرے لبوں پر ایک پنجابی نغمے کے بول مچلنے لگے۔
میرے ساتھ یہ بیماری ہے ( شاید ان دکانداروں کی طرح ) کہ صبح سویرے کوئی نعت، گیت یا نغمہ ، ریڈیو یا ٹی وی پر سن لوں تو پھر سارا دن وہی گنگناتا رہتا ہوں۔
لال قلعہ سے مجھے " لال قلعہ تے تاج محل ساڈے ، سانوں چھیڑ کے یاد دلا ندے ہو" یاد آنے لگا اور کوشش کے باوجود لبوں سے نہ جاتا تھا۔ قلعے کے اندر کی ہر عمارت، ہر بورڈرکھ کر میں "لال کلا تے تاج محل ساڈے" گنگنانے لگتا۔ آزاد کچھ سمجھ نہ پاتے کہ میں کیا گنگنا رہاہوں، نہیں تو شاید وہ میرا گلا دبا دیتے۔
لال قلعہ کا اصل معمار تو شاہجہاں تھا جس کے حکم پر لال قلعہ اور جامع مسجد تعمیر ہوئے اور شہر دہلی کی تعمیر ہوئی جو اسی کے نام پر شاہجہاں آباد اور بعد میں جہان آباد کہلایا۔
سرخ پتھر کی اس چہاردیواری میں جگہ جگہ سنگ مرمر اور سنگ سفید کی بنی خوبصورت عمارتیں ، بارہ دریاں، محرابیں، حوض، مسجدیں اور نجانے کیا کچھ تھا ، جانو ایک شہر آباد ہے۔
یہ چھتہ چوک ہے، اسے نوبت خانہ کہتے ہیں، یہ دیوان عام ہے، اور یہ دیوان خاص ہے۔ یہاں کہیں شہنشاہ تخت طاؤس پر متمکن ہوکر رقص وسرود ملاحظہ فرماتے ہونگے۔ یہ حمام ہیں ، یہ باؤلی ہے، اور یہ تین گنبد والی چھوٹی سی لیکن بے انتہا خوبصورت مسجد، موتی مسجد ہے۔ یہ ممتاز محل ہے، یہ رنگ محل ہے۔ وسیع وعریض باغ ہیں اور میوزیم بھی ہیں جو اس وقت بند تھے۔ یہیں پر رات کے وقت " ساؤنڈ اینڈ لائٹ شو" ہوتا ہے جہاں سیاحوں کو قلعے کی اور دلی کی تاریخ آوازوں اور روشنیوں کی مدد سے دکھائی جاتی ہے۔ اور ہم دو باؤلے سیاح صبح سویرے یہاں ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے۔ اس وقت کوئی گائیڈ بھی نہیں تھا، ہم خود ہی مختلف بورڈ پڑھتے یا بس عمارتوں کو دیکھتے رہتے۔
آپ نے اور میں نے نجانے کتنی فلموں میں مغل دربار اور محل سرائیں دیکھی ہونگی۔ ان باغوں اور روشوں پر کنیزیں، خواصیں، مغلانیاں، خواجہ سرا یہاں وہاں آتے جاتے ہونگے، اور شہزادیاں اور ملکائیں زرق برق لباسوں میں ٹہلتی ہونگی۔ ان ستونوں کے ساتھ حبشی غلام ننگی تلواریں لئے مستعد پہرے دیتے ہونگے اور قلعے کے دروازوں پر افغان، اور راجپوت سپاہی نگرانی گرتے ہوں گے، یہیں سے لشکر نکلتے ہوں گے جو چتور، گولکنڈہ ، مالوہ اور دکن پر چڑھائی کرتے ہونگے اور ان کی واپسی پر فتح کے شادیانے بجائے جاتے ہوں گے۔
اور جب شہنشاہ عالم پناہ دیوان عام میں تشریف لاتے ہونگے تو نقیبوں کی آوازیں یہاں سے وہاں گونجتی ہوں گی۔ "نگاہ روبرو، با ادب! با ملاحظہ! ہوشیار! جنبش مکن, شہنشاہ عالم پناہ فرمانروائے ہندوستان آعلی حضرت صاحب قرآن ثانی، ابوالمظفر شہاب الدین محمد خرم شاہجہاں تشریف لاتے ہیں۔"
اور دورویہ کھڑے درباری ادب سے ہاتھ باندھے نظریں جھکائے کھڑے ہوتے ہونگے۔
اور یہیں معتوبوں کو تہہ خانوں میں بنے عقوبت خانوں میں پا بہ زنجیر کیا جاتا ہوگا۔
اسی قلعے میں بہادر شاہ کے دربار میں شعر وسخن کی محفلیں جمتی ہوں گی جہاں استاد ذوق مصاحبی کے گر دکھاتے ہوں گے اور یہی مرزا نوشہ ان پر چوٹیں کرتے ہونگے اور دونوں شاہ سے وظیفے پاتے ہونگے۔
اور اسی لال قلعہ نے آخری مغل فرمانروا کو بصد سامان رسوائی نکلتے دیکھا ہوگا اور یہیں انگریز بہادر نے یونین جیک لہرایا ہوگا۔ اور پھر جمہوریہ ہندوستان کی آزادی کے بعد ترنگے نے یونین جیک کی جگہ لی ہوگی۔ حالانکہ " لال کلا تے تاج محل ساڈے۔۔۔۔۔۔"
لیکن آپ یقین کریں میں اس وقت یہ سب کچھ نہیں سوچ رہا تھا۔ یہ تو آپ کو زرا محل کے سیر کروانے کی کوشش کررہا ہوں۔ اس وقت تو یہ ایک لق ودق اجاڑ سی جگہ لگ رہی تھی جہاں قلعے کے اکا دکا کارندے یا صفائی کرنے والے خاکروب نظر آتے تھے یا دلی میں اس وقت تاریخ کے دو قدردان آزاد اور یہ خاکسار منہ اٹھائے گھومتے پھرتے تھے۔
میں نے دو مچیٹوں کا ذکر کیا۔ پہلے کا احوال تو آپنے قلعے کے داخلی دروازے پر دکاندار کے قصے میں سن لیا۔ دوسرا قصہ بیان کرتے ہوئے حیا مانع آتی ہےکہ شاید آپ کی نفاست پسند طبیعت کو ناگوار گذرے۔ لیکن چونکہ یہ بھی دلی اور لال قلعے کی سیر کا ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے چنانچہ آپ کے گوش گذار کئے بنا چارہ نہیں۔
اور شاید کوئی یہ داستان عبرت سرا سن کر اپنے جذبات کو قابو میں رکھے اور کریم کے ہوٹل میں نہاری یوں نہ کھائے جیسی میں نے کھائی تھی۔
نہاری کو دوآتشہ بنانے کے لئے میں نے چھوٹی ہری تتہیا مرچیں خوب چھڑکیں تھیں۔ جواب لال قلعے میں اپنا اثر دکھا دہی تھیں اور حالات قابو سے باہر ہوتے جارہے تھے۔ میں نے آزاد کو حال دل بلکہ یوں کہیے کہ حال شکم سنایا۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ ہوٹل واپس جانا نا ممکن تھا۔
اور مغلوں نے اس لمبے چوڑے اور عالیشان محل میں سب کچھ بنایا لیکن وہ کہیں نظر نہ آتا تھا جس کی ہمیں تلاش تھی۔ اور شاید ان محلات میں وہ سہولت موجود ہو لیکن وہاں ہم عام رعایا کی رسائی نہ تھی۔ ایک خاکروب نے قلعے کے بالکل آخر میں ایک جانب اشارہ کیا کہ وہاں !! لیکن اس ٹائم تو بند ہوگا۔
ہم تیز تیز قدموں سے چلتے " وہاں" پہنچے جہاں دوشیڈز میں ایک جانب لکھا ہوا تھا " GENTSS" اور یہی میری منزل مراد تھی۔
لیکن تھا انتظار جس کا یہ وہ سحر تو نہ تھی۔ وہاں کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے۔ نہ ہی پانی کا کوئی انتظام نظر آرہا تھا۔ اتنے بڑے لال قلعے میں بڑا ہی نامعقول انتظام تھا۔ وہاں اور بھی تو آتے ہونگے کریم ہوٹل کی نہاری کھا کر۔
وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ ہم نے دوسرے شیڈ کا رخ کیا" جہاں " لیڈیز" لکھا ہوا تھا۔ بالآخر ایک قدرے قابل استعمال جگہ نظر آئی۔ اب مسئلہ پانی کا تھا۔ شیڈ کے ایک جانب سمنٹ کی بڑی سی ٹنکی تھی جس پر ٹین کی چادر تھی۔ ہم ے وہیں ایک ڈالڈے کا زنگ آلود ڈبا دریافت کیا جو شاید اسی مقصد کے لئے وہاں پایا جاتا تھا۔
بہرحال میں نے اندر داخل ہوکر چٹخنی لگائی اور مصروف عمل ہوگیا۔
اور اب وہ ہوا جس کے لئے یہ ناگوار قصہ سنانا ضروری تھا۔
میں نے سکون و راحت کا سانس لیا ہی تھا کہ باہر سے آواز آئی " اس ٹیم ( ٹائم) کون گیا ہےاندر؟"
" کیا اس کا کوئی ٹائم بھی ہوتا ہے؟" یہ آزاد کی آواز تھی۔
" ہاں ناں جی! یہ صفائی کا ٹیم ہے"
" تو پہلے صفائی کیوں نہیں کرتے"
" اتنی صبحے کون آتا ہے۔ آپ کی جنانی(زنانی) دو منٹ رک نہیں سکتی تھی"
" نہیں رک سکتی تھی جبھی تو گئی ہے نا اندر" آزاد جرح پر اترے ہوئے تھے۔
" ٹھیک ہے میں باجو(بازو) میں صفائی کرتا ہوں "
میری جان میں جان آئی۔ مجھے باہر جانا تھا۔ میں نے سرگوشی کے انداز میں اپنی زبان میں آزاد سے پوچھا کہ وہ ہے یا چلا گیا۔
" جلدی سے آجاؤ، وہ برابر میں ہے"
میں چوروں کی طرح دبے پاؤں باہر نکلا ، لیکن ہائے ری قسمت ۔ اسی وقت وہ مہتر اپنے کام سے فارغ ہوکر باہر آرہا تھا۔
" یہ ہے تمہاری گھر والی ؟؟"اس کا منہ حیرت سے کھلا ہوا تھا۔ وہ شدید غصے میں تھا۔
' تو یار کیا کریں۔ سارے ٹوائلٹ اتنے گندے ہیں "
میں نے حالات کی نزاکت کا اندازہ لگاتے ہوئے جیب سے دس کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ وہ نرم پڑگیا۔ نہ صرف نرم پڑگیا بلکہ مجھے ایک جگہ اشارہ کیا کہ وہاں صابن بھی ہے۔
اور یہ شاید ایسے کام کے لئے اپنی زندگی کا مہنگا ترین معاوضہ ادا کیا تھا۔
ہم گھر یعنی ہوٹل جلد ہی پہنچ گئے ۔ صرف خالہ اماں، خالو ابا، ثمین، فوزان اور بڑے بھائی موجود تھے باقی سب " خریدی" کے لئے جا چکے تھے۔ فوزان اور بڑے بھائی بھی کہیں جانے کی تیاری کررہے تھے۔ مجھے دیکھ کر خوش ہوگئے، شاید میرا ہی انتظار کررہے تھے۔
" چلو تمہیں نئی دہلی لے چلیں " فوزان نے کہا۔
ہم نئی دہلی کے علاقوں سے گذر رہے تھے۔ یہاں کشادہ سڑکیں تھیں، علاقے کھلے ہوئے اور صاف تھے۔ ایک بڑے سے کمپاؤنڈ کے سامنے ہم رک گئے۔
یہاں سامنے اور دائیں بائیں کئی منزلہ بڑی سی عمارتیں بنی ہوئی تھی۔ کمپاؤنڈ میں دوسری گاڑیوں کے علاوہ کچھ فوجی گاڑیاں اور ٹرک بھی نظر آرہے تھے۔ اور لمبے چوڑے سکھ ہوائی ، بری اور بحری فوج کی وردیوں میں آجا رہے تھے۔ ایک بڑی سی سل ہر لکھا ہوا تھا " رکھشا بھون"
یہاں ہندوستان کی تینوں مسلح افواج کے دفاتر تھے اور ایک پاکستانی اور وہ بھی ویزے کے بغیر ، کے لئے یہ ممنوعہ علاقہ تھا۔ فوزان اور بڑے بھائ مجھے گیٹ کے قریب انتظار کرنے کا کہہ کر اندر کہیں چلے گئے۔ انہیں یہاں کسی سے بمبئی واپسی کے ٹکٹ لینا تھے جو اسماعیل بھائی کے کسی جاننے والے نے ہمارے لئے بک کروا رکھے تھے۔
میں گیٹ کے اندر کھڑا آس پاس نظریں دوڑا رہا تھا کہ ایک چھو ٹے سے قد کا سرخ وسپید سپاہی جس کی پیٹھ پر بندوق لدی ہوئی تھی جس کی سنگین آسمان کا رخ کئے ہوئے تھی، میرے قریب آکر پوچھا کہ کس سے ملنا ہے۔ میں نے بتایا کہ میرا بھائی اندر گیا ہے۔
" باہر جاکر کھڑے ہو" یہ گورکھا تھا۔ شکر ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔
میں خاموشی سے باہر آکر ایک جانب کھڑا ہوگیا۔
لال قلعے کے دکان والے کا دن تو نجانے کیسا گذرا، لیکن اب تک میرا دن تو خطروں سے کھیلتے ہی گذر رہا تھا۔
(باقی باقی)..tt
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/651526148368249