جس دیش میں گنگا بہتی ہے۔۔۔۔۔15
کریم ہوٹل، اور جامع مسجد کی سیڑھیاں
سورج نیچے آتا جا رہا تھا۔ میرا مزید تصویریں لینا ممکن نہیں تھا، ہم نے واپسی کی راہ پکڑی۔رکشہ والے بھی شاید جلدی میں تھے۔ اس بار کسی نے راشٹرپتی بھون، سنسڈ بھون کی طرف اشارہ کیا نہ ہی رکنے کا عندیہ دیا۔ راشٹر پتی بھون ہم صرف سڑک سے ہی دیکھ سکتے تھے۔
میری متجسس نظریں دوڑتے ہوئے مناظر دیکھتی تھیں۔ پیچھے بیٹھے خواتین و حضرات رات کے کھانے اور کل کی خریدی کا پروگرام بنا رہے تھے۔
چاندنی چوک پہنچ کر فوزان نے رکشہ رکوائے اور بیکری تلاش کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ ایک ہاتھ میں گتے کا ڈبا لئے لوٹا۔
چتلی قبر سے کچھ پہلے ایک مسلم ہوٹل کے پاس ہم اتر گئے جہاں فیملی کا بھی انتظام تھا۔ ہم نے ایک گوشہ تلاش کیا جہاں ہمارا سارا ٹبّر سماسکے۔
کھانا آنے میں کچھ دیر تھی۔ باجی نے فوزان کا لایا ہوا ڈبہ کھولا۔ اس میں کیک تھا۔ آج ننھی ثمین کی پہلی سالگرہ تھی۔ میں نے گود میں بٹھا کر اس سے کیک کٹوایا۔ سب تالیاں بجاتے تھے اور ننھی گڑیا حیرانی سے ہم سب کا منہ تکتی تھی۔ باجی نے کیک کا چھوٹا سا ٹکڑا اس کے منہ پر رکھا تو مزے سے اس کی کریم چاٹنے لگی۔ کچھ دیر بعد وہ جیتی ہوئی ٹرافی کی طرح سب کی گود میں گردش کر رہی تھی۔
ہوٹل واپس پہنچ کر سب اپنے اپنے کمروں میں دن بھر کی تھکن اتارتے تھے۔ میں نے بھی اپنے آپ کو کرتا شلوار میں منتقل کیا۔ دلی میں ہمارے پاس صرف ایک دن اور تھا اور میں دلی کو جیسا دیکھنا چاہتا تھا ویسا نہیں دیکھ پاتا تھا۔ میں اٹھ کر نیچے چھوٹی سی لابی میں آگیا۔ اور ایک گوشے میں سگریٹ سے لطف اندوز ہونے لگا۔ سارا دن گھر والوں کے ساتھ موقع نہیں ملا تھا۔ کچھ دیر بعد فوزان بھی آگیا۔
قریب ایک نوجوان جوڑا بیٹھا تھا۔ ایک بیرے نے بتایا کہ یہ سندھی ہیں اور ان کی بہن حیدرآباد سندھ میں رہتی ہے۔ اس بیرے کو نجانے کس نے بتادیا تھا کہ باجی پاکستان سے شادی ہوکر یہاں آئی ہیں۔ میرے بارے میں شاید اسے علم نہیں تھا۔
ہم نے سلام کیا تو وہ ہمارے پاس آبیٹھے۔ ادھر ادھر کی کچھ باتیں ہوئیں۔ تو میں نے پوچھا کہ اس کی بہن حیدرآباد میں کہاں رہتی ہے۔ اس نے بتایا اور ساتھ ہی پوچھ بیٹھا کہ آپ حیدرآباد گئے ہیں۔ میں آئیں بائیں شائیں کر کے رہ گیا۔ لیکن اسے اندازہ ہوگیا کہ ہمارے رشتہ دار پاکستان میں رہتے ہیں۔ وہ فوزان اور میرا دل رکھنے کے لئے خیر سگالیی کی باتیں کرنے لگا۔ ہندو مسلم دوستی اورپاکستان سے دوستی کی باتیں۔
ہمارے بھارتی دوستوں کا جب پاکستان سے پیار امڈ نے لگتا ہے تو تان اس 'لکیر ، پر ٹوٹتی ہے جو ان کے بقول " گوروں اور پالیٹیشنز" نے اپنے مطلب کےلئے ڈال دی ورنہ ہم سب ایک جیسے ہیں۔ زبانیں، کھانے، لباس ایک سے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور میرا جی جلتا ہے ۔ اوروں سے تو کہہ دیتا ہوں کہ یہ لکیر تو انشاءاللہ قیامت تک رہے گی۔ تم کر لو جو کرنا ہے۔ یہاں لیکن اس کا موقع نہیں تھا۔ میں نے فوزان سے کہا چلو باہر چلتے ہیں ذرابازار کا چکر لگاتے ہیں۔ بڑے بھائی بھی شاید سگریٹ پینے ہی اس طرف آرہے تھے۔ وہ بھی ہمارے ساتھ ہولئے۔ سندھی ہندو جوڑے سے جان چھڑائی اور ہم باہر آگئے۔
نو ساڑھے نو بجے کا وقت تھا۔ چتلی قبر کی اس نیم اندھیری گلی میں جہاں دن میں چلنا مشکل ہوتا تھا اس وقت قدرے سکون تھا۔ دکانیں بند ہوگئی تھیں یا بند ہورہی تھیں، صرف چائےخانےاور پان کے کھوکھے کھلے ہوئے تھے۔ سائیکل رکشہ کی آمد ورفت بھی بند تھی اور دلی کے لونڈے لپاڑئیے یہاں وہاں ایلے گیلے گھومتے تھے۔
کبھی انہی گلیوں میں جالی کے انگرکھےپہنے، ترچھی ٹوپیاں لگائے، آنکھوں میں سرمہ اور کانوں میں عطر کے پھوئے دبائے، دلی کے با نکے گھوما کرتے ہونگے۔ میں تصور میں محمد حسین آزاد کی دلی لاتا تھا لیکن سوائے چتلی قبر کے پرانے مکانوں کے اور کچھ ویسا نہیں تھا جیسا میں نے کتابوں میں پڑھا تھا۔ اس محلے کی زبان تو خالص کرخنداری تھی اور زیادہ تر لڑکوں کے منہ پر گالیاں ہی ہوتی تھیں جو وہ بلا دھڑک ایک دوسرے کو دیتے تھے۔
سردیوں کی راتیں تھیں۔ ایک چائے خانے کے پاس ہم رک گئے۔ یہاں ابلے انڈے بھی بک رہے تھے۔ ہم نے ملائی والی چائے کا آرڈر دیا اور ایک بند دکان کے تھڑے کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ ساتھ ہی ایک تنگ سی گلی تھی جو اندر ایک مسجد پر ختم ہوتی تھی۔ مسجد میں نہ جانے کس تقریب میں لاؤڈ اسپیکر پر تقریر ہورہی تھی۔ ہمارے ساتھ ہی ایک پولیس والا اور ایک دو لونڈے بھی کھڑے چائے کی چسکیاں لےرہے تھے۔
لاؤڈ اسپیکر پر کسی تیرہ چودہ سالہ بچے کی آواز سنائی دے رہی تھی جو دشمنان اسلام کو للکار رہا تھا۔ پاس کھڑے لڑکوں سے پوچھا کہ کیا سلسلہ ہے ۔ پتہ چلا کہ کوئی احتجاجی جلسہ ہے اور دشمنان اسلام کا نام "سنجے گاندھی" ہے۔ چاندنی چوک، چتلی قبر اور چاؤڑی کے آس پاس کے دکانوں والے سنجے پر سخت خار کھائے ہوئے تھے، جس نے جامع مسجد کی سیڑھیوں اور آس پاس کے بازاروں سے تجاوزات ہٹادی تھیں۔
مسجد سے جو کچھ کہا جارہا تھا وہ ناقابل یقین تھا۔ ہم نے ذرا گن سن لینے کے لئے لڑکوں سے باتیں شروع کیں۔ پولیس والا بھی قریب ہی کھڑا تھا۔ میں نے دبے لفظوں میں لڑکے سے احتیاط اور آواز نیچے رکھنے کے لئے کہا تو اس نے بیک وقت دس پندرہ گالیاں، حکومت، پولیس اور ہندوؤں کی شان میں بک کر اعلان کیا کہ ان سالوں کی کیا مجال کہ ہمیں کچھ کر سکیں۔ حالانکہ وہ ' سالے' اپنا کام کر چکے تھے اور یہ صرف ہمارے میاں بھائیوں کی تلملاہٹ یا بے چارگی تھی جس کا غصہ نکال رہے تھے۔ مجھے آگرے کا کوچوان رشید یاد آیا۔ اور کچھ کچھ یہ بھی سمجھ آیا کہ ہندومسلم جھگڑا کیسے ہوتا ہوگا۔
دوسری صبح میں اور آزاد بھائی تیار بیٹھے تھے، گھر والے سب بستروں میں تھےاور سردی کے مارے لحاف سے منہ نہ نکالتے تھے۔ خواتین کا آج مصمم ارادہ تھا کہ پالیکا بازار اور چاندنی چوک میں ' خریدی' کریں گے اور موقع ملا تو کناٹ پلیس بھی جائیں گے۔ کل کافی درگاہیں دیکھ لی تھیں اور قطب مینار بھی دیکھ لیا تھا اور دہلی کی سیر ان کے لئے مکمل ہوگئی تھی۔
" کہیں چل کر نہاری کھاتے ہیں " میں نے تجویز پیش کی۔
آزاد کچھ سوچ میں پڑگئیے۔ اورن میں نہاری ایک اجنبی شے تھی گوکہ آزاد کراچی میں کئی بار کھا چکے تھے اور انہیں نہاری، پائے اور حلیم سے کراچی والوں کی جذباتی وابستگی کا علم تھا۔
" ٹھیک ہے وہیں چلتے ہیں"
مجھے نہاری کھانے سے زیادہ یہ کرید تھی کہ کراچی میں جو یہ جا بجا بورڈ نظر آتے ہیں " دہلی کی مشہور نہاری، دہلی کی مشہور حلیم" تو آج اسی دہلی میں نہاری کھائی جائے۔
ہم لوگوں سے پوچھتے پاچھتے کریم ہوٹل پہنچ گئے۔ جس سے بھی نہاری کا نام لو وہ کریم ہوٹل کا پتہ بتاتا۔ اب تو سنا ہے اس کی بہت سی برانچیں بھی بن گئیں ہیں اور ہوٹل بھی جدید طرز پر آراستہ کیا گیا ہے۔ ان دنوں یہ ایک عام سا ریسٹورانٹ تھا لیکن اتنی صبح بھی کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہمیں بمشکل ایک میز ملی جہاں دو صاحبان پہلے ہی نلی نہاری سے شوق فرما رہے تھے۔
نہاری سامنے ہو تو پھر میرے لئے جذبات پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے اور مجھے نہاری گرما گرم اور تازہ نان کے ساتھ ہی مزہ دیتی ہے۔ نہاری بس نہاری ہوتی ہے، اچھی یا بری نہیں ہوتی ۔ لیکن شاید کراچی میں نہاری کھا کر ایک خاص ذائقے کی عادت پڑگئی تھی۔ صابر کی نہاری تو شاید میں نے ایک آدھ بار ہی کھائی ہوگی البتہ جب میں کوکن سوسائٹی میں رہتا تھا تو قریب کی دہلی مرکنٹائل سوسائٹی کی نہاری، یا کورنگی کے اقبال ہوٹل کی نہاری بھی اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں۔ کریم ہوٹل کی نہاری بھی بری نہیں تھی اور جیسا کہ میں نے کہا کہ نہاری دیکھ کر مجھے اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا، میں نے اسے مزید دوآتشہ بنانے کے لئے کتری ہوئی ہری مرچیں بھی خوب چھڑکیں۔
آزاد کو البتہ نہاری سے کوئی شیفتگی نہیں تھی چنانچہ انہوں نے 'اعتدال' کے ساتھ نہاری کو برتا۔
اب ہم جہاں کھڑے تھے وہاں سڑک کی دوسری جانب جامع مسجد تھی اور اس جانب ایک قطار میں ایک مندر، مسجد اور گرودوارہ نظر آرہے تھے۔ گرجا گھر مجھے نظر نہیں آیا۔
ہمیں لال قلعہ جانا تھا۔ جامع مسجد کی سیڑھیوں کے ساتھ سائیکل رکشہ کی طویل قطار تھی ۔ جامع مسجد کے سامنے میدان کے اس طرف لال قلعہ تھا میرا موڈ پیدل وہاں جانے کا تھا لیکن آزاد نے کہا کہ فاصلہ اتنا کم بھی نہیں ہے، رکشہ ہی بہتر ہے۔
میری نظریں جامع مسجد کی سیڑھیوں پر تھیں جہاں بہت سے لوگ اب بھی گدڑیاں اور چادریں اوڑھے سو رہے تھے کہیں کہیں آوارہ کتے بھی سردیوں کی گلابی دھوپ کا مزہ لے رہے تھے کہیں کہیں انسان اور کتے دنیا مافیہا سے بے خبر ایک دوسرے کے قریب ہی سوتے دکھائی دئے۔
یہ سیڑھیاں اور ان کے آس پاس کی جگہیں کبھی دلی کی تہذیب اور ثقافت کا مرکز ہوتی تھیں۔ بلکہ یوں کہئے کہ ثقافت اور مذہب یہاں آن ملتے تھے۔ مجھے آزاد، شاہد احمد دہلوی، اشرف صبوحی اور ملا واحدی کی دلی یاد آنے لگی۔ جامع مسجد دلی کی جان تھی اور اس کی سیڑھیوں پر ایک جہان آباد ہوتا تھا۔
یہاں کے کبابیوں میں سے چند ایک کراچی میں بھی تھے۔ انہی سیڑھیوں پر دلی کے بانکے حلیم کے مزے لیتے، فالودہ اور قلفیاں اڑاتے، زردہ اور بریانیوں والے آوازیں لگاتے، حلوائی اپنے خوانچہ لئے بیٹھے ہوتے۔ پان والے سو طرح کے پان بناتے اور بانکے ایک ادا سے ان گلوریوں کو منہ میں رکھتے۔
دوسری طرف کہیں بساطی اپنی دکان لگائے بیٹھے ہیں تو کہیں کنجڑے قصائیوں نے ٹھکانہ بنا رکھا ہے، کہیں بز از کپڑوں کے تھان کھول کر دلی والیوں کے سامنے رکھ رہے ہیں تو کہیں منیاری کی دکان سے گوٹا کناری خریدا جاتا تھا۔
کچھ لوگ رنگ بر نگے پرندے لئے بیٹھے ہیں تو سیڑھیوں کے نیچے کہیں گھوڑے کا سودا بھی ہورہا ہوتا یوں سمجھئے آج کی ہائپر مارکیٹ کا نقشہ تھا۔ کیا چیز تھی جوان سیڑھیوں پر نہیں ملتی تھی۔
اور کھیل تماشے دیکھنے ہوں تو ان سیڑھیوں سے بڑا اسٹیڈیم کہیں نہ ملے۔ کہیں مرغے لڑائے جارہے ہیں۔ کہیں بٹیر بازی ہورہی ہے اور ہم نے تو یہ بھی پڑھا کہ انڈے بھی لڑائے جاتے تھے۔ اللہ جانے یہ کیسا کھیل ہوتا ہوگا۔ ادھر کچھ لوگ شطرنج کی بازی میں مشغول ہیں تو کہیں گنجفہ اور چوسر ہورہی ہے. ادھر ایک جانب استاد شاعر نوآموزوں کی اصلاح کررہے ہیں تو کہیں کوئی نوجوان شاعر اپنی نئی غزل سنا رہا پے، اور کہیں دلی کے جانے مانے استادوں سے ان کے کلام کی فرمائش ہورہی ہے۔
انہی سیڑھیوں پر کوئی عالم دین وعظ فرمارہے ہیں اور یہیں کہیں کوئی پیر طریقت اپنے مریدوں کو سلوک کی راہیں طے کروارہے ہیں۔ اور باطنی بیماریوں کا علاج ہورہا ہے اور ان کے برابر ہی کوئی عطائی ظاہری بیماریوں کا علاج تجویز کررہا ہے اور دوائیں بھی دیتا ہے۔
یہیں کہیں داستان گو، امیر حمزہ اور کوہ قاف کے قصے سنا رہے ہوتے تھےاور کہیں پتلی تماشے والے اور مداری اپنے کمالات دکھا رہے ہوتے۔
لیکن وہ دنیا کب کی اجڑ چکی اور دنیا بہت آگے چلی گئی اور دنیا نے آگے ہی بڑھنا ہے، ترقی کا پہیہ روکے نہیں رک سکتا ، لیکن ان سیڑھیوں پر اب بے گھر لوگ سوتے تھے اور اگر یہ ترقی ہے تو پھر تنزلی کیا ہوگی۔
رکشہ والوں کے پاس ہم رک گئے۔ اور ہم سے بات کرنے سے پہلے انہوں نے آپس میں لڑنا شروع کردیا۔ ان کا جھگڑا ختم ہوا تو ہم نے ایک مسکین سے رکشہ والے سے لال قلعہ چلنے کو کہا۔ اس نے شاید آٹھ آنے یا ایک روپے میں حامی بھری۔
لال قلعے کے لاہوری گیٹ کے سامنے اتر کر میں نے رکشہ والے کو پانچ کا نوٹ دیا۔
" ٹھیک ہے بابو جی۔ آپ آرام سے ہو آئیے، میں یہیں کھڑا ہوں" وہ ممنونیت سے بولا۔
" نہیں تم جاؤ۔ ہمیں بہت دیر ہوجائے گی" اور وہ حیرت سے ہمیں دیکھنے لگا۔
سامنے لال قلعے کے دروازے کے ساتھ ایک طویل راہداری تھی جس کے دونوں طرف دکانیں تھیں۔
اور یہاں کچھ اور مچیٹے ہمارے منتظر تھے۔
(باقی باقی)
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/650852905102240