اور بستی نہ ہو، یہ دلّی ہے
تاج ایکسپریس میں ہم یوں سفر کررہے تھے جیسے اپنی ذاتی کار میں ہوں۔ سب کو نشستیں میسر تھیں اور سارے راستے پیر پسارے ، گپ شپ کرتے جاتے تھے۔ بہت سی نشستیں خالی تھیں۔ میں کبھی سسٹر، دیدی، باجی تو کبھی فوزان اور بڑے بھائی وغیرہ کے پاس جا بیٹھتا۔ ایک جگہ ایک نوجوان ہندو جوڑے کے سامنے والی نشست پر دو گورے بیٹھے باہر نظر دوڑ آتے تھے۔ ان کے برابر کی خالی نشست پر بیٹھ کر سوچنے لگا کہ بات چیت کا آغاز کہاں سے کروں۔ آخر پوچھ ہی بیٹھا کہ کہاں سے آئے ہو۔ پتہ چلا امریکن ہیں۔ ٹرین کے سفر کی بات ہوئی، کہنے لگے کہ ان کی ریل بہت جدید ہوتی ہے لیکن اس ٹرین کا کرایہ ان کے حساب سے نہ ہونے کے برابر تھا۔ اب ان کی باری تھی مجھ سے پوچھنے کی کہ تم کہاں سے ہو۔ میں گڑبڑا سا گیا۔ ہندو جوڑا بھی کچھ کچھ ہماری جانب متوجہ تھا۔
” میں بمبئی سے آیا ہوں ” میں نے بتایا۔
“Oh Really?” ان کے لہجے میں استعجاب تھا۔
” کیوں ، کیا ہوا” ۔ مجھے ان کی حیرت کی وجہ سمجھ نہ آتی تھی۔
” تم انڈین نہیں لگتے”
” وہ بھلا کیوں۔ یہ دیکھو یہ میرا پورا خاندان یہاں ہے”
” مجھے نہیں پتہ، بس تمہارا انداز کچھ مختلف سا لگتا ہے” گورے نے کہا تو میں نے وہاں سے اٹھ جانے میں عافیت جانی۔ ہندو جوڑا مجھے عجیب نظروں سے دیکھتا تھا۔
مجھے بھوک لگ رہی تھی۔ بلکہ پیٹھے کا حلوہ کھانے کو جی چاہتا تھا۔ میں نے کچھ ٹکڑے نکالے اور امریکنوں اور ہندو جوڑے کو پیش کئے، ہندو جوڑے نے دھنے واد کہہ کر منہ میں رکھ لئے۔ کسی قسم کا چھوت چھات سے متعلق سوال نہیں کیا۔ گورے پہلے تو مٹھائی کا جائزہ لیتے رہے پھر منہ میں رکھ تعریفی انداز میں مسکرائے۔
” یہ مزیدار ہے۔۔لیکن میٹھا بہت ہے“
دلی کے نواح شروع ہوگئے تھے اور میرا تجسس بڑھتا جاتا تھا۔ یہ شاید پہلا شہر تھا جسے دیکھنے کی واقعی خواہش تھی۔ ایسی تو شاید تاج محل دیکھنے کی بھی تمنا نہیں تھی۔
وہ دلی جسے میں نے غالب کے خطوط میں دیکھا تھا، بلی ماروں کا محلہ، حویلی قاسم جان، چاندنی چوک اور اردو بازار، اور وہ جس کے بارے میں میر کا دعوی تھا کہ ” دلی جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب” ۔ یا وہ دلی جس کا نقشہ اشرف صبوحی، شاہد احمد دہلوی اور ملا واحدی کھینچتے تھے۔
اور ایک دلی وہ تھی جو تاریخ کی کتابوں میں تھی ۔ اور تاریخ نجانے کب سے شروع ہوتی تھی۔ کورؤں اور پانڈؤں کی دلی، اشوک کا دلی، رائے پتھورا ،،یا پرتھوی راج والا دلی جس کا راج شہاب الدین غوری نے ختم کیا، اور پھر، قطب الدین ایبک، التمش، رضیہ سلطانہ، والا دلی اور خلجیوں، تغلقوں والا دلی۔
پھر وہ دلی جس نے تیمور کے لشکر کو دیکھا جس نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، لیکن یہ نگر بھی عجیب نگر تھا جو سو بار اجڑا اور پھر ہر بار نئی آن شان کے ساتھ بس گیا۔ لودھیوں نے آگرے کے ساتھ ساتھ اسے بھی بسایا، پھر وہ آئے جن کے نقش پا آج بھی دلی کے چپے چپے پر نظر آتے ہیں یعنی مغل۔ وہی مغل جن کے جد امجد تیمور نے یہاں قیامت ڈھائی اور انہی مغلوں نے اسے عالم میں انتخاب بنا دیا۔ لیکن یہ بھی عجیب بات ہے کہ بابر سے اورنگزیب تک جو مشہور مغل بادشاہ گذرے ان میں صرف ہمایوں کو دلی کی مٹی نصیب ہوئی۔ یہاں تک کہ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو “دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں “.
گوروں نے آکر مغلوں کو چلتا کیا، یہاں سے پورے ہندوستان پر اپنے قبضے کی مہر ثبت کی اور خود بھی یہاں سے چلتے بنے۔ اور آج یہ شان سے سر اٹھائے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا صدر مقام ہے۔
یہ دلی تو وہ تھی جسے میں جانتا تھا یا جسے میں نے پڑھا تھا۔ میری خالہ کے گھر والے لیکن کسی اور ہی دلی کو دیکھنے آئے تھے۔ ان کے نزدیک یہ بھارت کی راجدھانی تو تھی لیکن ان کے ممبئی کے سامنے کچھ نہیں تھی۔ یہاں تو وہ اس بستی کو دیکھنے آئے تھے جہاں بائیس خواجہ کی چوکھٹ تھی۔ وہ نگری جہاں حضرت محبوب الہی، سلطان المشائخ ، نظام الدین اولیاء اور انکے مریدین کا راج تھا جن کی حکومتیں زمین پر نہیں دلوں پر تھیں۔
اور یہ شاید نظام الدین کا ہی اسٹیشن تھا جہاں تاج ایکسپریس آکر رکی تھی۔ ہم اسٹیشن سے باہر آکر تانگے والوں کو دیکھتے تھے جو ایک دوسرے سے لڑرہے تھے اور میرو غالب کے شعر کی جگہ گالیاں دیتے تھے،
اور میں چاروں اور دیکھتے ہوئے سوچتا تھا کہ ” تھا انتظار جس کا یہ وہ شہر تو نہیں” ۔
حسب معمول فوزان، بڑے بھائی اور آزاد بھائی اور میری مشاورت شروع ہوگئی۔ اسٹیشن کے آس پاس کے ہوٹلوں میں جو صاف ستھرے تھے وہ ہندوؤں اور سکھوں کے تھے۔مشکل یہ تھی ہندوؤں کے ہاں صرف ” ویشنو بھوجن ” کا پر بندھ تھا اور خالصہ جی کا کھانا ” جھٹکے کا گوشت” کھائے بغیر ہضم نہیں ہوتا تھا۔ ہم اپنے ایمان کو ساتھ لئے پھرتے تھے اور ہمارے مومن بھائی ” نصف ایمان” یعنی صفائی پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ مسلم ہوٹل میں داخل ہوتے ہی گندگی اور بدانتظامی کا سامنا ہوتا تھا۔
یہاں کسی ہوٹل کا پیشگی انتظام نہیں تھا۔ کوئی ملہوترا ہوٹل تھا جس کا ذکر فوزان کے دوستوں نے کیا تھا لیکن وہاں پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ ہم نے وہیں کا رخ کیا۔ یہ آگرے کے مقابلے میں زرا نئی عمارت میں تھا۔ اب رات ہورہی تھی۔ باہر سردی بھی بڑھ گئی تھی۔ ہم نے وہیں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا گو کہ اس کا کرایہ زیادہ تھا۔
بڑے بھائی اور فوزان کہیں سے کباب اور تلی ہوئی مچھلی لے آئے تھے۔ کھانے کے کچھ ہی دیر بعد سب بستروں میں گھسے ہوئے تھے۔ مجھے نیند نہیں آتی تھی۔ ملہوترا جی کے ہوٹل کے کمبل دھلے ہوئے نہیں تھے۔ اور میں ان کے بغیر سونے کی کوشش کرتا تھا لیکن سردی پریشان کرتی تھی۔
یوں ہی سوتے جاگتے صبح ہوگئی اور میں حسب عادت چائے کی تلاش میں استقبالیہ کاؤنٹر سے معلومات کرنے پہنچا۔ یہاں کھانے کا انتظام نہیں تھا۔ ملہوترا جی ( یا کوئی اور جی) نے باہر سے چائے منگوائی۔ ان کے پاس اردو کا اخبار تھا۔ ملہوترا جی خاصے معمر تھےاور شاید پنجابی ہندو اور سکھوں کی اس نسل سے تھے جو اردو پڑھنا جانتی تھی۔
” چاچا جی ذرا اخبار تو وخاؤ” میں نے ملہوترا جی سے اپنائیت جتانے کی کوشش کی۔
” تسی لاہور توں آئے ہو” ملہوترا جی کا سوال گولی کی طرح لگا۔
“نہ جی ۔۔اسی بمبئی توں آئے آں”
” میں کدی من ای نئیں سکدا۔ بمبئی والے آنی چنگی پنجابی بول ای نہیں سکدے‘
اب میں نے اپنی پنجابی کو لگام دی اور اردو میں بتایا کہ میں سعودی عرب میں کام کرتا ہوں جہاں میرے بہت سے دوست پنجابی ہیں۔ ملہوترا جی کچھ زیادہ مطمئن نظر نہیں آتے تھے۔ اخبار انہوں نے میرے حوالے کردیا۔
لاہور سے دلی آنے والے یقیناً پولیس میں رپورٹ کرتے ہوں گے اور ہوٹلوں والے بغیر اجازت نامے کے شاید کمرہ نہ دیتے ہوں۔
اخبار کے پہلے صفحے پر نظر پڑتے ہی میں چونک گیا، مادام نورجہاں کی یہ بڑی سی تصویر کے ساتھ خبر تھی کہ کل یہاں ایک پروگرام میں ہندوستان کے سارے گلوکاروں کے ساتھ ملکہ ترنم کا پروگرام تھا جس میں دلیپ کمار اور شبانہ اعظمی بھی تھے۔ میں اور ملکہ ترنم ساتھ ساتھ ہی چل رہے تھے بس میں منیر نیازی کی طرح ہمیشہ دیر کر دیتا تھا۔ اجمیر میں بھی وہ ایک دن پہلے آکر چلی گئیں تھیں۔ دلی میں پتہ نہیں وہ تھیں یا نہیں لیکن یہ پروگرام ایک دن پہلے کا تھا۔ برسوں بعد اس پروگرام کی ویڈیو دیکھی۔ میں چاہتا بھی تو وہ پروگرام نہیں دیکھ سکتا تھا۔ پورا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور لوگوں نے نجانے کب سے پیشگی بکنگ کروا رکھی ہوگی۔
فوزان مجھے کھوجتا آرہا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہم یہاں سے نکل رہے ہیں۔ ایک ‘ مسلم علاقے ” میں کوئی ہوٹل ہے وہاں چلنا ہے۔ ہم رکشوں میں بیٹھ کر ” چتلی قبر” پہنچے۔ یوں لگا جیسے کراچی کے جونا مارکیٹ یا جوڑیا بازار آنکلے ہوں۔ محمد حسین آزاد نے جو “کھوے سے کھوا” چھلنے کی بات کی تھی وہ شاید اسی بازار کو دیکھ کر کی تھی۔ یہ پرانی دہلی میں ایک تنگ سی گلی تھی جہاں سائیکل رکشہ، تانگے اور موٹر رکشہ انسانوں کے سمندر کے بیچ سے راستہ بناتے گذرتے تھے۔
اور میں جو اب تک ہندوستانیوں کی مہمان نوازی کا لطف اٹھاتا آرہا تھا، اب پہلی بار بذات خود ایک جھگڑے میں ملوث ہوگیا۔
میں خالہ اماں اور دیدی ایک رکشے میں تھے۔ دیدی بڑی دھان پان سی تھیں اور ان سے دہلی کی سردی برداشت نہ ہوتی تھی۔ ان کے پیر اکڑ گئے تھے اور انہیں چلنا مشکل ہوگیا تھا۔ ادھر رکشہ ڈرائیور ہوٹل کی گلی میں جانے کو تیار نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس گلی سے باہر نکلنے میں اسے بہت وقت لگے گا۔ میں نے اسے دیدی کی حالت کا بتایا لیکن وہ اپنی بات پر اڑا رہا۔ یہ ذرا سا فاصلہ تھا لیکن دیدی کے لئے یہ فاصلہ بھی بہت تھا۔ آخر بکتے جھکتے ہمیں رکشہ چھوڑنا ہی پڑا۔ یہ گلی کا کونا تھا۔ میں نے دیدی کو آٹھایا اور سیڑھیاں چڑھ کر ہوٹل کی بالائی منزل لے گیا جہاں رہائشی کمرے تھے۔
ہوٹل میں اس وقت بجلی نہیں تھی۔ ان دنوں دہلی میں صبح نو سے شام چھ بجے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی۔ لوگ باگ اپنے کام اسی کے مطابق نمٹانے تھے۔نہ کوئی شکایت کرتا یا ٹائر جلاتا،یا بجلی والوں کی پٹائی کرتا ، نہ ہی حکومت پر تنقید یا طنز کرتا۔ اتحاد تنظیم اور یقین محکم جس کا نعرہ ہمارے ہاں بہت لگتا ہے لیکن جس کی ایک جھلک بھی ہماری زندگی میں کہیں نظر نہیں آتی۔ وہی تنظیم یہاں نظر آتی تھی۔
آج جمعہ تھا۔ سردی زوردار تھی اور ہوٹل میں گرم پانی کا انتظام نہیں تھا۔ ہماری ٹولی کو اس سردی کی عادت نہیں تھی اور اکثریت نے اعلان کردیا تھا کہ وہ نہانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ہوٹل والوں نے کہیں قریب ہی کسی حمام سے دس روپیہ فی کنستر کے حساب سے پانی لانے کا انتظام کیا ہوا تھا۔
ہم جامع مسجد جارہے تھے جو کہ گلی کے اختتام پر تھی۔ ہم گلی سے باہر آئے۔ مسجد کی سیڑھیوں سے کچھ دور فٹ پاتھ پر ایک جگہ اردو کی کتابیں نظر آئیں۔ میں نے دیوان غالب کی ایک جلد اٹھائی اور اس کی ورق گردانی کرتا رہا۔
میں نے دام پوچھے۔ دکاندار نے بتایا تو مجھے کچھ زیادہ لگے۔ میں نے کم کرانا چاہے۔
” بھیا آپ ہی لوگ خریدتے ہیں۔ اب آپ بھی ہمیں کمانے نہیں دوگے” کتابوں والے نے شکوہ کیا۔
” آپ ہی لوگ” سے کیا مطلب؟ ”
” آپ لوگ جو پاکستان سے آتے ہیں” اس نے وضاحت کی۔ ” ورنہ یہاں اردو کی کتابیں کون دیکھتا پے”
عشق اور مشک کی طرح مجھے اپنا پاکستانی ہونا، چھپانا مشکل ہو رہا تھا۔
جامع مسجد تقریباً پوری بھر چکی تھی۔ ہم بھی صحن میں ایک جانب بیٹھ گئے۔ نماز کے بعد مسجد دیکھنے کا ارادہ تھا لیکن نمازی سنت اور نوافل میں مشغول تھے۔ ہم باہر آگئے۔
دلی کی جامع مسجد ، لاہور کی بادشاہی مسجد جتنی بڑی تو نہیں ہے، لیکن شان وشو کت میں ہرگز کم نہیں ہے۔ اس کی خارجی دروازے کے پاس سیڑھیوں پر کبھی خوانچہ فروش دکانیں لگائے بیٹھے ہوتے تھے۔ لیکن میری آمد سے چند ماہ پہلے اندرا گاندھی کے بیٹے سنجے کے حکم پر انہیں یہاں سے ہٹا دیا گیا تھا۔ دلی والے سنجے کا نام سنتے ہی گالیاں دیتے تھے۔ بہت سے لوگوں کا روزگار ختم ہوگیا تھا۔
ان ہی دنوں میرے دوست فرید ناروی نے دلی کے ایک مشاعرے کی کیسیٹ مجھے دی تھی۔ اس میں ایک شعر مجھے آج بھی یاد ہے۔
” کوئی ہو بے لگام تو ادھر سے لگام ہے
قدرت کا انتقام بھی کیا انتقام ہے“
دلی میں کاروائی کے کچھ دنوں بعد ہی سنجے ایک ہوائی حادثے میں ہلاک ہوگیا تھا۔
میں سیڑھیوں سے اترتا تھا کے نیچے ایک مقبرہ نظر آیا۔ کتبہ پر لکھا تھا ” سرمد شہید”
سرمد کو اورنگزیب نے قتل کروایا تھا۔ سرمد ایک مجذوب تھے اور ہر وقت برہنہ رہتے اور کلمہ صرف ” لا الہ الا ” پڑھتے۔ اورنگزیب کے پاس انہیں قتل کرنے کی کئی وجوہات تھیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ اس کے بھائی داراشکوہ کے دوست تھے۔
تاریخ اب تک فیصلہ نہیں کرسکی کہ قاتل اور مقتول میں سے کون حق پر تھا۔
( باقی باقی)
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/648594021994795