خریدی، فتح پور سیکری اور تاریخ
تاج کے قریبی بازار میں ہماری ٹولی مختلف دکانوں میں گم ہوگئی اور میں فوٹوگرافر کی دکان تلاش کرنے لگا۔ مسئلہ دکان کا نہیں میرے کیمرے کا تھا۔ میرے پاس چھوٹا جیبی کیمرہ تھا جو یہاں عام نہیں تھا۔ اس میں چوبیس فلموں کا رول آتا تھا اور دیکھنے میں کیمرہ نہیں معلوم ہوتا تھا۔ میری ٹولی والوں نے اسے حیرت سے دیکھا تھا۔ جے پور میں بھی میں نے رول تلاش کیا، وہاں کسی فوٹوگرافی کی دکان پر یہ رول نہیں ملا۔ اس وقت رنگین تصویریں بھی انڈیا میں بہت مہنگی بنتی تھیں۔ اس وقت تک بھارت باہر کی دنیا کی اشیاء کے لئے شجر ممنوعہ تھا۔ کوکا کولا، پیپسی اور سیون اپ وہاں ممنوع تھے اور مقامی مشروبات، لمکا اور تھمس اپ ہی دستیاب تھے۔
بمبئی جیسے شہر میں ذاتی کاریں خال خال نظر آتیں اور مقامی طورپر تیار شدہ ایمبیسیڈر اور پدمنی کے علاوہ کوئی غیرملکی کار نظر نہیں آتی۔ غیر ملکی کاروں کو لوگ ان کے برانڈ نام ٹویوٹا، مزڈا کے بجائے ” امپورٹڈ کار” کہہ کر پکارتے۔
ہندوستان اپنی معیشت کو مضبوط بنیادیں فراہم کر رہا تھا۔ مقامی صنعت وحرفت کی حوصلہ افزائی کی جارہی تھی اور غیر ملکی مال تقریباً ناپید تھا۔ اور ہم اس وقت سامان تعیش غیر ممالک سے برآمد کرکے اپنی ترقی سے خوش ہورہے تھے۔
جے پور اور اجمیر میں اس وقت تک ٹی وی کی نشریات نہیں پہنچی تھیں اور بمبئی ٹی وی بلیک اینڈ وائٹ تھا اور وہاں سے زیادہ تر مراٹھی پروگرام نشر ہوتے تھے۔ ہندی یا اردو میں صرف ہفتے میں ایک فلم اور فلمی گیتوں کا پروگرام ” چھایا گیت” ہی نشر ہوتے تھے۔ واضح رہے کہ اس وقت پی ٹی وی رنگین تھا اور خبروں کے لئے نیٹ ورک سے منسلک تھا اور یہ پی ٹی وی کا بہترین دور تھا۔
کسی فلم کے ذکر پر پر میں نے کہا کہ یہ میں نے کراچی میں دیکھی تھی تو مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا وہاں ہندوستاںی فلمیں آتی ہیں، میں نے بتایا کہ میں نے وی سی آر پر دیکھیں تو سب حیرت سی پوچھنے لگے کہ یہ کیا ہوتا ہے۔ اس وقت تک ہندوستان وی سی آر سے آشنا نہیں تھا۔ اور میں نے کراچی میں وی سی آر پہلی بار 1974میں دیکھا تھا جو کہ وہاں بھی عام نہیں تھا۔ میں جس ٹی وی کی فرم میں کام کرتا تھا اس کے مالک سینیٹر قمرالزماں شاہ کے دوست تھے( سینیٹر نوید قمر کے والد) ۔ شاہ صاحب لندن سے وی سی آر اور رنگین ٹی وی لے کر آئے تھے اور ہمارے ہاں چھوڑ گئے تھے کہ اس کی ” ٹیوننگ” کردیں۔ جو کہ دس منٹ کا کام تھا لیکن ہمارے کاریگروں نے کہا کہ اسے چھوڑ جائیں اور ہفتے بعد لے جائیں۔ اس ہفتے میں ہم نے ‘ کٹی پتنگ۔ پورب پچھم، امیر غریب اور دیوار کئی بار دیکھ ڈالیں جو شاہ صاحب ساتھ لائے تھے۔
بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ آخرکار ایک دکان پر مطلوبہ رول مل گیا اور دکان دار نے جھاڑ پونچھ کر اسے میرے حوالے کیا۔ گھر والے اس دوران چوڑیوں اور ہار بندوں کی دکانوں میں جھانک رہے تھے۔ ایک دکان میں باجی مل گئیں۔
” یہ تیری دلہن کے لئے ہیں۔ کیسی ہیں؟ ” باجی نے مجھے چوڑیوں کا ایک سیٹ دکھایا۔
میں انہیں کیا بتاتا، میں نے تو اپنی ہونے والی دلہن کی صورت تک نہیں دیکھی تھی۔
یہاں زیادہ تر دکانوں میں سنگ مرمر کے بنے ” تاج محل” کے ماڈل خوب بک رہے تھے۔ یہ ننھے منے تاج محل بہت خوبصورت بنے ہوئے تھے لیکن انہیں جوڑنے کا کام ناقص تھا۔ کراچی پہنچنے تک میرے تاج محل کے تین مینار جھڑ چکے تھے۔ انہی دنوں میں کراچی سے پاکستان کے مشہور سبزمائل پتھر ” اونیکس” کی بنی چیزیں تحفتا” سعودیہ لے جاتا تھا اور وہ آخر تک محفوظ رہتی تھیں۔
ایک بات کراچی اور آگرے میں مشترک تھی وہ یہ کہ یہ خوبصورت دستکاریاں اخبار یا ردی کاغذ میں لپیٹ کر گاہک کے حوالے کی جاتی تھیں۔ مجھے اپنے تاج محل کو کئی کپڑوں میں لپیٹ کر لے جانا پڑا اسکے باوجود اس کے تین مینار شہید ہوگئے۔
ہماری خواتین یہاں مطمئن گھومتی تھیں اور انہیں گھر جانے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ میں ان سے ذرا ہٹ کر مٹھائی کی دکانوں کی جانب چلا گیا۔ یہاں میرے پسندیدہ ” پیٹھےکے حلوہ” کی دکانیں نظر آئیں۔ گوکہ میں اجمیر سے پیٹھا خرید چکا تھا لیکن وہ اب خاصا سخت ہوگیا تھا۔ اب یہاں تازہ پیٹھا دیکھ کر میرا جی للچا گیا۔ اور میں نے اور پیٹھا خریدا۔
رشید اور اس کے ساتھی ایک جانب اپنے تانگے پارک کئے مزے سے بیڑی پی رہے تھے۔ پیٹھا اور تاج محل خریدنے کے بعد مجھے اس بازار سے مزید کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں رشید کے پاس آبیٹھا اور آگرے، رام پور اور علیگڑھ کی باتیں کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھرت پور بھرت پور،۔۔۔۔دھول پور دھول پور۔ ۔۔۔
ہم بس اڈے پر کھڑے فتح پور سیکری جانے والی بس کے منتظر تھے۔ دوسری بسوں کے کنڈکٹر آوازیں لگا کر مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کررہے تھے اور یہ بہت مناسب بندوبست تھا۔ یہاں بسوں پر شہروں کے نام کی پلیٹ ہندی میں تھی اور میں ہونقوں کی طرح انہیں دیکھتا تھا۔ اگر بس والے آوازیں نہیں لگاتے تو مجھ جیسے سیاح کیے لئے صحیح بس ڈھونڈنا ،مشکل ہوتا۔
کچھ ہی دیر بعد فتح پور والی بس آگئی۔
بمبئی سے نکل کر جوں جوں شمال کی طرف جائیں، نظم وضبط میں کمی ہوتی نظر آتی ہے۔ بمبئی میں لکھو لکھا آدمی ٹرینوں اور بسوں سے سفر کرتے تھے اور کہیں بدنظمی دیکھنے میں نہیں آتی تھی۔
بس کے رکتے ہی فتح پور جانے والے مسافر دروازے پر ٹوٹ پڑے، اندر والے باہر نکلنے کے لئے اور باہر والے اندر گھسنے کے لئے دروازے پر ہی گتھم گتھا تھے اور اس میں نہ صرف مرد وزن بلکہ بچے بھی شامل تھے۔ ہمارے ساتھ خالہ اماں اور خالو ابا جیسے بزرگ اور ننھے بچے بھی تھے۔ ہم اس طوفان بدتمیزی کے تھمنے کا انتظار کرنے لگے۔ بس میں خاصی جگہ تھی اور سب اطمینان سے داخل ہوکر بیٹھ سکتے تھے،
پون گھنٹے بعد ہم ایک پہاڑی کے دامن میں بس سے اتر رہے تھے۔ یہاں سڑکیں اور دکانیں تھیں اور ہرے بھرے درخت تھے۔
اور میں جو تصور کئے ہوئے تھا کا ہمیں صحرا میں ننگے پیر چل کر اکبر اعظم کی طرح بابا سلیم چشتی کی درگاہ تک جانا ہوگا، پہاڑی پر چڑھتے ہوئے ” بھائی صاحب ، بابا جی، اماں جی، چھوٹے اور بڑے کا گوشت ہے، سالن ہے ، قورمہ ہے، کباب ہے، ” سنتا جارہا تھا۔ یہ مقامی ہوٹلوں کے نمائندے تھے اور اوپر تک ہمارے ساتھ ساتھ چلتے جاتے تھے اور بار بار “بڑے گوشت” کی گردان کرتے جارہے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ فتح پور آنے کا واحد مقصد بڑے کے گوشت سے مستفید ہونا ہے، اور یہ بھی ہندوستان میں رہنے کا ایک رنگ تھا کہ ” بڑے کا گوشت” کا تذکرہ اس خصوصی انداز میں کیا جارہا تھا۔
اوپر پہنچ کر بس کے سفر اور چھوٹے اور بڑے کے گوشت کی ساری کوفت دور ہوگئی۔ ہم ایک بلند وبالا دروازے سے اندر داخل ہورہے تھے۔ یہ بلند دروازہ ہی کہلاتا تھا۔ اندر ایک وسیع وعریض صحن تھا جس کے چاروں طرف محرابیں اور محل نما عمارتیں بنی تھی۔ سرخ پتھر کا بنا یہ قلعہ کسی طرح بھی دوسرے قلعوں سے کم خوبصورت نہیں تھا۔ بلکہ دوسرے قلعوں کی بہ نسبت زیادہ منظم انداز میں تعمیر کیا گیا تھا۔ ایک طرف ایک پانچ منزلہ محل تھا جو کبھی اکبر اعظم کی رہائش گاہ تھا۔ ایک بڑے سے حوض یا کنویں پر چھوٹی سی پلیا سی بنی ہوئی تھی اور اس قلعے کا ہر منظر بہت خوش کن تھا۔ لیکن اس سارے قلعے میں سب سے خوبصورت اور منفرد عمارت، سفیدی میں ڈھلا، سنگ مرمر کا ” بابا سلیم چشتی ” کا مزار تھا۔
مزار سے مسجد متصل تھی اور سامنے وضو کا حوض تھا۔ مزار باہر سے جس قدر خوبصورت تھا اندر اس سے کہیں زیادہ حسین تھا۔ مقبرے کی جالی اور اس پر بنا سائبان، رنگین سمندری سیپیوں کے بنے ہوئے تھے اور شاید میں نے پہلی بار سیپیوں کا یہ استعمال دیکھا تھا۔
اور گائڈ کے بتانے سے پہلے ہی مجھے اس کی تاریخ کا علم تھا۔ اور کون ہے جس نے ” مغل اعظم” نہ دیکھ رکھی ہو۔ نرینہ اولاد سےمحروم اکبر نے بابا سلیم چشتی کے مزار پر اولاد کے لئے دعا کی تھی جو کہ پوری ہوئی اور اکبر نے اپنے بیٹے کا نام بابا کے نام پر” سلیم” رکھا اور شیخ کی محبت میں اسے ” شیخو” کہہ کر پکارتا تھا( فلم کے مطابق) اور دنیا اس سلیم کو نورالدین محمد جہانگیر کے نام سے جانتی ہے۔
فتح پور چودہ برس اکبر کا پایہ تخت رہا، بعد میں آگرہ لاہور بھی اکبر کی سلطنت کے دارالحکومت رہے۔
یہاں بھی دیوان خاص اور دیوان عام اور ہر وہ چیز تھی جو قلعوں اور محلوں میں ہوتی ہے۔ اور دنیا جب سے بنی ہے تب سے اب تک عام اور خاص میں بٹی ہوئی ہے اور شاید قیامت تک یہ تفریق ختم نہ ہو۔ البتہ دو عمارتیں یہاں کچھ مختلف تھیں یعنی عبادت خانہ اور غسل خانہ۔
یہاں جامع مسجد بھی تھی جسے شیخ سلیم الدین چشتی نے تعمیر کروایا تھا لیکن اکبر نے ایک علیحدہ عبادت خانہ بھی بنوایا تھا جو کہ اس کی ملکہ جودھا بائی کے کہنے پر تعمیر کیا گیا اور جب اکبر نے نئے دین ” دین الہٰی” کو جاری کیا تو مسجد کے بجائے یہیں عبادت کیا کرتا تھا۔
ایک بڑے سے نیم اندھیرے ہال کمرے میں چبوترے سے بنے ہوئے تھے۔ گائڈ نے ہمیں بتایا کہ ” ملکہ رقیہ” یہاں غسل فرمایا کرتی تھیں۔
کچھ دیر بعد گائڈ ہمیں ساراقلعہ دکھا چکا تھا اور ہم یہاں وہاں ٹہلتے تھے۔ سسٹر کی بیٹی فرناز کھیلتی ہوئی غسلخانے کی طرف جا نکلی تھی۔ میں اسے لینے دوڑا۔ غسل خانے کے پاس ہندو سیاحوں کی ایک ٹولی کھڑی تھی اور گائیڈ انہیں بتا رہا تھا کہ
” مہارانی جودھا بائی یہاں اشنان کرتی تھیں”
اور یہاں سے ایک کیڑا میرے مغز میں ایسا بیٹھا کہ آج تک نکل نہیں پایا۔
تاریخ میرا پسندیدہ مضمون تھا اور تاریخی ناول میری کمزوری تھے۔ لیکن اب سمجھ آیا کہ تاریخ وہ نہیں جو کہ “تاریخ ” ہے اور نہ ہی وہ تاریخ ہے جو بیان کی جاتی ہے، بلکہ تاریخ وہ ہے جو ہم سننا چاہتے ہیں۔
گائیڈ وہ مال بیچ رہا تھا جس کی طلب تھی اور مختلف گاہکوں کی طلب بھی مختلف تھی۔
تاریخ میں ہم سب کے اپنے ہیرو اور ولن ہیں۔ اور ہم کبھی یہ نہیں مانتے کے جس میں لاکھ برائیاں ہوں اس میں کوئی خوبی بھی ہوسکتی ہے اور جس میں ہر طرح کی اچھائی ہو وہ بھی غلطیاں کرسکتا ہے۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ خطا ونسیان کے مرکب کا نام انسان ہے،
بے عیب ذات صرف اس کی ہے جو قائم بھی ہے اور دائم بھی۔
(باقی باقی)
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/648056902048507