جس دیش میں گنگا بہتی ہے۔۔۔۔۔11
چمبل ، روزن شاہ جہانی اور تاج
ہرے بھرے کھیتوں کھلیانوں اور جنگلوں سے گذرتی ہماری بس آگرہ کی جانب رواں دواں تھی۔ یہ سڑک اجمیر ۔ جے پور سڑک سے کچھ بہتر تھی اور بس کی رفتار بھی مناسب تھی۔
” یہ راستہ گوالیار کو جاتا ہے” بڑے بھائی میرے ساتھ بیٹھے تھے۔
” اور اس سے آگے چمبل ہے”
” چمبل کونسا ” فلموں و الا” ۔۔۔۔چمبل کے نام پر میں چونکا۔
” ہاں وہی۔۔بہت خطرناک علاقہ ہے۔ یہاں ڈاکو ہوتے ہیں ”
” ابھی ہونگے وہاں ڈاکو؟” میں نے اشتیاق سے پوچھا۔
” نہیں ہم اس راستے سے نہیں جارہے۔ وہ تو گوالیار سے بھی آگے ہے”
بڑے بھائی نے بتایا تو مجھے کچھ مایوسی ہوئی۔ بچپن سے سلطانہ ڈاکو، بھوپت ڈاکو کی کہانیاں پڑھی تھیں، پھر ٹی وی آیا تو رابن ہڈ اور ولیم ٹیل جیسی نا بغہ ہستیوں سے تعارف ہوا۔ پھر ” آگ کا دریا،” “جاگ اٹھا انسان ” اور” گنگا جمنا ” جیسی فلمیں دیکھ رکھی تھیں جن میں تیکھی نوکدار مونچھوں والے محمد علی اور دلیپ کمار،کندھے پر بندوق لٹکائے، سر پر پگڑی اور منہ پر ڈھاٹا باندھے، گھوڑوں پر سوار اور بڑے متاثر کن نظر آتے تھے۔ اور بغل میں شمیم آرا یا وجینتی مالا ہوتی۔ اور یہ ڈاکو نہایت پرفضا مقامات پر رہتے۔ رابن ہڈ ناٹنگھم کے جنگلوں کا بادشاہ تھا تو ہمارے محمد علی کا ٹھکانہ ایک تالاب کے پاس تھا جس میں بڑے بڑے پتھروں پر چھلانگیں لگاتی شمیم آرا” ہوا سے موتی برس رہے ہیں، فضا ترانےسنا رہی پے” یا ” من جا من جا بالم من جا” اور وجینتی مالا خوبصورت سی جھیل کے کنارے ” ڈھونڈو ڈھونڈو رے ساجنا، مورے کان کا بالا” گا رہی ہوتی تھیں اور یقین جانئیے ڈاکو کی زندگی ایک پکنک معلوم ہوتی۔
کبھی کبھار پولیس کی ایک آدھ گولی لگ بھی جاتی تو کیا ہوا۔ شمیم آرا اور وجینتی مالا جیسے طبیبوں کے علاج سے فورآ آرام آسکتا تھا۔
میں گھڑسواری اور بندوق اور وجینتی مالا کے خیالات میں گم تھا اور باقی دوسرے بھی یا تو اونگھ رہے تھے یا سوتے تھے۔ جوں جو آگرے کے قریب ہورہے تھے، اندھیرا بڑھتا جارہا تھا۔ ابھی اتنی شام بھی نہیں ہوئی تھی لیکن گہرے بادل امڈ تے آتے تھے۔
یہ شاید عیدگاہ کا علاقہ تھا جہاں ہماری بس رکی۔ سامان اتار کر ہم ایک شیڈ کے نیچے کھڑے تھے، قریب ہی تانگے والے آوازیں لگا رہے تھے۔
فوزان، بڑے بھائی اور آزاد کی مشاورت شروع ہوگئی۔ فوزان کے کچھ دوست چند دن پہلے یہاں آئے تھے اور انہوں نے اپنے ہوٹل کا پتہ فوزان کو بتایا تھا۔ یہ چھڑے لڑکوں کا گروپ تھا اور ہم سوچ رہے تھے کہ نہ جانے فیملی کے لئے وہ ہوٹل کیسا ہو۔ ایک تانگے والے نے بتایا کہ کناری بازار کے قریب ہے اور یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ آخر طے پایا کہ پوری ٹولی کو لے جانے کے بجائے، فوزان، بڑے بھائی اور میں جاکر ہوٹل دیکھ لیں اور پھر سب کو یہاں لے آئیں۔
ہم تانگے میں ہچکولے کھاتے آگرے کی سڑکوں اور تنگ گلیوں سے گذر رہے تھے۔ اب اندھیرا ہوگیا تھا اور بارش بھی ہورہی تھی۔ ایک چھوٹے سے چوک کے درمیان لڑکوں نے درختوں کی خشک ٹہنیوں سے الاؤ روشن کیا ہوا تھا اور اس کے گرد ناچتے گاتے تھے۔ کل ہولی تھی اور ان کا جشن آج سے شروع ہوگیا تھا۔
تانگے کے لئے آگے بڑھنے کا راستہ نہیں تھا۔
کوچوان نے باآواز بلند ان لونڈوں کی ماؤں اور بہنوں کے بارے میں اپنے مجرمانہ عزائم کا اعلان کیا۔ مجھے گھبراہٹ ہوئی۔ میں نے جاننا چاہا کہ وہ کون ہے۔
” ہمارا نام رشید ہے” کوچوان نے بتایا تو میری پریشانی مزید بڑھ گئی۔ مسلمان تانگے والا، ہولی مناتے لڑکوں کو گالیوں سے نوازے، مجھے بھیونڈی اور مرادآباد کے فسادات یاد آنے لگے۔ میں یہاں کسی جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ میرے پاس تو یہاں کا اجازت نامہ بھی نہیں تھا۔ اور آگرہ تو ویسے بھی چھاؤنی کا علاقہ تھا جو میرے لئے قطعی ممنوع تھا۔
‘ جانے دو بھیا، آرام سے چلو، تم کنارے سے ہو کر نکل جاؤ” ۔میں نے رشید کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ۔
” ارے یہ حرام کے جنے کل تک تنگ کرتے رہیں گے” رشید اپنی آواز مدہم کرنے کو ہرگز تیار نہ تھا۔
ہم کسی طرح وہاں سے نکل آئے، رشید راستے بھر لوگوں کو للکارتا جارہا تھا، ایک دو گلیوں کے بعد ہم ایک پرانی سی حویلی نما عمارت کے سامنے اتر رہے تھے۔
بارش تیز ہوگئی تھی۔ ہم بھیگتے ہوئے تیزی سے اندر داخل ہوئے جہاں ایک چھوٹے سے صحن کے ایک جانب ہال نما کمرے کے پاس ایک کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے آدمی نے ہمیں دیکھ کر دونوں ہاتھ جوڑ دیے۔
فوزان نے بتایا کہ ہم بمبئی سے آئے ہیں اور اس کے دوست یہاں ٹھہرے تھے۔
” ہاں جی، انہوں نے بتایا تھا کہ بمبئی سے سیٹھ لوگ اپنے پریوار کے ساتھ آرہے ہیں۔ آپ تو تین ہی جنے ہو؟”
یکایک وہ چونکا۔ ” ارے وہ سب تو ہوتا رہے گا۔ ابے جائیو تین تولیے تو لے آ” اس نے قریب کھڑے ایک نوعمر لڑکے کو آواز دی”
ہم دھلے ہوئے خشک تولیوں سے اپنے سر پونچھ رہے تھے کہ اس نے ہمارے لئے گرما گرم چائے منگوائی۔ ایک پلیٹ میں پکوڑے تھے”
ہم نے بتایا کہ باہر تانگے والا ہمارا انتظار کر رہا ہے۔ اس نے ایک چائے باہر بھجوادی۔
کچھ چیزیں بڑی معمولی سی ہوتی ہیں ، لیکن بعض موقع پر وہ ایک خاص ہی لطف دیتی ہیں، باہر کی سردی کے بعد اندر، کی گرمی، خشک تولیے، چائے اور پکوڑے ۔ اس وقت اس سے بڑی عیاشی کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔
فوزان نے کمرے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ کمرے پرانے تھے اور اندر سازوسامان بھی واجبی سا تھا، صفائی البتہ ضرور تھی۔ کرائے کی بات ہوئی، لیکن یہ سب رسمی تھا۔ ہمیں تو چائے اور پکوڑوں نے خرید لیا تھا۔ ہم کس منہ سیے منع کرتے۔
میں اور فوزان وہیں رک گئے، بڑے بھائی رشید کے ساتھ واپس عید گاہ بس اڈے چلے گئے۔ اور ہم دونوں ہال میں پڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے اور میں نے سگریٹ سلگالی۔ چائے اور پکوڑوں کے بعد یہ ایک اور عیاشی تھی۔ اور خالو ابا اور خالہ اماں کے آنے میں ابھی کچھ دیر تھی۔
کچھ دیر بعد باقی سب بھی پہنچ گئے۔ جے پور کے کامیاب تجربے کے بعد ہم نے یہاں بھی وہی گر آزمایا کہ ہر بار کسی نئے تانگے اور رکشہ والے کے بجائے رشید سے ہی بات کرلی جائے۔ اور رشید نے ہماری درخواست بخوشی منظور کرلی۔ ظاہر ہے اسے بھی آسانی تھی کہ سواری ڈھونڈنے کی مشقت سے بچ جاتا۔ اس نے دوسرے تانگے والوں سے بات کرنے کی ذمہ داری بھی لے لی۔
جانے سے پہلے تاکید کر گیا کہ صبح آرام سے اٹھیں ، وہ ظہر کے بعد ہمیں لینے آئے گا،
” کل ان ۔۔۔۔۔کی ہولی ہے۔ آتے جاتے پر رنگ پھینکیں گے۔ آپ لوگ سفر میں ہو۔ اتنے کپڑے نہیں ہوں گے آپ کے پاس” بات تو پتے کی تھی۔
سب بھوکے تھے۔ کچھ دیر بعد سب شاکاہاری بھوجن کا سواد لے رہے تھے۔ میں تو اب اس کا عادی ہوتا جارہا تھا اور یہیں سے میری ” ویجیٹیرین ” کھانوں سے دوستی شروع ہوئی جو آج تک قائم ہے۔ اکثر بڑی پارٹیوں اور بوفے وغیرہ میں میری پہلی پسند دال اور سبزی ہوتی ہے۔ جہاز کے سفر میں اگر ویجیٹیرین بھی ہو تو میں وہی لیتا ہوں کہ اس میں حلال و حرام کا تردد نہیں کرنا پڑتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ہولی آئی رے کنہائی ، رنگ چھلکے، سنا دے زرا بانسری”
صبح آنکھ کھلی تو کانوں میں ہولی کے گیتوں کی آواز آئی جو ریڈیو پر بج رہے تھے۔
میں حسب معمول جلدی اٹھ گیا تھا اور چائے پی کر ہال میں جاکر بیٹھ گیا تھا۔ کاؤنٹر پر ایک کٹوری میں گلال رکھا ہوا تھا اور لوگ آکر ایک دوسرے سے گلے ملتے، ہولی کی بدھائی دیتے اور تھوڑا سا گلال ایک دوسرے کے چہرے یا گالوں پر ملتے۔ ۔ سب کچھ بڑی شائستگی سے ہورہا تھا۔ وہ فلموں والا منظر تو کہیں نہیں تھا۔ ہال میں ایک میز پر مٹھائی سجی ہوئی تھی۔ مجھے نہیں علم تھا کہ ہولی کی مبارکباد کیسے دیتے ہیں۔ میں نے کاؤنٹر والے صاحب ، جو نجانے مالک تھے یا مینیجر سے ہاتھ ملایا اور ہولی مبارک کہا۔ جوابا” انہوں نے بھی ہولی مبارک کہا۔ شاید ایسے ہی مبارکباد دیتے ہوں،
میں بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا اور ہولی کے گانوں سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ باہر شہنائی، بانسری اور ڈھول تاشوں کی آواز آئی۔ گلی میں بہت سے لڑکے ناچ میں مصروف تھے، ہاتھوں میں پچکار یاں تھیں اور وہ ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے تھے۔ سب ناچ اور گانے بجانے میں مگن تھے اور شاید نشے میں تھے۔ کسی کا چہرہ پہچانا نہیں جارہا تھا۔ منہ، سر ، بال ، لباس سب رنگوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ میں کمرے کی طرف دوڑا کہ کیمرہ لے آؤں لیکن میری واپسی تک وہ گلی سے جا چکے تھے۔
میرے لئے یہ ایک نیا تماشہ تھا۔ بقیہ گھر والے اپنے اپنے کمروں میں اپنے مشاغل میں مصروف تھے، انکے لئے ہولی یا دیوالی کوئی نئی چیز ںہیں تھے۔
دوپہر کے کھانے کے بعد سب تیار ہوکر نیچے آگئے تھے۔ ظہر کے بعد رشید اور دوسرے تانگے والے بھی آگئے۔
” میں نے سوچا کہ زرا ہولی والوں کا زور کم ہو تو باہر نکلنا چاہئے” رشید نے دیر سے آنے کی وجہ بتائی۔
” ہاں بھیا، آپ نے اچھا کیا۔ بہتر ہے ڈر کر اور خاموش ہی رہا جائے”
” ڈریں وریں ہم نا ہیں!! ” رشید اپنے کل شام والے روپ میں آگیا۔
” یہ دیکھ رہے ہو نا” رشید نے آس پاس کی طرف ہاتھ گھماتے ہوے کہا، سامنے جامع مسجد تھی۔
” یہ سارا پاکستان ہے ۔ یہاں ان بنیوں کی مجال نہیں ہے کہ پر بھی ماریں”
” بھائی خاموش رہنا زیادہ بہتر نہیں ہے؟ ” میں نے سمجھانے کی کوشش کی۔
” یہاں جھگڑا ہوے ہے تو علیگڑھ اور رامپور سے آدمی آوے ہیں ، ہواں جھگڑا ہوے تو ہم یہاں سے جاویں ہیں” رشید نی اپنی آواز کو دھیما رکھنے کی ذرہ برابر بھی کوشش نہیں کی تھی۔
شکر ہے ہمیں راستے میں کوئی ہولی منانے والوں کی ٹولی نہیں ملی۔ کہیں کہیں مغربی سیاح نظر آتے تھے جو ہولی کے رنگوں میں رنگے ہوئے تھے۔ وہ ہندوستان کی سیر کے لئےآئے تھے اور یہاں کی ثقافت اور روایات سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ہمارا معاملہ اور طرح کا ہے۔ ہم خوش ہونے سے پہلے ہزار بار سوچتے ہیں۔
قلعہ آگرہ کے پاس آکر ہم تانگوں سے اترے۔ ایک بلند وبالا دروازے سے گذر کر ہم اندر داخل ہوئے۔ یہ قلعہ بھی وہی مغلیہ شان لئے ہوئے تھا جو مغل طرز تعمیر کا خاصہ ہے۔ بارہ دریاں۔ شیش محل، برآمدے، وسیع دالان، بڑے بڑے کمرے، ہال ، سائبان اور ہر وہ چیز جو محلات اور قلعہ جات میں ہوتی ہے۔
لیکن یہ خالصتا” مغلیہ دور کا قلعہ نہیں تھا۔ بابر نے لودھیوں کو شکست دے کر اسی قلعہ میں قیام کیا، گویا یہ قلعہ مغلیہ دور سے بھی قبل کی تعمیر شدہ تھا۔ شیرشاہ سوری سے شکست کھا کر ہمایوں نے بھی اسی قلعہ میں پناہ لی تھی۔ اکبر نے آگرے کو اپنا دارالحکومت بنایا اور اس قلعے میں مغلیہ انداز کی تبدیلیاں کیں۔ لیکن یہ شاہجہاں تھا جس نے اسے وہ شکل دی جو آج تک موجود ہے،۔ دیگر مغل فرمانرواؤں کی بہ نسبت شاہجہاں کو سفید رنگ سے عشق تھا۔ اس نے قلعے کی اندرونی کئی عمارتیں، دیوان عام و خاصاور بارہ دری وغیرہ سفید پتھر کے بنوائے۔
اور وہی شاہجہاں جس نے اس عظیم الشان قلعے کو یہ خوبصورت شکل دی، اسی قلعے، میں اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں قید ہوا۔ اور قید خانے کے ایک روزن سے جمنا کے اس پار اپنی چہیتی ممتاز محل کی آخری آرامگاہ کو دیکھتا تھا اور آہیں بھرتا تھا۔
میں نے اس روزن سے ، دور جمنا ندی کی دوسری طرف سفید رنگ میں گھری ، شاہجہاں کی محبت کی نشانی کی تصویر لی۔ اور ایک تصویر تاج محل سے اس قلعے کی لی۔ دونوں تصویریں بد قسمتی سے ہجرت در ہجرت کی نذر ہوگئیں ۔
کالی بدریا پھر گھر آئی تھی اور ہم تانگوں میں بیٹھے برستے مینہ کا مزہ لیتے تاج محل کی طرف رواں تھے۔
تاج کے دروازے سے مقبرے تک ایک طویل روش ہے جس کے درمیان حوض اور فوارے تھے۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں کہیں خوابوں کی دنیا میں کچھ گیا ہوں۔
سامنے بارش میں دھلا، صاف شفاف تاج محل کھڑا تھا جیسے کوئی پاکیزہ روح نہا دھوکر سفید لباس پہنے کھڑی ہو۔
تاج محل جو مختلف لوگوں پر مختلف طرح سے اثر انداز ہوتا ہے۔ کوئی اسے پیسے اور وقت کا ضیاع سمجھتا ہے تو کوئی اسے محبت کی ایک لافانی اور لاثانی داستان کا حرف آخر جانتا ہے۔
” اک شہنشاہ نے دولت کا سہرا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
جہاں ساحر لدھیانوی نے حقیقت پسندی کا ثبوت دیا تو شکیل بدایونی نے محبت کی اس نشانی کو یوں سراہا۔
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسین تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
کوئی کچھ بھی کہے، اگر آپ ہندوستان سیاحت کے لئے آئے ہیں اور تاج محل نہیں دیکھا تو آپ نے ہندوستان نہیں دیکھا۔ تاج ، ہندوستان کے سر کا تاج ہے۔ تاج جو محبت کی نشانی ہی نہیں محبت کا پیغام بھی ہے اور محبت کرنے والے ہی اس سے محبت کرسکتے ہیں، ورنہ تو یہ سنگ سفید کے بنے مزار کے سوا کچھ بھی نہیں۔
بچے تاج کے فرش پر یہاں سے وہاں دوڑتے تھے۔ میرے گھر والے نیچے مقبرے تک پہنچنا چاہتے تھے کہ ” درگاہ پر جاکر فاتحہ پڑھ سکیں”
میں لیکن مبہوت ، بس تاج کو دیکھتا تھا، اسے کبھی بائیں سے دیکھتا، کبھی دائیں سے تو کبھی سامنے سے اور کبھی عقب سے۔
شاید ہی کسی نے تاج کے عقبی حصے سے جمنا کے اس پار آگرہ کے قلعے کی تصویر بنائی ہو، میں نے ایک نہیں کئی تصویریں لیں۔ تاج کے دروازوں پر خطاطی کے نمونے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ آیات تھیں یا فارسی اشعار۔ میں ہی نہیں، مغربی اور جاپانی سیاح بھی خطاطی کے ان شاہکاروں کی تصویریں لے رہے تھے۔
مقبرہ نیچے تہہ خانے میں تھا جیسے اپنا قائد اعظم کا مزار ہے، جہاں اصل قبر نیچے تہہ خانے میں ہے۔
” چلو بھئی فاتحہ پڑھ لو” سادہ لوح خالہ اماں کے نزدیک شاید یہ بھی کسی بزرگ ہستی کا مزار تھا۔ بہرحال دعائے مغفرت کا مستحق تو ہر مسلمان ہے۔
مجھے کسی نے بتا یا تھا کہ بارش کے بعد ہمیشہ دو قطرے قبر کی پیشانی پر آگرتے ہیں، حالانکہ چھت کے اوپر
ایک وسیع وعریض ہال ہے اور اس کے اوپر اصل چھت اور گنبد ہے اور یہ ناممکن ہے کہ چھت کے ٹپکنے سے مقبرہ پر پانی ٹپک سکے۔ آج اتفاق سے بارش ہوئی تھی اور میں نے بے ساختہ قبر کے سرہانے دیکھا۔ آپ شاید یقین نہ کریں ۔ وہاں دو قطرے نظر آرہے تھے۔ میں نے ہاتھ بڑا کر انگلیوں سے چھو کر دیکھا۔ میرے انگلیوں پر نمی تھی۔ اللہ جانے یہ بارش کے قطرے تھے یا کچھ اور،
” اب چلیں، اور کیا دیکھنا ہے یہاں” یہ ہماری ٹولی کی ایک نوجوان خاتون کی آواز تھی.
“چل کر تھوڑی سی ‘خریدی’ کریں۔” یہ لفظ اب میری جڑوں میں بیٹھتا جارہا تھا۔
یا اللہ کوئی تاج محل آکر بازار کا بھی سوچ سکتا ہے۔ یہاں تو بندہ گھنٹوں بیٹھا بس تاج کو دیکھتا رہے تو بھی اس کا دل نہ بھرے،
ہمارے گھر والے شاید، ساحر لدھیانوی’ گروپ سے تعلق رکھتے تھے، حقیقت پسند۔ اور میں شاید خوابوں کی دنیا کا باسی تھا،
اور یہ بھی تو تھا کہ یہ تو کبھی بھی یہاں آسکتے تھے، ان کے لئے گھر کی مرغی دال برابر تھی۔ ، میں پھر نہ جانے یہاں آسکوں یا نہ آسکوں۔ آج ہی جی بھر کے نہ دیکھ لوں۔ اس حسن کو اپنے کیمرے میں نہ قید کرلوں۔
لیکن کچھ دیر بعد مجھے بھی ساحر کے گروپ میں ہی شامل ہونا پڑا۔ پے درپے تصویریں لینے سے کیمرے کا رول ختم ہوگیا تھااب مجھے بھی بازار جانے اور ‘ خریدی’ کرنے کی فکر ہوگئی۔
(باقی باقی)
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/647368988783965