جس دیش میں گنگا بہتی ہے۔۔۔۔۔10
جنتر منتر اور مورتیاں
ہنومان جی مہاراج کو شاید میری یہ بے تکلفی پسند نہیں آئی تھی کہ ان کی اجازت کے بغیر میں ان کے ساتھ “سیلفی” بنوا رہا تھا۔ میرے ستارے اچھے تھے یا شاید مہاراج مجھے صرف سرزنش ہی کرنا چاہتے تھے اور اس سے زیادہ سزا دینا مقصود نہیں تھا، یا شاید میرے لڑکھڑانے سے وہ اپنی ہی جھونک میں نیچے آن گرے۔ وہ تو اچھلتے کودتے، پھاندتے درختوں کے جھنڈ میں غائب ہوگے ، ہاں مجھے یہ سیکھ مل گئی کہ آئندہ کسی بزرگ ہستی کے قریب ہونے سے پہلے اپنی اوقات کا جائزہ لوں۔ ویسے بھی جانوروں سے میری زیادہ دوستی نہیں۔ میں کسی کتّے کی پیٹھ پر پیار سے ہاتھ نہیں پھیر سکتا، نہ ہی کسی بلّی کو گود میں لیکر پچکار سکتا ہوں۔ البتہ بکری اور گائے یا مرغی کبوتر کو ہاتھ لگا سکتا ہوں۔ اور بھلا کون سا ایسا مسلمان ہوگا جسے بکرے اور گائے بیل سے پیار نہ ہو۔
قلعے میں تو ہنومان جی کا راج تھا۔ ایک اور پوّتر ہستی جسے میں نے اورن، اجمیر اور جے پور میں ہر خاص و عام کو اپنی ذات بابرکات سے فیض پہنچاتے دیکھا وہ تھیں “گئو ماتا” ۔
اب کا علم نہیں، اس وقت تو یہ عالم تھا کہ ایک نہیں کئی ” گئو میا” شہر اور گاؤں کی سڑکوں، بازاروں اور گلیوں میں بے نیازی سے مٹر گشت کرتی تھیں۔ پاکستان میں کم از کم شہروں میں تو میں نے انہیں اتنی آزادی سے ٹہلتے نہ دیکھا تھا کہ اس سے پہلے وہ کمیلے پہنچ چکی ہوتی تھیں۔
یہ گائیں آزادی سے بازاروں میں ٹہلتیں، سڑک کے بیچوں بیچ ایک شان استغنا کے ساتھ بیٹھ جاتیں، مجال ہے کہ کوئی ان پر دھپ جمائے یا دھتکارتے۔ موٹریں، سائیکلیں ، تانگے، رکشے اپنا رستہ خود بناتے اور ماتا جی کے آرام میں مخل نہ ہوتے۔ کوئی انہیں دیکھ کر عقیدت سے ہاتھ جوڑ دیتا تو کوئی قریب آکر چھوتا اور ہاتھوں کو چومتا اور آنکھوں سے لگاتا۔ بچپن میں ان گناہگار آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ گئو میّا سڑک کے بیچ حوائج ضرور یہ سے فارغ ہورہی ہیں اور ایک بزرگ نے نیچے ہاتھ ڈال کر رقیق مادے کو چلو میں بھر کر پیشانی اور سر پر یوں ملا جیسے کسی متبرک پانی سے مساء کرتے ہیں۔
یہ گائیں سارا دن تیرے میرے کے دروازے، گھر کے سامنے لگی باڑھ یا کیاریوں ، یا کسی سبزی فروش کی دکان پر منہ مارتی رہتیں اور کوئی انہیں کچھ نہ کہتاکہ اپنی عاقبت کون خراب کرے۔ انہیں آہستگی سے ہٹا کر پر نام کرکے اپنے کام میں لگ جاتے۔ بعضے مادہ پرست سبزی فروش یا دکاندار اپنے پیٹ پر لات پڑتے دیکھ کر آس پاس نظر دوڑ آتے اور کوئی دیکھ نہ رہا ہو تا جھاڑن یا ڈنڈے سے میا کو وہاں سے دفع کرتے کہ
“تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے“
ایک بات جس پر میں نے بہت سرپر کھپایا اور آج تک مجھے اس کا جواب نہیں مل سکا کہ بے چارہ بیل جو ماتا جی کا پتی دیو ہے، اسے وہ تکریم واحترام کیوں حاصل نہیں۔ اس کی زوجہ اگر ماتا ہے تو اسے پتا ہونا چاہئیے لیکن اس غریب کو گاڑی میں جوت دیا جاتا ہے، یا اس سے کولہو پلو ایا جاتا ہے یا اس کے پیچھے ہل لگا کر مشقت لی جاتی ہے، یا پھر آنکھوں پر کھوپے چڑھا کر رہٹ کی چرخی چلو آئی جاتی ہے۔ عزت واحترام تو ایک طرف اس غریب کی زندگی تو گدھے سے بدتر ہے۔
ایسے میں مجھے برطانیہ کا شہزادہ فلپ (ڈیوک آف ایڈ نبرا )
یاد آتا ہے جو بچارہ ملکہ کا شوہر ہے مگر بادشاہ نہیں ہے۔ بس ملکہ کے پیچھے پیچھے ہاتھ باندھے گھومتا رہتا ہے۔ خیر بادشاہ بھی ہوتا تو اس نے یہی کرنا تھا۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ آج دن میں بہت گھوم لئے تھے۔ آمیر کے قلعے میں چلتے اور سیڑھیاں چڑھتے اترتے سب تھک چکے تھے خاص کر خالو ابا، خالہ اماں اور چاچا، چاچی وغیرہ، گھر یعنی ہوٹل پہنچتے پہنچتے شام ہوگئی۔ اب مسلم ہوٹل سے کھانا لانے کا موڈ نہیں تھی۔ سب نے چھت پر راجھستانی ” تھالی کھائی’ جس میں کٹوریوں میں دال اور سبزیوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی گرما گرم بیسنی روٹیاں بھی تھیں اور پودینے کی چٹنی کے ساتھ خوب مزہ دیتی تھیں۔
صبح جلدی اٹھنا پڑا کہ صبح بقیہ جے پور نمٹا کر دوپہر آگرے روانگی تھی۔ پتہ نہیں یہ فوزان کا پروگرام تھا یا راج اور کمار کا مشورہ۔ ہمارے رکشے چڑیا گھر کے سامنے جارکے۔
یہ بڑا ہی اجاڑ سا چڑیا گھر تھا۔ اورن میں تو کوئی چڑیا گھر نہیں تھا لیکن بمبئی کے چڑیا گھر کے بارے میں مجھے علم نہیں، شاید اسی سبب یہ پروگرام میں شامل کیا گیا۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ وہاں کون سے جانور تھے البتہ گدلے سے پانی والا، لوہے کے جنگلے سے گھرا وہ تالاب یاد ہے جہاں انتہائی سست الوجود مگرمچھ کاہلی سے پڑھے دھوپ کھاتے تھے اور ننھی ثمین میرے کندھے پر سوار انہیں دیکھ کر کلکاریاں بھرتی تھی۔ ۔
کچھ ہی دیر میں ہم چڑیا گھر سے باہر تھے اور اب ” جنترمنتر” کی طرف جارہے تھے۔
یہ جنتر منتر بھی ایک عجیب وغریب جگہ تھی۔ راج اور کمار باہر ہی رک گئے تھے۔ یہاں کچھ نہ سمجھ میں آنے والی چیزیں بنی ہوئی تھیں۔ کہیں صرف سیڑھیاں بنی تھیں جو کسے چھت پر نہیں جاتی تھیں، کہیں کوئی گول چبوترہ تھا۔ کہاں بڑا سا چکنے سفید پتھر کا پیالہ تھا۔ غیر ملکیوں کی ایک ٹولی کے ساتھ ایک گائڈ انہیں بتا رہا تھا۔ کہ یہ رصدگاہ کسی سوائی نے بنوائی تھی کہ ستاروں کی چلل زمین کی گردش اور چاند کے چڑھنے اترنے کے دنوں کا مشاہدہ کرے۔ گورے اس کی بات سمجھتے، سر ہلاتے اور کبھی کبھی کوئی سوال بھی کرتے۔
ہماری ٹولی میں سارے مجھ جیسے نیم تعلیمیافتہ ہی تھے یعنی کوئی بھی بارہ چودہ جماعت سے زیادہ نہیں پڑھا تھا۔ گلزار کالج میں آگئی تھی اور سفیان کالج میں جانے والا تھا۔ لیکن اگر ہم عالم فاضل بھی ہوتے تو ہمارے پلے کچھ نہیں پڑنا تھا کہ عجیب دماغ کا دہی قسم کی تعمیرات تھیں ۔ ہم گائڈ کی بات سن کر ہونقوں کی طرح آنکھیں پھاڑتے یا اپنی جماہیوں کو روکنے کی کوشش کرتے۔
” یہاں کس لئے لے کر آئے ہو بابا” یہ خالہ اماں کی آواز تھی۔
اور دوسرے جیسے انتظار میں تھے۔ چلو چلو نکلو یہاں سے، بے کار ” ٹائم” مت خراب مت کرو۔
ہم سب وہاں سے یوں نکلے جیسے کسی مشکل امتحانی پرچے سے جان چھوٹی ہو۔
ایک عظیم الشان محل نما عمارت کے سامنے ہم رکشوں سے اتر رہے تھے۔ جے پور میں اتنے محل، قلعے اور مندر دیکھ لئے تھے کہ کسی عمارت کی عظمت بالکل متاثر نہ کرتی تھی۔ اور یہی ہوا کہ بجائے اس عمارت کی طرف جانے کے، بچے اور ان کی مائیں باہر کھڑے ہوئے قلفی والے کی طرف چلے گئے۔
کچھ دیر بعد قلفی والااور ہماری خواتین ایک دوسرے سے الجھتے نظر آئے۔ یہاں بھی وہی معاملہ تھا کہ وہ کہتا تھا کہ میں نے قلفیاں زیادہ دی ہیں اور پیسے کم ملے ہیں۔
“ارے ہم بمبئی والے ہیں، کیا سمجھتا ہے ہمیں۔ تیرے جیسے کو بیچ کر کھا جائیں ”
” ارے اماں مجھے بیچ دینا، پہلے مجھے قلفی تو بیچنے دو” یہ قلفی والے کے گڑگڑانے کی آواز تھی۔
اور میرے لئے یہ سمجھنا قطعی مشکل نہیں تھا کہ کون سا فریق حق پر ہے۔
” ارے بھایا جب ماتا جی کہہ رہی ہیں کہ ان نے پیسے دے دئے ہیں تو تنے کائے کو پریسان کرو ہو؟” یہ راج تھا اور ہمارے گھر والوں کی ڈھال بنا ہوا تھا۔ آخر پرسوں سے ہم اس کے ساتھ تھے۔ وہ راجپوت ہی کیا جو وقت پر “اپنوں ” کا ساتھ نہ دے۔
فوزان ، بڑے بھائی وغیرہ محل کے گیٹ کے باہر خواتین کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔
میں نے قلفی والے کا پاس پہنچ کر دیدی اور سسٹر سے کہا کہ آپ جائیں ، میں اس سے نمٹتا ہوں۔
” ارے کوئی جھگڑا نہیں کرنا” باجی پریشان ہوگئیں ۔
” آپ لوگ جائیں ، کچھ نہیں ہوگا۔ یہاں تماشہ نہ کریں۔ سب لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں ”
وہ سب بڑبڑاتے ہوئےوہاں سے ہٹ گئیں۔ میں نے قلفی والے سے پوچھا کتنے پیسے، اس نے بتایا کہ دو قلفی کے پیسے کم ملے ہیں۔ میں نے خاموشی سے پیسے اس کے حوالے کئے اور گیٹ کی طرف آگیا جہاں سب اندر داخل ہونے کی تیاری کر رہے تھے۔
یہ ” رائل البرٹ میوزیم ” تھا۔ اور ایک نیا مچیٹا یہاں ہمارا منتظر تھا۔
عظیم الشان مرکزی دروازے سے داخل ہوئے تو دائیں بائیں پھیلا ہوا ایک وسیع کوریڈور تھا، جس کے عین بیچوں بیچ ایک بھاری بھرکم اور طویل القامت دربان جس کی مونچھیں کمان کی طرح تھیں ، سر پر راجپوتی پگڑی اور کمر میں سیاہ پٹکا تھا، دونوں ہاتھ پھیلائے کچھ اس طرح کھڑا تھا کہ خبردار کوئی اندر نہیں جائے گا۔ فوزان نے ٹکٹ اس کے حوالے کئےاور وہ انہیں گننے لگا۔ یہاں دائیں جانب سے کچھ بچے ایک طرف نکل گئے،
” اے رکو، ایک منٹ” دربان ان کی جانب مڑا تو کچھ بائیں جانب سے اچھلتے کودتے آگے بڑھ گئے۔ دربان بے بسی سے دیکھتا رہا اور ٹکٹ پھاڑ کر فوزان کو واپس کردئے۔
اب ہمارا ایک گروپ دائیں جانب کے ہال کی جانب اور دوسرا بائیں جانب نوادرات کو ملاحظہ کررہا تھا۔
بچے نہیں سمجھ پارہے تھے کہ یہاں کیوں آئے ہیں ۔ شوکیسوں میں قدیم ہتھیار، ظروف قسم کی چیزیں تھیں۔ ایسا کمرہ تو اورن میں ہمارے ” دیوان خانے” میں تھا گو کہ وہ بہت چھوٹا تھا۔
بالائی منزل پر مورتیاں اور مجسمے تھے۔ یہ راجے مہاراجوں، مہارانیوں، راجکماروں کے علاوہ دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں تھیں جن میں ہمارے لئے عقیدت کا کوئی سامان نہ تھا۔ خالہ اماں اور خالو ابا مصر تھے کہ یہاں سے نکلو۔
کچھ مورتیاں قد آدم تھیں اور اکثر قید لباس سے آزاد تھیں ۔ان میں مردانہ زنانہ دونوں مورتیاں تھیں اور ن کے بعض اعضاء بڑے چمکیلے تھے۔ قدردانوں نے سنگتراش کی صناعی کی داد ان حصوں پر ہاتھ پھیر کر اور چھوکر دی تھی۔
خالہ اماں اور چاچی کو وہاں آتے دیکھ کر میں وہاں سے ہٹ گیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ کسی عجائب گھر میں گھر والوں کے ساتھ نہیں۔ آؤں گا۔
ہم سب بس اڈے پر کھڑے آگرہ جانے والی بس کا انتظار کررہے تھے۔ ہماری گلابی نگری کی یاترا مکمل ہوچکی تھی اور اب محبت کی لافانی یادگار دیکھنے جانا تھا۔ فوزان نے راج اور کمار کا حساب چکا دیا تھا اور ہم سب اپنے اپنے سامان کے ساتھ بس کے انتظار میں کھڑے تھے۔
میں نے مڑ کر دیکھا۔ راج اور کمار اپنے رکشاؤں کے پاس کھڑے ہمیں دیکھتے تھے۔ میں خاموشی سے دوسروں سے ہٹ کر ان کی جانب چلا۔ میں نے کچھ نوٹ بٹوے سے نکال کر اوپری جیب میں رکھ لئے۔
” بہت شکریہ، دھنے واد بھایا” ۔۔۔آپ نے بڑا خیال رکھا۔
” ارے نہیں حکم۔ آپ کی مہربانی۔ آپ لوگوں کے ساتھ بہت اچھا لگا” راج کی آواز میں اپنائیت تھی۔
” ان سے بچوں کے لئے مٹھائی لے لینا” میں نے آہستگی سے نوٹ اس کی طرف بڑھائے۔
” نہیں حکم ، آپ نے تین دن مھارے کو اپنے ساتھ رکھا۔ آپ تو اپنے جیسے ہو ہو۔ ہمیں بھیا نے اچھے پیسے دئےہیں ” اس نے فوزان کی طرف اشارہ کیا۔
ان دونوں نے انکار کیا اور مجھے اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہوا۔ میں نے ان کے خلوص کو پیسے میں تولنا چاہا تھا۔
” اچھا خدا حافظ” میں نے ہاتھ آگے بڑھایا تو راج کچھ جھجکا۔ شاید وہاں رکشہ والوں سے ہاتھ ملانے کا رواج نہیں تھا۔ ہمارے ہاں بھی نہیں ہے ۔
کمار سے ہاتھ ملا کر میں وہاں سے ہٹا ۔ دوسرے رکشے والے دلچسپی سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔
میں نے پیچھے ہٹ کر ہاتھ ہلایا۔ دونوں نے ہاتھ جوڑ دئے۔
(باقی باقی)۔
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/646452155542315