جس دیش میں گنگا بہتی ہے۔
” یہ سب کہاں جارہے ہیں؟”
” اپنے گھر جارہے ہیں، اور کیا!”
” کہاں سے آرہے ہیں۔ کیا کوئی جلسہ وغیرہ تھا شہر میں؟”
” نہیں ، ایسا تو کچھ نہیں تھا ”
” پھر یہ کہاں سے آرہے ہیں؟” میری حیرت کم نہ ہوتی تھی۔
” اپنے دفتروں سے، اپنے اپنے کام سے” باجی نے بتایا
” اتنے سارے؟”
” اتنے ہی ہوتے ہیں”
ہم سانتا کروز سے واشی ( نیو بمبے۔۔۔یا اب نوی ممبئ) کی طرف جارہے تھے۔ مرد وزن کا ایک جم غفیر تھا کہ نجانے کہاں سے امڈ تا چلا آرہا تھا اور ایک ہی جانب رواں دواں تھا، جیسے فلم فلم ختم ہونے پر یا فٹبال یا کرکٹ میچ ختم ہونے پر ایک ساتھ لوگ باہر نکلتے ہیں۔ زیادہ تر صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس جوان مرد اور عورتیں ایک ہی جانب چلے جارہے تھے۔
آزاد بھائی نے بتایا کہ یہ سب دفتروں اور کارخانوں سے کام ختم کرکے وی ٹی ( وکٹوریہ ٹرمینس کا پیار کا نام) اور اندھیری یا ولے پارلے کے اسٹیشنوں کی طرف جارہے ہیں۔
میرے لئے یہ ایک عجیب تماشا تھا۔ کراچی میں صدراور بندر روڈ پر اس سے کہیں زیادہ لوگ ہوتے ہیں لیکن ان سب کا رخ ایک ہی جانب نہیں ہوتا۔ یہاں بمبئی میں اکثریت ٹرینوں سے سفر کرتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ سب اسٹیشن کی جانب رخ کئے ہوئے تھے۔ بسیں بھی کثرت سے نظر آرہی تھیں۔ اکا دکا ٹیکسی بھی نظر آتی تھی لیکن پرائیوٹ کاریں اور موٹر سائیکلیں خال خال تھیں۔ کچھ لوگ سائیکلوں پر بھی تھے اور ان میں لڑکیاں بھی تھیں جو آس پاس سے بے پرواہ سائیکل چلا رہی تھیں۔
یہ ۱۹۸۲ کا بمبئی تھا، جو اس وقت تک ممبئی نہیں بنا تھا۔ ہندی اردو بولنے والوں کے نزدیک بمبئی، انگریزی داں اسے بامبے اور مقامی مراٹھے اسے شروع دن سے ہی ممبئی کہتے آئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” یار تو بمبئی کیوں نہیں چلا جاتا۔؟”
” نہیں یار فی الحال تو کراچی کا پروگرام ہے۔ زیادہ روکڑا خرچ کرنے کی گنجائش نشتہ”
” ابے اسی ٹکٹ میں، بلکہ اس سے بھی کم میں!”
” کیا مطلب”
” پی آئی اے کی اسپیشل آفر ہے۔ بامبے کے لئے کراچی کے ٹکٹ سے بھی نوے ریال کم میں۔ داہران، کراچی، بامبے، کراچی ، داہران بنا دیتا ہوں۔ بمبئی نہیں بھی گیا تو فرق نہیں پڑے گا، تیرے نوے ریال کی بچت ہوجائے گی۔
نہ جانے یہ کیسی آفر تھی۔ میں اپنے دوست ‘افتی’ کی ٹریول ایجنسی میں بیٹھا ہوا تھا۔ مست ملنگ، ہمیشہ ہنسنے ہنسانے والا افتخار، انگلش کرکٹر اویس شاہ کا ماموں اور میرے ایک کزن کا سالا ہے۔ اللہ جانے اب کہاں ہے۔ زمانہ ہوا سعودیہ چھوڑ دیا۔ افتخار بھی کہیں یورپ یا امریکہ نکل لیا تھا۔
میں سالانہ چھٹیوں پر گھر جانے کا پروگرام بنا رہا تھا۔ افتی نے یہ آفر بتائی تو بمبئی کا ٹکٹ بنوالیا اور کراچی پہنچ گیا جہاں مجھے کھونٹےسے باندھنے کی تیاری ہورہی تھی یعنی منگنی کا پروگرام تھا اور میں نے اپنی ہونیوالی جیون ساتھی کی تصویر تک نہ دیکھی تھی۔ تب منگنیاں اور شادیاں ایسی ہی ہوتی تھیں، ٹاس کی طرح، کچھ نہیں پتہ چلتا تھا کہ سکے کا کون سا رخ سامنے آئے گا۔
یہ داستان عبرت پھر کبھی، ابھی تو آئیے ممبئی یاترا کی بات کرتے ہیں۔
نعل خرید لی تھی اب گھوڑے کی تلاش تھی یعنی ٹکٹ تو لے لیا تھا اب ویزے کا مرحلہ تھا۔ ان دنوں یہ کوئی ایسا دشوار گذار مسئلہ نہیں تھا۔ ہندو پاک میں پیار کی پینگیں بڑھ رہی تھیں۔ ان کی کرکٹ ٹیم ہمارے ہاں اور ہماری ٹیم ان کے ہاں کھیل کر آچکی تھیں۔ ظہیر عباس اور عمران خان بیشتر بھارتیوں کے ہیرو تھے۔ پاکستان ، بمبئی میں ہی جرمنی کو پانچ گول سے ہرا کر عالمی چمپئین بن گیا تھا اور سمیع اللہ ،شہناز اور اصلاح الدین کے نام بھارت میں بھی عزت سے لئے جاتے تھے۔ اور مجھ سے پہلے مادام ، ملکہ ترنم نورجہاں بھی ہندوستان پہنچ چکی تھیں، جہاں بمبئی کی پوری فلم انڈسٹری ان لے لئے دیدہء دل ، فرش راہ کئے ہوئے تھے۔ مادام جہاں جاتیں محبتیں سمیٹتیں۔ انکے پرانے ساتھی، دلیپ کمار، نوشاد، ثریا، لتا منگیشکر، پران وغیرہ ان پر واری واری جاتے۔
اور اس وقت تک پاک بھارت کو ایک دوسرے کو دہشت گرد کہنے کی عادت نہیں پڑی تھی۔ بہت ہوا تو ویزے سے زائد المیعاد رہنے والوں کو جاسوسی کے الزام میں بند کردیا جاتا، کینٹ اسٹیشن کے عقب میں انڈین کونسلیٹ تھی جہاں سے دو روپے دے کر میں نے ویزا فارم حاصل کیا اور باہر بیٹھے ایک بابو کے حوالے اس لئے کیا کہ میرے پاس قلم نہیں تھا۔ اور یہ بھی اچھا ہوا برا نہ ہوا، کیونکہ اس منشی کو مجھ سے بہتر علم تھا کہ فارم کس طرح بھرا جائے کہ ویزا مسترد نہ ہو۔ ہندوستان میں قیام کے لئے تین شہروں کے نام اور وہاں کے پتے بتانے تھے اور مجھے صرف اپنے آبائی قصبے کا پتہ یاد تھا جو باجی کو خطوط لکھ کر ازبر ہوگیا تھا۔ میں اسے بمبئی کے مضافات میں سے ہی سمجھتا تھا، یہ تو مجھے وہاں جا کر علم ہوا کہ یہ الگ ضلع ہے اور اس کا بمبئ میٹروپولیٹن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
قونصلیٹ کے باہر بیٹھے منشی نے اپنی طرف سے میرے دیے ہوئے پتے کے علاوہ بمبئی اور پونا کے بھی دو پتے ڈال دئے۔ صبح گیارہ بجے میں نے فارم جمع کروایا اور دوپہر دو جے آنے کے لئے کہا گیا۔ گھر جاکر آنا مشکل تھا۔ میں مٹر گشتی کرتا ہوا فریر ہال کی طرف جا نکلا۔ کچھ دیر امریکن کلچرل سینٹر کی لائبریری میں تصویروں والی کتابوں کی ورق گردانی کرتا رہا، باہر آکر کچھ دیر فریر ہال کے سامنے گارڈن میں لیٹا رہا، اب بھوک لگی تو رکشہ لیکر صدر آگیا، کیفے آکسفورڈ میں دال فرائی جس میں ان کے مخصوص اچار کی ایک لکیر سی تھی، کھائی۔ ٹرام پٹے پر واقع لسی کی مشہور دکان سے ملائی سے بھر پور لسی پی اور نیند میں جھومتا دوبارہ قونصلیٹ کی راہ لی۔ ویزے کے لئے کوئی خاص تشویش یا تجسس نہیں تھا، مل جائے تو ٹھیک ورنہ چھٹیاں تو اپنے کراچی میں بھی مزے میں گذرتی تھیں۔
قونصل خانے کی مقررہ کھڑکی پر پہنچا تو بغیر کسی سوال جواب کے پاسپورٹ معہ ویزا میرے حوالے کردیا گیا۔ وہاں سے سینٹرل ہوٹل میں واقع پی آئی اے کے دفتر جاکر کراچی، بمبئی، کراچی، داہران کی نئی تاریخ ٹکٹ پر لگوائی اور ایمپریس مارکیٹ آکر ہندوستان لے جانے کے لئے تین کلو خستہ کر ارے چلغوزے خریدےکہ سردیوں کے دن تھے اور بمبئی میں چلغوزے بڑے عزت واحترام اور رغبت سے کھائے جاتے تھے اور یہ کہ یہ میوہ وہاں ناپید تھا اور شاید ہی کوئی اس کے نام سے بھی واقف تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بمبئی ایرپورٹ پر ایسی کوئی خاص چیز نہیں تھی کی جسے یاد رکھا جاتا، چنانچہ کچھ یاد نہیں۔۔۔البتہ کسٹم کے اہلکاروں کا حیرت واستعجاب سے چلغوزوں کا معائنہ کرنا یاد ہے۔ پوچھا کہ کیسے کھایا جاتا ہے، میں نے مونگ پھلی کی طرح چھیل کر دکھایا، منہ میں جاتے ہی اس افسر کی گردن ستائش میں ہلنے لگی۔یہاں عام طور پر جذبات کا اظہار گردن کی جنبش سے ہوتا ہے لیکن جنوبی ہند کے باسیوں کی گردن ہلنے سے بعض اوقات اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ آپ کی بات سے راضی ہے یا نہیں۔ خیر جی، اس نے بڑی لجاجت سے پوچھا کہ اسے کچھ دانے مل سکتے ہیں ۔ میں نے دو مٹھی بھر چلغوزے ان دونوں کے حوالے کئے، میرے سوٹ کیس میں بغیر سلے کپڑے، پرفیوم، دیگر تحائف تھے اور سب سے بڑھ کر میری جیب میں ڈالروں کی تعداد ڈیکلئیر کی گئی تعداد سے زیادہ تھی۔ یاد نہیں کس نے اور کیوں مشورہ دیا تھا کہ زیادہ ڈالر نہیں دکھانا۔ چلغوزوں نے اپنا کام دکھایا اور کسٹم والوں نے خوشدلی سے مجھے باہر کا راستہ دکھایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باجی، آزاد بھائی ( میرے خالہ زاد بھائی اور بہنوئی) آزاد سے چھوٹا فوزان، میری چھوٹی خالہ کی بیٹی نور اور ان کے شوہر ائرپورٹ سی باہر میرے منتظر تھے۔ باجی ہمارے آبائی قصبے اورن سے آئی تھیں جو ضلع رائی گڑھ کا حصہ تھا۔ رائی گڑھ چند سال پہلے ڈسٹرکٹ کولا بہ کہلاتا تھا۔
نور بمبئی میں ہی رہتی تھی اور ان کے ابا یعنی میرے چھوٹے خالو ‘ اے سلام، (عبدالسلام) فلم ڈائریکٹر تھے اور تقدیر، جرمانہ، سلاخیں اور آخری داؤ نامی فلموں کی ہدایات دے چکے تھے۔
” ارے تم کتنے بڑے ہوگئے”
” اور تم کتنی موٹی ہوگئیں”
اس قسم کے مکالموں کے دوران میں سب سے ملتا رہا۔ آج سے بیس سال پہلے یہاں آیا تھا جب میں آٹھ سال کا چھوٹا سا موٹا آلو پلپلا کہلاتا تھا۔ نور میری ہم عمر تھی اور بڑی نازک اندام ہوا کرتی تھی۔
” تم اب کچھ سدھرے یا نہیں ؟ “یہ میرے پچھلے دورے کے حوالے سے سوال تھا۔
سن باسٹھ میں جب میں امی کے ساتھ اپنے سب سے چھوٹے ماموں کی شادی میں آیا تھا اور اور ہم یہاں چھ ماہ رہے تھے، میں نے اس قصبے میں خاصی شہرت کمائی تھی۔ اس کا قصہ یوں سمجھ لیجئیے کہ محلے میں کوئی واردات ہوتی، کسی کی گائے کو دھپ لگادی، کسی بنئے کی چٹیا پیچھے سے کھینچ کر کوئی بھاگ گیا، کسی پانی بھرنے والی “کولی” عورت کے مٹکے کا کسی نے تاک کرپتھر سے نشانہ لیا، کسی کے صحن میں تازہ اتارا ہوا کیلوں کا گچھا کوئی غائب کرگیا، کسی ہندو لڑکے کو برسر سڑک پچھاڑ کر کوئی بھاگ گیا، غرض ہراس طرح کے واقعے کی شکایت میرے نانا نانی سے کی جاتی اور ملزم یہ ” پاکستان سے آیا ہوا چھو کرا” ٹھہرایا جاتا۔ مجھے اب بھی یقین ہے کہ ان میں سے اکثر الزامات غلط تھے، لیکن بد اچھا بدنام برا۔۔یہ سارے قصے پھر کبھی سناؤں گا۔
کچھ دیر بعد نور اور سہیل بھائ( ان کے میاں،) نے جلد ان کے ہاں آنے کا وعدہ لے کر اجازت چاہی اور ہم نے آزاد بھائی کی ” ایمبیسڈر” میں اورن کا رخ کیا۔ یہ ائمبیسیڈر بھی خوب گاڑی تھی۔ نہایت کشادہ، دروازوں میں لیور نما ہینڈل، ٹرک جتنا اسٹیرنگ اور سب سے نمایاں اس کا بھونپو، جی ہاں گاڑی میں ہارن تھا لیکن ڈرائیور کی جانب والی کھڑکی کے باہر ایک بھونپو بھی لگا ہوا تھا۔ اور یہ یہاں اکثر گاڑیوں ، خاص کر ” ٹیمپو” میں نظر آیا۔ ٹیمپو یہاں وین، ویگن یا منی بس کو کہتے ہیں۔
بمبئی سے اورن تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا راستہ ہے۔ سمندری راستے سے یہ صرف پینتالیس منٹ کا سفر رہ جاتا ہے ۔ پرانی اور ازکار رفتہ لانچوں میں اورن کی جانب سفر کرتے ہوئے داہنے ہاتھ پر “ایلیفینٹا” کے غار ( Elephanta Caves) نظر آتے ہیں جہاں قدیم زمانے کی مورتیاں اور مجسمے ، بمبئی آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں، لیکن ہمارے اورن کے رشتہ داروں نے شاید ہی کسی نے انہیں دیکھا ہو، گوکہ ان میں سے بہت سے تقریباً روز ہی اس راستے سے سفر کرتے ہیں۔ وجہ ایک ہی ہے، ” مندروں اور مورتیوں سے ہمیں کیا لینا” چاہے تاریخی ہی کیوں نہ ہوں۔
ہم لیکن سڑک کے راستے سے اورن جارہے تھے۔ بمبئی سے واشی یعنی نیو بامبے جانے والی سڑک پر سوائے لوگوں کے اژدہام کے، ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو ایک سیاح کی متلاشی اور متجسس نظروں کا مرکز بنتی۔ آس پاس کی کائی زدہ سیاہ، اور دھواں آلود دکانیں، ورکشاپ، اور مختلف قسم کے خراد کے کارخانے، اپنے پٹیل پاڑہ یا گولیمار سے مشابہ تھے۔ یہاں رنگ وروغن کا رواج زیادہ نہیں کہ بارشیں اتنی ہوتی ہیں اور دیواروں پر کائی جم جاتی ہے۔ کہیں کہیں جھونپڑ پٹی کا لامتناہی سلسلہ نظر آتا تو اچانک کوئی جدید بلند وبالا عمارت نظر آتی۔ نئی عمارتوں کی دلکشی آس پاس کے ماحول میں کہیں گم ہو کر رہ جاتی۔
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئیے
ان ورکشاپوں اور کارخانوں میں کام کرتے، مدقوق، منحنی سے “چھوٹے” تھے جو زیادہ تر نیکروں میں نظر آتے تھے۔ یا پھرسروں پر کیلوں کے ٹوکرے رکھے، سیاہ رنگت والی گھاٹنیں تھیں، جن کے ساڑھی باندھنے کے انداز سے ان پر نظر پڑتی۔ یہ عجیب ، واہیات سا انداز ہے، ساڑھی کا اگلا پلو، ٹانگوں کے بیچ سے پیچھے کی جانب نکال کر کمر میں اڑس لیا جاتا ہے، لنگوٹ کے سے انداز کی یہ ساڑھی “منی ساڑھی ” بن جاتی ہے۔ اکثر نے اپنے جوڑوں میں بیلے کے گجرے گوندھے ہوئے تھے۔ ان گجروں کے علاوہ دلکشی کا اور کوئی سامان ان میں نہیں تھا۔
آزاد بھائی کا کزن شبیر ، ایمبیسیڈر چلا رہا تھا اور مشّاقی سے لوگوں، ہاتھ گاڑیوں، آوارہ پھرتی گایوں کے درمیان سے راستہ بناتا جاتا تھا اور اب ہم بمبئی سے باہر آتے جارہے تھے۔ کچھ دیر بعد واشی کے قریب سے گذر ہوا یہ نسبتا” نیا اور کھلا علاقہ تھا اور اس میں کراچی کے مضافات کی مشابہت تھی۔ اورن کے راستے میں پنویل، ممرہ اور جنجیرہ آتے تھے۔ جی ہاں وہی جنجیرہ جس کی ایک نوابزادی، عطیہ فیضی نے ایک عالم پر اپنا سحر طاری کیا ہوا تھا۔ جس کے مداحوں میں علامہ اقبال اور شبلی جیسے نام بھی تھے۔
میں بیس سال بعد بمبئی آیا تھا لیکن سارے راستے میں کہیں تجسس نہ ہوا کہ آس پاس کے مناظر دیکھوں۔ راستے بھر، بہن اور بہنوئی اور خالہ زاد بھائی سے باتیں کرتے، مغرب سے چند گھڑیوں کے بعد ہم آزاد بھائی کے حویلی نما گھر کے سامنے تھے۔
اب ذرا خالہ اور گھر والوں سے مل لوں۔ نہا دھو کر سفر کی تکان اتار لوں پھر آگے کا قصہ سناتا ہوں۔
تب تک کے لیئے اللہ حافظ
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/631057267081804