ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے اونٹ کو باندھ کر اللہ پر توکل کروں یا اس کو چھوڑ دوں، پھر اللہ پر توکل کروں ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایسانہ کرو ، بلکہ پہلے اونٹ کو باندھو ، اور پھر اللہ تعالیٰ پرتوکل کرو۔
(ترمذی ۲۷۷۱)
بحیثیت مسلمان ہم اپنے گھر، خاندان ، مال و دولت اور اپنی حفاظت اللّہ کی سپرد کرتے ہیں۔ قرآن میں بہت سی جگہوں پر یہی حکم ملا کہ اللّہ پر توکل کیا جائے۔ لیکن قرآن اور حدیث کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جو بات قرآن میں لکھی ہے اُسی کی وضاحت حدیث سے ہمیں ملتی ہے۔ اوپر درج کی گئی حدیث اُسی توکل علی اللّہ کہ جس کا حکم ہے اُس کی وضاحت ہے۔ جس طرح ہم اپنا مال و دولت تالوں میں رکھ کر پھر اللّہ پر توکل کرتے ہیں اُسی طرح ہمیں اپنے خاندان، خاص کر کہ اپنی اولاد کو بھی محفوظ رکھ کہ اللّہ پر توکل کرنا چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں بچوں پر ہونے والے ظلم اور جنسی وحشت کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہر سال نام بدل جاتے ہیں مگر کہانی وہی رہتی ہے۔
“۱۲ سال کی بچی ذیادتی کے بعد قتل”، “چھ ماہ کی بچی کے ساتھ ذیادتی کا واقعہ” ، “کم عمر لڑکے کے ساتھ مبینہ ذیادتی”
ہم ہر روز اخبارات پڑھتے ہیں، ٹیلی وژن پر چلنے والی سرخیاں دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ آخر اِس ملک کا کیا بنے گا؟ جرائم کیسے کم ہونگے؟ ہم کیسے ترقی کی جانب بڑھیں گے؟ اِن سب سوالوں کا جواب ہمارے ملک کے ہر اُس فرد میں ہے جو اپنے اندر تمام تر صلاحیتیں رکھتا ہے لیکن خاموش ہے۔ جو حرکت کرے تو اپنی ایک کائنات تحلیق کر لے لیکن جامد ہے۔ مذہبی کتابوں میں معجزوں کا ذکر پڑھ پڑھ کر ہم نے لا شعوری طور پر یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ ایک معجزہ ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔ کوئی آندھی یا طوفان آئے گا اور تمام تر برائیوں کو اپنے ساتھ لے جائے گا۔ ہم ان تمام معجزوں کے منتظر ہیں جنہوں نے انسانی تاریخ میں اپنا ایک کردار ادا کیا۔ لیکن ہم تاریخ کے سب سے بڑے معجزے یعنی عقل و شعور رکھنے والے انسان کی پیدائش سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔ کبھی کسی جانور کو دیکھا ہے کہ وہ شدید بھوک کی حالت میں دعاوں اور مناجات میں مصروف ہو کہ رزق اُس کی جھولی میں آ گرے؟ کائنات کی ہر شہ اپنی ضرورتوں کے لئے سعی کر رہی ہے یہاں تک کہ حضرت انسان بھی پیسہ کمانے کی دوڑ میں ہر ممکن کوشش کر رہا ہے لیکن یہی کوشش جب معاشرتی برائیوں سے لڑنے میں درکار ہو تو وہ ایک لمبی خاموشی کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا۔
یہ مضمون ہمارے معاشرے کی اُن برائیوں کے خلاف جہاد ہے جن کے بارے میں بات کرتے بھی روح کانپ اُٹھتی ہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی ذیادتی کے واقعات سفاکی میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔ جہاں بہت سے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کوئی اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے وہیں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کی درندگی وحشت کو بھی شرمندہ کر دیتی ہے۔ روز بروز بڑھتے اِن واقعات کو روکنے کے لئے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ ظلم کسی باہر سے آنے والے طوفان سے نہیں بلکہ ہماری اپنی کوششوں سے رکے گا۔
اِس مضمون کا مقصد اُن لوگوں کو شعور دینا ہے جن کے ماتحت کوئی ایک بھی بچہ ہو۔ یہ والدین بھی ہو سکتے ہیں، بڑے بہن بھائی بھی اور اساتذہ بھی۔ ہر شخص جو اتنی قدرت رکھتا ہے کہ کسی بچے کی رہنمائی کر سکے وہ اِس کا محور ہے۔
بچے ہی شکار کیوں؟
بچوں کے ساتھ ذیادتی کے بڑھتے رجحان کے پیشِ نظر ایک سوال ذہن میں اُٹھتا ہے کہ آخر بچے ایسے واقعات کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب سمجھنا اتنا ہی پیچیدہ ہے جتنا انسانی نفسیات کو سمجھنا۔ ہر شخص کے پاس اِس حوالے سے ایک علیحدہ وجہ موجود ہوگی مگر یہاں سوال نفسیات کا نہیں بلکہ اُن معاشرتی رویوں کا ہے جو اِس کا سبب بنتے ہیں۔
بچے چھوٹے اور کمزور ہونے کی وجہ سے آسان شکار ہوتے ہیں۔ اُن کو ڈرا دھمکا کر خاموش کروانا کسی بڑے کی نسبت آسان ہوتا ہے۔ خود اعتمادی کی کمی کی وجہ سے بچوں کا بڑوں کی نسبت ردِ عمل مختلف ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یوں بھی بچوں کو بڑوں کے سامنے بات یا احتجاج کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔ اور بچوں کو لاشعوری طور پر بڑوں کی غلطیوں اور ذیادتیوں کو نظرانداز کرنے کا سبق دیا جاتا ہے۔ احترام کے زمرے میں یہ ایک قابل فخر بات ہے لیکن یہ معاشرتی رویہ بعض اوقات غلط نتائج سامنے لے آتا ہے۔ جتنی توجہ بڑوں کی عزت پر دی جاتی ہے اُس سے کہیں کم صحیح اور غلط کی تمیز پر دی جاتی ہے۔ ایسے میں بچہ اِس قابل نہیں بن پاتا کے وہ کسی بڑے کے سامنے اپنا بچاو کر سکے۔ اکثر اوقات اُسے ذیادتی کرنے والے کی نسبت اپنا آپ زیادہ قصوروار لگتا ہے۔ اور وہ خاموشی سے بدسلوکی برداشت کرتا ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے معاشرے میں بچے کی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ ماں باپ کے پاس بچوں کی باتیں سننے کا یا تو وقت ہی نہیں ہوتا یا اگر سن بھی لیں تو ان کے اور بچوں کے درمیان ذہنی فاصلہ حائل رہتا ہے۔ بچوں کی ہر بات کو بےوقوفی اور کم عقلی کی بات سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی بچہ کسی بڑے یا عزیز کے پاس جانے سے انکار بھی کرے تو والدین خاص طور پر مائیں غصے کا اظہار کرتی ہیں۔ وہ اِس حوالے سے سوچنا بھی نہیں چاہتیں کہ بچے کے ساتھ کوئی غلط حرکت بھی ہو سکتی ہے۔ باہر کی دنیا پر اعتماد اور اپنے ہی بچوں پر عدم اعتمادی اِس مسئلے کو روکنے میں حائل رہتی ہے۔
جنسی ذیادتی کے زیادہ تر واقعات میں مرد ملوث ہوتے ہیں اور یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ مرد ایسا کیوں کرتے ہیں؟
پدرسری معاشرتی نظام میں مرد کو ایک خاص نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک ایسا طاقت کا مجسمہ جو ظالم ہو سکتا ہے لیکن مظلوم نہیں۔ ایسے میں مردوں کے ساتھ بہادری، جفاکشی اور مضبوطی کی خصوصیات نتھی کر دی جاتی ہیں۔ بچپن سے ہی لڑکوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ شہ زور ہیں اور بڑھتی عمر کے ساتھ اُس طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مردانہ برتری کے نظریات میں پروان چڑھے بچے یہ سمجھتے ہیں کسی کو شکست دینا بہادری ہے۔ یہ نظام جہاں بہت سے لڑکوں کو احساس کمتری کا شکار بنا دیتا ہے وہیں بہت سے لڑکوں کو ظالم بھی بنا دیتا ہے۔ جن بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ مرد شکاری ہو سکتا ہے لیکن شکار نہیں وہ اپنے ساتھ ہونے والی ذیادتی کا کسی سے ذکر نہیں کر پاتے اور اپنے آپ کو نامکمل اور نامرد سمجھنے لگتے ہیں۔ معاشرے میں اپنی اہانت کے ڈر سے وہ ایسے واقعات کو خاموشی سے نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ایک لاعلاج مرض کے طرح یہ واقعات زہن میں سرائیت کر جاتے ہیں۔
اِسی طرح جن بچوں کو لڑکپن میں یہ باور کرادیا جاتا ہے کہ لڑنا، کسی کو ہرانا بہادری ہے وہ اپنے سامنے کسی کو مغلوب دیکھیں تو اُن کی انا کی تسکین ہوتی ہے۔ جنسی رجحان ایک فطری عمل ہے جس سے ہر انسان گزرتا ہے۔ جب یہ کیفیات دوسری ذہنی کیفیات سے ملتی ہیں تو انسان کے اجتماعی رویے عمل میں آتے ہیں۔ اپنے آپ کو ہر لحاظ سے برتر سمجھنے والے جنسی رویوں میں بھی خود کو افضل مانتے ہیں جس کے نتیجے میں کسی کو جنسی تکلیف پہنچا کر ایسے لوگوں کو سکون ملتا ہے۔ لڑکپن کے زمانے میں اگر تربیت نہ کی جائے تو بچہ اپنے اندازے سے زندگی کے اصول طے کر لیتا ہے جن کو بعد میں بدلنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ایک مکمل بچپن آگے کی زندگی کے سکون کا ضامن ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے ساتھ بچپن میں ذیادتی ہوئی ہو ایسے لوگ بھی بڑے ہو کر دوسرے بچوں سے ذیادتی کر سکتے ہیں۔ جن بچوں کے ماں باپ اُن پر توجہ نہ دیتے ہو یا تشدد کرتے ہیں وہ بھی ذہنی طور پر متشدد رویوں کے حامی ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ بڑے ہو کر تند و تیز مزاج رکھنے لگتے ہیں۔ مجرمانہ زندگی رکھنے والے لوگوں پر غور کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اُن کا بچپن عام بچوں جیسا نہیں تھا اور ان کی تربیت میں کوئی نہ کوئی کمی یا خلش رہ جاتی ہے۔ انسانی سوچ یوم تو تاعمر بنتی اور بگڑتی رہتی ہے لیکن دماغ کی نشونما پیدائش سے شروع ہو کر چھ سال کی عمر تک ۹۰ فیصد مکمل ہوجاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اِس عمر کے بچوں کو ہر قسم کے ذہنی دباو سے دور رکھا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ بچے کو مشفقانہ ماحول فراہم کیا جائے۔ اس عمر کے بچے کا ماحول اُس کی ذہنی اور جسمانی بڑھوتری پر بہت اثرانداز ہوتا ہے۔ بارہ برس کی عمر تک بچہ معاشرتی رویوں کو سیکھ جاتا ہے۔ اور یہ سیکھ اُسے اُس کے ماں باپ اور اردگرد کے لوگوں سے ملتی ہے۔ اِس عمر میں اچھی تربیت اور دوستانہ ماحول بچوں کے لئے تاعمر معاون رہتا ہے۔
اسی طرح عمر کے اس حصے میں ہونے والے حادثات کا اثر بھی دیرپا رہتا ہے۔ ماں باپ کی لڑائی، ذہنی دباو، بدسلوکی کے واقعات عام شہریوں کو بآسانی مجرم بنا سکتے ہیں۔
حقائق
سب سے پہلے تو اِس حقیقت کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ ایسے واقعات آپ کے اردگرد ہو رہے ہیں اور جس طرح آپ بیماریوں اور وباوں سے اپنے بچوں کو بچاتے ہیں اُسی طرح اِن سے بچانا بھی ضروری ہے۔ عموماً ایسی خبریں سننے کے بعد بھی ہم مطمئن ہوتے ہیں کیونکہ اُن سرخیوں میں آنے والے بچوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہوتا اور ہم اِسی وہم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہو سکتا۔ مگر حقیقتاً کسی بھی بچے کی طرح ہمارے بچے بھی اتنے ہی نشانے پر ہوتے ہیں۔
اگر اِن خبروں پر تھوڑا سا دھیان دیا جائے تو یہ سامنے آتا ہے کہ عموماً ملزم بچے کا جاننے والا ہوتا ہے۔ انجان شخص نسبتاً کم ایسے واقعات میں ملوث ہوتا ہے۔ تو سب سے پہلی حقیقت تو واضح ہے کہ ملزم عموماً جان پہچان والا شخص ہوتا ہے۔ اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بچہ انجان شخص کے قریب نہیں جاتا اور بہت ممکن ہے کہ انجان شخص کے قریب آنے پر بچہ شور مچائے یا رونے لگ جائے۔ پکڑے جانے کے خوف سے ایسا شخص بچے سے دور رہے گا گو اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ انجان شخص ایسا کر ہی نہیں سکتا۔ انجان شخص کے ہونے کے امکانات کم صحیح مگر موجود ہوتے ہیں۔
دوسری حقیقت انتہائی تلخ مگر مسلّم ہے۔ ایسے واقعات کسی بھی جگہ وقوع پذیر ہو سکتے ہیں۔ سکول، مساجد، سنسان علاقے یہاں تک کہ اپنے گھر کے اندر بھی۔ جب ملزم جان پہچان والا ہو سکتا ہے تو یقیناً وہ کسی مانوس علاقے سے ہوگا جہاں بچہ عام طور پر جاتا رہتا ہے۔ اور بچے کے اُدھر جانے پر ماں باپ مشکوک بھی نہ ہوں۔ وہ تمام مقامات جو شک کے دائرے سے باہر ہوں وہیں ملزم فکر اور خوف سے آزاد ہو کر جرم کر سکتے ہیں۔کچھ عرصے سے مساجد اور مدرسوں میں یہ واقعات نسبتاً زیادہ نظر آئے ہیں اور ہمارے معاشرے نے بہت غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اِس کو اسلام کے خلاف سازش قرار دیا۔
ہمارے یہاں ایک خاص طبقہ موجود ہے جو اِن واقعات کو سرے سے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ اُن کے مطابق مساجد میں ایسے واقعات ہونا نا ممکن ہے۔ مساجد کا ہمارے معاشرے اور ہمارے مذہب میں ایک خاص مقام ہے جو کہ قابلِ احترام ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مساجد جرائم سے مستثنی نہیں۔ اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ مساجد میں قتل بھی ہوئے اور سازشیں بھی۔ لیکن اس سے مسجد کے مقام میں کوئی فرق نہیں آیا۔ مسجد آج بھی ہمارے لئے بہت محترم ہے لیکن مسجد میں ہونے والا جرم بھی اتنا ہی قبیح ہے جتنا کہ مسجد سے باہر ہونے والا ہے۔ بلکہ ایسے جرم پر تو سزا بھی زیادہ لاگو ہونی چاہئے جو مذہبی تقدس کو پامال کرے۔ تاریخ میں بہت سے ایسے حافظِ قرآن بھی پائے جائینگے جنہوں نے ظلم و بربریت کی انتہا کر دی اور ان کا مذہب صرف حقوق اللّہ تک محدود رہا۔ ایسے میں کسی بھی ادارے سے خواہ وہ مذہبی ہو یا معاشرتی مکمل تحفظ کی امید رکھنا بےکار ہے۔ جب ہم مسجد، مدرسہ، سکول اِن تمام جگہوں پر بھی محتاط رویہ اختیار کریں تو بہت ممکن ہے کہ مجرم خوف سے اپنا ارادہ بدل لے۔
ساحل نام کا ایک فلاحی ادارہ ۱۹۹۶ سے بچوں کی حفاظت پر کام کر رہا ہے اور ان کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۸ میں بچوں کے ساتھ ذیادتی کے ۳۸۳۲ کیس اخبارات میں نشر ہوئے جو کہ سال ۲۰۱۷ سے ۱۱ فیصد زائد تھے۔ یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے اِس کے علاوہ جتنے واقعات رپورٹ نہ ہو سکے اُن کا کوئی شمار نہیں۔ ان اعداد و شمار سے ایک اور حقیقت واضح ہوئی کہ ۵۵ فیصد بچیاں اور ۴۵ فیصد بچے ان واقعات کا شکار ہوئے یعنی لڑکی اور لڑکے کے تناسب میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ ایک اور ایسی سچائی جو ہمارا معاشرہ مشکل سے قبول کرتا ہے کہ لڑکے بھی اِس ظلم کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ساحل سے ملنے والے اعداد سے ایک اور بات واضح ہوئی کہ کم از کم بھی ۱۰ بچے روزانہ بدفعلی کا شکار ہوتے ہیں۔ کروڑوں کی آبادی والے ملک میں یہ اعداد شاید کم لگیں مگر یہ اعداد و شمار تو اپنی حیثیت میں ادھورے میں کیونکہ بہت سے لوگ اب بھی لاعلم ہیں کہ اُن کے بچے بدفعلی کا شکار ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ جانتے بوجھتے بھی رپورٹ کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق ایسے واقعات رپورٹ کرنے سے اُن کی عزت میں کمی آئے گی۔
علاوہ ازیں کم از کم بھی۲۰۱۸ میں ۱۰۰ واقعات ایسے ہوئے جن میں بچوں کو ذیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ یعنی خطرہ صرف بدسلوکی کا ہی نہیں بلکہ جان سے جانے کا ہے جس کا ثبوت وہ تمام واقعات ہیں جنہوں نے اخبارات میں جگہ بنائی۔ چند ایک کیسس ایسے تھے کہ جن پر بہت بحث چلی اور پورا ملک اکٹھا ہو گیا کہ مجرموں کو سزا دی جائے۔ مگر کچھ عرصے بعد نئی سرخیوں نے جگہ بنا لی اور ان واقعات کی روک تھام پر خاطر خواہ کام نہ ہوسکا۔
موجودہ حالات اور ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ یہ مرض ہمارے معاشرے میں کس قدر سرائیت کر چکا ہے۔ اِس کو سمجھنا اور اِس کی روک تھام کی کوششیں کرنا ناگزیر ہے۔ بچوں سے بدسلوکی نہ صرف قانونی بلکہ اخلاقی اور سماجی طور پر بھی ایک جرم ہے جو بچوں کو جسمانی اور ذہنی نقصان پہنچا کر ان کی شخصیت کو مسخ کردیتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اگر اصلاح نہ کی جائے تو جو اس جرم کا شکار بنے ہوں وہ بڑے ہو کر شکاری بن جائیں اور دوسرے بچوں کو نقصان پہنچائیں۔ اِس جرم کی نوعیت کو سمجھنا اور اس کا تدراک کرنا ہمارا اخلاقی اور معاشرتی فریضہ ہے۔
مواقع کم کریں
جنسی ذیادتی کے واقعات ہمارے معاشرے کا ایسا المیہ ہیں جن سے انکار ممکن نہیں۔ ایسے میں ہمیں معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے اپنے فرائض نبھانے چاہئے۔ احتیاط علاج سے بہتر ہے اور ایسے واقعات میں احتیاط ہی علاج ہے۔ جنسی ذیادتی کے زیادہ تر واقعات ماں باپ کی غیرذمہ داری کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو والدین کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی اولاد اور اس کے گرد کے ماحول پر نظر رکھیں۔ چھوٹے بچوں کو کسی بھی رشتہ دار یا دوست کے حوالے کر کے خود کہیں چلے جانا انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ یہ جاننا چاہئے کہ آپ کی اولاد صرف آپ کی ذمہ داری ہے نہ کہ دوسروں کی۔ رشتہ داروں اور ملازموں پر اندھا اعتماد کم از کم بچے کے اولین سالوں میں بالکل نہیں کرنا چاہئے۔ یہ وہ عمر ہے جس میں بچہ بالکل بےبس اور مکمل طور پر کسی بڑے پر انحصار کرتا ہے۔ اِسی لئے اس عمر میں بچے کو کسی کے حوالے نہیں کرنا چائیے۔
جب بچہ تھوڑا بڑا ہوجائے تو ماں باپ کا یہ فرض بنتا ہے کہ اُسے سکھایا جائے کہ کسی کو اپنے ذیادہ قریب نہ آنے دے نہ ہی اپنے آپ کو چھونے کی اجازت دے۔ بچوں کو سادہ الفاظ میں یہ سکھایا جا سکتا ہے کہ جن جگہوں کو کپڑے سے ڈھکا جاتا ہے وہاں کسی کا بھی ہاتھ لگانا منع ہے۔ نہ صرف بچوں کو بلکہ گھر کے دیگر افراد کو بھی سمجھانا چاہئے کہ بچوں کے ساتھ ایک خاص حد میں رہیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں۔ عموماً یہ وہ باتیں ہیں جو لحاظ اور شرم کے چکر میں اَن کہی رہ جاتی ہیں لیکن موجودہ حالات کے پیشِ نظر اِن کا کہا جانا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ بچہ خود سے منع نہیں کرتا تو والدین یا بڑے بہن بھائی بچے سے غیر ضروری پیار اور ذیادہ قریب آنے سے دوسروں کو منع کر سکتے ہیں۔ اِس عمر کے بچوں کو کھانے پینے یا کھیلنے کی اشیا کا لالچ دے کر بہلایا پھسلایا جاتا ہے۔ ایسے میں بڑوں کا کام بنتا ہے کہ بچے کو سکھائیں کہ دوسروں سے کسی قسم کے تحفے نہ لیں اور اگر کوئی رشتہ دار دے تو ماں باپ کو بتائیں۔ ماوں کو بھی چاہئے کہ بہت ذیادہ تحفے تحائف دینے والے یا بچے سے ذیادہ بے تکلف ہونے والوں پر نظر رکھیں۔
سکول جانے والے بچے کیونکہ باہر کی دنیا سے روشناس ہوتے ہیں تو ان کے دوستوں اور روزمرہ کے معمولات پر نظر رکھنی چاہئے۔ اپنے سے بڑی عمر کے لڑکوں سے دوستی کا کوئی جواز نہیں بنتا نا ہی کسی دکاندار یا بڑے مرد سے دوستی یا بےتکلفی ہونی چاہئے۔ یہاں بےجا سختی نہیں بلکہ نظر رکھنے کی ترغیب دی جارہی ہے کیونکہ بےجا سختی سے بھی بچے بدظن ہو جاتے ہیں اور اکثر جھوٹ بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ مشفقانہ انداز میں بچوں کو صحیح اور غلط کا فرق سمجھانا چاہئے۔ اور اُن کے دوستوں کے گھروں کا پتہ رکھنا چاہئے۔ اگر بچہ سکول کے علاوہ کہیں باہر کھیلنے جاتا ہے تو گاہے بگاہے کسی قابل اعتاد شخص کے ذریعے اس پر نظر رکھیں۔
آج کے دور میں ماں باپ چھوٹے بچوں کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کے سہولیات دے کر خود تمام ذمہ داریوں سے آزاد ہوجاتے ہیں جب کہ انٹرنیٹ بآسانی بچے کو گمراہ کن معلومات پہنچا سکتا ہے۔ اول تو چھوٹے بچے کے ہاتھ میں فون دینے کے بجائے اس سے باتیں کریں، کھلونے لے کر دیں، جسمانی کھیلوں میں مصروف کریں لیکن اگر دوسروں کی دیکھا دیکھی انٹرنیٹ سے ہی روشناس کروانا ہے تو خود بھی استعمال کرنا سیکھیں اور ایسے اقدامات اٹھائیں جن سے بچہ انٹرنیٹ کے غلط اثرات سے بچا رہے۔ اکیلے میں فون یا انٹرنیٹ نہ استعمال کرنے دیں۔ اپنی نظروں کے سامنے رکھیں۔ دوسرا پیرنٹل کنٹرول (Parental Control) کے ذریعے نقصان دہ مواد کو بچوں سے دور رکھیں۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس سے خود بخود انٹرنیٹ پر آنے والا مواد بچے کی عمر کے مطابق ہوگا اور فحش مواد بچوں کے سامنے نہیں آئے گا۔
بات کریں
انسانوں اور جانوروں کی درمیان فرق اگر ہے تو تربیت کا۔ اچھی تربیت انسان کو معاشرے میں رہنے کی تمیز سکھاتی ہے۔ اور تربیت کے لئے بہت ضروری ہے کہ آپس میں بات چیت کی جائے۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر ماں باپ اور بچوں کا رشتہ ضرورت کا ہوتا ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں باپ ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں اور بڑا ہونے پر بچہ ماں باپ کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ ایسے میں آپسی تعلقات کا انحصار ضرورتوں پر یا معاشرے میں رائج روایات پر ہوتا ہے۔ مسلمان بچے کو اُس کے ماں باپ مذہبی تعلیم دینے ہیں ، اخلاقیات کا درس دیتے ہیں لیکن بچے کی انفرادی شخصیت اور سوچ پر کوئی گفتگو نہیں کی جاتی۔ روایات اور اخلاقیات کے نام پر بہت سے موضوعات پر بحث ممنوع سمجھی جاتی ہے۔ ایسی ممنوعہ باتوں میں سے ایک معاشرے کے تلخ حقائق ہیں جن پر بات کر کے ہی ان کا تدراک کیا جا سکتا ہے۔
ماں باپ حفاظت کے نام پر بچوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ کسی اجنبی سے بات نہ کی جائے۔ کوئی انجان اپنے پاس بلائے تو وہاں سے بھاگ جائیں۔ لیکن یہ نہیں سکھایا جاتا کہ کوئی واقف کار اگر زیادہ قریب ہونے کے کوشش کرے تو کیا کیا جائے۔ روز خبروں میں جنسی تشدد کے واقعات پڑھ کر بھی والدین یہ اندازہ نہیں کر پاتے کہ اگر دوسرے بچے شکار ہو سکتے ہیں تو ان کا اپنا بچہ بھی ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بچے سے باپ کی جائے اسے سکھایا جائے کہ کوئی شخص خواہ وہ کوئی قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو بچے کو غیرضروری ہاتھ نہیں لگا سکتا۔
جہاں بچوں کو حفاظت کی دعائیں یاد کروائیں جاتی ہیں وہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اپنی حفاظت کیسے کی جاتی ہے۔ سب سے پہلے تو اپنے اور اپنے بچوں کے درمیان دوستی کی فضا قائم کریں جس سے بچہ بےخطر اور کھُل کر آپ سے ہر بات کر سکے۔ بلاوجہ ڈانٹنا یا غصہ کرنا بچے کو بدظن کر سکتا ہے اور بہت ممکن ہے کہ گھر میں اگر کوئی دوست نہ ملے تو بچہ باہر دوست ڈھونڈے۔ والدین اور بچوں کے درمیان احترام کا رشتہ ایک خلا نہ بننے پائے بلکہ دوستانہ انداز میں ہی بچے کو احترام سکھایا جائے۔ جب بچے کو یقین ہوگا کہ اس کی بات سنی جاتی ہے تو وہ پورے اعتماد کے ساتھ ماں باپ سے ہر بات کیا کرے گا۔ بچوں کو ان کی جسمانی ضروریات کی آگاہی دیتے ہوئے یہ سکھانا چاہئے کہ ان کے جسم کے کون کون سے حصوں کو چھونا یا دیکھنا منع ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ باور کروایا جائے کہ اگر کوئی ایسا کرے تو اس کو منع کریں اور یہ بات فوراً ماں باپ کو بتائی جائے۔ چھوٹی عمر کے بچے ایسے واقعات پر خود کو قصوروار ٹھہراتے ہیں اور شرمندہ ہوتے ہوئے ایسی باتیں چھپا جاتے ہیں۔ بعض اوقات ماں باپ کے ڈر سے وہ بول نہیں پاتے اور نقصان اٹھاتے ہیں۔
اکثر اوقات ماں باپ شرم کے مارے بچوں کو ایسی باتیں نہیں سمجھاتے یا مناسب الفاظ ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں۔ ایسے میں انہیں چاہئے کہ کہانیوں کے ذریعے بچے کو جسمانی حفاظت کی ترغیب دیں۔ اگر آپ بچوں کو انٹرنیٹ سے روشناس کروانے کے حق میں ہیں تو بہت سے ایسے کارٹون مل جائیں گے جن میں بچوں کو جسمانی حفاظت سکھائی جاتی ہے۔ ان طریقوں سے آپ کسی بھی شرمندگی کے بغیر بچے کو سکھا سکتے ہیں کہ اپنی حفاظت کیسے کی جائے۔
تبدیلیوں پر غور کریں
بہت سے بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو فطرتاً خاموش طبع ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں جن بچوں کو گھر میں دوستانہ ماحول نہیں ملتا وہ بھی اپنے مسائل گھر نہیں بتاتے۔ ایسے میں والدین کو چاہئے کہ بچے میں آنے والی تبدیلیوں کو نظر انداز نہ کریں۔ اگر بچے کے مزاج میں غیر معمولی تبدیلی آۓ تو یہ خطرے کی علامت ہو سکتی ہے۔ اچانک سے بہت خوفزدہ ہونا، پریشان نظر آنا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرنا اور نیند کا دورانیہ تبدیل ہونا ایسی چند علامتیں ہیں۔ یقیناً ان کا یہ مطلب نہیں کہ لازماً ذیادتی کا واقعہ رونما ہوا ہے لیکن ان کا یہ مطلب ضرور ہوتا ہے کہ بچہ کسی بڑی تبدیلی یا حادثے سے گزرا ہے۔
اگر بچہ کسی خاص جگہ یا خاص شخص سے اجتناب کرنا شروع کر دے تو ماں باپ کو تفتیش کرنی چاہئے۔ اکثر بچے سکول، مدرسے یا کسی رشتہ دار کے گھر جانے سے منع کرتے ہیں بلکہ ضد پر اتر آتے ہیں اور ڈرے سہمے رہتے ہیں۔ ایسے میں والدین یا کسی بڑے کو چاہئے کہ بچے سے نرمی سے وجہ پوچھے نہ کہ بچے کو زبردستی وہاں بھیجا جائے۔ یہاں ایک اور امر کا دھیان رکھنا چاہئے کہ لازمی نہیں باہر کے کے افراد ہی خطرناک ہوں۔ گھر کے فرد بھی ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں۔ اگر بچہ گھر کے فرد کے پاس جانے سے ڈرے یا ملازموں سے دور بھاگے تو اسے مجبور کرنے کے بجائے پیار سے بات کی جائے۔
اگر بچہ باہر سے آئے اور کپڑے پھٹے ہوں یا خون کے نشان ہوں تو یہ لازمی نہیں کہ کسی لڑائی کا ہی نتیجہ ہوں۔ بچے کو آتے ہی ڈانٹنے یا چیخنے چلانے کے بجائے شفقت سے پیش آئیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہر بار ذیادتی کی کوئی علامت سامنے آنا ضروری نہیں۔ بہت دفعہ بچے خاموشی سے بغیر کسی واضح تبدیلی کے بھی شکار بن جاتے ہیں۔ لیکن اگر ایسی علامات نظر آئیں تو نظرانداز نہیں کرنی چاہئے۔
ذمہ داری کا مظاہرہ کریں
اگر خدانخواستہ آپ کا یا آپ کے کسی جاننے والے کا بچہ جنسی ذیادتی کا شکار ہو جائے تو ایسے میں کیا کرنا چاہئے؟
واضح رہے کہ ہمارے معاشرے میں جو ایک تاثر دیا جاتا ہے کہ جس پر ظلم ہوا ہو ضرور اس کی بھی کوئی نہ کوئی غلطی ہوگی قابل مذمت ہے۔ لڑکیوں کے ساتھ ذیادتی کے واقعات پر ان کے کپڑوں اور کردار کو الزام دینے والے افراد کے پاس یقیناً بچوں سے ذیادتی کی کوئی منطق نہیں ہوگی۔ اور اگر ہو بھی تو یہ ایک انتہائی گھٹیا مذاق ہے جو ہم اپنے معاشرے کے مظلوموں کے ساتھ کرتے ہیں۔ مظلوم پر الزام تراشی کرنا ظالم کو شہہ دینے کے برابر ہے۔ والدین اور دیگر بڑوں کو سمجھنا چاہئے کہ قصور جرم کرنے والے کا ہوتا ہے جرم کا شکار ہونے والے کا نہیں۔
اگر آپ کا کوئی جاننے والا یا واقف بچہ ایسے کسی واقعے کا شکار ہوتا ہے تو آپ کا پہلا ردِ عمل چیخنا چلانا یا آہ و بکا کرنا نہ ہو ورنہ بچہ ڈر کے آپ سے بات نہیں کر پائے گا۔ بہت سے والدین ایسی باتوں کو ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں حالانکہ ان کے سامنے روز خبروں میں ایسے بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں۔ اور اگر بالفرض مان بھی جائیں تو ان کا ردعمل شدید ہوتا ہے جس کا بچے پر غلط اثر پڑتا ہے۔ اس قسم کے حادثات پر دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
سب سے پہلے بچے کو سمجھائیں کہ اس سب میں اس کی کوئی غلطی نہیں اور اس نے آپ کو بتا کر بہت بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس طرح کی مثبت باتوں سے بچے کی شرمندگی اور خوف کم ہوگا اور وہ بہتر طریقے سے صورتحال سمجھا سکے گا۔ اچھی طرح صورتحال سمجھنے کے بعد اگلا قدم اٹھایا جائے۔ اگر تو بچے کے ساتھ چھیڑخانی کی گئی ہے تو پولیس میں رپورٹ لکھوائی جائے لیکن اگر ذیادتی ہوئی ہے تو سب سے پہلے میڈیکل ٹیسٹ کروانا چاہیے۔ اس سے جسمانی نقصان کا اندازہ بھی ہوجائے گا اور ضابطے کی کاروائی بھی آسان ہوگی۔ یاد رکھیں ایسی صورتحال میں خاموش رہنا یا برداشت کرنا بالکل بھی مناسب نہیں۔ خاموش رہنے سے بچے کی ساری زندگی تباہ ہو سکتی ہے۔ نیز بہت ذیادہ شور مچانے میں بھی بچے کا نقصان ہے کیونکہ ایسی صورتحال میں بچہ شرمندگی کا شکار ہوجاتا ہے اور لوگوں میں جا کر اپنی اہانت محسوس کرتا ہے۔
یہاں پولیس کو بتانا اس لئے ضروری ہے کہ اول تو بچوں سے جنسی بدسلوکی اور چھیڑچھاڑ قانوناً جرم ہے۔ دوسرا ان واقعات کو نظرانداز کرنے یا خاموش رہنے سے ظالم کو شہ ملتی ہے اور اس کے لئے یہ جرم دہرانا آسان بن جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ذیادتی کے کیس میں عموماً مظلوم کو خاموش رہنے کے تلقین کی جاتی ہے تاکہ معاشرے میں عزت قائم رہے لیکن معاشرتی عزت کے اس کھیل میں بچوں کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے اور درندہ صفت لوگوں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ ذیادتی نہ صرف قانونی طور پہ بلکہ اخلاقی اور مذہبی طور پر بھی جرم ہے اور اس جرم کی نشاندہی کرنا ہر شہری کا فرض ہے۔
پاکستان کے قانون کے مطابق بچوں کے ساتھ ذیادتی کرنے کی قانونی سزا بیس سال قید سے لے کر عمر قید یا سزائے موت ہے۔ (پاکستان پینل کوڈ 376)
بچوں کو ہراساں کرنے یا فحش مواد دکھانے کی سزا کی سزا ایک سے سات سال قید اور/یا ایک سے پانچ لاکھ جرمانہ ہے۔ (پاکستان پینل کوڈ 377B /292A)
بچوں کی نا زیبا تصاویر یا ویڈیو بنانے کی سزا بھی سات سال تک قید اور پانچ لاکھ تک جرمانہ ہے۔ (پاکستان پینل کوڈ 292C)
ان تمام واقعات میں ملوث افراد کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کیا جا سکتا ہے اور یہ جرائم ناقابل ضمانت ہیں۔
معاشرتی رویوں کو بدلیں
بحیثیت معاشرہ ہمیں اپنے رویوں میں مثبت اور اہم تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس اصول اور قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد ہمارے اپنے رویوں کی وجہ سے نہیں ہو پاتا۔ ہم نے اپنے گرد ایک عزت اور غیرت کے نام کی چاردیواری کھڑی کر رکھی ہے اور ہم دوسروں کو بھی نام نہاد عزت کے ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔ ذیادتی کرنے والے افراد سے ذیادہ ہم ذیادتی کا شکار ہونے والوں کو لعن طعن کرتے نظر آتے ہیں۔ مظلوم افراد کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کے ساتھ ہونے والے ظلم کو ڈرامائی انداز میں جگہ جگہ پیش کر کے ان کی تذلیل کا باعث بنتے ہیں۔ مجرم سے ذیادہ نقصان دہ معاشرے کے وہ افراد ثابت ہوتے ہیں جو اپنے الفاظ اور نظروں کے تیر سے دوسروں کا جینا حرام کردیتے ہیں۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیے! کیا آپ ذیادتی کا شکار ہونے والے بچوں سے اپنے بچوں کو دور نہیں رکھیں گے؟ کیا ایسے بچوں سے میل جول آپ کی نام نہاد عزت اور رتبے میں فرق نہیں لائے گا؟
یقیناً ہم نہ صرف خود کو بلکہ اپنے تمام تر جاننے والوں کو بھی ایسے آفت رسیدہ لوگوں اور بچوں سے بچائیں گے۔ کیونکہ ہم اپنی تنگ نظری میں اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ کسی کے زخم پہ مرہم لگانے کے بجائے ہم ان سے دور ہوجانا ذیادہ آسان سمجھتے ہیں۔ ایسے میں نہ چاہتے ہوئے بھی ہم مجرموں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ غلط ہوتے ہوئے بھی ہم سے ذیادہ طاقتور اور مضبوط ہیں۔ اور وہ یہ جان لیتے ہیں کہ ان کے خلاف مظلوم کا ساتھ دینے کے بجائے ہم اپنی عزت اور نیک نامی بچانے کے چکر میں بھاگ کھڑے ہونگے۔
اگر ایک لمحے کے لئے بھی ہم دوسروں کی جگہ خود کو کھڑا کے کے ان کی بے بسی محسوس کر جائیں تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ اگر ہم مظلوم کا صحیح معنوں میں ساتھ دیں تو ہم اس کی ذات کے کٹے پھٹے ٹکڑوں کو دوبارہ جوڑ کر اسے معاشرے کا باعزت شہری بنا پائیں۔ ممکن ہے کہ ہمارا اجتماعی عمل انفرادی طور پر ہر شخص کی سلامتی کا باعث بن جائے۔ سوچئے، غور کریں اور اگر مناسب لگے تو کوشش کریں کہ آپ کا کوئی عمل ایسا بیج بن جائے جو آگے چل کر ایک سایہ دار درخت بن جائے اور آنے والی نسلیں اس کی چھاوں میں پروان چڑھیں