2016میں کراچی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر صاحب پر ایک خاتون ٹیچر کو بلیک میل کرنے کا الزام لگایا گیا اور ان کیخلاف ایف اٗئی آر کاٹی گئی۔پروفیسر نے کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تھی اور وہ یہیں پر بطور پروفیسر سائیکالوجی کا مضمون پڑھا رہے تھے۔خاتون ٹیچر بھی کراچی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتی تھیں۔ ملزم اور شکایت کنندہ دونوں شادی شدہ تھے۔ خاتون استاد کا الزام تھا کہ پروفیسر نے ان کی یونیورسٹی کی ویب سائٹ سے ان کی تصویریں اور ویڈیوز لے کر ان پر فحش تصویریں اور پورن ویڈیوز ایڈجسٹ کیں اور انہیں ان کے نام سے بنائے گئے فیس بک پیچ پر اپ لوڈ کیا۔پروفیسر نے یہ فحش تصویریں اور ویڈیوز خاتون ٹیچر کی یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر بھی پوسٹ کر دیں۔خاتون استاد کا کہنا تھا کہ پروفیسر نے انہیں بدنام کیا۔ان کی شہرت اور عزت کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان کیخلاف کارروائی کی جائے۔
پروفیسر صاحب کیخلاف درخواست آئی تو ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل (این آر تھری سی) کراچی نے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے سیکشن 21 اور پاکستان پینل کوڈ کے سیکشنز 419،500کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔اس ایف آئی آر کا نمبر25۔۔۔۔2016 تھا۔پروفیسر صاحب کے خلاف مقدمہ چلا۔جرم ثابت ہوا اور انہیں سزا سنا دی گئی۔ پروفیسر نے ضمانت کیلئے اپیل دائر کی لیکن سیشن جج ایسٹ کراچی نے یہ درخواست مسترد کردی اور سزا برقرار رکھی۔
پروفیسر نے ضمانت کیلئے سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔لیکن ان کی درخواست یہاں سے بھی مسترد کر دی گئی اور انہیں جیل میں ہی رکھا گیا۔ یہ کیس کیا تھا؟ معاملہ کیسے شروع ہوا؟ خاتون ٹیچر کے کیا الزامات تھے؟ پروفیسر صاحب کا اپنے دفاع میں کیا موقف تھا؟ پروفیسر صاحب قابو کس طرح آئے؟ تفصیل کچھ یوں ہے۔
الزامات کے جواب میں پروفیسر صاحب کا موقف تھا کہ وہ ایک پڑھے لکھے بندے ہیں۔انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی اور وہ اب یہیں پر پڑھا بھی رہے ہیں۔ان پر لگائے گئے الزامات غلط ہیں۔انہیں اس مقدمے میں جھوٹا پھنسایا جا رہا ہے۔ان کا اس جرم سے کوئی تعلق نہیں۔ پروفیسر صاحب سے جب پوچھا گیا کہ ایک دوسری یونیورسٹی کی خاتون ٹیچر آپ کو ہی کیوں پھنسانا چاہتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ خاتون ان سے محبت کرتی تھی۔وہ ان سے شادی کرنا چاہتی تھی۔انہوں نے انکار کیا تو خاتون نے یہ کیس بنوا دیا۔ پروفیسر صاحب نے اقرار کیا کہ انہوں نے واقعی ان خاتون کے نام سے ایک فیس بک آئی ڈی بنائی تھی۔ لیکن اس پر فحش مواد انہوں نے اپلوڈ نہیں کیا بلکہ یہ مواد خود خاتون نے اپلوڈ کیا۔بلکہ الٹا اس خاتون نے انہیں ان کی یونیورسٹی میں بدنام کرایا۔ پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ:
1۔ان سے جو لیپ ٹاپ وغیرہ قبضے میں لیا گیا اسے فارنزک رپورٹ کیلئے بھی نہیں بھجوایا گیا اور نہ ہی مقدمے میں کسی فارنزک ایکسپرٹ کو گواہ بنایا گیا۔
2۔مبینہ جرم مبینہ طور پر مارچ 2016 میں کیا گیا۔اس وقت الیکٹرانک ٹرانزیکشن آرڈیننس 2002 نافذ العمل تھا۔ الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (نیا قانون) ابھی نافذ نہیں ہوا تھا۔یہ قانون 19 اگست 2016 سے نافذ ہوا۔لہذا انہیں اس قانون کے سیکشن 21 کے تحت کیسے سزا دی جاسکتی ہے جس قانون کا کہ تب وجود ہی نہیں تھا۔یہ قانون ری ٹراسپیکٹو ایفیکٹ نہیں رکھتا۔
3۔پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ اگر فرض کر بھی لیا جائے کہ جرم پر الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے تو بھی ان پر اس قانون کی دفعہ 21 نہیں بلکہ دفعہ 20 لگتی ہے۔جس کی سزا صرف 3سال ہے۔اور یہ قابل ضمانت جرم ہے۔لہذا ان کی ضمانت بنتی ہے۔
4۔اگر ان پر دفعہ 21 کا بھی اطلاق کیا جائے تو اس کی سزا 5سال تک قید ہے۔یہ سزا پروہبٹری کلاز میں فال نہیں کرتی۔لہذا اس صورت میں بھی ان کی رہائی بنتی ہے۔ وہ بے گناہ ہیں انہیں رہا کیا جائے۔
پروفیسر صاحب کے دلائل کے جواب میں خاتون کا کہنا تھا کہ وہ شادی شدہ ہیں اورایک اچھی زندگی گزار رہی ہیں۔خاوند اور بچوں کے ہوتے ہوئے وہ کیسے کسی کو پروپوز کر سکتی ہیں۔دوسری بات یہ کہ اگر اسے پروفیسر صاحب سے کوئی دشمنی ہوتی تو وہ انہیں نامزد کرکے ایف آٗئی آر درج کراتی۔اس نے تو نامعلوم شخص کیخلاف ایف آئی درج کرائی تھی۔تفتیش اور تحقیقات میں کھُرا پروفیسر صاحب تک پہنچا۔خاتون کے وکیل کا کہنا تھا کہ پروفیسر صاحب پر نئے قانون کا ہی اطلاق ہوتا ہے۔کیونکہ جرم ابھی جاری تھا۔ویڈیوز اور تصاویر وائرل تھیں۔ تو موجودہ قانون کے تحت ہی کیس چلایا جائے گا۔ مواد پروفیسر صاحب کے لیپ ٹاپ سے ہی برآمد ہوا۔ انہوں نے خاتون کی عزت کو داغدار کیا۔لہذا وہ کسی صورت ضمانت کے مستحق نہیں ہیں۔
جج صاحب نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ خاتون کی درخواست پر ایف آئی اے نے متعلقہ فیس بک پیج کا آئی پی (انٹرنیٹ پروٹوکول) ایڈریس جاننے کیلئے فیس بک حکام کو لیٹر لکھا۔اس لیٹر کے جواب میں اس آئی پی کے لاگز کی جو تفصیلات فراہم کی گئیں ان کا تعلق M/s. Qubee سے تھا۔Ms. Qubee سے سبسکرائبر کی تفصیلات مانگی گئیں تو وہاں سے جو ایڈریس موصول ہوا وہ پروفیسر صاحب کے گھر کا تھا۔پروفیسر صاحب کے گھر چھاپہ مارا گیا اور انکے گھر سے جو کمپیوٹر ملا،یہ مواد اس میں موجود تھا۔ یہ فیس بک اسی سسٹم سے آپریٹ ہوتا تھا۔ جس وقت پروفیسر صاحب کو گرفتار کیا گیا یہ مواد ابھی بھی فیس بک وغٰیرہ پر موجود تھا،چاہے انہوں نے ماضی میں ہی اپلوڈ کیا،لیکن یہ جرم ابھی جاری تھا۔لہذا یہ دلیل قابل قبول نہیں کہ ان پر نئے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔اور یہ جرم اگرچہ قابل ضمانت ہے،پروہبٹری کلاز میں فال نہیں کرتا۔ہم انہیں ضمانت دینے سے انکار کرتے ہیں۔جج صاحب کا کہنا تھا کہ اس طرح کے جرائم اور خاص طور پر ایسے لوگوں سے اس طرح کے جرائم سرزد ہونا معاشرے میں بڑے بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ اس طرح کے فعل اور الزامات پر خاتون ڈپریشن کا شکار ہوکر خود کشی کر سکتی تھی۔ اس کی خاندانی زندگی تباہ ہوسکتی تھی۔ جس جس شخص نے وہ تصویریں یا ویڈیوز دیکھیں،خاتون جا کر کس کس کو صفائیاں دیتی رہے گی کہ یہ سب جعلی تھی۔ اس پر بدنامی کا ایک بڑا دھبہ لگا۔ ملزم پروفیسر کی درخواست ضمانت مسترد کی جاتی ہے۔ وہ جیل میں ہی رہیں گے۔
یہ فیصلہ سندھ ہائیکورٹ نے 23 فروری 2017 کو سنایا۔