مفتی عزیز الرحمان کا واقعہ کیا محض جنسی گھٹن کا نتیجہ ہے؟ بہ ظاہر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ مدارس کا مکمل مردانہ ماحول ، عورت کے وجود کو بنیادی برائی بنا کر پیش کرتا ہے اور عورت کے خیال سے دست بردار ہونے کو لازم قرار دیتا ہے(اس پر ایک اچھا کالم، آج ہی فرنود عالم نے لکھا ہے)۔یہ تو فرائیڈ نے کہیں سو سال پہلے بتا دیا تھا کہ گناہ کا خیال ،تکرارکے ساتھ ذہنوں میں راسخ کرنے کا نتیجہ ، گناہ کے ارتکاب کی صورت میں بر آمد ہوتا ہے۔ جس شے کو آپ گناہ قرار دے کر،اس سے باز رہنے کی مسلسل تلقین کرتے ہیں، وہ خوف کے علاوہ ،تجسس کو بھی بیدا ر کرتی ہے۔سہما ہوا متجسس شخص کتنا چالاک اور کتنا خطرناک ہوتا ہے، یہ ہم روزانہ دیکھ رہے ہیں۔ہماری داستانیں بتاتی ہیں کہ لوگ اس کھونٹ کی طرف ندیدیوں کی مانند دوڑتے ہیں جس کی طرف جانے سے منع کیا جائے۔جس پنڈورا صندوق کو کھولنے سے باز رہنے کی تلقین کی جائے ، اس کا ڈھکن اٹھادینے کی تڑپ پیدا ہوجاتی ہے،نتائج کی پروا کیے بغیر۔ اس لیے جنس و کفر سے متعلق بیانیے جتنے زوردار اور تکرار آمیز ہوتے ہیں، ان کی طرف لوگوں کی لاشعوری رغبت کا امکان اتنا ہی قوی ہوتا ہے۔آدمی کی مٹی میں متابعت سے زیادہ ، نافرمانی کا عنصروافر ہے۔ہماری اخلاقی تعلیمات میں ،ان کے نفسیاتی مضمرات کو شاید ہی لحاظ میں رکھا جاتاہو۔
جنسی گھٹن یا کوئی دوسری گھٹن اپنا اظہار ، معمول کے طریقوں سے یکسر انحراف کرکے ، کج مج، بے ڈھنگے اور بدترین طریقوں کی مدد سے کرتی ہیں ۔ ان طریقوں کو سماج اور ثقافت سے سیکھا گیا نہیں ہوتا؛ ایک شدید جبلی دباؤ کے تحت ایجاد کیا گیاہوتا ہے۔البتہ بعد میں ایک پیٹرن بن جاتا ہے۔جتنے جنسی انحرافات ہیں، ان کی حیثیت بے ساختہ ایجاد کیے گئے رویوں اور اعمال کی ہے اور ان کی مضحکہ خیز اور کئی بار دہشت انگیز نسبت مخالف یا ہم جنس وجود سے ہوتی ہے۔ مثلاً سادیت یا مساکیت کو لیجیے جن میں اذیت دینے اور سہنے کے انوکھے طریقے وضع کیے جاتے ہیں۔ سرعام جنسی اعضاکی نمائش ہو، جنس مخالف کے انڈر گارمنٹس ہوں یا ان کے رنگین جوتوں کو سینے سے لگا کر رکھنے سےعبارت جنسی انحرافات ہوں، آپ پران کی "اورجنلٹی" کے ہوشربا انکشافات ہوں گے۔ جنسی انحرافات میں ، علامت شامل ہوتی ہے ۔ اظہارکی گھٹن بھی خود کو طرح طرح کے علامتی پیرایوں میں ظاہر کرتی ہے، جن میں چیخنا ، خاموشی ، بیگانگی،جنون سے لے کر یکسر غیر روایتی، گروٹیسک اور علامتی آرٹ کی تخلیق بھی شامل ہے۔
میر اخیال ہے کہ مفتی عزیز الرحمان کا واقعہ (اور ان جیسے بے شمار دیگر واقعات ) جنسی گھٹن ، ہوس اور ایک بنیادی بے معنویت سے پیدا ہونے والا انحراف ہے۔ہوسکتا ہے ،کچھ لوگ کہیں کہ یہ باہمی رضامندی سے انجام دیاجانے والا جنسی فعل ہے ۔لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ جس عمل کا آپ دفاع نہیں کرسکتے ، وہ فعل درست نہیں ہوسکتا۔ دوسرے آپ کے دفاع کو قبول نہ کریں ،اس سے فعل انجام دینے والےکو فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ آدمی کے اپنے (چاہیں تو اسے ضمیر کہہ لیں) اطمینان کے آگے بڑی سے بڑی مقتدرہ کی کوئی حیثیت نہیں۔اگر آپ خود کو درست سمجھتے ہیں تو پھرآپ کو اخلا قی جرآت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
جنس کی ہوس ، دولت ، طاقت اور جاہ کی ہوس کی مانند قوی اور انتہائی غلبہ آفریں ہے۔لامتناہی اضافے اور تنوع کی بےباکانہ آرزو سب میں مشترک ہے۔جس طرح دولت کی ہوس کی کوئی آخری حد نہیں، اسی طرح جنسی لذت کی ہوس کی بھی کوئی آخری حد نہیں۔حق یہ ہے کہ ہوس کی حد یا تو قبر کا کنارہ ہے یا مشتعل انسانی تخیل کی آخری حد۔قابل غور بات یہ ہے کہ کیا جنسی گھٹن ہی میں جنسی ہوس شامل ہے یایہ الگ ہے؟میرا خیال ہے کہ دونوں میں بنیادی فرق ہے۔یہ الگ بات ہے کہ یہ ایک ہی شخص میں بہ یک وقت موجود ہوسکتی ہیں،جیسا کہ مفتی صاحب کے واقعے میں نظر آتی ہیں۔ گھٹن بہ یک وقت حیاتیاتی اور نفسیاتی چیز ہے ، جب کہ ہوس ذہنی ہے۔ جنسی ،حیاتیاتی ضرورت پوری نہ ہو تو گھٹن پیدا ہوتی ہے ، چوں کہ اسے سہارنا مشکل ہوتا ہے، اس لیے یہ اپنے اظہار کا کوئی بالواسطہ ،فوری، سریع طریقہ اختیار یا وضع کرلیتی ہے۔ یہ طریقہ انتہائی بھیانک اور دوسروں کے لیے مصائب سے لبریز ہوسکتا ہے۔ کسی بچے ، بچی ، یہاں تک کہ جانوروں اور محرمات سے جبری جنسی تعلق کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ان سب کا نتیجہ متاثرہ وجود کا ناقابل برداشت مصائب و الم میں مبتلا ہونا ہے۔ جب کہ ہوس ، اپنی اصل میں ذہنی ہونے کے سبب، جنسی لذت کی نو بہ نو صورتوں کی جویا ہوتی ہے۔کسی نے کہا تھا کہ آدمی کا دماغ سب سے بڑا جنسی عضو ہے۔ ہوس پرستی میں انسانی دماغ ، اعلیٰ ترین خیالا ت، اپنی یا دوسروں کی نجات کے تصورات کی تخلیق کا ذریعہ نہیں رہ جاتا، جنسی لذت کے طریقوں اورجنسی معروض کی جستجو کی کارگاہ بن کر رہ جاتا ہے اور ان سب سے متعلق علامتوں ، تمثیلوں ، کہاوتوں ، لطیفوں ،قصوں سے بھر جاتا ہے۔غالب نے کہا تھا:" ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا"۔احمد فراز نے کہا تھا:
پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے
پھرتو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں
مفتی عزیز الرحمان اورا س جیسے واقعات میں جنسی گھٹن اور ہوس کے علاوہ ، ایک بنیادی بے معنویت بھی شامل ہوتی ہے۔مدارس میں یہ واقعات اس کثرت سے ہورہے ہیں کہ ان پر اہل مدارس کے ساتھ ساتھ سماج کے سب لوگوں کو سنجیدگی اور دیانت داری سے غور کرنا چاہیے؛ گروہی مفادات سے بلند ہوکر سوچنا چاہیے اور نشان خاطر رہے کہ گروہی مفادات، اپنی مضرت میں ہو س سے کم نہیں ہیں ۔ پہلے اسباب سمجھیے ، پھر علاج تجو یز کیجیے اور سزا بھی۔ یہ سب کام سب کے مل کر کرنے کے ہیں۔یہاں جس بنیادی بے معنویت کا ذکر کیا جارہا ہے،ا س کاکوئی تعلق وجودیت کے فلسفے سے نہیں ہے۔ یہ ایک سیدھی سادی سچائی ہے ، جس سے ہم سب نظریں چراتے ہیں اور جس کا انکار کرتے ہیں۔ ہم جس شعبے اور پیشے سے وابستہ ہوتے ہیں— خواہ یہ طب ہو،وکالت ہو، تعلیم ہو ، ادب ہو،سیاست ہو ،صحافت ہو یا مذہبی تدریس ہو —اگر اس سے ہماری شخصیت ہم آہنگ نہیں اور اس کی نشوونما کا اہتمام نہیں ہورہا،الٹا ہم خو د کو بنجر ہوتا محسوس کرتے ہیں ؛ ہمارے داخلی وجود اور ہماری سماجی شخصیت میں فاصلہ بڑھ رہا ہے، ہمیں اپنے پیشے یا شعبے کے مطالبات کو پورا کرتے ہوئے دلی خوشی نہیں ہورہی (جو معاشی تحفظ کے احساس سے یکسر مختلف ہے)، ایک جبر کی مسلسل کیفیت ہم پر یلغار کیے رکھتی ہے، ایک وحشت سی ہم پر سوار رہتی ہے تو ہم ایک بنیادی بے معنویت کی زدپر لازماً آئیں گے ۔کسی نشے یا جنس کی طرف ہمارا جھکا ؤ ہوگا ۔نشے ، جنس اور بے معنویت میں گہرا تعلق ہے۔ اس میں تشدد کا بھی اضافہ کر لیجیے۔