اگر پاکستان میں جنسی بھوک میں کمی لانی ہے تو آپ گھٹن کے ماحول ہو آزاد کر دیں۔کر لیں گے کوءی دس بیس لوگ اپنی مرضی سے سیکس جہنیں کرنا ہے یہ سب مگر لاکھوں عورتوں کو دم گھٹی دیواروں سے آزادی ملے گی ، کروروں مردوں کو پہلی بار بتہ چلے گا زندگی میں محبت کیا ہوتی ہے ۔۔اور ہزاروں بچوں کی جان جنسی جرایم سے چھوٹ جاے گی ۔۔پارکوں میں کھیلنے کے کے پھر سے بچے اءیں گے ، شہروں میں کنسرٹ عام ہو جاءیں گے ، باقی جو protective sex کرنا چاہتے ہیں انہیں بھی آزادی ہے جو مرضی کریں بھاڑ میں جاءیں۔۔کتنے لوگ ایسے سیکس کر لیں گے میں یقین سے کہہ سکتی ہوں دس سے بیس فیصد سے زائد نہ ہوں گے۔۔جب بھی مرد اور عورت ملتے ہیں وہ ہمیشہ خاندان بنانے کا ہی سوچتے ہیں۔۔یہ انسان کی فطرت ہے بچپن میں بچے اپنے ماں باپ کی تصوریں اور بچیاں جو گڑیاں کی شادی کرواتی ہیں اسکے پیچھے یہی فطرت کار فرما ہے اگر یہ نا ہوتا تو شاید اب تک مغربی اور مشرقی معاشرے تباہ ہو چکے ہوتے۔بس ریپ اور جنسی حراساں ہر سختی رکھیں۔۔مجھے نہیں لگتا پھر کوءی مرد کسی دوسری عورت کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے میں بھی انٹرسٹ ہوگا۔۔جو adventure اور thrill ، چپا ہے eve teasing کے پیچھے ہو بھی شاہد اسی دن ختم ہو جاے۔۔پھر شاہد لوگ بڑے گھروں میں رہنے کے بجاے apartments میں رہنا زیادہ پسند کریں کیونکہ یہ چیز ہوتے ساتھ ہی بچوں کی ڈیمانڈ میں کمی اور individualism پھیلتا ہے ۔۔ہاکستان میں جو لوگ کہتے ہیں ہمارا خاندانی نظام مظبوط ہے اس لے ہماری ابادی بڑھ رہی ہے ایسا نہیں ہے پاکستان میں زیادہ تر pregnancies ،unwanted Hoti ہیں مگر جب تک یہ بات سمجھ میں آتی تب دیر ہو چکی ہوتی ہے ،یہ ایسا ہی اگر ایک انسان کے گھر میں گاڑی ساری عمر موجود ہوں مگر اسے چلانے کی اجازت اٹھارہ سلا۔کے بعد ملے جو پاکستان میں کبھی کبھار مگر مہزب ملکوں میں عموما ہوتا ہے ، تو وہ اانسان سب سے پہلے اس گاڑی کا۔اسپیڈ ٹیسٹ کرے گا۔۔ضرورت سے زیادہ اسے شوق کے لے چلاے گا اور اس پر ہر تجربہ کر کے دیکھیں گا ۔۔یہی ہوتا جب دو ایسے انسان ملتے ہیں جن کے اندر برسوں کی sexual frustration بھری ہوتی ہے جب پہلی مرتبہ ایک مرد کو عورت کے چہرا دیکھنے کے ساتھ ہی اسکا پورا جسم دیکھنے کی اجازت مل جاتی ہے اور دوسری طرف عورت جس کے لے سیکس جیسی چیزوں کے لے سوچنا بھی گناہ تھا مگر پل میں وہ چیز ثواب میں بدل جاتی ہے۔۔وہ بڑے جو پہلے اسے ایسی سوچیں رکھنے ہر ڈانٹتے تھے اب وہی اسے ایسی سوچ رکھنے اور شوہر کو خوش کرنے پر encourage کرتے ہیں ۔۔پہلا سیکس ان لوگوں کے لے ایڈوینچر ہوگا اور باقی کے trill ہوں گے ۔۔کہی لوگوں کو زندگی میں سیکس کی حیثیت سمجھتے سمجھتے عرصہ لگ جاتا ہے ۔۔اہنی زندگیوں میں شاہد وہ سیکس پر کوءی سمجھوتا کر لیں اور ایک آگ کے بعد یہ چیز معمول پر آجاے مگر جیسی وہ گھر سے باہر نکلتے ہیں پھر سے انکا سامنا ایک sex starve یا feminine company starve mob سے ہوتا ہے جو عورت کے جسم کے بارے میں اپنی الگ الگ راے رکھتا ہے اور جہاں سے حاصل کیں گی معلومات کے بعد sexual violence یا marital rape وغیرہ شروع ہوتا ہے کیونکہ ایک مرد خود پریشاں ہوتا ہے کہ اسے اب والے سیکس میں وہ پہلے والا سکون کیوں نہیں ملتا ۔۔اور اس سب عمل کو سمجھنے کے دوران بچوں کی لائنیں لگتی رہتی ہیں ، آپکو جنتا conservative حصہ ملے گا پاکستان میں اپکو وہاں بچوں کی تعداد اتنی ہی زیادہ ملے گی ۔۔جو کہ زیادہ تر صرف سیکس کو غلط سمجھنے کا نتیجہ ہوتے ہیں اور وہ برسوں کی پلتی عورت کی بھوک ہوتی ہے جیسے بھرتے بھرتے بیت وقت لگتا ہے۔۔اپکو انہیں علاقوں کے لوگ دوسری اور تیسری شادی کے حق میں اور چھوٹی بچیوں سے شادی کے حق میں بات کرتے ملے گے ۔۔پیچھے چھپی عورت کے جسم کی بھوک ہے جو برسوں سے پلاءی ہوءی ہے مگر بدقسمتی سے عورت کی محبت ان لوگوں کے دلوں میں نہیں بستی ۔۔محبت جو ایک خوبصورت جزبہ ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...