پچھلے کئی دنوں سے ندرت اپنی بیٹی عصمت کو گُم سُم اور کھویا ہوا سا محسوس کررہی تھی۔ وہ اُس سے بات کرنے کی کوشش کرتی تو بھی عصمت جواب دینے کے بجائے کسی گہری سوچ میں ڈوب جاتی۔ ندرت یہ محسوس کررہی تھی کہ کوئی بات تو ایسی ہے جو اس کی بیٹی کو اندر ہی اندر خوفزدہ کررہی ہے۔ لیکن وہ بات اُس کی زبان پر نہیں آرہی تھی۔دوسری جانب روزانہ کے معمول کے مطابق آج چھٹی کے بعد عصمت سے نہ کسی سہیلی سے رک کر دن بھر کی کہانی سنی گئی تھی نہ کسی نئی شرارت کا کوئی پروگرام بن پایا تھا۔ ادھر گیٹ پر کھڑے چوکیدار نے چھٹی کا گھنٹہ بجایا ہی تھا کہ میان میں سے نکلے تیر کی تیزی سے وہ گیٹ پار کرتی ہوئی بغیر کسی شارٹ روٹ کے بڑی سڑک سے لمبا راستہ طے کرتی ہوئی تیز تیز قدموں سے گھر کی طرف بھاگی تھی۔ اس کی عجیب سی حالت تھی اسکا دل ہر من پسند چیز سے اٹھتا چلا جا رہا تھا ۔۔نہ اب پڑھائی میں من لگ رہا تھا نہ کوئی شرارت ہی دل لبھا رہی تھی ۔۔۔ نہ اب گھر میں آ کر بہن بھائی ہم عمر کزنز سے چھیڑ چھاڑ اچھی لگتی تھی اور نہ ہی اب اس سے بات بے بات کھلکھلا کر ہنسا ہی جا رہا تھا ۔۔ ہر وقت من میں ایک انجانا سا خوف تھا اور عجیب سی وحشت سے ذھن بھرا سا رہنے لگا تھا ۔۔۔ دن یونہی گزرے اور یہ دن ہفتوں میں بدلے مگر طبیعت تھی کہ بہتر ہونے کی بجائے بگڑتی چلی جا رہی تھی ۔۔ اب تو سکول جانے کا سوچ کر واپس چھٹی کا خیال کرتے ہی انجانا سا خوف آنے لگا تھا ۔۔ کبھی پیٹ درد کا بہانہ تو کبھی ٹانگوں میں درد ۔ آخر کتنے بہانے کرتی ۔۔ایک دن آخر ندرت نے پکڑ ہی لیا اور خوب ڈانٹا تو عصمت نے روتے ہوئے بےاختیار ماں کو اپنے ذھن میں چبھی اس پھانس کے بارے میں بتانا شروع کیا۔
امی آپ کو تو پتا ہے نا کہ مجھے اسکول بہت اچھا لگتا ہے۔ جب نہیں جاتی تو دن بھر افسوس بھی رہتا ہے مگر ۔جب اسکول سے واپسی کا سوچتی ہوں تو اسکول جانے کو ہی دل نہیں چاہتا ”وہ کیوں ؟“ اب ماں بھی حیران تھی پھر سہمے سہمے لہجے میں اس نے ماں کو جواب دینا دینا شروع کیا۔
” امی وہ سکول سے واپسی پر بڑی سڑک پربہت رش ہوتا ہے ناں۔۔۔! ابو نے کہا تھا واپسی پر چھوٹی گلی لے لیا کرو، لیکن چھوٹی گلی میں جو کیکر کی جھاڑی ہے ناں ۔۔۔وہاں ۔۔ وہاں ۔۔ اور اس احساس کے آتے ہی خاموشی سے ایک بار پھر وہ اپنے جسم میں اٹھتی اس سرد سی لہر پر قابو پانے لگی تھی۔ ندرت سے رہا نہ گیا بیتابی سے بولی،”کیوں وہاں کیا ہے؟“ ماں اب سننے کو بہت بےچین تھی۔ ”امی وہاں اس جھاڑی کے پیچھے روزانہ ایک آدمی کھڑا ہوتا ہے ۔۔۔بہت ڈر لگتا ہے اس سے مجھے ۔۔۔۔جب جھاڑی کے پاس سے گزرتی ہوں تو وہ آدمی عجیب سی لمبی لمبی سانسیں لینے کی آوازیں نکالتا ہے “ اور ماں کا ساکت چہرہ اگلے ہی لمحے خوف سے بھر گیا تھا ۔۔۔
شش۔۔۔۔۔ شش ۔۔۔۔۔۔وہ اس کے لبوں پر ہاتھ رکھتی۔۔۔۔ ادھر ادھر دیکھتی ہوئی ۔۔فوراً صحن سے اسکا ہاتھ پکڑ کرگھسیٹتے ہوئے اسٹور روم میں اپنے ساتھ لے آئی ۔۔۔ ”شششس ۔۔۔ آہستہ بولو ۔۔ اور اب مجھے سب تفصیل سے بتاؤ۔“ وہ اسٹور کے دروازے کو آہستگی سے اندر سے بند کرتی ہوئی سرگوشی کے انداز میں اس کے پاس بیٹھ کر مزید پوچھنے لگیں تھیں ۔۔۔۔”کیا کہتا ہے وہ آدمی ؟ کیا کرتا ہے وہ آدمی ؟ اور کون ہے وہ ؟“ ”امی!! امی!! “اس نے بدن میں اٹھتی جھرجھری پر پھر سے قابو پاتے ہوئے کہا ۔۔۔” امی مجھے نہیں معلوم وہ کون ہے بس اتنا دیکھا ہے کہ اسکا ایک ہاتھ کھلی ہوئی شلوار میں ہل رہا ہوتا ہے، اور دوسرے ہاتھ سے شلوار کو پکڑا ہوا ہوتا ہے ۔۔۔”ماں کی آنکھیں جیسے سب کچھ سننے کو بیتاب اس پر گڑھی ہوئی تھیں ۔۔۔ اور ادھر عصمت خود بھی جیسے اب اپنے دل پر رکھے اس اجنبی سے بوجھ تلے دبی نکلنے کو پھڑ پھڑا رہی تھی ۔۔۔۔” امی مجھے اسکول میں تمام دن اور واپسی پر تمام راستے اس گلی کے جھاڑ کے پاس سے گزرنے کا سوچ سوچ کر خوف آتا رہتا ہے ۔۔“ کلاس میں ٹیچر کی کوئی بات اب سمجھ نہیں آتی ۔۔ سہیلیوں کے ساتھ اب کھیلا بھی نہیں جاتا ۔۔۔وہ آدمی میرے جھاڑ کے پاس آتے ہی مجھے عجیب عجیب اشارے کرتا ہے ۔۔۔ وہاں سے گزرتے ہوئے اسکے سانسوں کی تیز آوازوں سے میرا جسم کانپنے لگتا ہے ۔۔“
اب ماں سب سمجھ چکی تھی اس کو گلے لگا کر سمجھاتے ہوئے کہا ۔۔۔”کچھ دن تمھارے ابو سے کہوں گی کہ اسکول سے واپسی پر تمہیں خود جا کر لے آیا کریں ۔۔یا آدھے راستے تک میں خود چلی آؤں گی ۔۔ اور اگر آئندہ خود اکیلی بھی آؤ تو وہ گلی مت لینا بڑی سڑک سے آ جانا ۔۔۔ہاں مگر ٹریفک سے بہت محتاط رہنا دھیان سے سڑک پار کرنا۔۔۔۔۔۔“اور پھر آہستگی سے مزید قریب آتے ہوئے کان میں سرگوشی کے انداز سے بولیں ۔۔ ”ابھی جو کچھ مجھے بتایا ہے نا وہ اور کسی سے مت کہنا ۔۔“ یہ سب کچھ کہتے ہوئے ماں کی آنکھوں میں ایک درد سا تھا ۔۔۔ ماں کے چہرے پر اس بھرے سسرالی گھر میں رہتے رشتوں کی روایتی سوچ، خاندان کی ذہنیت اور اس سماج کا خوف نمایاںتھا ۔۔۔ عصمت کا معصوم ذہن تو آج کئی ہفتوں کے بعد ماں کو سب کچھ بتا کر ہلکا پھلکا سا پہلے جیسا محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔ ہاں مگر دوسری طرف اسکی ماں کا دل و دماغ جنس کے اس خوفناک پہاڑ تلے کچلا ہی چلا جا رہا تھا ۔۔۔
ہر طرف سے اٹھتا درد کا ایک طوفان تھا جو گویا اسے اپنی لپیٹ میں لینے کو ہی تھا ۔۔۔۔آج اسکی آٹھ سالہ معصوم بیٹی عصمت کی اس ذہنی کشمکش نے اسے ایک بار پھر اذیت کے اسی دوراہے پر لا کھڑا کیا تھا ۔۔ جسے بھلانے کی کوششوں میں وہ اب تک اپنی جوانی کی بہاریں خزاں کی مانند گزارتی چلی آئی تھی ۔۔۔۔ کچھ ہی لمحوں پہلے اپنی عمر سے کہیں بڑے اس جنس کے احساس سے نپٹی معصوم کلی عصمت اب سامنے کچھ ہی دور صحن میں ایسے ہنس کھیل رہی تھی جیسے کہ کچھ بھی تو نہ ہوا تھا ۔۔۔ مگر یہاں ماں کے روپ میں ندرت تھی کہ جس کا وجود اندر ہی اندر شاخ سے ٹوٹے خزاں رسیدہ پتوں کی مانند بکھرتا ہی چلا جا رہا تھا۔۔۔۔ ہر طرف سے اٹھتی یادوں کی آندھیاں تھیں ، جن میں قریبی و اعتمادی رشتوں کے گرداب تھے اور جنس کی بھوک ۔۔۔اور پھر وہ ہزار نہ چاہتے ہوئے بھی یادوں کے اس تند و تیز جھکڑوں کے ساتھ کسی ٹوٹی ہوئی شاخ کی مانند ڈولتی اپنے ماضی میں ڈوبتی چلی گئی ۔۔۔۔
”ابا۔۔۔ ابا ۔۔۔ابا ۔۔۔“ وہ خوشی سے چیختی ۔۔۔ اپنے کھیتوں کی پکڈ نڈیاں پھلانگتی ہوئی ابا کی طرف بھاگتی چلی آ رہی تھی ۔۔آج پانچویں کے امتحان میں ندرت اپنے گاؤں کے اس واحد اسکول میں پہلے نمبر پر آئی تھی ۔۔۔ خوشی سے اسکا چہرہ دمک رہا تھا خوشخبری سب سے پہلے ابا کو سنانا چاہتی تھی ۔۔ ندرت گھر میں سب بہن بھائیوں سے بڑی تھی ۔۔۔۔جتنا اسے پڑھنے کا شوق تھا اتنے ہی چاؤ سے ابا ، اماں بھی اسے پڑھانا چاہتے تھے ۔۔مگر ایک طرف غریبی تھی تو دوسری طرف گاؤں میں پانچویں سے آگے کوئی اسکول بھی نہ تھا ۔۔اماں اس کی مزید پڑھنے کی اس ضد کے آگے خاموش اور بےبس سی تھیں مگر ابا ہمت ہارنے والوں میں سے نہ تھے ۔۔اگلے ہی دن ندرت کو ساتھ لیا اور شہر پھوپھو کے گھر آ گئے ۔۔نجانے ابا اور پھوپھو کے درمیان کیا بات طے ہوئی تھی ہاں اسے صرف اتنا یاد ہے کہ ابا نے جاتے جاتے اسے کہا تھا ۔۔” بیٹا تم نے اب آگے پھوپھو کے گھر شہر میں رہ کر پڑھنا ہے ۔۔ میں جیسے تیسے فیس بھیج دیا کرونگا تم بس دھیان لگا کر پڑھنا اور پھوپھو کی ہر بات ماننا ۔ انھیںکبھی شکایت کا موقعہ نہ دینا ۔۔۔۔“ ابا تو اور بھی بہت کچھ سمجھا رہے تھے مگر ندرت ابا کی آنکھوں میں صاف نظر آتے اس کی تعلیم کے سہانے سپنے میں گم تھی ۔۔
شہر کے اسکول میں چھٹی جماعت میں داخلہ ہوا۔ ندرت بہت خوش تھی ۔۔گھر آ کر پھوپھو کے ساتھ خوشی خوشی کام میں ہاتھ بٹاتی مگر جونہی وہ ہوم ورک کرنے بیٹھتی تھی پھوپھو اپنے چار سال کے بیٹے اور دو سال کی بیٹی دونوں کو پاس چھوڑ کر کسی نہ کسی کام کا کہہ کر برقعہ اوڑھتے ہوئے گھر سے باہر نکل جاتیں ۔۔۔گھر واپس آتیں تو بھی کام میں الجھا کر رکھتیں۔۔۔ رات کو سوتے میں بھی بار بار کسی نہ کسی کام سے اٹھاتیں اور بچوں کے کپڑے بھی دھلانے لگیں تھیں ۔۔ ندرت کو یہ احساس ہونے میں دیر نہ لگی تھی کہ وہ یہاں پھوپھو کے پاس بھتیجی نہیں بلکہ کسی نوکرانی کی حیثیت سے رہ رہی تھی ۔۔۔۔ہاں مگر اس احساس کو بھی وہ اپنی غریبی کی ایک اور سزا سمجھ کر پی گئی تھی ۔۔۔ اور دن مہینے بنتے گئے ۔۔ پھوپھا کسی دوسرے شہر کی پولیس میں تھانیدار تھے، سن تو رکھا تھا ۔ چھٹی ہوتی تو کبھی کبھار گھر چکر لگا جاتے تھے ۔۔ اس بار بھی جب آئے تو ندرت نے انھیں پہلی بار ہی دیکھا تھا ۔۔۔ بھاگ بھاگ کر ان کے بچوں کے کام کرتی ندرت کو پھوپھا گھڑی گھڑی داد دیئے بغیر نہ رہتے تھے ۔۔اس بار شائید پھوپھا آئے بھی کچھ لمبی چھٹی پر تھے ۔۔
حسب معمول صبح پھوپھو کا ناشتے میں ہاتھ بٹاتی اور بھاگ بھاگ کر سکول کے لئے تیار ہوتی ندرت جب پھوپھا کے مانگنے پر پانی کا گلاس تھمانے گئی ۔۔۔ تو پھوپھا کے بھاری ہاتھوں نے ندرت کی نازک سی انگلیوں کو کچھ لمحوں کے لئے اپنی گرفت میں لے کر گہری سانس لیتے ہوئے چھوڑ دیا ۔۔۔ ندرت اس غیر مانوس سے احساس کو سمجھ تو نہ پائی تھی ہاں مگر وہ اس عجیب سے احسا س گھبرا ضرور گئی تھی ۔۔۔۔ اور پھر یہ انجاناسا احساس کہ ہر دم اسکا طواف کرتی پھوپھا کی نظروں سے اور بھی طاقتور ہونے لگا تھا ۔۔۔وہ بلاوجہ پھوپھا کا ندرت کو آواز دینا ، عجیب عجیب نظروں سے اسکا طواف کرتے رہنا ۔۔ہاتھوں کو چھونے کا بہانہ ڈھونڈنا۔ پیار کے بہانے سر سے کمر تک ہاتھ پھیر کر جسم میں سنسنی سی دوڑا دیتا ۔۔۔اور پھر بات یہاں تک پہنچی کہ پھوپھو کے گھر سے نکلتے ہی زبردستی ہاتھ کھینچ کر گود میں بیٹھا لینا ۔۔۔ سینے پر ہاتھ پھیر کر گہری سانسیں لیتے ہوئے ہاتھوں کو رانوں پر اوپر تک پھیرتے جانا ۔۔۔۔۔ اس دوران محلے سے کوئی دوست ملنے والا چلا آتا تو ندرت کی گویا جان میں جان آ جاتی ۔۔ پھوپھا کا موڈ فوراً بدلتا ندرت کو چائے بنانے پر لگا کر سیاست سے لے کر مذہب تک۔۔۔ محلے بھر کی بہو ، بہنوں کی بے پردگی سے لے کر نوجوان بیٹیوں کی بے راہ روی تک۔۔۔ شہر بھر کی معروف خواتین کے معاشقوں سے لے کر خود پر عاشق خواتین کی فہرست تک ۔۔ الغرض دنیا بھر کے سبھی موضو ع پھر ان کی دسترس میں ہوتے ۔۔۔۔۔۔
ندرت کا پھوپھا کو اپنے ارد گرد محسوس کر کے خوف سے ہی دل بیٹھنے لگتا تھا ۔۔کرتی بھی تو کیا کرتی ؟؟۔۔ جاتی تو آخر کہاں جاتی ۔۔؟؟ سکول میں پڑھا نہ جاتا تھا ۔۔۔ ٹیچر کی کسی بات پر اب دھیان نہ دیا جاتا تھا۔۔ واپس گھر آنے کا سوچ سوچ کر سکول میں دن بھر اسکا ایک اجنبی سے احساس کے خوف سے دم سا نکلا جاتا تھا ۔۔۔۔ گھر آتی تو خود کو کام میں الجھا کر رکھتی پھوپھا کی نظروں سے بچنے کے لئے زیادہ تر پھوپھی کے ساتھ چپکی رہتی ۔۔ گویا کہ ان غیر مانوس ہاتھوں کے احساس کے بوجھ تلے اسکا پورا وجود بری طرح مسلاجا رہا تھا ۔۔ ترازو کے ایک پلڑے میں ابا کے سپنے تھے ندرت کے خواب تھے تو دوسرے پلڑے میں اس انجانے سے خوف کی چٹان ۔۔۔ ہر پل پل ایک ڈر کے ساتھ رہتی۔ اب پھوپھی کے گھر ہر لمحہ گزارنا اسکے لئے دوبھر ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔چار و ناچار ایک دن تنگ آ کر پھوپھی سے کہہ بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔پھوپھی جب آپ گھر سے جاتی ہیں تو پھوپھا مجھے اپنے پاس بلانے لگتے ہیں ۔۔نہیں جاتی تو کھینچ کر لیجاتے ہیں ۔۔ میرے جسم پر میری ٹانگوں پر ہاتھ پھیرتے ہیں ۔۔ مجھے اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔ابھی وہ اپنے اندر اٹھتی ڈر کی لہروں سے لڑتے لڑتے اتنا ہی بول پائی تھی کہ اسکی گال پر پڑتے زناٹے دار تھپڑ سے ندرت کا نازک سا بدن لرز کر رہ گیا ۔۔اور پھر یہ تھپڑوں کی بارش رکی نہیں تھی ۔۔۔ ایک کے بعد ایک تھپڑ پڑتے چلے جا رہے تھے اور ساتھ ساتھ ۔۔۔پھوپھی کی زبان پر اسکے یہاں پناہ دینے کا سبب بھائی کی غریبی پر احسان کے طعنے تھے ۔۔ لبوں سے اسکی ماں کیلئے اگلتی نفرت اور گالیاں تھیں ۔۔ مگر ندرت تھی کہ وہاں گم صم کھڑی اپنا جرم سمجھنے کی کوشش میں ساکت سی بت بنی تھی ۔۔۔
اور پھر بات یہاں پر ٹہری نہیں تھی ۔۔پھوپھی کی ندرت کو خوب پیٹ لینے کے بعد اندر کمرے میں جا کر نجانے پھوپھا سے کیا کہا سنی ہوئی تھی کہ پھر اگلے ہی دن پھوپھی نے ندرت کا سامان باندھا اور اسی شہر میں موجود دادی دادا کے گھر جا پہنچیں تھیں ۔۔ یہ بھرا گھر جہاں ندرت کی دو غیر شادی شدہ پھوپھیاں اور تین چچا جو ابھی کنوارے تھے دادی دادا کے ساتھ رہتے تھے ۔۔۔۔ ندرت کو پھوپھی کے ساتھ آتے دیکھ کر وہاں حیران تو سبھی نظر آ رہے تھے مگر خوشی کسی کے چہرے پر نہ تھی۔۔اور یہی سوال ہمیشہ سے ندرت کو دل ہی دل میں پریشان کرتا تھا کہ آخر کیوں اس کی امی حتی کہ بہن بھائیوں کے ساتھ ددھیال کے تعلق میں بھی کبھی لہو کے رشتوں جیسی گرم جوشی نہ دکھائی دیتی تھی ۔۔ ۔۔پھوپھی کی سبھی گھر والوں کے ساتھ کچھ گھنٹوں کی کھسر پھسر کے بعد یہی نتیجہ سننے کو ملا تھا کہ ندرت اب دادی اور دادا کے گھر پر رہے گی اور اسکول دور ہو جانے کے سبب چھوڑنے اور لیجانے کی ذمہ داری چچاؤں پر ڈالی جائیگی ۔۔۔ندرت نے سکون کا سانس لیا تھا اسکے لئے تو اتنا بہت تھا کہ تعلیم نہیں چھوٹی تھی ۔۔۔ سلسلہ پھر وہیں سے شر و ع ہوا ۔۔ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا سکول جانا ۔۔ ہاں فرق اتنا تھا کہ وہاں پھوپھی ، حماد اور کرن تھے مگر یہاں تو بہت بڑا خاندان تھا جانا رشتہ داروں کا ہر وقت آنا جانا بھی لگا رہتا تھا ۔۔اور کام تھے جو کبھی ختم ہی نہ ہوتے تھے ۔۔۔ہوم ورک میں چچاؤں کی مدد بھی اکثر مل جاتی تھی ۔۔۔مذہبی گھرانہ تھا جہاں پانچ وقت کی نمازوں اور دو وقت تلاوت قرآن کے فرداً فرداً چارٹ بنتے تھے ۔۔۔۔سبھی پھوپھیاں ہفتہ وار تربیتی اجلاس کی خصوصی ممبران تھیں اور سبھی چچا اکثر رات بھر مساجد کے پہروں کی ڈیوٹی کرتے اور دن بھر لمبی تان کر سوتے نظر آتے تھے ۔۔ ہاں مگر جس رات جس نے مسجد میں ڈیوٹی دی ہو اس کو ملے ثواب کے تذکروں کے ساتھ نماز کی چھوٹ پر کوئی پکڑ نہ کرتے ہوئے خاص ر عا یت برتی جاتی تھی اور دن بھر خاطر مدارات الگ ہوتی تھی ۔۔ ورنہ ایک بھی نماز قضاء ہونے کی صورت میں نیم کی لچکدار چھڑی کے جسم پر جگہ جگہ نشان اور دن بھر ہائے ہائے کی منہ سے نکلتی کراہیں دوسروں کو عبرت دلاتیں اور اس پر دو وقت کی روٹی سے محرومی دوبارہ ایسی غلطی کا سوچنے بھی نہ دیتی تھی ۔۔ ندرت کو بھی اب ان سب کی عادت سی ہونے لگی تھی ۔۔
چھٹی کا دن تھا ناشتے میں ہاتھ بٹانے سے فارغ ہوئی تھی کہ دادی نے سبھی کمروں کی بےترتیبی دور کرنے کی ذمہ داری بھی ندرت کے نازک کندھوں پر ڈال دی ۔ جسے نبھانے کی کوشش میں لگی باری باری سبھی کے کمروں میں جاتی ادھر ادھر بکھری چیزوں کو سمیٹتی ہوئی چچاؤں کے کمرے میں گئی ۔۔ انتہاء کی بےترتیبی کے سبب اس سے چیزوں کی ترتیب کو سمجھنا بھی خاصہ مشکل ہو رہا تھا ۔۔الماریوں سے کپڑے باہر تو گندے انڈر ویرز کا بدبو دار ڈھیر بیڈ کے نیچے چھپایا گیا تھا ۔۔۔ میز کی کھلی درازیں تو الماریوں کے کھلے منہ ۔۔ کدھر سے سرا پکڑے اسی سوچ میں دادی سے مدد مانگنے بھر کو لپکی کہ میز پر پڑے کاغذات کا ڈھیر اسکا ہاتھ لگتے ہی زمین پر آ رہا ۔۔ جلدی اٹھایا واپس رکھا کہ ایک خاکی لفافے میں سے تصویروں کے نیگیٹوز اسکے ہاتھوں سے پھسلتے ہوئے زمین پر بکھر گئے ۔۔۔۔ کسکی تصویریں ہیں ایک تجسس سا تھا نیگیٹوز اٹھائے اور وہیں بیٹھ کر شوق میں دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔مگر یہ کیا اسکا رنگ فق ہوگیا تھا۔۔ ۔۔ سبھی نیگتوز میں جو چچا فاروق کا حلیہ جانا پہچانا سا تھا باقی انہی کے ہم عمر نوجوان لڑکوں کا گروہ تھا ۔۔۔۔جنکے جسم پر ایک بھی کپڑا نہ تھا ۔۔۔ہر تصویر اور نیگٹو میں ننگا پن تھا جہاں ہر نوجوان لڑکے نے دوسرے کے مردانہ عضو کو ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔۔ ۔۔۔۔۔ جن میں جگہ کا تناظر کسی مسجد کا سا محسوس ہورہاتھا ۔۔۔۔۔ اور نجانے کیاتھا آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھانے لگا جسم سرد لہروں کی تاب نہ سکا اور اس سے مزید دیکھا نہ گیا تصویریں اور سبھی نیگیٹو ز وہیں چھوڑ کر دوڑتی ہوئی واپس اپنے کمرے میں آ چھپی تھی ۔۔۔۔
اور پھر یونہی دن گزرتے جا رہے تھے کہ ایک دن یونہی موسم کی تبدیلی سے ندرت کو طبیعت کچھ سست سی محسوس ہو رہی تھی ۔۔ ابھی واپس آ کر سکول کا یو نیفارم بھی نہ اتارا تھا کہ آنکھیں نیند سے بھوجھل ہونے لگیں ۔۔ ایسے ہی ذرا سستانے کو سر تکیے پر رکھا تھا کہ نجانے کب آنکھ لگ گئی ۔۔۔ اور جب ہڑبڑا کر اٹھی تھی تو دادا کے ہاتھ میں پکڑی نیم کی چھڑی اسکے نازک بدن پر اپنے نشان چھوڑ چکی تھی ۔۔۔عصر کی نماز آج اس سے بھی قضاء ہو چکی تھی ۔۔۔ درد سے نڈھال ہونے کے باوجود مغرب کی نماز ادا کی اور پھر کسی بھیانک مجرم کی طرح سبھی کی خونخوار نظروں سے بچتی ادھر ادھر منہ چھپاتی اپنے اماں اباکو یاد کر کے رات کے کھانے کی جگہ بہتے ہوئے آنسو پینے میں لگ گئی ۔۔ بھوک سے بلبلاتے معدے سے کہیں زیادہ چھڑی کے درد سے جسم نڈھال ہو رہا تھا ۔۔خود کو گھسیٹتی ہوئی گھر کے پرانے سامان سے بھرے ایک ویران سے کمرے کے ننگے فرش پر جا لیٹی ۔۔ اور یونہی روتے روتے پھر سے اسکی آنکھ لگ گئی تھی ۔۔۔ مگر اب کہ اسکی آنکھ قیامت کے بجتے بگل کی مانند دادا کے ہاتھ میں پکڑی نیم کی چھڑی سے نہیں بلکہ جسم میں اٹھتی ایک سرد سی لہر سے کھلی تھی ۔۔۔ ایک بار پھر وہی اجنبی سا احساس اس پر غالب تھا ۔۔۔۔ چاروں طرف چھائے ہلکے ہلکے اندھیرے کے باوجود فاروق چچا کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر وہ بہت گھبرا گئی تھی مگر کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی ۔۔۔۔ حیرانگی سے چچا کو دیکھتے ہوئے فرش سے اٹھنے کی کوشش میں جسم سے نکلتی درد سے کراہ اٹھی ۔۔۔ فاروق چچا نے فوری اسکا ہاتھ پکڑ کر واپس فرش پر لٹا دیا۔۔۔۔ اور عجیب سی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے گہری سانسیں لیتے اپنے ہاتھوں سے ندرت کی کمر سے قمیض اوپر اٹھاتے اسکے جسم پر ایسے ہاتھ پھیرنے لگے کہ ندرت کے لئے پھوپھا اور چچا کے درمیان فرق محسوس کرنا نا ممکن سا ہو گیا تھا ۔۔۔۔
ندرت ۔۔۔ذرا اپنے دادا کو پانی کا گلاس دینا ندرت ۔۔کہاں جا مری او ۔۔ ندرت ۔ ۔۔ دادی کی چیختی ہوئی آواز کانوں کے پردے پھاڑ گئی ۔۔۔۔مگر اس لمحے وہ ترش آواز بھی رحمت کے کسی فرشتے سے کم نہ تھی ۔۔فاروق چچا سنبھلتے ادھر ادھر دیکھتے دروازے سے باہر کو لپکے تو ندرت بھی دادا کے کمرے کی طرف بھاگی کھڑی ہوئی ۔۔۔ آخر وہ رات ندرت کے لئے اس قدر سیاہ کیوںتھی ؟، اتنی تاریک اور اتنی اندھیری نجانے کیسے ہو گئی تھی وہ رات ۔۔۔ کہ اسکی چاروں طرف پھیلی اس سیاہی ہی سیاہی کے خوف نے ندرت کو لمحہ بھی بھی آنکھ موندھنے نہ دی تھی ۔۔۔۔۔ ۔اگلا دن چڑھا سکول کے لئے نکلی تو سیدھی ہمسائے میں رہتی ساتھ مل کر سکول جاتی سہیلی لبنیٰ کے گھر جا پہنچی ۔۔لبنیٰ اسکول کے لئے تیار ہورہی تھی اُس کے والد نے اُسے بتایا اور اُن کو جن نظروں سے دیکھا، وہ نظریں اُس کے لئے اب انجانی تو نہیں تھیں لیکن پھر بھی وہ اُن نظروں کی تاب نہ لاسکی۔لبنیٰ کے تیار ہونے کے بعد وہ اُس کے ساتھ اسکول کے لئے نکل پڑی۔ راستے میں اُس نے لبنیٰ کو اپنے پھوپھا اور چچا والے واقعات کی روداد سُناتے ہوئے اسکول کے اسکول کے مرکزی دروازے تک جاپہنچی۔ جس پر لبنیٰ نے اسکول کے وقفے میں مزید بات کرنے کا کہا۔ وہ اپنی کلاس میں بے دلی کے ساتھ شامل رہی اور اُس کا ذہن مسلسل الجھا ہوا تھا۔اسکول کے وقفے میں وہ جب لبنیٰ سے ملی تو اُس نے پھر سے اُن واقعات کا ذکر کیا جس پر لبنیٰ نے قدرے رازدارانہ انداز میں اُسے اُس کی عُمر سے بڑی باتیں بتانا شروع کیں۔اُنہی باتوں کے دوران لبنیٰ کے ایک انکشاف نے اُس کے دماغ کو حیرت اور پریشانی میں ڈال دیا کہ اُ س کے فاروق چچا کا تعلق لبنیٰ کے ساتھ ایسی ہی حرکتوں پر استوار ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ بھی کہ لبنیٰ بھی اس تعلق کے لطف لیتی ہے اور اس کے مطابق ندرت کو بھی چچا سے گھبرانا نہیں چاہئے۔۔۔
دوسری طرف فاروق چچا تو جیسے اب اور بھی شیر ہو گئے تھے ۔۔۔ کبھی نماز پڑھتی سجدے میں جاتی ندرت کے پاؤں کو آ کر دبانے لگتے ۔۔۔ تو کبھی نہا کر آتی ندرت کے گیلے بالوں میں اپنا منہ ڈال کر اسے اپنے ساتھ بھینچتے ہوئے کھینچ کھینچ کر سانسیں لیتے ۔۔۔ ندرت کو ہوم ورک کے بہانے بلاتے اور پھر اپنے کمرے میں اپنی تالا لگی الماری سے عورتوں کی ننگی تصویروں والے رسالوں پر اپنا ہاتھ پھیر تے جاتے تو دوسرے ہاتھ میں ندرت کا ہاتھ زبردستی پکڑ کر اپنی رانوں پر مسلتے جاتے ۔۔۔ندرت عجیب دوراہے پر تھی ۔۔ہر وقت الجھے ذھن کے ساتھ سکول جانا ۔۔۔گھر واپسی کے خیال سے دم نکلا جانا ۔۔ ۔۔۔دن بھر ٹیچر کی کوئی بات بھی سمجھ نہ سکنا ۔۔۔ کسی سے بات نہ کرنا ۔۔ کسی کی بات سمجھ نہ آنا ۔۔خود میں الجھے رہنا ۔۔کسی چیز میں دل نہ لگنا ۔۔ کچھ بھی اچھا نہ لگنا ۔۔۔بس اسی طرح اب ندرت کے دن گزر رہے تھے ۔۔۔ پھر وہی ہوا جو متوقعہ تھا ۔۔ یعنی سکول کے امتحان میں بری طرح فیل ۔۔ ہر طرف سے لعن طعن ہوئی ۔۔ ابو کو گاؤں سے خصوصی طور پر بلا کر سبھی نے اپنی اپنی شکایات کا پینڈورا بکس کھول دیا تھا ۔۔۔۔ بہت ڈھیٹ ہے ۔۔۔ یہ پڑھنے والی لڑکی نہیں ۔۔۔ تمہیں پہلے بھی سمجھایا تھا مت پڑھاؤ اسے ۔۔اپنی ماں کی طرح اسے بھی کسی رشتے کی عزت کا لحاظ نہیں ۔۔۔ یہ تو بالکل اپنی ماں پر گئی ہے ۔۔۔ جیسے اس چنڈال کو جسے ہم یتیم سمجھ کر ہمدردی میں بیاہ لائے تھے مگر اس کرم جلی کو تو اپنے سگے باپ کی شفقت پر بھی حوس کا شک رہتا تھا ۔۔۔۔اچھا ہی ہوا تھا جو ندرت کی نانی اسکی ماں کو جنم دے کر مرگئی تھی ورنہ جیسے وہ اپنے ماموں پر نفرت کرتی ہوئی گھٹیا کردار کے الزام دیتی تھی اگر وہ بیچاری زندہ بھی ہوتی تو جیتے جی مر ہی جاتی ۔۔۔۔۔۔وہ تو ہم ہی ہیں جو اب تک تمھاری وجہ سے خاموش ہیں ورنہ ایسی عورت ہمارے جیسے عزت دار گھرانے کی بہو کہلائے کتنی شرم کی بات ہے ۔۔۔ میری یہ بات پلے باندھ لو کہ یہ ندرت بھی کسی کی سگی نہیں ۔۔ اس سے پہلے کہ پانی سر سے اونچا ہو میں تو کہتی ہوں ۔۔اسکا ابھی سے رشتہ ڈھونڈو اور ایک دو سال میں جوان ہوتے ہی بیاہ دینا ۔۔۔۔دادی بولے چلے جا رہیں تھیں ۔۔ دادا کبھی کبھی حقارت سے ہاں میں ہاں ملا دیتے ۔۔پھوپھیاں ساتھ گردن ہلا رہی تھیں اور تینوں چچا بھی وہیں موجود تھے ۔۔۔۔ اور ابا خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے ۔۔۔
ندرت واپس ابا کے ساتھ گاؤں چلی آئی تھی اور پیچھے پیچھے آئے دن دادی کے بھیجے ہوئے عجیب و غریب سے رشتے بھی آنے لگے تھے ۔۔۔ابا بہت گم صم رہنے لگے تھے۔۔۔ شیشے کے سپنے ٹوٹے تھے اور انکی کرچیاں ندرت کو اپنےوالد کی آنکھوں میں واضح طور پر گڑی ہوئی دکھائی دیتی تھیں ۔۔ مگر اماں پر جیسے کوئی اثر نہ تھا وہ تو ہمیشہ سے ہی مٹی کا بت تھیں ۔۔ بچوں کی ہر ضرورت پوری کرتیں ۔۔ سبھی کام وقت پرنبٹا دیتیں ۔۔ ابا کی ہر ضرورت کا خیال رکھتیں ۔۔ مگر ایسے کہ ان کی اپنی کبھی کوئی ضرورت ہی نہ ہو ۔۔۔۔جیسے انکی اپنی کبھی کوئی خواہش ہی نہ رہی ہو ۔۔۔اور اب بھی وہ ایسے ہی تھیں ۔۔۔۔جیسے انھیں میرے دو سال بعد یوں ناکام ہو کر واپس گھر آ جانے پر کوئی بھی حیرانگی نہ ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ ۔ہاں اماں تو ہمیشہ سے ویسے کی ویسے ہی تھیں مگر اب کہ یہاں ندرت ویسی نہیں رہی تھی ۔۔۔۔۔ہاں اب کہ ندرت امی کے اس پتھر کی مورتی نما چلتے پھرتے وجود سے اکثر الجھتے رہنے کی بجائے سلجھنے سی لگی تھی ۔۔۔اپنی ممتا کی اس بظاہر نظر آتی پتھر کی مورت میں احساسات کی مردگی کو بخوبی سمجھنے لگی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ ہاں اب کہ ندرت بھی اماں کی اس گھمبیر خاموشی کے پیچھے چھپی ایک بےبس و لاچار عورت کو خود اپنے وجود میں بھی محسوس کرنے لگی تھی۔۔۔ جنس نامی اس دیو کے قدموں تلے روندی، مسلی، کچلی عورت کی شخصیت ، پہچان ، اور اسکی سوچ کو سسکتا ٹرپ ٹرپ کر مرتا ہوا تو اب وہ خود اپنے اندر بھی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ جس کے جنس کے پہاڑ سے اٹھتے اس بےلگام آتش فشانوں نے اس بظاہر عزت دار معاشرے کے در پردہ اخلاق و کردار میں ایسا ہیجان برپا کر رکھا ہے جس کے سامنے اب اس عورت کا باقی وجود تو کب کا نیست و نابود ہو چکا تھا ۔۔۔ہاں لیکن اب اُس نے تہیہ کرلیا تھا کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہونے دے گی اور اُس کے پھول سے ذہن کو اپنے تجربے کی بنیاد پر ہرممکن طور پر بچائے گی۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...